Episode #1

11.3K 248 51
                                    

اس نے امید بھری نگاہوں سے اپنے سامنے کھڑی اونچی بلڈنگ کی طرف دیکھا تھا۔آج وہ کئی جگہ انٹرویو کے لیے جا چکی تھی۔ مگر کہیں سے بھی جاب کی اسے امید نہیں تھی۔وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی آگے کی جانب بڑھ رہی تھی۔ گرمی کی شدت کی وجہ سے اس کے چہرے پر پسینے کے قطرے نمودار ہو چکے تھے۔ اس بلڈنگ کے اندر داخل ہوتے ساتھ اس نے سکون کا سانس لیا تھا کیونکہ اندر اے سی کی وجہ سے کافی ٹھنڈک تھی۔جو باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو پر سکون کر دیتی تھی۔وہ بھی چلتے چلتے سامنے کی جانب بنے ہوئے ریسیپشن پر آ کر رکی تھی۔ وہاں پے موجود لیڈی ورکر نے اس کی جانب ایک مسکراہٹ اچھالی تھی۔ جسے اس نے بھی جواباً مسکرا کے قبول کیا تھا۔
"اسلام علیکم " لیڈی ورکر نے سلام کرنے میں پہل کی تھی۔
"وعلیکم سلام۔ دراصل میں انٹرویو کے لیے آئی ہوں ۔ اخبار میں جاب کا اشتہار دیکھا تھا۔"
اس نے بغیر کسی تمہید کے اپنا مدعا بیان کیا تھا۔
"جی ٹھیک ہے آپ وہاں ویٹنگ ایریا میں تشریف رکھیں ۔ تھوڑی دیر میں آپ کو بلا لیا جائے گا"
وہ ورکر انتہائی شائستگی سے بولی تھی۔
"او کے تھینک یو" وہ اتنا کہہ کر سامنے رکھے صوفہ پر بیٹھ گئی تھی۔ اور اپنے بلائے جانے کا انتطار کرنے لگی۔ وہاں بیٹھے ہوئے اسے کچھ دیر پہلے ہوا واقعہ یاد آ رہا تھا جس سے وہ بار بار دھیان ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی۔
کچھ دیر پہلے وہ ایک اور دفتر میں جاب کا انٹرویو دینے کے لیے گئی تھی۔لیکن وہاں کے باس نے انٹرویو کے دوران اس کے ساتھ بدتمیزی کی تھی اور وہ جاب کا اشتہار اس گٹھیا شخص کے منہ پر پھینک کر آ گئی تھی۔ وہ ایسی ہی تھی۔ اپنی سیلف ریسپیکٹ کو ہمیشہ سب سے آگے رکھنے والی۔
وہ اپنے ہی خیالوں میں مگن تھی جب اس کا نام پکارا گیا تھا۔ اس نے ہر بڑا کر ادھر ادھر دیکھا۔ سامنے کھڑی لیڈی ورکر اسے اندر آفس میں جانے کا اشارہ کر رہی تھی۔ اس نے اپنی فائلز اٹھائیں اور اندر کی جانب بڑھ گئی۔ اندر داخل ہوتے ہی اسے تیز عطر کی خوشبو آئی تھی. نا شعوری طور پر اس نے اپنے ناک پہ ہاتھ رکھ لیا تھا۔ سامنے بیٹھے ادھیر عمر شخص نے تعجب سے اسے دیکھا تھا۔
"مس خیریت؟؟"
انہوں نے ناک پہ ہاتھ رکھے اس لڑکی سے استفسار کیا تھا۔
"جی جی سر۔ اسلام علیکم"
وہ اپنی گبھراہٹ پر قابو پاتے ہوئے بولی تھی۔
"وعلیکم سلام بیٹا بیٹھو"
اس نے ان کے اس طرح بیٹا کہنے پر حیرت سے دیکھا تھا۔ جس پر وہ مسکرائے تھے۔ اور بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا۔
"جی تو مس عنایہ احمد نام ہے آپ کا"
"جی سر۔ اور یہ رہیں میری فائلز"
اس نے اپنی فائلز ان کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔
"فائلز تو آپ کی بعد میں دیکھ لوں گا. ابھی آپ اپنے بارے میں بتائیے۔"
"میرے بارے میں آپ کیا جاننا چاہتے ہیں؟ "
"یہی کی اتنی چھوٹی سی عمر میں آپ کو جاب کی ضرورت کیوں پر گئی ۔"
"بس سر زندگی کی تلخیاں بہت کچھ سیکھا دیتی ہیں ۔۔ اور ہمیں ایسے کام بھی کرنے پر جاتے ہیں جن کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا "
وو تلخی سے ہنسی تھی۔
"یہ تو بہت گہری بات کر دی آپ نے" انہوں نے غور  سے عنایہ کا چہرہ دیکھا تھا۔
وو جواباً خاموش رہی تھی۔
"ٹھیک ہے میں نے آپ کی فائلز چیک کر لیں ہیں آپ کل سے جوائن کر سکتی ہیں "
وہ لبوں پہ ہلکی مسکراہٹ لئے بولے تھے ۔
وہ چہرے پر حیرت سموئے انہیں تک رہی تھی۔
"تھنک یو سو مچ سر میں آپ کی بہت بہت شکرگزار ہوں۔" 
وہ اگلے ہی لمحے بولی تھی
"بائے دی وے مائے نام از ریاض احمد"
"آپ سے مل کر بہت اچھا لگا سر "
"مجھے بھی۔ آپ کل آجائیے گا۔ اور ہاں  مجھے دیر  سے آنے والے لوگ پسند  نہیں "
"اوکے سر "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ابھی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھیں جب گھر کا دروازہ  زور زور سے بجایا جانے لگا۔ وہ اس وقت ایک ہی شخص  کی آمد  کی توقعہ کر رہی تھیں۔  وہ اٹھیں  اور دروازے کی جانب بڑھ گئیں۔ دروازہ کھولتے ساتھ عنایہ انکے گلے لگی تھی۔ 
"نانی ماں بہت بہت مبارک ہو آپ کو مجھے بلآخر جاب مل ہی گئی ۔ لیں اپنا منہ میٹھا کریں "
"ارے ارے لڑکی صبر کرو۔ بھول گئی ہو کیا کے  میں شوگر  کی مریضہ ہوں "
"اوہ نانی ماں معاف کرنا میں  اپنی خوشی میں سچ میں یہ تو بھول ہی گئی تھی ۔ چلیں خیر اتنے سے کچھ نہیں ہو جاتا "
اس نے زبردستی انکے منہ میں گلاب جامن  کا چھوٹا سا ٹکڑا ڈال  دیا تھا
"تم نہیں سنو گی کبھی کسی کی "
"میں اپنی نہیں سنتی تو کسی دوسرے کی کیا سنوں گی"
عنایہ نے انہیں زور سے گلے لگایا تھا
"اللہ‎ تمہیں ڈھیر سری خوشیاں اور کامیابیاں  دے"
"آمین چلیں میں کھانا لے آئی ہوں۔ آپ بیٹھیں میں لے کر آتی ہوں "
"اچھا چلو۔۔"
وہ دل میں اپنی پیاری نواسی کے لئے ڈھیر ساری دعائیں  کرتی لاؤنج  کی جانب بڑھ گئیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"نانی ماں جلدی کریں میں لیٹ  ہو رہی ہوں "
وہ اونچی اونچی بولنے کے ساتھ ساتھ اپنی گھڑی  پر بھی نظر دوڑاتی جا رہی تھی۔ آج وہ  کسی بھی حال میں لیٹ نہیں ہونا چاہتی تھی
"لا رہی ہوں بیٹا "
وہ  کچن سے ہی بولی تھیں۔
"یہ لو تمہارا بریڈ  اور آملیٹ "
"اوہ تھینک یو نانی ماں آپ بہت سویٹ ہیں "
"چلو اب جلدی کرو نہیں تو لیٹ ہو جاؤ  گی "
"جی بس ہو گیا " اس نے ایک پیس کھا کر اپنا بیگ اٹھا لیا تھا ۔۔
"سارا ختم کر کے جاؤ " جمیلہ بیگم غصّے سے بولیں تھیں ۔
"بس نہ کر لیا " عنایا نے روتی  صورت بنا کر کہا تھا  جب کے جمیلہ بیگم کی گھورتی نظروں میں کوئی فرق نہیں آیا تھا اس لئے اسے مجبور  ہو کر ایک اور پیس لینا پڑا تھا ۔
"اوکے نانی ماں اب ہنس دیں ۔ اللہ‎ حافظ ۔"
اپنے حکم کی تکمیل ہو جانے پی وہ مسکرائیں تھیں اور اس کے سر پے ڈھیر ساری دعائیں  پھونک کر اطمینان  سے اپنا ناشتہ کرنے لگی تھیں ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"السلام عليكم  سر "
اس نے ریاض احمد  کے کمرے میں داخل ہوتے ہی سلام کیا تھا۔ کل کے بر عکس دو اور لوگ بھی وہاں موجود تھے۔
"وعلیکم سلام ۔ آئی ایم امپریسڈ ۔آپ پورے ٹائم پے آئی ہیں " انھوں نے مسکرا کر اس کو دیکھا تھا جواب  میں اس نے بھی ہلکی سی مسکراہٹ ہونٹوں پے سجا لی تھی۔
"مس عنایہ احمد ان سے ملیں۔  یہ ہیں ہماری کمپنی  کے  مینیجر سید احسن اقبال اور یہ ہیں مارکیٹنگ سپروائزر  عقیل قریشی ۔"
ریاض احمد نے وہاں پر موجود دو شخصیات  کا تعارف  کرواتے ہے کہا تھا۔
اس نے دونوں کو سلام کیا تھا۔
"آپ ان کے ساتھ جائیں۔  یہ آپ کو آپ کا روم دکھا دیں گیں اور کام بھی سمجھا دیں گیں۔ "
اس نے ان دونوں سے ساری معلومات لے لیں تھیں اور اپنا کام اچھے سے سمجھ لیا تھا۔۔
اور اب اسے یہاں اپنی قابلیت کے ثابت  کر کے رہناتھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ریاض احمد کو فائلز دے کر آ رہی تھی جب کسی نے اسے اسکے نام سے پکارا تھا۔ وہ اپنا نام سن کر تعجب  سے پیچھے مڑی تھی۔
"عنایہ!!!! " زرشالہ بھاگ کر اسکے گلے لگی تھی۔
"کیسی ہو ؟ یہاں کب آئی ؟ مجھے بھی نہیں بتایا " اسکی بچپن کی سب سے بہترین دوست اسکے سامنے تھی ۔۔ جسے دیکھ کر اسکو خوشگوار حیرت کا احساس ہوا تھا۔
"لڑکی سانس بھی لے لو۔ میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ کیسی ہو؟ اور بس جاب  ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہاں آ گئی "
اس نے ہنس کر کہا تھا۔
"اوہ تو یہ بات ہے ۔ چلو اب ہم ساتھ ہی ہوا کریں گیں "
"ہاں تمھیں یہاں دیکھ کر تھوڑا اطمینان  ہوا ہے۔  نہیں تو بلکل اجنبی اجنبی  لگ رہا تھا "
وو گھبرائی ہوئی بولی تھی ۔
"اچھا چلو کوئی نہیں۔ چلو تمھیں باقی اسٹاف سے ملواؤں "
زرشالہ نے اسے سب سے ملوادیا تھا۔  سب بہت اچھے تھے اور اسکے ساتھ بہت پیار سے ملے  تھے۔ وہ اپنے اسٹاف میں سب سے جونیئر  تھی سب نے کام میں اسکی بہت مدد  کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اب اپنی روٹین کی عادی  ہو گئی تھی۔  آفس میں سب سے جونیئر ہونے ک باوجود وہ سب سے بہترین کام کر رہی تھی۔ قابل تو وہ بچپن سے ہی بہت تھی۔ بس اپنے ہنر کو ثابت  کر کے دکھانا تھا۔
"مجھے تو یہاں کا ماحول اور اسٹاف سب ہی بہت اچھے لگے ہیں۔۔"
وہ کافی کا مگ اپنے لبوں سے لگاتے ہوئے  کہہ  رہی تھی۔
"بیٹا ابھی تم اس سڑیل سے نہیں ملی نہ اس وجہ سے کہہ رہی ہو "
زرشالہ نے گندا سا منہ بنا کر کہا تھا۔
"کونسا سڑیل  مجھے بھی تو بتاؤ "
وہ سیدھی ہو کر بیٹھی تھی۔
"بس ایک بار   مل لیا تو دوبارہ ایسی کوئی خواہش نہیں کروگی "
"دیکھ لوں گی ایسا بھی کون ہے "
اس نے لا پڑواہی سے کہا تھا۔۔
"اچھا چلو سر کو فائلز دینی تھیں۔ "
"ہاں چلو اور آج میں  نانی ماں کو کہہ کر آئی تھی کے جلدی آ جاؤں گی۔ "
"تو سر سے لیو لے جاؤاور نانی ماں ساتھ ٹائم سپینڈ کرو"
"ہاں چلو "
یہ کہتے ہوئے وہ دونوں ریاض احمد کے روم کی طرف بڑھ گئیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حالِ دل کہوں کیسے (COMPLETED)Where stories live. Discover now