Last Episode (Last Part Walimah Special)

4K 194 129
                                    

"یہ جو میرے ساتھ آئی تھیں وہ کہاں گئیں؟"
عنایہ نے حیرت سے بیوٹی آرٹسٹ سے پوچھا تھا۔ وہ زرشی اور سیمل ساتھ ہی تو آئی تھیں پالر میں تو اب وہ دونوں کہاں چلی گئیں تھیں۔ اس کا میک اپ سب سے آخر میں ہوا تھا اور وہ دونوں اس سے پہلے بلکل تیار ہو کے بیٹھی ہوئی تھیں۔
"وہ تو آپ کا میک اپ سٹارٹ ہوتے ہی چلی گئیں تھیں"
بیوٹی آرٹسٹ شائستگی سے بولی تھی۔
"پر مجھے کیوں نہیں پتا اس بارے میں؟"
وہ حیران ہوتے ہوئے بولی تھی۔
"جب آپ کا آئی میک اپ سٹارٹ ہوا تھا تبھی وہ مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کر کے چلی گئیں تھیں۔ شاید آپ کے ساتھ کوئی شرارت کی ہے انہوں نے"
وہ مسکراتے ہوئے اسے بتا رہی تھیں۔ غصے سے عنایہ کے چہرے کا رنگ سرخ ہو گیا تھا۔
"بھلا ایسے بھی کوئی کرتا ہے"
وہ بڑبڑائی تھی۔
"آپ پریشان نا ہوں گھر میں کسی کو کال کر لیں۔"
"تھینک یو"
وہ بمشکل مسکرائی تھی۔ اس نے سفیان کا نمبر ڈائل کیا تھا دو تین بار ٹرائے کرنے پر بھی اس نے کال رسیو نہیں کی تھی۔ تنگ آ کر اس نے دادا کو کال ملائی تھی۔
"دادا کہاں ہیں آپ؟"
سلام کے بعد اس نے دادا سے پوچھا تھا۔
"میں تو بیٹا ہال میں آ گیا ہوں۔۔ کیا ہوا تم کیوں نہیں آئی اب تک؟ زرشالا اور سیمل تو آ گئیں ہوئی ہیں۔"
وہ سنجیدگی سے بولے تھے۔
"دادا یہ دونوں مجھے چھوڑ کے ہی آ گئیں ہیں جب کہ ہم اکھٹے آنے والے تھے۔"
وہ پریشانی سے بولی تھیں۔
"چلو تم پریشان نا ہو۔۔ اب تک زیان بھی نہیں آیا تم اسے کال کر لو"
انہوں نے کہہ کر فون بند کر دیا تھا وہ ہیلو ہیلو کرتی رہ گئی تھی۔
"افو اب مجھے زیان کو کال کرنا پڑے گی"
اس نے خود کلامی کی تھی۔
"میم آپ کو لینے آ گئے ہیں"
ساتھ ہی اسے دادا کا میسج موصول ہوا تھا کے انہوں نے زیان کو اسے لینے کے لیے بھیج دیا ہے۔۔
ایک لڑکی نے آ کر اسے اطلاح دی تھی۔ وہ حیرانی سے باہر آئی تھی۔ اس نے وہی ہلکے کاسنی رنگ کی میکسی زیب تن کی ہوئی تھی۔ اس رنگ کی مناسبت سے ہلکے پھلکے میک اپ میں وہ کوئی اپسرا ہی معلوم ہوتی تھی سر پر اس نے ہمرنگ حجاب اوڑھا ہوا تھا۔اور پیروں کو سینڈل میں قید کیا ہوا تھا۔۔اس نے باہر دیکھا تو زیان کی گاڑی کھڑی ہوئی تھی۔ زیان بھی باہر نکال کے گاڑی سے ٹیک لگاۓ اسی کا منتظر کھڑا تھا۔ ان دونوں کے درمیان سڑک تھی جسے پار کر کے عنایہ کو اس کی طرف آنا تھا۔ اس وقت رش نا ہونے کے برابر تھا مگر پھر بھی وہ احتیاط سے آہستہ آہستہ قدم بڑھاتی اس تک آئی تھی۔ زیان کے لیے یہ لمحہ بہت خوبصورت تھا۔ جس بھی مقصد کے لیے پر عنایہ نے اس کی طرف قدم تو بڑھاۓ تھے۔ وہ سوچ کر مسکرایا تھا۔
"کیا ہوا کیوں مسکرا رہے ہو یوں؟"
وہ اسے گھور کے بولی تھی۔
"نہیں کچھ نہیں چلیں؟"
اس نے اپنی مسکراہٹ پر فوراً قابو پایا تھا۔
"ہاں"
وہ کہہ کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی تھی۔ زیان بھی گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا تھا۔ عنایہ نے اب غور کیا تھا کہ زیان نے بھی ہلکے کاسنی رنگ کا پینٹ کوٹ پہن رکھا تھا اور وہ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں محسوس نہیں کر رہی تھی کے وہ آج بہت جاذب لگ رہا تھا۔
"تمہارے کپڑوں کا کلر؟؟"
اسے سمجھ نہیں آیا تھا کے وہ کس طرح اس سے پوچھے۔
"کتنا بڑا اتفاق ہے نا"
ایک گہری مسکراہٹ نے اس کے ہونٹوں کا احاطہ کیا تھا۔
"حسین اتفاق"
وہ بس سوچ کے مسکرا دی تھی۔
"اتر جائیں اب ہال آ گیا ہے"
کافی دیر تک عنایہ کو یوں ہی مسکراتا دیکھ کر وہ بولا تھا۔
"ہاں چلو"
زیان بھی گاڑی سے باہر نکل آیا تھا۔ میکسی نے عنایہ کے ٹخنوں تک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ وہ تنگ نہیں تھی کے اس کا جسم نمایا ہو بلکے وہ سنڈریلا کی سی فراک کے جیسے تھی۔۔ آگے سے پھولی ہوئی۔ وہ جیسی بھی تھی عنایہ بھی اسے زیب تن کر کے کسی شہزادی سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ کم از کم زیان کو تو یونہی لگا تھا۔ گاڑی سے اترنے میں اسے مشکل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ دیکھ کر زیان اس کی طرف آیا تھا۔ اور اس کی جانب کا دروازہ کھولا تھا۔ زیان نے اپنا ہاتھ عنایہ کی طرف بڑھایا تھا۔ عنایہ نے جھجھک کر اس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔ زیان کی مسکراہٹ گہری ہو گئی تھی۔ وہ دونوں قدم با قدم چلتے ہوئے ہال کے اندر داخل ہوئے تھے۔ پر انہیں اندر داخل ہو کر بہت بڑا شاک لگا تھا۔ اندر نا کوئی بندہ تھا نا بندے کی ذات۔۔ وہ دونوں اس وقت اس وسیع و عریض ہال کے وسط میں آمنے سامنے کھڑے ہوئے تھے۔
"ہم کسی غلط ہال میں تو نہیں آ گئے؟"
عنایہ پریشانی سے بولی تھی۔ ہال کا دروازہ بھی بند ہو چکا تھا۔۔ انہیں اپنے پاس کوئی تیسرا شخص نظر نہیں آیا تھا اور اس وقت وہ اس بڑے سے ہال میں تنہا تھے۔
"نہیں تو ہال تو یہی تھا۔ میں سفیان سے پوچھتا ہوں رکو"
زیان بھی اتنا ہی پریشان تھا۔
"ہاں ہیلو؟"
فون کی دوسری جانب سے سفیان کی آواز آئی تھی۔
"یار کہاں ہیں سب میں یہاں موجود ہوں پر تم لوگوں میں سے کوئی نظر نہیں آ رہا"
زیان پریشانی سے بولا تھا۔
"تو اکیلا ہے؟"
سفیان بولا تھا۔
"نہیں عنایہ بھی ہے ساتھ"
زیان نے ایک نظر عنایہ کو دیکھا تھا جو سر جھکاۓ اس کے قریب ہی کھڑی ہوئی تھی۔
"تو بیٹا کس بات کا انتظار کر رہا ہے؟"
سفیان اپنا سر پیٹتے ہوئے بولا تھا۔
"کیا مطلب؟"
زیان الجھا تھا۔
"اوہ میرے بھائی باقی باتیں بعد میں سمجھاؤں گا۔۔ ابھی کے لیے اتنا سمجھ لے کے تیرے پاس اس سے زیادہ سنہری موقع نہیں آئے گا سب سیٹ کرنے کا۔۔ بس معافی مانگ اس سے اور اپنا حالِ دل کہہ دے"
سفیان نے کہہ کر فون بند کر دیا تھا۔ زیان الجھن میں مبتلا کھڑا تھا۔
"کیا ہوا کیا کہا اس نے؟"
عنایہ پریشانی سے اس سے پوچھ رہی تھی۔
زیان کو بس ایک لمحہ لگا تھا یہ سوچنے میں کے اسے اب کیا کرنا ہے۔۔ وہ دو قدم عنایہ کے قریب آیا تھا۔
"کیا ہوا سب ٹھیک ہے؟"
وہ پریشان سی کھڑی تھی۔
"نہیں سب ٹھیک نہیں ہے"
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا تھا۔
"زیان مجھے ڈراؤ مت"
وہ ڈری ہوئی تھی۔ عجیب وہم اور خدشے اسے ستا رہے تھے۔
"سن لو پھر آج"
زیان نے کہتے ہوئے اس کے ہاتھ تھامے تھے۔
"زیان۔۔۔تم "
اس کا اشارہ اس کے ہاتھ تھامنے کی طرف تھا۔ عنایہ نے جھجھک کر اپنے ہاتھ اس کے ہاتھوں سے آزاد کروانے چاہے تھے مگر زیان کی گرفت کافی مضبوط تھی۔
"عنایہ میں ہمیشہ سے سوچتا رہا کے اپنا حالِ دل سنا دینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔۔ مگر تم جانتی ہو کہ تمہاری سرد مہری اور بے اعتنایت نے مجھے کس نتیجے پر لا کھڑا کیا ہے؟؟"
وہ اس کے ہاتھ تھامے ہی اس کی آنکھوں میں براہ راست دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ وہ بھی اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس کے بول دینے کی منتظر تھی۔
"کیا؟"
وہ اٹکتے ہوئے بولی تھی۔
"کہ آج کے زمانے میں حالِ دل ان لوگوں کے سامنے ہر گز نہیں کہنا چاہیے جو آپ کے مخلص جذبات اور احساسات کی قدر نا کرتے ہوں۔ بلکہ حالِ دل کہنے کا صحیح مقام تو رب کی بارگاہ ہے۔۔ وہ آپ کی سنتا ہے۔۔ آپ کو سمجھتا ہے۔۔۔ایک آپ کا اللہ‎ ہی تو ہے جس کے سامنے آپ کو کوئی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ حالِ دل کہوں کیسے کی جستجو میں میں نے بہت وقت برباد کر دیا اپنا بھی اور تمھارا بھی۔۔۔ مگر پھر پتا ہے تمہیں میں نے بھی حالِ دل اللہ‎ کے سامنے سنا دیا تھا اور آج دیکھو اس نے خود سارے راستے ہموار کر دیے ہیں آسانیاں ہی آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔"
وہ تو بس گم سم سی کھڑی اس کی باتیں سننے میں محو تھی۔
"کیا مطلب؟ کون سی آسانیاں؟؟"
وہ ناسمجھی سے بولی تھی۔
"ظاہر ہے ہم دونوں کے درمیان تلخیاں دور کرنے میں"
وہ مسکراتا ہوا بولا تھا۔
"ہمارے درمیان کوئی تلخی نہیں ہے"
وہ اس سے اپنا ہاتھ چھڑواتے ہوئے بولی تھی۔
"ویل۔۔ اب تم جو بھی کہو مگر آج میں اپنا سارا حالِ دل سنا کر ہی تمہیں جانے دوں گا"
عنایہ بس اسے دیکھ کر رہ گئی تھی۔ وہ اس کے ہاتھ آزاد کرنے کے حق میں نہیں تھا۔۔ اس لیے اس نے بھی خاموشی سے اس کی بات سننے کو ترجیح دی تھی۔
"عنایہ پہلے میں تمہیں تنگ اس لیے کرتا تھا کے مجھے تمہیں تنگ کرنے میں بہت مزہ آتا تھا۔۔۔ مگر آہستہ آہستہ میں نے محسوس کیا کے میں تنگ تو سیمل اور زرشی کو بھی یوں ہی کرتا ہوں مگر تمہیں تنگ کر کے کچھ بدلا بدلا احساس ہوتا ہے۔۔ ایک خوشنما احساس۔۔ جو میں نے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔مگر خدا کی قسم مجھے نہیں معلوم تھا کے ہم دونوں واقعی ہی ایک قریبی رشتے سے جڑے ہوئے ہیں۔۔۔ لیکن آج میں تمہارے سامنے اپنی ساری غلطیاں تسلیم کرتا ہوں۔۔ میں نے تم سے بدتمیزی کی اور تمہارے یقین اور مان کو ٹھیس پہنچائی عنایہ میں دل سے تم سے آج معافی مانگتا ہوں۔۔ اپنی ساری غلطیوں کی۔۔ اور تمہیں اس بات کی گارنٹی دیتا ہوں کے آئندہ ایسی کوئی غلطی نہیں کروں گا۔۔ میں نے سیمل کے لیے ہاں ضرور کی تھی مگر ہمیشہ اسے بہن ہی سمجھا تھا۔۔۔اور اس کے لیے ہاں بھی مجبوری کے تحت کی تھی۔۔ میں نے سب سے بڑی غلطی یہ کی کے تمہاری بات کا یقین نہیں کیا اور اگلے دن سیمل نے خود اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا تھا۔۔۔ اس دن سے لے کر آج تک میں احساس ندامت میں گھرا ہوا ہوں۔۔۔ تم سے معافی مانگنے کی بہت کوشش کی مگر ہمیشہ تم نے میری بات ہی نہیں سنی۔۔۔"
وہ آج سب کچھ کہہ دینا چاہتا تھا۔۔ وہ سب کچھ جو وہ کب سے اپنے دل میں چھپائے بیٹھا تھا۔
"بس؟"
عنایہ نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا۔
"نہیں ابھی سب سے اہم بات کہنی باقی ہے"
وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا۔
"کہہ دو وہ بھی"
وہ سنجیدگی سے بولی تھی۔
"عنایہ دانیال احمد میں زیان بلال احمد ناجانے کب سے تم سے محبت کرنے کے جرم میں گرفتار ہو چکا ہوں۔بس مجھے اس سے تا عمر رہائی نہیں چاہیے پر میں یہ ضرور چاہتا ہوں کے تم میرا مقدمہ لڑو اور میری محبت کو میرے حق میں جرم نہیں بلکہ ایک اعزاز بنا دو"
وہ دلنشیں انداز میں بولتا ہوا عنایہ کو دنیا کا سب سے وجیہ مرد لگا تھا۔۔ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا تو وہ بھی اسی سے محبت کرتا تھا۔۔ وہ کسی یک طرفہ محبت کا شکار نہیں تھی بلکہ یہ محبت تو دو طرفہ تھی اور بہت مضبوطی سے دونوں کے دلوں میں اپنی جڑیں دل کی گہرائی تک مضبوط کر رہی تھی۔
"میں کوئی وکیل نہیں ہوں مسٹر"
وہ شرارت سے کہہ رہی تھی۔اس کی آنکھوں میں شرارت دیکھ کر وہ بھی نم آنکھوں سے مسکرایا تھا۔
"اب تم بھی کچھ کہہ دو۔۔ وکالت نا سہی"
وہ اس کے ہاتھوں کو ابھی تک تھامے کھڑا تھا۔
"تو مسٹر زیان بلال احمد صرف تم ہی نہیں میں بھی اس محبت کے جرم میں گرفتار ہوں۔۔ جب میں خود مجرم ہوں تو تمہاری وکالت کیسے کروں؟"
وہ بھی مسکراتے ہوئے بولی تھی۔ آنکھیں اشکوں سے لبریز تھیں۔
"کیا سچ میں؟"
وہ خوش ہوتے ہوئے مسکرا کر بولا تھا۔ اس کی مسکراہٹ عنایہ کو بہت پسند تھی اور زیان کو اس کی حسین گرے آنکھیں۔
"ہاں تو پھر کیا خیال ہے سفیان ہم سے ریس میں آگے نکال گیا ہے اس سے بدلہ لیں؟"
"کونسی ریس؟؟کیسا بدلہ؟؟"
وہ حیران ہوتے ہوئے بولی تھی۔
"بھئی شادی میں"
وہ ہنس کر بولا تھا۔
"تو وہ تو اب نکل گیا آگے۔۔ اب کیا ہو سکتا ہے؟"
عنایہ مسکرا کر بولی تھی۔
"ابھی بھی کچھ نہیں بھگڑا بس تم ایک بار ہاں کہہ دو"
وہ اس کے چہرے پر نظرے جما کر کہہ رہا تھا۔
"ایسا ہے کیا؟"
عنایہ نے مسکراتے ہوئے اس سے پوچا تھا۔
"جی ہاں"
زیان نے کہا تھا۔
"تو تم بھی سن لو آج۔۔ میری طرف سے ہاں ہے"
وہ مسکراتے ہوئے بولی تھی۔۔ اور کہہ کر شرما گئی تھی۔ زیان تو اس لڑکی پر فدا ہی ہو گیا تھا۔ جس کی ہر ادا جان لیوا تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے میں محو تھے جب ایک دم سے ہال کا دروازہ کھلا تھا اور بلند آواز میں میوزک بجنے لگا تھا۔ ہال کے اندر سفیان دادا اور صائم داخل ہوئے تھے۔ اور اک سائیڈ پر کھڑے ہو گئے تھے۔اگلے ہی لمحے جمیلہ مریم سیمل اور زرشی اندر آئی تھیں اور دوسری سائیڈ پر کھڑی جو گئیں تھیں۔ دیگر کزنز بھی ان کے پیچھے کھڑے ہوتے جا رہے تھے۔ لڑکیاں لڑکیوں کے پیچھے اور لڑکے لڑکوں کے پیچھے۔ وہ دونوں اب بھی ہال کے بلکل درمیان میں کھڑے ہوئے تھے۔ اور سب کی نگاہیں ان پر جمی ہوئی تھیں۔ زیان نے اب تک عنایہ کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔ عنایہ نے کئی بار کوشش کی تھی مگر بےسود۔۔ وہ دونوں ابھی بھی حیرت سے ان سب کی انٹری دیکھ رہے تھے جب بلند آواز میں گانا بجنے لگا تھا۔
لے جائیں گیں لے جائیں گیں۔۔
دل والے دلہنیا لے جائیں گیں۔۔۔
رہ جائیں گیں رہ جائیں گیں۔۔
گھر والے دیکھتے رہ جائیں گیں۔۔۔
بس وہ دونوں ہی کھڑے ہوئے تھے اور زرشی عنایہ کے ساتھ مسکراتے ہوئے کھڑی ہو گئی تھی۔۔باقی سب ان کے گرد گھومتے جھومتے ڈانس کر رہے تھے۔۔ گانے نے بول کے عین مطابق۔۔ وہ دونوں تو حیرت کی زیادتی کی وجہ سے ساکت کھڑے ہوئے تھے۔
"زیان تمہیں اس سب کا پتا تھا؟"
وہ اس کے کان کے قریب آتے ہوئے تھوڑا اونچی آواز میں بولی تھی کیوں کہ میوزک کی آواز بہت تیز تھی۔
"خدا کی قسم میرے تو فرشتوں کو بھی نہیں پتا تھا کے یہ لوگ کیا پلان کر رہے ہیں۔۔"
زیان نے کہا تھا۔اک دم سے میوزک بدلا تھا اور گانا تبدیل ہوا تھا۔
دل چوڑی ساڈا ہو گیا۔۔
وے کی کریے کی کریے۔۔۔
نینوں میں کسی کے کھو گیا۔۔
کی کریے کی کریے۔۔۔
ابھی بھی وہ محو حیرت تھے۔۔ نانی ماں۔۔ مریم۔۔ سفیان۔۔ سیمل۔۔ صائم سب ان دونوں کو شرارت سے دیکھتے ہوئے ڈانس کر رہے تھے۔۔بس دادا کی ویل چیئر انہوں نے اپنے آگے کر لی تھی۔۔۔ایک بار پھر سے میوزک چینج کر دیا گیا تھا
دل دیاں گلاں۔۔
کراں گیں نال نال بہ کے۔۔
اکھ نال اکھ نو ملاں کے۔۔
دل دیاں گلاں ہائے۔۔۔
کراں گیں روز روز بہ کے۔۔
سچیاں محبتاں نبھا کے۔۔۔
سفیان نے آ کر زیان کو اپنے ساتھ پکڑ لیا تھا۔۔ وہ بھی ان کے ساتھ مل کے ان جیسے سٹیپ کر رہا تھا۔۔
ستائے مینو کیوں۔۔۔
دکھاۓ مینو کیوں۔۔۔
ایویں جھوٹی موٹھی رس کے رسا کے۔۔۔
دل دیاں گلاں ہائے۔۔۔۔
اب ان سب نے عنایہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈانس شروع کر دیا تھا۔۔ جس پر وہ بس نروس ہو گئی تھی۔۔ شرما کر اس نے ایک نظر زیان کو دیکھا تھا اور سب نے ہوٹنگ شروع کر دی تھی۔۔۔
ابھی بھی ان سب نے بس نہیں کیا تھا۔۔ بس جمیلہ اب تھک کے عنایہ کے پاس آ کر کھڑی ہو گئیں تھیں جب کے مریم سیمل زیان سفیان صائم ابھی بھی وہیں لگے ہوئے تھے۔۔ زیان کو سفیان اور صائم نے کس کے پکڑا ہوا تھا وہ چاہ کر بھی ان کی گرفت سے خود کو آزاد نہیں کر وہ پا رہا تھا۔۔میوزک پھر بدلا تھا۔۔اس بار سیمل نے عنایہ کو بھی ساتھ گھسیٹا تھا۔وہ بس نا نا کرتی رہ گئی تھی۔ وہ درمیان میں نروس سی کھڑی تھی جب کہ باقی سب پرفارم کے رہے تھے۔۔
مجھ سے دور کہیں نا جا۔۔
بس یہیں کہیں رہ جا۔۔
میں تیری دیوانی رے۔۔۔
افسوس تجھے ہے کیا۔۔۔
تیری میری کہانی نئی بن گئی۔۔۔
تو میرا ہو گیا میں تیری ہو گئی۔۔۔
جہاں جاۓ مجھے تو سنگ لے جا۔۔۔
انہوں نے عنایہ کو زیان کی طرف دھکیل دیا تھا۔۔ یوں کے عنایہ گھومتی ہوئی زیان کی طرف ہوئی تھی۔۔ زیان نے بھی اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا تھا۔۔۔ایک بار پھر سے وہ دونوں سب کے درمیان میں کھڑے ہوئے تھے۔۔
لے جا لے جا رے۔۔۔
لے جا لے جا رے۔۔۔
آخری بولوں کے ساتھ ان سب نے جھک کر بہت ساری داد وصول کی تھی۔۔
"کمینے انسان تجھے کیسے پتا ہاں ہو گئی ہے؟"
زیان نے اب سفیان کو پکڑا تھا۔۔ بلکہ اسے دبوچا تھا۔۔
"بس بھابھی جوش میں زیادہ ہی اونچا بول گئیں تھیں۔"
وہ شرارت سے بولا تھا۔۔
"سفی!!!!"
عنایہ نے اسے گھورا تھا۔۔
"اوہ سیمل یہ صائم یہاں؟"
زیان نے ان سب کی توجہ صائم کی طرف دلوائی تھی۔
"جی بھائی مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا اور سب سے سوری کرنے آ گیا۔۔"
وہ شرمندگی سے بولا تھا۔۔
"اوہ ڈیٹ از ریلی گریٹ"
زیان مسکراتے ہوئے اس کے گلے لگا تھا۔۔
"یس اینڈ سفیان برو تم نے مجھ کو بتایا نہیں کے تمہاری شادی ہو رہی ہے"
وہ خفگی سے بولا تھا۔۔ اسے اردو نہیں آتی تھی اس لیے وہ انگریزی انداز میں ہی اردو بولتا تھا۔۔
"بس دیکھ لو اب تو ہو گئی"
وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا۔
"جی نانی ماں دولہا دلہن فائنلی راضی ہو گئے ہیں تو ہمیں بھی دیر نہیں کرنی چاہیے۔۔"
زرشی مسکراتے ہوئے ریاض اور جمیلہ کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی۔
"بلکل"
جمیلہ مسکرائی تھیں۔ ان دونوں کو خوش دیکھ کر وہ دل سے مطمعین ہو گئیں تھیں۔۔
"ہاں تو بچوں کوئی گلہ شکوہ رہ تو نہیں گیا۔۔ بلوا لیں قاضی؟؟"
ریاض مسکراتے ہوئے بولے تھے۔۔
"دادا ہم ابھی بھی بہت حیران ہیں آپ سب نے اتنا بڑا سرپرائز رکھا ہوا تھا ہم سے؟؟ اور ہمیں بھنک بھی نہیں پڑنے دی۔۔"
عنایہ بولی تھی۔
"بس زندگی میں پہلی دفع کوئی سلجھا ہوا کام کیا ہے"
وہ مسکراۓ تھے۔۔
"دادا جان مولوی صاحب حاضر ہیں۔۔"
سفیان نے اعلان کرنے کے سے انداز میں کہا تھا۔۔۔
"چلو بھئی آج اسٹیج پر بیٹھنے کی ذمہ داری تم دونوں کی۔۔ ویسے بھی دو دن سے بیٹھ بیٹھ کے کمر آدھی ہو گئی ہے ہماری"
زرشی نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔
ان دونوں کو ایک ساتھ اسٹیج پر بیٹھا دیا گیا تھا اور نکاح کے کلمات ادا کیے گئے تھے۔۔وہ دونوں اس وقت سب کی آنکھوں کا تارہ بنے ہوئے تھے۔۔ان کی جوڑی کے سلامت رہنے کی دعائیں مانگی گئیں تھیں۔۔
نکاح ہو چکا تھا۔۔عنایہ اور زیان کے لیے یہ لمحے بہت قیمتی تھے۔۔ وہ دل سے اللہ‎ کی رضا میں راضی تھے۔۔۔ جب ہم اپنے سارے معملات اللہ‎ پر چھوڑ دیتے ہیں اور اپنا حالِ دل صرف اس کی ذات کو سناتے ہیں نا۔۔تو اللہ‎ یوں ہی ہمارے لیے آسانیاں پیدا کر دیتے ہیں۔۔ بس اس کی ذات پر یقین کامل ہونا چاہیے۔۔اللہ‎ خودی راہیں ہموار کے دیتے ہیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تم تو آج اسلام آباد نہیں جا رہی تھی؟"
زیان نے کمرے میں داخل ہوتے ہی شرارت سے کہا تھا۔۔
"ہاں جا رہی ہوں"
وہ بیڈ سے اٹھ کر باہر جانے لگی تھی جب زیان نے اس کا بازو پکڑ کر اسے خود سے قریب کیا تھا۔۔
"اب جہاں جائیں گیں ہم دونوں ساتھ ہی جائیں گیں مسز زیان احمد"
وہ اس کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے گہری مسکراہٹ ہونٹوں پر لاتے ہوئے بولا تھا۔۔عنایہ بھی اسے دیکھ کر مسکرا دی تھی۔
"ویسے زیان میں نے کبھی نہیں سوچا تھا ہمارا یوں اچانک نکاح ہو جاۓ گا"
کچھ دیر بعد وہ بولی تھی۔
"اچانک کہاں ان سب نے ناجانے کب سے یہ سب کچھ پلان کیا ہوا تھا"
زیان نے اسے ہنستے ہوئے بتایا تھا۔۔ عنایہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھیں۔
"اور ہمیں کانوں کان خبر تک نہیں"
"ہاں بلکل بیگم صاحبہ۔۔ تمہیں تو کسی چیز کا دھیان ہی کب ہوتا تھا پچھلے دنوں"
وہ اسے چھیڑتے ہوئے بولا تھا۔۔
"ہاں تمہارے اذیت سے بھرے الفاظ ہر وقت ہر جگہ میرا پیچھا کرتے تھے۔۔"
وہ دکھ سے بولی تھی اس کی آنکھیں نم ہونے لگیں تھیں۔
"لڑکی بس اب اور آنسؤوں کی گنجائش نہیں ہے۔۔ مجھے تمہاری گرے خوبصورت آنکھیں بہت پسند ہیں۔۔میں ان میں کبھی بھی میں آنسو نہیں دیکھنا چاہتا۔۔مجھے تو یہ ہمیشہ چمکتی ہوئی پسند ہیں۔۔ وہ چمک جو بس مجھے دیکھ کر ان میں آتی ہے۔۔۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا۔۔ اور اس کی آنکھوں پر اس نے محبت و عقیدت سے لب رکھ دیے تھے۔۔۔
"زیان میں کیا کروں مجھے جب بھی وہ یاد آتا ہے خود بخود رو پڑتی ہوں"
کچھ دیر بعد جب زیان کی حرکت کا اثر ختم ہوا تو وہ بےبسی سے بولی تھی۔۔
"میں نے تمہیں کہنے کے بعد ہی اپنے الفاظ کی گہرائی محسوس کر کے شرمندہ ہو گیا تھا۔۔ مگر کبھی تم سے معافی مانگنے کی ہمت نہیں کر پایا تھا۔۔ ہم انسان بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں نا۔۔ ان ذرا سی بات پر دوسرے کی اچھائیوں کو پس پشت ڈال کر اس کی ذات پر کیچر اچھالتے ہیں۔۔"
زیان نے کہا تھا۔
"خیر چھوڑو ان باتوں کو"
عنایہ نے مسکرا کر کہا تھا۔۔
"ہاں چلو محبت بھری باتیں کرتے ہیں آج"
وہ شریر ہوا تھا۔
"کتنوں سے محبت کی ہے اب تک جناب آپ نے؟"
وہ اسے گھورتے ہوئے بولی تھی۔
"عنایہ قسم لے لو تم ہی میری پہلی محبت ہو"
وہ اسے وضاحت دیتے ہوئے بولا تھا۔۔
"اور آخری کے بارے میں کیا خیال ہے جناب کا؟"
وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولی تھی۔
"ویل اس کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتے"
وہ شرارت سے بولا تھا۔۔
"زیان"
وہ بے یقینی سے چیخی تھی۔۔
"اچھا اچھا مذاق کر رہا تھا۔۔"
وہ ہنستے ہوئے بولا تھا۔۔عنایہ بھی اس کی شرارت جان کے مسکرا دی تھی۔۔
"ویسے زیان"
عنایہ نے اسے پکارا تھا۔
"جی میری جان"
اس نے بے پناہ محبت لہجے میں سموئے کہا تھا۔
"ان کو کیسے پتا تھا کے ہاں ہو جانی ہے دیکھو نا کیسے مسہری بھی سجائی ہوئی ہے"
عنایہ نے اس کی توجہ کمرے کی ڈیکوریشن کی طرف کروائی تھی جسے بلا شبہ بڑی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔۔
"یہ ہم دونوں نے آج ایک دوسرے کو اپنا حالِ دل سنایا ہے ورنہ باقی سب گھر والوں کو دونوں کا حال کب سے پتا ہے"
وہ ہنستے ہوئے اسے آگاہ کر رہا تھا۔
"کیا سچ میں؟"
"ہاں"
وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا۔۔
"اوکے اب ہاتھ تو چھوڑ دو"
عنایہ نے کہا تھا۔۔
"ہاتھ چھوڑنے کے لیے نہیں تھامے جاتے"
"افو زیان میں نے چینج کرنا ہے میں بہت تھک گئی ہوں۔۔تم اپنے ڈائلاگ بعد کے لیے رکھ لو"
وہ اس سے اپنے ہاتھ چھڑوانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔۔
"بعد کے لیے ڈائلاگ نہیں کچھ اور ہے مسز زیان احمد"
وہ ذو معنی بات کہہ کر واشروم میں چلا گیا تھا جب کے عنایہ شرما گئی تھی۔۔عنایہ آگے بڑھ کے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہوئی تھی اس نے پہلے ہاتھوں پر پہنی ہوئی چوڑیاں اور بریسلٹ اتاری تھی۔۔ پھر ایک ایک کر کے اپنے حجاب کی پنز اتارنے لگی تھی۔۔اسے دھیان ہی نہیں رہا کب زیان بھی واشروم سے نکل آیا ہے اور اسے ہی محویت اور محبت سے تکی جا رہا ہے۔۔ ایک آخری پن اترنے کی دیر تھی عنایہ کی خوبصورت ہلکے براؤن بالوں کی آبشار اس کی کمر پر گری تھی۔۔ اس کے بال دیکھنے میں ہی بلکل سیدھے اور ملائم تھے۔ زیان نے پہلی مرتبہ اس کے بال دیکھے تھے۔۔ وہ تو بس جہاں کھڑا تھا وہیں کھڑا رہ گیا تھا۔۔
"کیا ہوا؟"
عنایہ نے شیشے میں زیان کا عکس دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔زیان اس کے قریب چلا آیا تھا
"تم تو میرے تصور سے بھی زیادہ حسین ہو"
وہ خمار لہجے میں بولا تھا۔عنایہ وہیں ٹکی رہی تھی۔
"جانتی ہو میں اکثر سوچا کرتا تھا کے تم حجاب کے بغیر کیسی لگتی ہو گی۔۔۔ پر آج میں نے جب دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔۔۔ واقعی عنایہ تم بہت انمول لڑکی ہو۔۔"
وہ اسے پیار سے دیکھتے ہوئے بولا تھا۔اور بات مکمل کر کے اس نے عنایہ کو اپنی طرف موڑ کر اس کے ماتھے پر مہر محبت سبط کی تھی۔۔ وہ تو خوشی سے سرشار ہی ہو گئی تھی۔۔
"زیان آئی لو یو"
وہ اظہار کر کے شرما کر اس کے سینے سے لگ گئی تھی۔۔زیان نے مسکرا کر اس حسین لڑکی کو دیکھا تھا۔۔ جو پہلے اس کی کمزوری تھی مگر اب طاقت بن گئی تھی۔۔
"آئی لو یو ٹو ہنی"
اس نے بھی مسکرا کر اسے اپنی محبت بھری بانہوں کے حصار میں لے لیا تھا۔۔۔۔
محبت کی کہانیاں یہیں پے ختم ہیں
دو دل مل کر شروع کرتے سفر ہیں
کئی زخم کھاکے کئی روگ لے کے
ملتا اسے ہے جو سہتے ہر ستم ہیں
بنا کچھ بولے لبوں کو کھولے
حالِ دل کو وہ جان لیتے ہیں
نیا دور چلتا ہے تب جا کر کہیں
اسیر محبت کو جب آزما لیتے ہیں
فضا جھوم جائے بلبل گیت گائیں
شکرانے رحمت کی آئیں گھڑیاں ہیں
رگوں میں چاہتیں جب رواں ہوجاتی ہیں
کہانی کے سبھی کردار امر ہو جاتے ہیں
(از عائشے گل)
ختم شد
ِہر کہانی کی طرح اس ناول میں بھی کئی سینز اور باتیں آپ کو یوں لگی ہوں گیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔پر میرے خیال سے ناولز کی دنیا ہی ایک ایسی دنیا ہوتی ہے جہاں انسان اپنی حقیقی زندگی کی تلخیوں کو کچھ دیر تک فراموش کر دیتا ہے۔۔اور ناول کے کرداروں کے ساتھ ہنستا ہے۔۔ مسکراتا ہے۔۔رو بھی پڑتا ہے۔۔ بعض دفعہ اسے کرداروں پر غصہ بھی آتا ہے۔۔ پر آخر میں اچھا ناول ختم کرنے پر اداس ہو جاتا ہے۔۔ اگر میری کسی بھی بات سے آپ کے دل کو ٹھیس پہنچی ہو تو میں معضرت کرتی ہوں۔۔
آپ سے پھر ملیں گیں ایک نئی کہانی کے ساتھ ایک نئے سفر پر۔۔ تب تک کے لیے خوش رہیں۔۔مجھے اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیےگا♥♥
زوہا آصف
Fb @zohaasifnovels
Insta @zoha_asif_novels
Wattpad @zohaasif_novels

حالِ دل کہوں کیسے (COMPLETED)Where stories live. Discover now