قسط نمبر 6

102 10 0
                                    

حادی ایک تاریک کوٹھری کے فرش پر چت پڑا اپنے دکھتے ہوئے سر  پر ہاتھ پھیر رہا تھا. وہ دل ہی دل میں اپنے مقدر کو کوسنے لگا. حادی سوچ رہا تھا کہ شاید داریان نے پہلے ہی سے خطرے کی بو سونگھ لی تھی. اس لئے وہ کھسک گیا تھا. اس  پر پھر جھلاہٹ کا دورہ پڑ گیا.وہ اپنی سوچوں میں الجھا ہوا تھا کہ دفعتاً کوٹھری کا دروازہ کھلا اور کسی نے اندر داخل ہو کر کمرے میں روشنی کر دی. اسے دو ایسے آدمی نظر آئے جنھوں نے تاریک شیشوں کے چشمے چڑھا رکھے تھے اور حادی کو محسوس ہوا کہ ان کی گھنی داڑھی مصنوعی ہے. وہ دونوں حادی کو کوٹھری سے نکال کر ایک وسیع کمرے میں لائے جہاں تقریباً بیس آدمی اکھٹا تھے لیکن ان میں ایک نقاب پوش بھی موجود تھا. وہ اٹھ کر حادی کی طرف بڑھا اور اپنا ہاتھ مصافحے کے لئے آگے بڑھایا حادی نے بھی کافی گرمجوشی کا اظہار کیا اور اسے ایک خالی کرسی پیش کی گئی. "ہم آپ کو اپنے درمیان پا کر بڑی خوشی محسوس کر رہے ہیں" نقاب پوش نے کہا
"میں بھی باغ باغ ہو رہا ہوں " حادی نے کہا
" آپ شاید خفا ہیں؟ " نقاب پوش نے کہا
" نہیں تو! خوشی کے مارے سر پیٹنے کو دل چاہ رہا ہے " حادی نے دانت پیس کر کہا
" ہم مجبور تھے اس وقت اس کے علاوہ ہمیں کوئی تدبیر نہیں سمجھ آئی ویسے ہم آپ کی قدر کرتے ہیں " نقاب پوش بولا
" عزت افزائی کی وجہ! " حادی نے ابرو اچکائی
" ہم جانتے ہیں کہ آپ بھی وہی ہیں جو ہم ہیں "
" بھلا یہ کیسے ممکن ہے " حادی نے کہا"مجھے الو بنانے کی کوشش مت کرو میں پولیس کا وہ سب انسپکٹر نہیں ہوں جسے تمہارے ساتھی نے ہوٹل کے کمرے میں بیہوش کر دیا تھا" نقاب پوش زہر خندہ سے بولا
"یہ کیا کہہ رہے ہو! " حادی بولا
" ختم کرو یہ ڈھونگ"نقاب پوش بولا "میں بزنس کرنا چاہتا ہوں"
"ضرور کیجئے بہت اچھی چیز ہے " حادی نے کہا
" آپ ہمیں بےوقوف بنانے کی کوشش نہ کریں تو بہتر ہے "نقاب پوش دانت پیس کر بولا
" لیکن آپ تو بنے بنائے ہیں "حادی نے کہا اور کمرے میں کھڑے دوسرے آدمی ہنسنے لگے لیکن نقاب پوش کی گھورتی آنکھوں نے انہیں خاموش کر دیا
" اسے دھکے دے کر یہاں سے نکال دو"وہ گرج کر اپنے ساتھی سے بولا
"دیکھتا ہوں کون دھکے دے کر نکالتا ہے "حادی بپھر گیا
ایک آدمی حادی کی طرف بڑھا. اس کے پیچھے کھڑے ہوئے دو آدمیوں نے اسے پکڑ لیا اور ایک تیسرے آدمی نے حادی کی آنکھوں پر چمڑے کا تسمہ چڑھا دیا.
" بچاؤ بچاؤ.......! " حادی نے چیخنا شروع کر دیا
" باہر پھینک دو اسے" نقاب پوش غرایا
دو آدمیوں نے حادی کو پکڑ لیا. اس کی آنکھوں پر تو چمڑے کا تسمہ چھا ہوا تھا جس کی وجہ سے آنکھیں بند ہو چکی تھیں بس اتنا اسے اچھی طرح یاد رہا کہ وہ لوگ اسے اٹھائے ہوئے دس پندرہ منٹ تک چلتے رہے تھے. پھر کسی جگہ اس کے پیر زمین پر لگے اور وہ سیدھا کھڑا ہو گیا. وہ کسی کے بولنے کا انتظار کرتا رہا مگر اسے کسی قسم کی بھی آواز سنائی نہ دی.
"میرے پیارے دوستو "حادی آہستہ سے بولا مگر جواب ندارد کسی قسم کی کوئی آواز سنائی نہ دی. حادی نے اپنی آنکھوں پر سے چمڑے کا تسمہ ہٹا دیا لیکن اس کے علاوہ وہاں اور کوئی نہیں تھا. وہ آدمی غائب ہو چکے تھے. دور تک سنسان جنگل کا سلسلہ پھیلا ہوا تھا اور رات اندھیری تھی.
حادی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کدھر جائے. اسے نہیں معلوم تھا کہ شہر کدمس سمت میں ہوگا. وہ تن بہ تقدیر ایک طرف چل پڑا. لیکن یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ آخر انہوں نے اسے چھوڑ کیوں دیا. وہ لوگ کون تھے اور اس سے کیا چاہتے تھے. حادی چلتا رہا اور سوچتا رہا. اچانک اس کے پیر ایک سخت چیز سے ٹکرائے اس نے چونک کر چاروں طرف دیکھا. اب وہ ایک پختہ سڑک پر چل رہا تھا. جس کے دونوں طرف گھنی جھاڑیاں تھیں. دفعتاً کسی طرف سے ایک آدمی اس پر ٹوٹ پڑا. حادی خود کو سنبھالتے سنبھالتے ڈھیر ہو گیا. دوسرے لمحے میں وہ دوسرا آدمی اس کے سینے پر سوار تھا.
"اب تم مجھے گرا کر سیدھے بھاگتے چلے جاؤ! "اس نے آہستہ سے کہا" تمہاری جیب میں ایک خط ہے اب اٹھو"
حادی نے اس آدمی کو دور اچھال دیا اور وہ اٹھ کر بھاگا. یکایک اس نے ایک ساتھ کئی فائروں کی آوازیں سنیں. مگر وہ دوڑتا رہا. کچھ دور اسے روشنیاں دکھائی دیں شاید شہر نزدیک تھا. شہر پہنچ کر اس نے جلدی سے خط کھولا جس میں تحریر تھا،
" سیدھے پروفیسر ٹیور کے یہاں چلے جانا وہ بے چینی سے تمھارا انتظار کر رہا ہو گا اور بس. اب تمہیں کئی دن کے لئے چھٹی ہے. آرام کرو."
تحریر داریان ہی کی تھی. حادی اس کا طرزِ تحریر اچھی طرح پہچانتا تھا. حادی نے اپنی گھڑی کی طرف دیکھا جو رات کے آٹھ بجا رہی تھی. حادی پروفیسر کے گھر پہنچا وہ واقعی اس کا بے چینی سے انتظار کر رہا تھا. حادی کو دیکھتے ہی چہکا.
"ہیلو! میں آپ کا منتظر تھا. مگر پروفیسر کہاں ہیں؟ "
" کیا پروفیسر آئے تھے؟ " حادی نے سوال کیا
" سامان لے کر آئے تھے. میں نے آپ دونوں کے کمرے ٹھیک کردیئے ہیں. کیا آپ کہیں گر پڑے تھے " پروفیسر حادی کی پشت سے مٹی جھاڑنے لگا.
"ارے وہ زرا پاؤں پھسل گیا تھا " حادی بوکھلا کر بولا
" اوہو...! چلئیے میں آپ کا کمرہ دکھا دوں اسے اپنا ہی گھر سمجھئیے اور ہاں طیبہ سے کبھی بحث نہ کیجئے گا. خیال رہے انڈے کا " پروفیسر آہستہ سے بولا
" میں نے ڈاکٹر املوک سے سنا تھا کہ انہیں انڈے سے نفرت ہے " حادی نے کہا اور وہ لوگ باتیں کرتے ہوئے اندر چلے گئے.
                 ..................................
GOOD READS ♥️
Enjoy the Episode and do comments below👇🏻
Continue.............

اندھیرے کا مسافر  (Complete)Where stories live. Discover now