Episode#21

2K 122 27
                                    

"نکاح شروع کریں؟"
جمیلہ بیگم نے نم آنکھوں سے پوچھا تھا۔
دانی اور بلال نے آنکھیں صاف کر کے لبوں پے مسکراہٹ لیے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
نکاح کے دستخط کرتے ہوئے ہاتھ کامپنا ایک فطری عمل ہے۔ سائن کرنے میں لگتے تو چند سیکنڈز ہیں لیکن ان کچھ لمحات میں آپ کی پوری زندگی بدل کے رہ جاتی ہے۔ بچپن سے لے کر جوانی تک کی کتنی ہی خوبصورت یادیں اس کے ذہن میں گردش کر رہی تھیں۔ ایسے موقع پر بکھرے ہوئے اور بچھڑے ہوئے اپنے بہت یاد آتے ہیں۔ اس کی زندگی کے کتنے خوبصورت پل اسے یاد آئے تھے۔
"سائن کرو بیٹا"
سوچوں کا تسلسل ٹوٹا تھا۔ وہ ہوش کی دنیا میں واپس لوٹی تھی۔ ہاتھ اسکے بھی کامپ رہے تھے۔ حقدار بدلنے والا تھا۔ وہ کسی کی ہونے والی تھی۔ کسی کو اپنی ذات کے تمام حقوق دے دینے والی تھی۔ سائن کرتے ہوئے آنسو خاموشی سے اس کی آنکھوں سے بہے تھے۔ ایک زخمی سی مسکراہٹ تھی اس کے ہونٹوں پر۔
"مبارک ہو میری جان"
سحرش نے اس کو اپنے ساتھ لگایا تھا بلال نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس کے بڑے بھائی ہونے کا ثبوت دیا تھا۔
اس نے اپنے مضبوط مردانہ ہاتھوں سے پین کو تھاما تھا۔ بلال نے اس کے کندھے پر ہاتھ سے دباؤ ڈال کر اسے حوصلہ دیا تھا۔ دانیال نے ایک نظر دروازے کو دیکھا تھا مگر وہ جس شخص کا منتظر تھا وہ تو اس کے نازک جذبات کی قدر ہی نہیں کرتا تھا اس لیے تو اسے اپنا منتظر چھوڑ گیا تھا۔سر جھٹک کر اس نے بھی نم آنکھوں سے سائن کر دیے تھے۔ ایک جاندار مسکراہٹ نے اس کے خوبصورتی سے تراشے ہوئے ہونٹوں کا احاطہ کیا تھا۔
"مبارک ہو بھائی"
بلال نے خوشی سے کہا تھا وہ اٹھ کر اس کے گلے لگا تھا۔ اور پھر دانیال نے شرارت سے بلال کا گال چوم ڈالا تھا۔
"یہ کیا کیا ہے کمینے؟"
وہ اس کے کان کے قریب ہو کر پوچھ رہا تھا۔ دانی کی اس حرکت پر سب لوگ مسکرا دیے تھے۔
"فیل نہیں ہوا دوبارہ کروں؟"
دانی نے شوخی سے اپنی گرے آنکھیں گھمائی تھیں۔
"بیٹا آج معاف کر رہا ہوں خاص دن ہے تیرا کل پوچھوں گا تجھے"
وہ اپنا گال زور سے رگڑ کر بولا تھا۔
"جی بھیا اور کچھ"
اس پر ذرا برابر اثر نہیں ہوا تھا۔
"تجھ میں سدھرنے والے جراثیم ہی نہیں ہیں دانی۔ تو بچپن سے ایسا ہی ہے"
"بھائی ہوں گیں بھی کیسے میں ڈیٹول سے نہاتا ہوں روز"
"اففف"
اس کی حاضر جوابی پر وہ جھلا کر رہ گیا تھا۔ اور وہاں سے کھسکنے میں ہی اپنی عافیت جانی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بیٹا ایسا کیسے؟"
دانی کو کمرے میں جاتا دیکھ کر سحرش اور اس کی ایک دو کزنز بھاگ کر آئی تھیں۔سحرش نے ایک ہاتھ کمر پر اور دوسرا اس کے آگے کیا تھا۔
"کیا بھابھی آج بھی سکون نہیں ہے آپ کو؟"
وہ مہوش سے ملنے کو بیچین تھا اور یہ اس کی بھابھی اتنی آسانی سے کیسے ہونے دے سکتی تھی۔
"نہیں دیور جی مجھے سکون نہیں ہے۔ پیسے نکالو پہلے"
اسے ستاتے ہوئے بولی تھی۔
"کتنے پیسے چاہیےفقیرنی بھابھی"
"ہو ہائے تم نے مجھے فقیرنی کہا"
وہ پورا منہ کھولے شاک میں بولی تھی
"پہلی دفع میں سہی سنا نہیں گیا کیا پیاری بھابھی؟"
وہ لبوں پے شرارتی مسکراہٹ لیے ابرو اچکاتے ہوئے گویا ہوا۔
"اب سنا گیا ہے"
وہ مسکراتے ہوئے بولی تھی۔
"کیا؟"
دانی حیرت زدہ رہ گیا تھا۔
"یہی کے تم نے مجھے پیاری بھابھی کہا"
وہ ہنس پڑی تھی۔ جب کے دانی ابھی تک اس کی بات سمجھ نہیں سکا تھا۔
"اچھا کتنے پیسے چاہیے آپ کو؟"
اس سے اب مزید صبر نہیں ہو رہا تھا۔
"یہی کوئی دس ہزار"
"کیا اتنے سارے؟؟ اس سے اچھا ہے کے میں اندر جاؤں ہی نا آ جاؤ وشی میں ہوٹل میں روم بک کروا لیتا ہوں وہاں چلتے ہیں۔  کم از کم دس ہزار تو نہیں لگیں گیں وہاں"
وہ بھی کہاں پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھا۔
"نہیں نہیں۔اچھا چلو پھر تم پانچ ہزار ہی دے دو"
سحرش منہ پھلا کر بولی تھی۔
"ویسے دینے تو میں نے اتنے بھی نہیں تھے پر بھیا آج میری کُٹ نا لگا دیں اس لیے دے رہا ہوں یہ لیں"
اس کی بات پر سحرش ہنس دی تھی۔ ساتھ ہی دانی نے اپنے وولٹ سے پانچ ہزار کا نوٹ نکال کر اس کے حوالے کر دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر اس کی دل کی دنیا میں ایک ہلچل سی مچی تھی۔ دھڑکنوں کا شور اٹھا تھا۔ دماغ میں بھی بس ایک ہی شخص چھایا ہوا تھا۔ تمام سوچوں کا مرکز اس کے ہمسفر کی ذات تھی جو کمرے میں داخل ہو چکا تھا۔
"مہوش"
اس نے بہت دلنشیں آواز میں اس کا نام پکارا تھا۔
"جی"
وہ گھبراتے ہوئے بولی تھی۔ ایک بے نام سی بیچینی اور بے قراری نے اسے گھیرا ہوا تھا۔
"تمہاری بہن نے لوٹ لیا مجھے لوٹیری کہیں کی"
وہ منہ پھولاۓ بولا تھا۔ وہ تو شاید کچھ اور ہی توقع کر رہی تھی پر آج تک دانی نے سب کے توقع کے برعکس ہی کام سر انجام دیے تھے۔ ایک اور بار سہی۔
"تم نے میری بہن کو لوٹیری کہا"
اس نے گھور کر دانی کو دیکھا تھا۔
"ہاں تو اور کیا کہوں اسی پیسوں سے تمہیں میں نے منہ دکھائی کا گفٹ دینا تھا"
وہ لہجے کو حد درجہ غمگین بناتے ہوئے بولا تھا۔
"تم نے بس مجھے پانچ ہزار کا گفٹ دینا تھا؟"
وہ غصے سے پوچھ رہی تھی۔ اس کی سرخ و سفید چہرے پر غصہ اتنا حسین لگ رہا تھا کے مسکراہٹ خود بخود دانی کے ہونٹوں پر رخص کر رہی تھی۔
"تمہارے لیے تو گفٹ میں نے بہت پہلے لے لیا تھا میری جان"
اس کا لہجہ اس کے جذبوں کی شدت بتا رہا تھا۔
"تو دو مجھے اتنی دیر کیوں لگا رہے ہو؟"
وہ غصے سے بولی تھی۔
"یہ لو بھئی تم آج بھی لڑنا مت چھوڑنا"
وہ خفا خفا سا بولا تھا۔ جس پر مہوش مسکرائی تھی۔ دانی نے اپنی پاکٹ سے ایک مخملی ڈبی نکالی تھی۔ اور مہوش کا ہاتھ تھام کر اسے پکڑا دی تھی۔ مہوش نے جلدی سے اسے کھولا تھا جیسے اسے ڈر ہو کے کہیں دانی واپس ہی نا لے لے۔ دانی کے ارادوں کا کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا نا۔ ڈبی کے اندر ایک انگھوٹی چمک رہی تھی۔ انگھوٹی سونے کی تھی اور اس کے درمیان میں ایک چھوٹا سا ہیرے کا نگ لگا ہوا تھا۔ وہ اتنی خوبصورتی سے بنائی گئی تھی کے مہوش کتنی ہی دیر تک اس انگھوٹی کو دیکھتی رہی تھی۔ اسے الفاظ نہیں مل رہے تھے کے وہ کیسے دانی کے اس تحفے کا شکریہ ادا کر سکے۔
"دانیال"
اس کے لب دھیرے سے ہلے تھے۔
"شکریہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے تمھیں"
وہ وارفتگی سے اسے تک رہا تھا۔ اور بڑے پیار سے انگھوٹی نکال کر اس کے ہاتھ کی انگلی میں سجا دی تھی۔
"دانی میں تمہیں کچھ بتانا چاہتی ہوں۔"
مہوش نے نرمی اور عقیدت سے دانی کے دونوں ہاتھ تھامے تھے۔ وہ اب اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"مجھے پچھلے کچھ دنوں میں خود سے بھی پیار ہو گیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کے میں بہت نازک اور انمول انسان ہوں جس سے اتنے لوگ محبت کرتے ہیں خیال رکھتے ہیں اور ان سارے احساسات سے مجھے مانوس کرنے والے تم ہو  دانیال صرف تم۔ تم وہ پہلے مرد ہو جس کی محبت میں اپنے دل میں محسوس کی تھی۔ پہلے پہل میں اپنے دل میں موجود تمہارے لیے ان جذبات و احساسات کو کوئی نام نہیں دے سکی تھی پر مجھے بعد میں احساس ہوا کے یہ تو محبت تھی جو وقت کے ساتھ میرے دل میں پروان چڑھتی جا رہی تھی۔ وہ تمہاری محبت تھی تمہارے لیے محبت تھی۔ پر ایک نا محرم کی محبت اپنے دل میں پا کر میں رب کے حضور بہت شرمندہ تھی۔ لیکن پھر میرے دل میں ایک خیال آیا۔۔ کہ جب ایک چھوٹا سا پتا بھی خدا کی رضا کے بغیر  ہل نہیں سکتا تو یہ کیسے ممکن ہے کے ہمارے دل میں کسی شخص کے لیے جذبات جنم لیں اور ہمہارے خدا کو خبر تک نا ہو۔ ایسا ہر گز نہیں ہوتا ہو ہی نہیں سکتا۔ ہمارے دلوں میں مچلنے والے جذبات بھی خدا کی طرف سے ہی ہوتے ہیں۔ لہذا ان کا احترم کرنا ہمارا فرض ہے۔ پر جذبات کی رو میں بہہ کر غلط قدم اٹھا لینا ہمیں زیب نہیں دیتا۔ جذبات جتنے پاکیزہ ہوں اتنے ہی شدت کے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس لیے میں نے بھی تمہارے لیے اپنی محبت کے جذبات کو پاکیزہ رکھا ہر حد تک۔ خدا سے نا محرم کو نہیں مانگا بلکہ اس نا محرم کے محرم ہو جانے کی دعا ضرور کی ہے۔ اور دیکھو اسی لیے شاید تم آج میرے ساتھ ہو میرے سامنے ہو میرے محرم ہو۔ خدا بہت مہربان ہے وہ ہمیں وہ نہیں عطا کرتا جو ہمیں بہتر لگتا ہے بلکہ وہ عطا کرتا ہے جو حقیقت میں ہمارے لیے بہترین ہوتا ہے۔ وہ ہمیں بہتر نہیں بہترین سے نوازتا ہے اور ہم اس کا شکر بھی ادا نہیں کرتے ہیں ہم کتنے ناشکرے ہیں نا دانی۔ پر میں نے خود کی اصلاح کی ہے دانی تم بھی تو میرے لیے خدا کی خاص نعمت ہو جسے میں نے چاہا اسے پا لیا۔ مامو جان کی وجہ سے پہلے تو مجھے لگا تھا کے شاید میری دعائیں کبھی قبول نہیں ہوں گی پر میں غلط تھی۔"
وہ دھیرے دھیرے اپنے دل پے گزر جانے والے سارے حالات اپنی محبت کو سنا رہی تھی۔ وہ بھی بت بنا اس کے جذبات کی گہرائی اور سچائی سن رہا تھا۔ ایک دم سے ہی اسے بہت ساری خوشیوں نے آ گھیرا تھا
"وشی میری جان خدا نے جب ہمارا ملنا لکھا تھا تو بھلا یہ کوئی بھی کیسے اس عمل کو روک سکتا تھا۔ جب خدا کسی کو کچھ دینے کا ارادہ کرتا ہے تو کون سی شے ہے جو اس راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ بلکل اسی طرح جب اللّه کسی سے کچھ لے لیتا ہے تو چاہے ساری دنیا مل کر ہی کوشش کر لے کوئی اسے وہ چیز نہیں دلا سکتی پر اگر خدا ہم سے کچھ لے لیتا ہے تو ہمیں اس کے بدلے کچھ عطا بھی کر دیتا ہے۔ پر ہم نادان لوگ سوچتے نہیں ہیں اس بارے میں اور اس میں کہیں نا کہیں ہماری بہتری چھپی ہوتی ہے۔ بس نا شکری کیے جاتے ہیں۔ تمہاری طرح میں نے بھی اپنی اصلاح کر لی ہے اگر اللّه نے میرے باپ کو ہم سب سے دور کر دیا ہے تو ضرور اس کے پیچھے بھی کوئی مصلحت چھپی ہوئی ہے جسے ہم سب سمجھ نہیں سکتے۔اس نے اس کے بدلے میں مجھے تمہارا ساتھ عطا کیا ہے۔ اس کے فیصلوں کے پیچھے چھپی ہوئی مصلحتیں وہی جانتا ہے۔ بس ہمیں ایک بات اپنے پلو سے باندھ لینی چاہیے کے اس دنیا میں ہمارا سب سے بڑا خیرخواہ اللّه تعالیٰ کی ذات ہے۔ وہ ہمیں بہترین سے نوازتا ہے۔ اللّه بے نیاز ہے مہربان ہے۔ وہ ہمارے ساتھ کبھی بھی کچھ بھی غلط کر ہی نہیں سکتا۔"
وہ اپنے ہاتھوں پے رکھے اس کے ہاتھ تھام کر بول رہا تھا۔
" بلکل سہی کہا تم نے"
وہ مسکراتے ہوئے بولی تھی۔
"میں ہمیشہ سہی ہی کہتا ہوں"
وہ گردن اکڑا کر بولا تھا۔
"جھوٹے انسان"
مہوش نے اسے زبان چڑائی تھی۔
"تمھیں تو ابھی بتاتا ہوں بدتمیز"
"ہی ہی بتاؤ گے تب نا جب میں یہاں ہوں گی"
"کیا مطلب؟"
وہ الجھا تھا۔ مہوش نے بڑی چالاکی سے اس کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ  چھڑواۓ تھے اور بھاگ کر کپڑے بدلنے چلی گئی تھی۔ تب جا کر دانیال کو اس کی شرارت سمجھ میں آئی تھی۔
"تم واپس آؤ ذرا پھر بتاتا ہوں"
وہ بھی شوخی سے چلایا تھا۔
"تم سو جاؤ میں جلدی نہیں نکلنے والی اب"
اندر سے آواز آئی تھی جس پر دانی نے زور سے بیڈ سے ایک تکیہ اٹھا کر نیچے پھینکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مہوش کیا ہوا ہے اتنی جلدی میں کیوں بلایا ہے میں آفس سے اتنی مشکل سے لیو لے کر آیا ہوں۔ گھر میں بھی کسی نے بھی نہیں بتایا کیا ہوا ہے جلدی بتاؤ یار میں کب سے اتنا پریشان ہوں تمھارے لیے"
ان کی شادی کو ایک ماہ گزر چکا تھا۔ مہوش اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر کے نظارے دیکھ رہی تھی جب دانیال بھاگا بھاگا کمرے میں آیا تھا ۔ اور پریشانی سے گویا ہوا تھا۔
"دانیال وہ دراصل آپ کے لیے ایک سرپرائز ہے۔"
وہ شرماتے ہوئے بولی تھی۔ چہرے پر حیا کے رنگ امڈ آئے تھے۔
"کیا سرپرائز؟"
اس نے تعجب سے پوچھا تھا آخر  ایسا  کیا سرپرائز تھا جس کی وجہ سے اس نے اسے اتنی ایمرجنسی میں بلایا تھا۔
"وہ آپ نا ۔۔۔"
اس سے کچھ بولا ہی نہیں جا رہا تھا۔ جتنا وہ بولنے میں دیر لگا رہی تھی اتنی ہی دانیال کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی جا رہی تھی۔
"بتا بھی دو وشی"
وہ بے قراری سے بولا تھا۔
"اللّه نے ہماری دعائیں سن لی ہیں اور جلد ہمارے گھر بھی۔۔۔"
وہ اتنا کہہ کر پھر سے شرمانے لگی تھی۔
"کیا جلد؟؟؟"
اس نے دو قدم آگے آ کر مہوش کے ہاتھ تھامے تھے۔
"بہت جلد ہمارے گھر ایک ننھا سا مہمان آنے والا ہے"
شرماتے ہوئے کہہ کر اس نے سر جھکا دیا تھا شرم و حیا آڑے آ رہی تھی۔ آج صبح سے ہی اس کی طبیعت کچھ ناساز تھی سحرش اور بلال اسے فوراً گھر کے پاس ایک کلینک لے گئے تھے۔ ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد انہیں خوشخبری سنائی تھی۔دانیال کافی دیر  تک گم سم سا کھڑا تھا۔ اسے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کے کیا کہے کس قسم کا اظہار کرے۔ خوشی اتنی زیادہ تھی کے سمبھالی نہیں جا رہی تھی۔
"سچ میں تم سچ کہہ رہی ہو؟"
دانیال نے ایسے انداز میں پوچھا تھا جیسے ابھی ابھی جو بات اس نے سنی ہے اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔
"ہاں بلکل سچ"
دانیال نے گہری مسکراہٹ لئے اپنی محبت اپنے محرم کو دیکھا تھا جس کے وسیلے سے آج اسے اتنی بڑی خوشی ملی تھی۔ اور محبت و عقیدت سے اس کی پیشانی چومی تھی۔ مہوش کے آ جانے سے اس کی زندگی پھر سے خوشیوں سے بھر گئی تھی۔ مہوش نے بڑی خوبصورتی سے اس کی زندگی میں خوشیوں کے رنگ بھرے تھے۔ اس کے سارے درد سمیٹ لیے تھے۔
"اوہ ہیرو چل گاڑی نکال ہمیں پارٹی چاہیے"
اسی لمحے ان کے روم میں بلال اور سحرش کی دھماکے دار انٹری ہوئی تھی۔ وہ دونوں ایک دم سمبھلے تھے اور  تھوڑے فاصلے پر کھڑے ہوئے تھے۔
"چلیں بھیا"
وہ مسکرا کر آفر کر رہا تھا۔
"واہ بھئی آج تو مزاج ہی بدلے ہوئے ہیں"
سحرش نے ستائشی انداز میں مہوش کو کوہنی ماڑی تھی۔
"آپی!!!! "
وہ شرما کر سحرش کے گلے لگی تھی۔ ان دونوں کو ایسے دیکھ کر بلال اور دانیال بھی مسکرا اٹھے تھے۔
"چلو چلیں"
بلال نے ان کی توجہ اپنی جانب کی تھی۔
"چلیں"
وہ دونوں بھی مسکراتے ہوئے ان کے پیچھے چل دی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نو ماہ کا عرصہ پڑ لگا کر اڑ گیا تھا۔ اس تمام عرصے میں سب گھر والوں نے خصوصاً دانیال نے مہوش کا بہت خیال رکھا تھا۔ آج بھی ایک سنہرا دن تھا۔ سحرش دھونے والے کپڑے لیے واشنگ مشین کی جانب قدم اٹھاتی جا رہی تھی جب اسے مہوش کے کمرے سے اپنا نام چیختے ہوئے سنائی دیا۔وہ کپڑے وہیں پھینک کر اس کے کمرے میں بڑھی تھی۔
"کیا بات ہے مہوش؟"
اسے اپنے تجربے سے اندازہ ہو گیا تھا کے اب وقت آ گیا ہے۔ اس نے فوراً دانی اور بلال کو فون کر کے گھر بلایا تھا۔ اور وہ سب ہسپتال کے لیے نکل گئے تھے۔۔ جمیلہ بیگم ان سب کے زور لگانے پر زیان کے ساتھ گھر پر رکی تھیں۔انہیں کیا خبر تھی کہ وہ اپنے بچوں کو آخری بار یوں سہی سلامت دیکھ رہی ہیں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Follow me on instagram guys💕
"@zoha_asif_novels"

حالِ دل کہوں کیسے (COMPLETED)Where stories live. Discover now