قسط نمبر 4

127 10 0
                                    

شاید ٹیکسی ڈرائیور نے پولیس میں رپورٹ درج کر وا دی تھی اسی لئے ہر طرف سنسنی مچی ہوئی تھی اور رہی سہی کسر اخباروں نے حاشیہ آرائیاں کر کے پوری کر دی تھی. داریان اور حادی ریلوے اسٹیشن کے ویٹنگ روم میں بیٹھے پچھلی رات ولی واردات کی خبر پڑھ رہے تھے،
"اب کیا کریں گے آپ اگر پکڑے گئے تو خوب عزت افزائی ہو گی؟" حادی داریان کو گھورتا ہوا بولا
"کون پکڑے گا ہمیں! یہ موٹی عقل والے! " داریان کا اشارہ پولیس کی طرف تھا
" مگر مجھے تو یہاں کی پولیس سست نہیں معلوم ہوئی کیا آپ نے دیکھا نہیں تھا کس طرح مرسیناریز کلب میں حادثہ ہوتے ہی وہ ہم تک پہنچ گئے تھے " حادی بولا "ہممممم........!" 
" مگر مجھے آپ کا پچھلی رات والا طریقہ بلکل پسند نہیں آیا " حادی نے کہا
"اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ عمران پریشان کیوں ہے!"  داریان تشویش سے بولا
"مجھے تو عمران ہی مشکوک لگ رہا ہے " حادی نے کہا
" ظاہر ہے اس کا والٹ لاش کے قریب ہی پایا گیا ہے " داریان نے کہا
" فرض کریں عمران ہی ہوا تو "حادی بولا
" تو پھر ہم اسے فائزہ کی رپورٹ کے خلاف پائیں گے " داریان نے کہا
" مقتول امتیاز احمد کا بڑا بھائی تھا اور جائیداد کا مالک بھی پھر اس کے قتل کے بعد امتیاز احمد بھی مارا گیا ورنہ شبہہ اس پر جاتا........... " حادی سوچتا ہوا بولا
"یہ ایسے کسی آدمی کی حرکت ہے جسے ان دونوں کی موت سے فائدہ پہنچے "داریان بولا
" آپ سوچئے میں تو چلا پروفیسر ٹیور کے یہاں " حادی اٹھتا ہوا بولا
" چلو اٹھو.....! " داریان بولا پھر وہ دونوں ویٹنگ روم سے باہر نکلے
" لیکن ہمارا سامان تو ہوٹل میں رہ گیا ہے ! " حادی نے سوال کیا
"وہ اس وقت پولیس کے پاس ہوگا اور ہمیں اب بہترا سامان دوبارہ خریدنا ہوگا. تم ایسا کرو کہ ضروری سامان خرید کر پروفیسر ٹیور کے یہاں چلے جاؤ اس سے کہنا کہ تم پروفیسر چکور کے اسسٹنٹ ہو اگر وہ ڈاکٹر املوک کے بارے میں استفسار کرے تو کہہ دینا کہ........... جو تمہیں سمجھ آئے "داریان بولا
" وہ تو ٹھیک ہے مگر میں یہ میلاد خوانوں والی داڑھی لگا کر ہر گز نہ جاؤں گا "حادی منہ بنا کر بولا
" بغیر داڑھی کے بھی تم پہچانے نہ  جا سکو گے " داریان نے حل بتایا
" مجھے یہ میک اپ ہی پسند نہیں آیا" حادی نے کہا "ارے او کمبخت کیا تم یہاں عشق لڑانے آئے ہو؟" داریان جھنجھلا کر بولا
"خود تو ایسا آرٹسٹک میک اپ تھوپ کر بیٹھے ہیں اور میرے منہ پر یہ......... ہونہہ..........! " حادی جل کر بولا
" جہنم میں جاؤ "داریان بڑبڑاتا ہوا آگے بڑھ گیا حادی اس کے پیچھے لپکا. اس کے ہاتھ میں بریف کیس تھا. مگر اتنی دیر میں داریان اسٹیشن سے باہر نکل کر ٹیکسی میں بیٹھ کر کسی طرف جا چکا تھا. پھر حادی بریف کیس ہاتھ میں پکڑے اسٹیشن کے اندر چلا گیا. ویٹنگ روم میں پہنچ کر اس نے میدان صاف دیکھا اور جلدی جلدی اپنے میک اپ میں تبدیلی کرنے لگا چند منٹ کی محنت سے اس نے اپنے خدوخال بدل دیئے اور انھیں ایک حد تک جاذب توجہ بھی بنا لیا. اب حادی بریف کیس لٹکائے ویٹنگ روم سے باہر نکلا مگر سامنے ہی اسے پولیس کانسٹیبل دکھائی دئیے جو مسافروں کے سامان کی تلاشیاں لے رہے تھے. حادی نے چاہا کہ چپ چاپ نظریں بچا کر نکل جائے لیکن ان کانسٹیبلوں کے انچارج نے اسے دیکھ لیا
"اے مسٹر" اس نے آواز دی
حادی رک گیا وہ تیز نظروں سے حادی کو گھور رہا تھا جیسے اسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو پھر اس نے اپنی نوٹ بک نکالی اور صفحہ پر نظریں جمائے ہوئے بڑبڑانے لگا" کشادہ پیشانی........ رنگت گوری......... داڑھی مونچھیں صاف......... کالا بریف کیس "اس نے نوٹ بک بند کی اور حادی سے بولا" ہمیں تمہاری تلاش تھی "
" کیوں! کس لئے؟ " حادی کی کچھ سمجھ میں نہ آیا
" سوٹ کیس میں کیا ہے؟ " انسپکٹر نے سوال کیا
"خود دیکھ لیجیے"  حادی اپنا بریف کیس انسپکٹر کی طرف بڑھاتا ہوا بولا
اور سب انسپکٹر نے بریف کیس کھول ڈالا حادی دم سادھے کھڑا رہا. سب انسپکٹر تین چار منٹ تک سوٹ کیس کو الٹتا پلٹتا رہا پھر حادی سے بولا "مجھے افسوس ہے لیکن کیا کیا جائے شبہے میں تلاشی لینی ہی پڑتی ہے"
پھر حادی نے بریف کیس بند کیا اور ٹیکسیوں کی طرف بڑھ گیا اسے داریان پر بری طرح غصہ آرہا تھا. اب بریف کیس اس کے لئے وبالِ جان ہو رہا تھا. خیر حادی تھوڑی دیر سستانے کے لئے ایک ریسٹورنٹ کے اندر گھس گیا اس نے کافی اور سینڈوچز کا آرڈر دیا اور چیزیں  آتے ہی ٹھونسنا شروع ہو گیا اس نے سوٹ کیس ایک کونے میں رکھ دیا تھا ابھی وہ کھانے میں مگن تھا کہ ایک زور دار دھماکا ہوا اور ساتھ ہی دھواں اٹھنے لگا حادی جھپٹ کر باہر نکلا.
تھوڑی دیر بعد وہ ٹیکسی میں بیٹھا ہوا اپنے چہرے کا پسینہ خشک کر رہا تھا اس کا دل شدت سے دھڑک رہا تھا اس نے اپنی آنکھوں سے اس بریف کیس کے چیتھڑے اڑتے دیکھے تھے.اسے یقین تھا کہ داریان اس کے ساتھ اس قسم کا جان لیوا مزاق نہیں کر سکتا. پھر آخر وہ ٹائم بم کہاں سے ٹپکا تھا. حادی خیالات میں الجھا رہا اور ٹیکسی پروفیسر ٹیور کے یہاں رک گئی.
                حادی ٹیکسی سے اتر کر پروفیسر ٹیور کے گھر کی طرف بڑھا اتفاق سے طیبہ اسے صحن میں کھڑی نظر آئی حادی نے بڑے ادب سے اسے سلام کیا اور پھر اس سے بولا "کیا پروفیسر ٹیور تشریف رکھتے ہیں؟"
"جی ہاں.......... فرمائیے؟ " طیبہ نے اسے عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا
" کیا پروفیسر چکور آگئے؟ " حادی نے دوسرا سوال کیا
" جی نہیں! " طیبہ برا سا منہ بنا کر بولی." ان کا فون آیا تھا کہ ان کا سیکرٹری سامان لے کر آئے گا "
" میں ان کا سیکرٹری ہوں " حادی نے کہا
"ہوں گے" طیبہ لاپرواہی سے بولی اور جانے کے لئے مڑی
"سنئیے تو سہی........! " حادی بولا
" اب کیا ہے.......! " طیبہ نے جھنجھلا کر کہا
" مجھے پروفیسر ٹیور کے پاس لے چلئیے "
" آئیے.....! " کہتی ہوئی طیبہ آگے بڑھی اور حادی بھی اس کے پیچھے ہو لیا. طیبہ اسے اسی کمرے میں لے آئی جہاں پچھلے روز حادی نے پروفیسر ٹیور سے ملاقات کی تھی. جیسے ہی طیبہ نے پروفیسر کو بتایا کہ حادی پروفیسر چکور کا سیکرٹری ہے پروفیسر ٹیور مضطربانہ انداز میں کھڑا ہو گیا" اوہو! ڈیر سر! فوراً  کیفے per se پہنچئے. پروفسور چکور آپ کا انتظار کر رہے ہیں. پروفیسر نے مجھے آدھے گھنٹے پہلے فون کیا تھا. جلدی کرئیے مسٹر سیکرٹری " حادی الٹے پاؤں واپس ہوا طیبہ بھی اس کے ساتھ تھی گیٹ کے قریب طیبہ نے اسے روک لیا
"یہ کیا مزاق ہے؟ " طیبہ اسے گھورتی ہوئی بولی
" میں نہیں سمجھا محترمہ! "
" یہ چکور کیا بلا ہے؟"
"ٹیور کسے کہتے ہیں؟ " حادی نے الٹا اس سے سوال کیا
" وہ تو کنیت ہے " طیبہ جھٹ سے بولی
" اسی طرح چکور بھی کنیت ہے " حادی بھی بولا
" فضول! بکواس! " طیبہ نے جل کر کہا
" غصہ مت ہوں، یہ رکھئے " حادی ایک بوکس نکالتا ہوا بولا
"یہ کیا ہے؟ " طیبہ بوکس لیتی ہوئی بولی
" جرمن مرغی کے خالص دیسی انڈے، آپ کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے مفید ہیں " حادی بولا
" کیا........! "طیبہ کے ہاتھ سے بوکس چھوٹ کر زمین بوس ہو گیا"جتنی جلدی ہوسکے یہاں سے چلے جائیے ورنہ میرا غصہ بہت خراب ہے " طیبہ دانت پیس کر بولی اور حادی مودب انداز میں اسے خدا حافظ کر کے رخصت ہو گیا.
                  ...............................
GOOD READS ♥️
ENJOY THE EPISODE 😊
CONTINUE........

اندھیرے کا مسافر  (Complete)Where stories live. Discover now