Episode#29

2.1K 129 26
                                    

"کیسی ہو اب؟"
زرشی نے عنایہ کے گھر آتے ہی اس سے پوچھا تھا۔
"ٹھیک ہوں میں تم کیسی ہو؟"
عنایہ خوشدلی سے اس سے گلے ملتے ہوئے بولی تھی۔
"عنایہ سچ بتاؤ تم ٹھیک ہو نا؟"
وہ اس کی طرف جانچتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولی تھی۔
"ہاں ہاں کیوں نہیں لگ رہی؟"
وہ نظریں چڑاتے ہوئے بولی تھی۔
"نہیں لگ رہی سچ بتاؤ عنایہ پلیز مجھ سے مت چھپاؤ۔ ایک ہی دن میں اتنی کمزور لگنے لگ گئی ہو"
وہ اس کے لیے فکرمند ہوتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
"مجھے کیا ہونا ہے زرشی بس اپنی توقعات کی وجہ سے تکلیف میں ہوں اور اچھی خاصی تکلیف میں ہوں پر تمہیں پتا ہے میرے دل میں اب اس سے کوئی شکوہ کوئی گلہ نہیں ہے۔۔کیوں کے میں جانتی ہوں کے اذیت دینے والا وہ نہیں ہے اذیت میں نے خود کو دی ہے مجھے کس نے کہا تھا اس سے اتنی اونچی توقعات رکھنے کو"
وہ آنکھ کا نم کنارہ صاف کرتے ہوئے بولی تھی اس کی یہ حرکت زرشالا سے پوشیدہ نا تھی۔
"عنایہ تم ابھی بھی اسی کے بارے میں سوچ رہی ہو"
زرشالا اسے بےبسی سے دیکھتے ہوئے بولی تھی۔
"میں خود نہیں سوچتی زرشی۔۔ بلکہ یہ سوچیں خودی مجھے گھیرے رکھتی ہیں"
وہ نم آنکھوں سے دھیرے سے مسکرائی تھی۔
"کیا تم خود کو اکیلا محسوس کر رہی ہو؟"
زرشالا نے پوچھا تھا۔
"نہیں میں کبھی یہ نہیں سوچتی جانتی ہو کیوں؟"
عنایہ نے اس کی جانب دیکھا تھا زرشالا بھی ہمہ تن گوش ہو کر اسے ہی سن رہی تھی۔
"کیوں کے یہ انسان آپ کا ساتھ کبھی بھی ہمیشہ کے لیے نہیں دیتے دائمی ساتھ تو صرف اللہ‎ کا ہے وہ بندے کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ چھوڑتے تو ہم ہیں غموں میں اس سے شکوے کیے بیٹھے ہوتے ہیں اور خوشی کے موقع پر اسی رب کو بھول جاتے ہیں کتنے عجیب ہیں نا ہم۔۔ نا شکرے سے۔۔ مجھے پتا ہے اللہ کبھی اپنے بندوں کو تنہا نہیں چھوڑے گا اور اسی بات پر یقین کر کے مجھے ڈھارس ملتی ہے۔۔ کے اللہ تو ہے نا میرے ساتھ یہ دنیاوی لوگ چاہے مجھے تنہا کر دیں"
وہ بڑے پیار سے اسے اپنے خیالات بتاتی جا رہی تھی۔
"بلکل"
زرشالا نے تائید میں سر ہلایا تھا۔
"عنایہ ایک بات پوچھوں؟"
تھوڑی دیر بعد زرشالا نے اچانک سنجیدگی سے پوچھا تھا۔
"ہاں ضرور"
وہ اٹھ کر کچن میں آئی تھی زرشالا بھی اس کے ساتھ ہی آئی تھی۔
"تم زیان سے۔۔؟"
"کیا؟"
فرج کا دروازہ کھولتا اس کا ہاتھ وہیں تھما تھا وہ رک کر شش و پنج میں مبتلا زرشالا کو دیکھنے لگی تھی۔۔
"تم اس سے محبت کرتی ہو نا؟"
زرشالا نے پوچھنے کی ہمت کر ہی لی تھی۔
عنایہ کچھ دیر تک خاموشی سے اس کی صورت تکتی رہی تھی پھر بڑے عجیب لہجے میں گویا ہوئی۔
"تم تو کہتی تھی کے تم مجھے بچپن سے جانتی ہو۔۔ ہم بہترین دوست ہیں۔۔۔ ایک دوسرے کی رگ رگ سے واقف ہیں۔۔ تو آج تک تم یہ نہیں جان پائی؟"
زرشالا کو اس کی بات نے الجھا دیا تھا۔
"عنایہ پلیز مجھے سچ سچ بتاؤ کیا تم اس سے محبت کرتی ہو؟"
وہ اب کی بار ذرا سنجیدگی سے پوچھ رہی تھی۔
"اس سے کیا فرق پڑتا ہے زرشالا تم کیوں ایسے بیہودہ سوال پوچھ رہی ہو؟"
اس کی آواز ایک دم رندھ گئی تھی۔
"عنایہ کیا ہو گیا ہے میں تو بس ایسے ہی پوچھ رہی تھی"
اس کی آنکھوں میں تیزی سے تیرتا پانی دیکھ کر وہ گھبرا گئی تھی۔
"زرشی پلیز میں نے بہت مشکل سے خود پر قابو کیا ہے اپنے جذبات پر بندھ بندھا ہے تم پلیز مت چھیڑو ان دھاگو کو جن سے میں نے اپنے دل کے ٹکرے سی ڈالے ہیں پلیز تم سبھی رحم کرو مجھ پر۔"
وہ روتے ہوئے بولی تھی۔ اس کا ضبط پھر ٹوٹ گیا تھا۔
"عنایہ میری جان سمبھالو خود کو کیا ہو گیا ہے تم کبھی اتنی کمزور تو نہیں تھی"
زرشالا نے اسے گلے لگایا تھا وہ روتی ہوئی ایک معصوم بچی لگ رہی تھی۔ جسے بہت زور کی کوئی چوٹ لگ گئی ہو۔۔
"زرشالا میں آج تک یہی سمجھتی رہی کے محبت اور نفرت جیسے جذبات کا اظہار تو اپنے عملوں سے کروایا جاتا ہے کبھی کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ خصوصاً محبت کو۔۔ محبت تو عملوں سے بیان ہوتی ہے نا۔۔ ضروری تو نہیں کے اس کا بھی اظہار کیا جاۓ۔۔ پر اب میں سمجھ گئی ہوں اور بہت اچھے سے سمجھ گئی ہوں کے آج کے دور ناگوار میں اظہار کرنا محبت کی شرط ہے۔۔ جب تک آپ اظہار نہیں کرتے تب تک سب آپ کی محبت کے بارے میں لاعلم ہی رہیں گیں۔۔یہاں حالِ دل کہنا لازم ہے پر میں اپنا حالِ دل کہوں کیسے؟؟"
عنایہ سرخ آنکھیں زرشالا کے مکھڑے پر جماتے ہوئے بولی تھی۔
"عنایہ تم اتنی گہری محبت کرتی ہو اس سے"
زرشالا اس کی باتیں سن کر حیران ہوتی جا رہی تھی۔
"ہاں شاید لو آج سن لیا نا تم نے۔۔ پتا ہے میں نے کبھی خود سے بھی اس بات کا اعتراف نہیں کیا تھا۔۔ مگر میں اس جذبے سے لاعلم نہیں تھی میں نے اعتراف نہیں کیا تھا مگر میں نے اس خوبصورت جذبے کو جھٹلایا بھی نہیں تھا۔
یہ جذبہ ایک دوست کی حیثیت سے ہر گز نہیں تھا ایسے تو سفیان بھی دوست ہے نا میرا اسے تو ہمیشہ بھائی ہی سمجھتی رہی ہوں مگر نجانے کیوں زیان کے لیے بھائی والے جذبات میرے دل میں پیدا ہی نہیں ہوئے۔۔ کیوں کے میں جانتی ہوں یہ محبت کا اجالا ہے جو آپ کے تاریک دل کو روشنیوں سے بھر دیتا ہے۔۔ پر میں کبھی زیان سے اپنا حالِ دل نہیں کہہ سکی۔ اس دنیا میں اب اظہار کرنا شرط ہے زرشی۔۔ یہاں میرے جیسے لوگ بہت کم ہیں جو یہ سوچتے ہیں کے محبت کا اظہار اپنے عملوں سے کیا جاتا ہے۔ یہاں تو اظہار و اعتراف محبت کی لازمی شرط ہے۔۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کے میں اپنا حالِ دل اس سے کہوں کیسے۔۔"
عنایہ اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں پیوست کرتے ہوئے بولی تھی۔
"عنایہ جہاں آپ کی محبت محسوس نا کی جاۓ وہاں اظہار کر دینا چاہیے۔۔ کیوں کے جو شخص آج تک تمھاری محبت نہیں سمجھ سکا وہ آگے کیا خاک سمجھے گا"
زرشالا اس کے کندھے پر دباؤ ڈالتے ہوئے بولی تھی۔
"پر تمہیں پتا ہے مجھے اپنی انا بہت پیاری ہے شاید محبت سے بھی زیادہ پیاری۔۔ یہ انا تو شاید ہم میں خاندانی ہے۔۔ میں جانتی ہوں تم یہی سوچ رہی ہو گئی کے محبت میں انا تو ہوتی ہی نہیں محبت میں "میں" تو ہوتا ہی نہیں محبت میں تو بس "یار" رہ جاتا ہے۔۔ پر جب آپ کی محبت ہی آپ کے جذبات مجروع کر دے اور آپ کے احساسات کو کچلتے ہوئے نکل جاۓ نا تو بہت اذیت ہوتی ہے۔۔ اتنی کے سننے والا بس سن سکتا ہے کبھی سمجھ نہیں سکتا۔۔اس نے بھی میرے مان کو میرے یقین کو میرے بھرم کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ میں اتنی اعلیٰ ظرف نہیں ہوں زرشی کے اپنی انا کو بھولا کر اس کی بے رحمی سے کیے گئے سب طنز اور تلخ کلمات اتنی آسانی سے بھولا دوں۔۔ اور تو اور اسے بھی تو احساس نہیں ہے نا۔۔ جب اسے فرق نہیں پڑتا تو میں کیوں اسے بتاؤں کے مجھے بہت فرق پڑ رہا ہے۔"
وہ بےبسی سے زرشالا کو اپنا حالِ دل سناتی جا رہی تھی۔
"عنایہ جب آپ کے عملوں سے آپ کی محبت محسوس نا کی جاۓ تو حالِ دل کہہ دینا چاہیے"
وہ اسے حوصلہ دیتے ہوئے بولی تھی۔
"نہیں جب اسے اپنی غلطی پر کوئی ندامت نہیں تو میں کیوں خود کو ہمدردی کی تصویر بنا کر اس کے سامنے رکھ دوں بس اب مجھے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا وہ چاہے تو کر گزرے سیمل سے شادی مجھے رتی بھر پرواہ نہیں اور ہاں مجھے اب مزید اس موضوع پر بات نہیں کرنی۔"
عنایہ کہتی ہوئی باہر نکل گئی تھی جب کے زرشالا بس اسے جاتا ہوا دیکھ رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"سیمل یہ کیا تماشا لگا کر آئی ہو تم ابھی باہر ہاں؟؟ ریاض انکل اور زیان کو منہ تک دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا تم نے مجھے"
وہ غصے سے بھڑکی تھیں۔
"ماما میں نے آپ سے کہا نا میں زیان سے محبت کرتی ہوں"
وہ چیختے ہوئے بولی تھی مزید جھوٹ بولنا اس کے لیے بہت مشکل ہو رہا تھا۔۔
"مجھ سے بکواس نا کرو تم سمجھی اس عمل کے پیچھے کیا وجہ ہے بتاؤ مجھے بلکل سچ۔۔ میں نے زیان کی تربیت اس لیے نہیں کی کے وہ اس مقام پر آ کر یوں میری محبتوں کا صلہ دے۔۔ بیٹا سمجھا ہے میں نے اسے۔۔ اب بتاؤ کیا ماجرا ہے یہ"
مریم غصے سے بولیں تھیں۔
"ماما کہا نا میں نے آپ کو"
وہ بدتمیزی سے بولی تھی۔جس پر مریم کا ضبط جواب دے گیا تھا اور ان کا ہاتھ اٹھا تھا اور سیمل کے گال پر سرخ نشان چھوڑتا چلا گیا تھا۔
"ماما"
اس نے بے یقینی سے اپنی ماں کو دیکھا تھا جس نے کبھی اس کو ہلکی سی بھی خروچ تک نہیں آنے دی تھی اور آج زندگی میں پہلی دفع اس پر ہاتھ اٹھایا تھا۔
"اگر تم نے مجھے مجبور نا کیا ہوتا تو کبھی بھی میں ایسا نا کرتی۔۔ ابھی بھی وقت ہے میری جان میرے بچے مجھے ہی بتا دو آخر کس چیز نے تمہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا ہے۔۔ کیا مسلہ ہے؟ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا۔۔ میں سمبھال لوں گی۔۔"
وہ اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔
"ماما وہ۔۔۔"
اس نے ہچکیاں لیتے ہوئے ساری کی ساری بات اپنی ماں کے گوش گزار کر دی تھی
"میرے بچے پیار چاہے جتنا بھی ہو کبھی بھی صحیح اور غلط کی پہچان نہیں بھولتے تم ابھی کے ابھی صائم کو میسج کرو کے تم اس سے شادی نہیں کرنے والی ایسے لالچی شخص کو کبھی بھی میں اپنی بیٹی نا دوں۔۔ اور زیان سے معافی مانگ لو بیٹا۔۔ وہ تمہارا بھائی ہے وہ بھی تو عنایہ سے محبت کرتا ہے پر کہتا نہیں ہے کسی سے بس میری محبت کا صلہ دینے کی خاطر وہ اپنی محبت تک قربان کرنے کو تیار ہو گیا مجھے فخر ہے میں نے دو یتیموں کو اپنا بیٹا سمجھ کر ان کی پرورش کی ہے انہیں محبت دی ہے۔۔ زیان  کی طرح سفیان بھی ننھا سا تھا جب بھائی بھابھی کا انتقال ہو گیا تھا یہ دونوں میرے بیٹے ہیں میں نے پالا ہے انہیں۔ مجھے فخر ہے اپنے دونوں بیٹوں پر۔۔"
وہ نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے سیمل کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولی تھیں۔
"پر ماما میں کیسے اسے میسج کر دوں میں اس سے بہت محبت کرتی ہوں اور اسی کی محبت میں تو میں نے اتنا کچھ غلط کر ڈالا"
وہ روتے ہوئے بولی تھی۔
"بیٹا کیا تم ایسے شخص کے ساتھ رہنا چاہو گی  جس نے دولت کے لیے تمہیں اپنانا چاہا تھا صرف دولت کے لیے؟؟"
انہوں نے سیمل سے بڑے پیار سے سوال کیا تھا۔
"آپ کا مطلب ہے اس نے دولت حاصل کرنے کے لیے میرا استعمال کرنا چاہا تھا؟"
وہ آنکھوں میں آنسو لیے ان سے مخاطب تھی۔۔
"بلکل۔۔ میری جان اگر وہ واقعی تم سے محبت کرتا ہوتا تو کبھی ایسا گنہونا پلان نا بناتا محبت میں تو دولت کی تمنا ہی نہیں ہوتی بس محبوب مل جاۓ یہی محبت کرنے والے کے لیے اس کا سب کچھ ہوتا ہے"
وہ اس کا سر سہلاتے ہوئے بولی تھیں۔
"اوکے ماما میں اب سمجھ گئی ہوں اس دنیا میں بہت ہی کم ایسے لوگ ہیں جو سچی محبت کرتے ہیں۔۔ پر میں اتنی بے مول نہیں ہوں کے کوئی بھی آ کر میرا استعمال کر لے"
وہ اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے بولی تھی۔۔
"شاباش بیٹا مجھے تم سے ایسی ہی اچھی امید تھی۔۔"
وہ اس کا گال چوم کر بولی تھیں۔
"پر ماما آپ کو کیسے پتا زیان عنایہ سے محبت کرتا ہے؟"
وہ معصومیت سے پوچھ رہی تھی۔
"اس کی آنکھوں میں نظر آتا ہے۔۔ وہ دراصل بچپن سے ایسا ہے حالِ دل کبھی کسی سے نہیں کہتا۔۔ عنایہ کو دیکھ کر جو خاص چمک اس کی آنکھوں میں نظر آتی ہے وہ کبھی میں نے کسی کے لیے نہیں دیکھی۔۔ میں اپنے بیٹے کو جانتی ہوں"
وہ مسکراتے ہوئے بولی تھیں۔
"اوہ واؤ اب زیان کو تنگ کرنے کا کتنا مزہ آئے گا نا"
وہ خوش ہوتے ہوئے بولی تھی۔
"پر تنگ کرنے سے پہلے اسے سوری کرنا ہے تم نے"
وہ اسے یاد کرواتے ہوئے بولی تھیں۔
"ماما میں زیان سے سوری کروں گی وہ مجھے معاف تو کر دے گا نا؟"
اس کی آنکھوں میں پھر پانی جمع ہونے لگا تھا اس نے اپنی غلطی کی وجہ سے اپنے بھائی کے رشتے میں دراڑ دال دی تھی۔
"ہاں ہاں ضرور کر دے گا بس تم اسے حقیقت بتا دینا اور اپنی غلطی تسلیم کر لینا"
مریم نے کہا تھا۔
"اوکے ماما"
وہ مسکرا کر ان کے گلے لگی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"زیان ناشتہ نہیں کرو گے؟"
اسے بغیر ناشتہ کیے  ڈائننگ روم سے ہوتے ہوئے گیراج میں جاتے دیکھ کر مریم نے اسے آواز دی تھی۔۔ اس وقت ریاض اور سیمل بھی وہیں بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔
"نہیں آنٹی مجھے میٹنگ میں جانا ہے"
وہ رک کر بولا تھا۔
"بیٹا میٹنگ میں بھی چلے جانا پہلے ادھر بیٹھو ناشتہ کرو"
اسے مجبوراً وہاں بیٹھنا پڑا تھا۔
"پر آنٹی میٹنگ ضروری ہے"
وہ یہاں کل والے تماشے کے بعد بیٹھنا نہیں چاہ رہا تھا۔۔
"میں جا رہا ہوں آفس میٹنگ تھوڑی دیر بعد شروع ہو جاۓ گی تم آرام سے ناشتہ کر کے آؤ"
ریاض کہہ کر جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔
وہ بس سر ہلا کر رہ گیا تھا۔ وہ بلکل سیمل کے سامنے والی نشست پر بیٹھا تھا۔۔ سیمل ندامت اور شرمندگی کی وجہ سے اس سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی۔
"زیان"
سیمل نے تھوڑی دیر بعد ہمت جمع کر لی تھی۔
"جی"
وہ ناشتے سے انصاف کرتے ہوئے بولا تھا۔ اس وقت تک ریاض صاحب آفس کے لیے نکل چکے تھے۔ اور مریم بھی ناشتہ کر کے اٹھ چکی تھیں۔
"آئی ایم سوری زیان میں نے تم سے بہت بدتمیزی کی تھی اس روز"
وہ ہچکچاتے ہوئے بولی تھی۔
"کوئی بات نہیں"
اس نے مختصر جواب دے کر بات ختم کرنا چاہی تھی۔
"زیان مجھے تم سے بات کرنی ہے"
وہ لمحہ بھر کا وقفہ لے کر بولی تھی۔
"ہاں کہو"
"دراصل میں۔۔۔۔"
اس نے ساری حقیقت اس پر کھول کے رکھ دی تھی۔۔ زیان اگرچہ پہلے ہی سب جانتا تھا مگر یہ سمجھنے سے قاصر تھا کے اب سیمل ساری سچائی اسے کیوں بتا رہی تھی۔
"تو اب مجھے بتانے کا فائدہ؟؟"
وہ اپنے مزاج کے خلاف تلخی سے بولا تھا۔ جسے سیمل نے اچھی طرح محسوس کر لیا تھا۔
"زیان میں۔۔میں بہت شرمندہ ہوں پلیز آئی ایم سوری"
"میں نے تمہیں معاف کیا۔۔"
وہ اتنا کہہ کر رکا نہیں تھا بلکہ باہر کی جانب نکل گیا تھا۔۔ سیمل جانتی تھی کے ان کے رشتے میں جو دراڑ آئی تھی اسے ختم ہونے میں وقت لگنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" میں میٹنگ کے لیے جا رہا ہوں۔ جب میں آپ کو اشارہ کروں آپ نے ایمپلائز کے لیے ریفریشمنٹ بھجوانا ہے اوکے"
وہ اپنی ریسپشنسٹ کو ہدایت دیتا ہوا میٹنگ روم کی جانب بڑھا تھا۔ اس کے اپنی نشست پر بیٹھتے ہی عنایہ بھی میٹنگ روم میں داخل ہوئی تھی۔ عنایہ کے لیے زیان کے ساتھ والی نشست رکھی گئی تھی۔۔ وہ مجبوری میں وہاں بیٹھنے ہی والی تھی جب سیمل آ کر دھڑلے سے وہاں بیٹھ چکی تھی۔
"تم میٹنگ روم میں کیا کر رہی ہو؟"
سفیان جو سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا سختی سے بولا تھا۔
"میں بھی دیکھوں میرے دونوں بھائی کیسے میٹنگ اٹینڈ کرتے ہیں"
وہ شرارت سے بولی تھی اس کے دونوں بھائی کہنے پر ان تینوں نے اسے حیرت سے دیکھا تھا۔
"میٹنگ میں تم کسی بھی چئیر پر بیٹھ کر دیکھ سکتی ہو یہاں سے اٹھو"
وہ ذرا سمبھلتے ہوئے نارمل انداز میں بولا تھا۔
"کیوں یہاں کیوں نہیں بیٹھ سکتی؟"
سیمل منہ بنا کر پوچھ رہی تھی۔ عنایہ اس سب کے درمیان بس خاموش کھڑی تھی۔ زیان کے دل میں ابھرتے احساس کی کتنی آسانی سے سفیان ترجمانی کر رہا تھا زیان بس سوچ کر دل سے خوش ہو گیا تھا وہ بھی تو یہی چاہتا تھا۔۔۔
"کیوں کے یہ عنایہ کی جگہ ہے"
سفیان نے اسے جتاتے ہوئے کہا تھا۔
"اوہ اوکے میں کہیں اور بیٹھ جاتی ہوں"
وہ ان دونوں کے درمیان اپنی وجہ سے کوئی تلخی نہیں چاہتی تھی جو غلطی وہ کر چکی تھی اب اس کو سدھارنا چاہتی تھی اس لیے آسانی سے اٹھنے کو تیار ہو گئی تھی۔
"نہیں اٹس اوکے سیمل تم یہاں بیٹھ جاؤ سفیان کے ساتھ سیٹ ہے میں وہاں جا رہی ہوں"
وہ سنجیدگی سے کہتی ہوئی سفیان کے ساتھ والی سیٹ کی جانب بڑھ گئی تھی۔ زیان کے دل میں کوئی احساس جاگا تھا۔۔ اسے عنایہ کے اس سرد مہری سے تکلیف ہو رہی تھی مگر اس تکلیف کی وجہ وہ خود تھا۔ اس لیے صبر کر رہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج آنٹی مریم سفیان کا رشتہ لے کر زرشالا کے ہاں جا رہی تھیں۔اس سلسلے میں زیان اور سیمل ان کے ہمرا تھے سفیان کو بڑی مشکل سے انہوں نے گھر روکا تھا نہیں تو وہ ان سے پہلے زرشی کے گھر پہنچ جاتا۔۔زرشالا کے گھر ان کا شاندار استقبال کیا گیا تھا۔ عنایہ بھی زرشی کی ہیلپ کے لیے زرشالا کر گھر ہی آئی ہوئی تھی۔
"ہاں بھئی آ گئے تیرے سسرالی"
عنایہ نے زرشالا کو کمر پر مکا رسید کرتے ہوئے شرارت سے کہا تھا۔
"شرم کر عنایہ میں پہلے ہی اتنی نروس ہوں اور تم اور تنگ کر رہی ہو؟"
وہ اپنے حجاب کو فائنل ٹچ اپ دیتے ہوئے بولی تھی
"لو اس میں نروس ہونے والی کونسی بات ہے"
عنایہ نے ہنس کر کہا تھا۔
"تم میری جگہ ہوتی تو بتاتی تمہیں"
وہ منہ پھولا کر بولی تھی۔
"ابھی تم اس جگہ پر ہو نا تو تمہیں ہی رکھتے ہیں۔ میں سلام لے آئی ہوں تم چلو میں چاۓ کو دیکھ لوں ذرا"
عنایہ اسے تاقید کرتے ہوئے کچن میں چلی گئی تھی۔۔
"عنایہ چاۓ؟؟"
کچھ دیر بعد زرشالا نےکچن میں آ کرچاۓ کپوں میں ڈالتی عنایہ کو کہا تھا۔
"اوکے میں ذرا تمہیں ٹرے سیٹ کر دوں"
وہ ایک بڑی سی ٹرے میں لوازمات سجاتے ہوئے بولی تھی۔
"دیکھو چاۓ لے کر جانا وہ بھی ان کے سامنے جو آپ کے رشتے کے لیے آئیں ہوں بڑا اہم مرحلہ ہوتا ہے جس سلیقے اور نفاست سے آپ چاۓ اور دیگر لوازمات مہمانوں کے سامنے جا کر رکھتے ہیں وہ لڑکی کے گھرداری کے بارے میں اہم معلومات دیتے ہیں۔۔"
وہ اپنی دھن میں بولتی جا رہی تھی جب اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تھا۔ سامنے زرشی کا نام و نشان تک نا تھا وہ کہہ کر کب کی جا چکی تھی۔
"اف اس لڑکی کا کیا ہو گا"
اس نے بے اختیار سر پر ہاتھ مارا تھا۔ اور اگلے لمحے وہ چپکے سے لاؤنج میں داخلی دروازے کی اوٹ میں کھڑی زرشالا کو باورچی خانے میں آنے کا اشارہ کر کے آئی تھی۔ وہ دوبارہ سے کچن میں آ کر ٹرے سجانے لگی تھی جب اسے کسی کی آہٹ محسوس ہوئی تھی۔۔ اس نے بغیر دیکھے بولنا شروع کر دیا تھا۔۔
"تمہیں ذرا بھی شرم نہیں آتی بدتمیز۔۔ سسرال والے تمہارے آئیں ہیں اور تم ہو کے مجھے کام میں لگا کر رکھا ہے۔ چلو بس میں اپنے گھر جا رہی ہوں تم خودی سمبھالو اپنے مہمانوں کو۔۔ ویسے زرشی کی بچی میری باری میں دیکھنا تم سے ہی بدلے پورے کروں گی تب تم کرنا یہ سارے کام اور میں بیٹھوں گی مہمانوں کے پاس۔۔"
وہ نان سٹاپ بولتی چلی جا رہی تھی مزید بولتی رہتی اگر اسے اپنے عقب میں زیان کی آواز نہ سنائی دیتی۔۔
"بس بھی کر جاؤ ریڈیو پاکستان بولتی ہی جا رہی ہو اور دیکھ تو لیا کرو کے سننے والا کون ہے اور تم سنا کسے رہی ہو۔۔ ویسے تمہیں سسرال والوں کے پاس بیٹھنا نہیں پڑے گا تمہارا دولہا ڈائریکٹ نکاح کرے گا"
وہ ایسے بات کر رہا تھا جیسے گزشتہ دن کچھ ہوا ہی نا ہو۔۔زیان کی آواز اور اس کی بات سن کر عنایہ ٹھٹکی تھی۔۔
"زرشالا"
اس نے بلند آواز میں زرشالا کو آواز دی تھی۔۔ وہ زیان کو مکمل طور پر اگنور کر رہی تھی۔ اس کی سرد مہری سے زیان کو بہت تکلیف ہوئی تھی۔۔
"عنایہ تم میری بات کا جواب نہیں دے رہی؟"
زیان نے دو قدم اس کی جانب بڑھاۓ تھے۔ مگر وہ ہنوز ایسے  برتاؤ کر رہی تھی جیسے اس وقت کچن میں اس کے سوا کوئی دوسرا زی روح موجود ہی نا ہو۔۔
"عنایہ؟؟؟"
وہ تڑپ کر بولا تھا اس کی تڑپ عنایہ نے محسوس ضرور کی تھی مگر خاموشی اب بھی قائم تھی۔۔
"عنایہ دیکھو مجھے تکلیف ہو رہی ہے تمہارے اس رویے سے"
اس نے صاف گوئی سے کام لیا۔۔
عنایہ نے دل کی ہزار منتیں کرنے کے باوجود اسے ایک بار بھی نظر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا۔۔
"عنایہ کیا ہوا بن گئی چاۓ؟"
زرشی منہ میں کچھ چباتی ہوئی کچن میں آئی تھی۔
عنایہ نے ایک نظر اسے دیکھا تھا اور بڑی سنجیدگی سے بولی تھی۔
"میں نے سب سیٹ کر دیا ہے اس سے پہلے سب ٹھنڈا ہو جاۓ تم لے جاؤ میں گھر جا رہی ہوں اللہ‎ حافظ"
"عنایہ رکو تو عنایہ؟؟؟؟؟"
زرشالا اسے روکتی رہ گئی تھی مگر اسے نا رکنا تھا وہ نہیں رکی تھی۔۔ زیان اب تک وہیں کھڑا لب کاٹ رہا تھا۔
"تم نے تو کچھ نہیں کہا اسے؟"
زرشالہ نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا تھا۔۔
"نہیں پر اس نے میری سنی بھی نہیں"
اس سے پہلے زرشی اس پر اپنا غصہ نکالتی وہ بھی باہر چلا گیا تھا۔۔
"یا اللہ‎ ان کے درمیان سب ٹھیک کردے"
اس نے دل سے دعا کی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کہاں جا رہی ہو ہاں؟"
وہ اس کے آگے آ کر کھڑا ہوا تھا۔
عنایہ غم و غصے میں پیدل ہی زرشی کے گھر سے اپنے گھر کی طرف نکلی تھی اس کا گھر چونکہ  زرشی کے گھر کے بہت قریب تھا اس لیے وہ پیدل ہی مسافت طہ کر لیا کرتی تھی۔ وہ اپنی دھن میں مگن چل رہی تھی جب زیان نے آ کر اس کا راستہ روکا تھا۔
"تم سے مطلب"
وہ اکڑ کر بولی تھی۔
"ہاں مجھ سے ہی مطلب ہے اکیلے آنے کی کیا ضرورت تھی مجھے کہہ دیتی!"
وہ بھی سختی سے بولا تھا۔
"نا مجھے تم سے کچھ سننا ہے اور نا ہی کچھ کہنا ہے آئی سمجھ؟"
اس وقت اکا دکا لوگ ہی تھے وہاں۔ اس لیے وہ ان کے سامنے بھی اس کا  تماشا نہیں بنانا چاہتی تھی۔۔
زیان بس اسے دیکھ کر رہ گیا تھا۔عنایہ نے اس کے سائیڈ سے ہو کر آگے چلنا شروع کر دیا تھا۔ اس حرکت پر زیان نے مٹھیاں بھینچ لی تھیں۔اور دوبارہ چہرے پر سختی کے تاثرات لئے اس کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا تھا۔
"کیا مسلہ ہے تمہارے ساتھ میرے راستے سے ہٹو"
وہ غصے سے بولی تھی۔
"تم راستے سے ہٹنے کی بات کر رہی ہو۔۔ میں تو ہماری منزل ایک بنانے کا سوچے بیٹھا ہوں"
وہ دلنشیں انداز میں زومعنی بات کہہ گیا تھا۔ عنایہ کو اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا تھا۔ اس کی بات پر عنایہ نے سر اٹھا کر اس کی چمکتی آنکھوں میں دیکھا تھا۔ اور تلخی سے کہا تھا۔۔
"بہتر ہے کے تم فضولیات نا سوچو"
وہ اتنا کہہ کر تیزی سے آگے بڑھ گئی تھی۔زیان بس جہاں کھڑا تھا وہیں کھڑا رہ گیا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حالِ دل کہوں کیسے (COMPLETED)Where stories live. Discover now