٣: میٹرو.

14 2 1
                                    

"یار میوزک کی volume تو بڑھاؤ... باہر والوں کو بھی تو پتا چلے کے کل new year ہے"

اسد نے میوزک کو enjoy کرتے ہوئے کہا؛

"بھائی میرے ... اگر تم میوزک نہ بھی لگا تو بھی لوگوں کو پتا ہے کے کل کیا ہے!"

شعیب نے میوزک کو low کرتے ہوئے کہا؛

اسد ملک امریکا میں پلا بڑھا تھا، اپنی مکمل تعلیم حاصل کرنے کے بعد اب وہ اپنے والدین کے ساتھ ابو ظبی میں رہائش پزیر تھا. اس کے والد صاحب عمران ملک، زاید یونیورسٹی میں پروفیسر کے عہدے پر فائز تھے اور والدہ صاحبہ عاصمہ ملک پاکستانی community club کی خاص ممبر تھی. اسد اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا، وہ architecture تھا اور یہی پہ job کر رہا تھا، اب اسکے والدین چاہتے تھے کے ایک اچھی سی لڑکی دیکھ کر اسکی شادی کی جائے لیکن اسد ہر بار ٹال دیتا تھا کے ابھی تک اسے ایسی لڑکی نہیں ملی جیسے وہ اپنا شریک حیات بنا سکے. اسد کی شخصیت تھی ہی ایسی کے کوئی بھی لڑکی اسے انکار کر ہی نہیں پاتی اور خوشی ، خوشی راضی ہوجاتی اسد کا ساتھ پانے کے لئے. اسد کا لمبا چوڑا قد ، brown آنکھیں اور ہلکے بھورے بال اور سونے پہ سہاگا اسکے بات کرنے کا انداز جو بہت ہی دلکش تھا.

"اسد... بھائی ... ایک urgent کام اگیا ہے!"

شعیب نے گاڑی کو جبل علی میٹرو سٹیشن کے سامنے روکتے ہوئے کہا؛

"مجھے جانا پڑے گا... کیوں کی گھر سے call آئی ہے آمی لوگ اور ساتھ میں in law والوں کو کہیں لے جانا ہیں... تم میرا انتظار یہی میٹرو سٹیشن کے سامنے کر ... کیوں کی میں یوں گیا اور یوں آیا ... ٹھیک ہے میرے بھائی...!"

شعیب نے معزرت کی؛

"It's okay, after all family comes first!

Right...

تم مجھ سے یہی dialogue accept کر رہے تھے... ہے نا!!!"

اسد نے مذاک میں کہا لیکن اس سے پہلے شعیب کچھ کہتا اسد نے مداخلت کرتے ہوئے کہا؛

"تیری وہ آنے والی ہے اس لئے دوست کو یوں بیچ راہ میں kick کر رہا ہے!"

اسد نے مزاحیہ لہجے میں کہا اور اپنے دوست کو دلاسا دے کر گاڑی سے اتر گیا اور شعیب چل دیا ، اس نے آسمان کے طرف دیکھا تب ہی ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی؛

"مجھے لگتا ہے میرا اندر ہی جانا بہتر ہوگا..."

یہ سوچ کر اسد سٹیشن کے اندر چلا گیا، اندر جاتے ہی اس نے دیکھا کے ایک لمبی لائن لگی ہوئی تھی train کے لئے. اسد قریبی بینچ پر جاکے بیٹھ گیا اور اپنے موبائل فون میں mails check کرنے لگا تھا کے اچانک سے اس کی نظر ایک لڑکی پر پڑی جو لال رنگ کے جوڑے میں ملبوس تھی اور خود کو ہجوم میں چھپانے کی کوشش کر رہی تھی جب کے چہرے پی خوف اور آنکھوں میں ڈر صاف نظر آرہا تھا. جیسے ہی ہجوم ختم ہو گیا، اسد اس لڑکی کے طرف بڑھا اور بہت خیال سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پوچھا؛

اجنبیWhere stories live. Discover now