.١٢. اجنبی

7 1 0
                                    

زندگی میں ایسے کئی موقعے آتے ہے جن میں آپ نہ چاہتے ہوئے بھی ایسے فیصلہ کرتے ہے جن کے بارے میں بعد میں سوچ کر آپ خود کو الجھن میں پاتے ہے کیوں کی یہ وہ پل ہوتا ہے جب آپ ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہوتے ہو جہاں سے آپ نے صحیح فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور اس وقت آپ کے دل و دماغ کے بیچ ایک جنگ سی ہورہی ہوتھی ہے پر جیت ہمیشہ کی طرح دماغ کی ہوتی ہے وہ غالب ہوتا ہے، وقتی طور پر تو ہم مطمئن ہو جاتے ہیں، لیکن پھر نجانے کیوں کہیں نہ کہیں دل میں ایک کسک سی رہ جاتی ہے اور اپنے اس فیصلے میں ندامت ہونے لگتھی ہے اور ساری عمر اسی پشیمانی میں گزار دیتے ہیں کے اگر اس وقت فیصلہ دل سے کیا ہوتا تو آج منظر کچھ اور ہوتا.

اس وقت امبر بھی ایک عجیب الجھن سے گزر رہی تھی کیوں کے وہ ان لوگوں میں سے تھی جو اپنے فیصلے صرف دماغ سے لیتے ہیں اور آج بھی اس نے وہی کیا جو وہ ہر وقت کرتی ہے دماغ سے کام لیا اور دل کی اوٹ پٹانگ مشوروں کو ان سنا کردیا. پر نہ جانے کیوں آج وہ اپنے اس فیصلے سے پشیمان تھی کیوں کی جب سے وہ واپس آئی ہے اس کے سوچوں پہ کسی کی باتیں گردش کر رہی تھی؛

"اگر میں کہوں کے آج مجھے ایک اجنبی لڑکی سے محبت ہو چکی ہے اور میں جانتا ہوں کے اب وہ پھر سے مجھے نہیں ملی گی جب کے یہ وہی ہے جس کا مجھے کب سے انتظار تھا..."

امبر بستر پہ کروٹیں بدل بدل کے تھک چکی تھی اور اسے کئی گھنٹے ہو چکے تھے پر ابھی تک اسے نیند نہیں آرہی تھی اور اس پر اس اجنبی لڑکے کی باتیں اس کے کانوں میں سرگوشی کر رہی تھی؛

"کیوں اس شخص کا خیال نہیں جا رہا میرے دل و دماغ سے... اف میرے خدا...!!!"

وہ بستر سے اٹھ کر بیٹھ گئی؛

"اس کے کہی ہوئی باتیں کیوں مجھے یوں بچیں کر رہی ہیں...،

کیوں یہ ایک عجیب سی کیفیت سے گزر رہا ہے؟... کیوں ابھی بھی اس کی آواز میرے کانوں میں سرگوشی کر رہی ہے؟ ... کیوں؟"

خودسے سوال کرتے کرتے وہ رک گئی؛

کہیں مجھے اس لڑکے سے...

یہ سوچ کر امبر نے اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا جب کے اس کی آنکھیں بھر آئی؛

"آخر آج وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا...، بنا سوچے سمجھے میرا دل اس شخص کا غلام بن بیٹھا، اتنے سالوں میں خود کو ایک وعدے کی وجہ سے آزاد رکھ سکی پر آج اس دل کو اس وعدے کی لاج تک نہ آئی...،

کیوں آج ہی ہونا تھا یہ سب... کیوں ملے مجھے تم... کیوں یوں ہی پرواہ کرنے لگے میری خوشی کی... کیوں...؟؟؟"

وہ تکیہ میں اپنا چہرہ چھپا کر رونے لگی کیوں کی اب وہ سمجھ گئی اپنے دل کی بیچینی کی وجہ اور وہ یہ بات کسی سے کہ بھی نہیں سکتی تھی. آج وہ اپنے اصولوں پہ چل کر بھی خود کو ہارا ہوا پا رہی تھی؛

"اب میں کیا کروں... میرے خدا...،

وہ اجنبی تو اپنی بات کہ کر چلا گیا لیکن اس دل کو عجیب سے کشمکش میں مبتلا کرکے..."

وہ سرگوشی میں بولی.

اس کے نظروں کے سامنے ابھی بھی اس اجنبی کی وہ اداس آنکھیں تھی جو اس سے اپنے جواب کی منتظر تھی پر امبر نے اسے نظر انداز کر دیا، وہ اس کے روکنے پر بھی نہیں رکی. امبر اس کے التجا بھری آواز بھول کو نہیں پا رہی تھی ، وہ جتنا بھی کوشش کرتی اس شخص کی باتیں اور اسے یاد آتی. اس کا اچانک سے دم گھوٹنے لگا، وہ فوراً اٹھ گئی اور جاکر کھڑکی کو کھل دیا اور اس کے پاس جاکے بیٹھ گئی اور باہر ہورہی بارش کو خاموشی سے دیکھنے لگی تب ہی اسے ایک نظم یاد آگئی جسے اس وقت وہ پھڑ کر ہنس پڑی تھی پر آج اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ نظم اس پر لکھی گئی ہو، وہ خود کو اس نظم کو یاد کرنے سے نہ روک سکی؛

ایک رات ہوئی ملاقات،

تھی کچھ لمحوں کی بات اس اجنبی کے ساتھ،

نہ تھی مجھے خبر،

نہ تھی اسے کوئی فکر!

ایک بات ہوئی خاص،

وہ انجانے میں دے گیا ایک احساس،

جس کی نہ تھی مجھے آس،

وہ اجنبی...   

اجنبیWhere stories live. Discover now