Episode#8

2.9K 153 27
                                    

آہستہ آہستہ سورج کی روشنی بادلوں کو چیرتے ہوئے زمین پر پڑتی جا رہی تھی۔  اندھیرا بھی دھیرے دھیرے ہٹتا جا رہا تھا۔ نیم اندھیرے اور اجالے کا منظر بہت دلنشیں تھا۔  ایسے میں چار لوگ گاڑی سے اترے تھے۔ ان سبھی کے چہروں پر تھکن کے آثار صاف ظاہر تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے بہت لمبی مسافت سے تھک ہار کر یہاں تک پہنچے ہوں۔ ان میں دو لڑکیاں اور دو لڑکے شامل تھے۔ لڑکیوں نے اپنے ہاتھ میں ہینڈ بیگز پکڑ رکھے تھے۔ لڑکیاں آگے بنی خوبصورت بڑی سی  عمارت کی طرف چل دیں۔ جب کے پیچھے سے دونوں لڑکے اپنے ساتھ ساتھ ان دونوں لڑکیوں کا بھی سامان سمبھالتے ہوئے اندر کی جانب بڑھ رہے تھے۔
انہوں نے  ایک اپارٹمنٹ اپنے یہاں آنے سے پہلے ہی بک کروا  لیا تھا۔ بک کروانا کوئی اتنا بڑا مسلہ بھی نہیں تھا کیوں کے ریاض احمد کام کے سلسلے میں یہاں آتے جاتے رہتے تھے۔ جدید طرز کا بنا یہ اپارٹمنٹ بہت خوبصورت تھا۔ اس کی آرائش دیکھنے والے کو مبہوت کر دیتی تھی۔  یہ عوام الناس کے لیے رینٹ پر ہر گز نہیں دیا جاتا تھا۔ یہاں آنے والے وی آئی پی سے ہر گز کم تصور نہیں کے جاتے تھے۔ اپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہی چھوٹی سی راہداری تھی۔دائیں جانب کو ایک اوپن کچن بنا ہوا تھا جو ہر طرح کی جدید سہولیات سے آراستہ تھا۔ کچن کے آگے ہی دو بیڈ رومز بنے ہوئے تھے۔ ان کی خوبصورتی اور سجاوٹ بھی قابلِ ستائش تھی۔ کمروں اور کچن کے آگے کھلا سا لاؤنج بنایا گیا تھا۔ لاؤنج میں سوفہ سیٹ رکھا گیا تھا جس سے لاؤنج کی خوبصورتی مزید دوبالا ہو گئی تھی۔ عنایہ اور زرشالا منہ کھولے اپارٹمنٹ کا جائزہ لے رہی تھیں جب زیان اور سفیان کی انٹری ہوئی تھی۔
"چلو لڑکیوں بڑی بھوک لگ رہی ہے۔ فوراً کچن میں جاؤ اور کھانے کا کچھ بندو بست کرو۔"
زیان نے آتے ساتھ صوفہ پر نیم دراز ہوتے ھوۓ ادھ کھلی آنکھوں سے ان پر حکم صادر کیا تھا۔
سفیان بھی اس کے ساتھ کچھ ایسی ہی حالت میں لیٹ چکا تھا۔ عنایہ تو ان کو اگنور کر کے سنگل صوفہ پر بیگ رکھ کر بیٹھ چکی تھی۔ پر زرشالا ساری تھکن بھولائے ان کو گھورنے میں مصروف تھی۔
"کیا مطلب ہے تمہارا؟ ہاں؟ تم یہاں ہم پر حکم چلاؤ گے ٹھہر جاؤ ابھی ریاض سر کو فون ملاتی ہوں۔"
اس کی بات سن کر سفیان نے بمشکل آنکھیں کھول کر اسے دیکھا تھا۔
"ریاض سر کو بتاؤ گی کیسے؟"
اس نے ہونٹوں پے شریر مسکراہٹ سجاۓ  کہا تھا۔
"ابھی تمہارے سامنے بتاتی ہوں انہیں دیکھنا تم۔"
ان دونوں کی گفتگو  کے دوران عنایہ اور زیان خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے یا پھر شاید دونوں ان کی گفتگو سن ہی نہیں رہے تھے۔
عنایہ نے بھی سر صوفہ کی بیک پے ٹکایا ہوا تھا اور آنکھیں بند کی ہوئی تھیں۔
"ہاں ہاں کرو کرو۔"
سفیان نے اسے اور اکسایا تھا۔ زرشالا نے اسے گھورنے کے بعد ریاض حمد کو فون ملایا تھا پر افسوس فون لگ ہی نہیں رہا تھا اور لگ بھی کیسے سکتا تھا۔
"ہاں پھر ہو گئی بات؟"
سفیان نے اسے مزید چڑانے کے لیے ایسا کہا تھا۔
جس پر زرشالا نے صوفہ پر رکھا پلو اس کو کھینچ کر مارا تھا۔
"زیان اٹھ۔"
اس نے تقریباً سوتے ہوئے زیان کو جھنجھوڑ ڈالا تھا۔وہ ہڑبڑا کر آنکھیں ملتے ہوئے انہیں دیکھ رہا تھا۔
"کیا ہوا ہے اب؟"
زیان غنودگی میں بولا تھا
"زیان دیکھو نہ ریاض سر کو کال بھی نہیں جا رہی جب کے میں نے یہاں آنے سے پہلے ہی بیلنس کروایا تھا۔"
زیان نے اسے ایسے دیکھا تھا جیسے کھوج رہا ہو اس کے اوپر والے پورشن میں دماغ نامی چیز موجود بھی ہے یا نہیں۔
"اف زرشی تم اپنا دماغ بھی کبھی استمال کر لیا کرو۔  پاکستانی سم یہاں دبئی میں کیسے چلے گی؟ حد کرتی ہو تم بھی"
عنایہ بھی ان کی اونچی آواز کی وجہ سے اٹھ بیٹھی تھی۔
"اوہ ہاں یہ تو میرے دماغ میں ہی نہیں آیا۔"
اس نے سمجھتے ہوئے سر ہلایا تھا۔
"دماغ ہوگا تو آئے گا نہ"
سفیان اسے کہہ کر رکا نہیں تھا اس نے ایک بیڈروم کی جانب دوڑ لگا دی تھی۔زرشالا نے اس کی جانب ایک پلو اچھالا تھا پر وہ پلو دروازے سے ٹکرا گیا تھا کیوں نے سفی نے پہلے ہی اندر جا کر دروازہ بند کر دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اٹھ جاؤ لڑکی کب سے اٹھا رہی ہوں میں تمہیں۔"
عنایہ نے اب کی بار زچ ہوتے ھوۓ کہا تھا۔ وہ کب سے زرشالا کو اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی  مگر بے سود۔ وہ تو جیسے گدھے گھوڑے سارا کچھ ہی بیچ کر سو گئی تھی۔ اور اب اٹھنے کا نام بھی نہیں لے رہی تھی۔ عنایہ نے تنگ آ کر سائیڈ ٹیبل پر رکھا پانی سے لبالب بھرا جگ اس کے اپر الٹ دیا تھا۔
"بچاؤ بچاؤ میں سمندر میں ڈوب رہی ہوں۔بچاؤ مجھے کوئی تو بچاؤ۔"
"لو جی اوور ایکٹنگ شروع ہو گئی اس کی
زرشی اٹھ جاؤ کونسے سمندر میں ڈوب رہی ہو تم"
عنایہ اب اس کی حرکتوں سے مکمل بیزار ہو گئی تھی۔  اس لیے اس کے اوپر سے کمبل اتار کر اسے ہوش کی دنیا میں واپس لائی تھی۔
"یار کیا ہو گیا ہے سونے بھی نہیں دیتی تم مجھے"
"ٹائم دیکھو کیا ہو رہا ہے۔میں نے فجر کی نماز پڑھ لی ہے تم نے نہیں پڑھنی کیا اٹھ جاؤ۔کوئی بھی نہیں اٹھا اب تک تم تینوں میں سے"
"اچھا"
وہ اتنا کہ کر دوبارہ کمبل میں گھس گئی تھی۔
عنایہ اسے ایسے ہی چھوڑ کر باہر لاؤنج میں آ گئی تھی۔ کچھ ہی سیکنڈز بعد زیان بھی بلکل فریش نک سک تیار ہو کر باہر نکلا تھا۔بلیک کلر کا  ٹراؤزر اور لوز سی گرین کلر کی ٹی شرٹ پہنے وہ بہت خوبرو لگ رہا تھا۔ پاؤں میں جوگرز پہن رکھے تھے۔ بالوں کو اچھی طرح سیٹ کیے آج اس نے چشمہ نہیں لگایا تھا۔  ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ابھی کہیں جانے کے لیے تیار ہو۔  عنایہ کو وہاں پہلے سے موجود دیکھ کر حیران ہوا تھا۔
"تم یہاں؟ اتنی جلدی اٹھ گئی؟"
"جی وہ نماز پڑھ کے نیند نہیں آتی اس لیے۔ آپ کہیں جا رہے ہیں؟"
عنایہ نے اس سے پوچھا تھا۔
"ہاں وہ یہاں پاس میں ہی ایک بہت بڑا پارک ہے وہیں جا رہا ہوں جوگنگ کرنے۔"
وہ کہہ کر گیا نہیں تھا وہیں رک گیا تھا۔ شاید دل میں شدت سے جنم لیتی خواہش کو لبوں تک رسائی دینا چاہتا تھا۔پر ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔  کچھ یہی حال عنایہ کا بھی تھا پر اپنے منہ سے اس کے ساتھ چلنے کا کہنا اسے معیوب لگ رہا تھا۔  کیسے کہوں یا نا کہوں کے درمیان دل اور دماغ کی جنگ میں دونوں وہیں کھڑے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ تبھی ایک ہی لمحے میں دونوں نے اپنی اپنی خواہش کو لفظوں میں بیان کیا تھا۔ ایک نے سوال کیا تھا دوسرے نے جواب دیا تھا۔
"میں بھی چلوں آپ کے ساتھ؟"
"تم بھی چلو میرے ساتھ؟؟"
دونوں ہی اپنی اپنی بات کے ایک ہی مفہوم پر ہنس دیے تھے۔ دونوں ہی تنہائی کی وجہ سے دوسرے کا ساتھ چاہتے تھے۔ تھوڑے دیر کے لیے ہی سہی پر دونوں ایک ہی چاہ کر رہے تھے۔
"اوکے دو منٹ رکیں میں ریڈی ہو کر آتی ہوں۔"
زیان نے سر ہلا دیا تھا۔ اور وہیں صوفہ پر بیٹھ گیا تھا اسے  فیس بک پر پڑھا ہوا لطیفہ یاد آیا تھا۔
"عورتوں کا دو منٹ میں ریڈی ہو کر آنا سب سے بڑا جھوٹ اور مذاق ہے۔"
چلو آج ہم بھی دیکھ لیتے ہیں۔ کیا سچائی ہے اس بات میں وہ سوچتے ھوۓ ہنس دیا تھا۔ پورے دو منٹ کے بعد ہی اسے عنایا آتی ہوئی دکھائی دی تھی۔ پیچ کلر کا گھٹنوں تک آتا ہوا کرتا اور ساتھ بلیک کیپری میں وہ بےپناہ حسین لگ رہی تھی۔ پاؤں کو کینوس شوز میں قید کیے اور سر پر بلیک ہی کلر کا حجاب اوڑھے وہ باہر جانے کے لیے تیار کھڑی تھی۔ حجاب اس نے پہلے بھی لیا ہوا تھا۔ نماز کے بعد اس نے کھولا ہی نہیں تھا۔ پر اب پنز کے ساتھ سیٹ کر کے باہر آئی تھی۔ وہ پورے دو منٹ میں باہر آئی تھی۔ جس پر زیان بہت تعجب سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"کیا ہوا؟  کیا ٹھیک نہیں لگ رہی؟"
اپنی طرف زیان کو یوں دیکھتے ھوۓ وہ پریشن ہو گئی تھی۔
"نہیں نہیں بلکل پرفیکٹ لگ رہی ہیں۔ چلیں؟"
عنایہ نے مدھم مسکراہٹ کے ساتھ سر اقرار میں ہلایا تھا۔اور دونوں باہر کی جانب چل دیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آپ کو کیسے پتا یہاں پارک ہے؟"
وہ قدم بہ قدم ساتھ چلتے ھوۓ ہلکی پھلکی گپ شپ کرتے ھوۓ چہل قدمی کر رہے تھے۔
"لاسٹ ٹائم جب آیا تھا تو کافی جگہ گھوم کر گیا تھا۔اس لیے"
"اوہ " وہ اتنا کہہ کر خاموش ہو گئی تھی۔
ابھی بھی دونوں کے درمیان تکلف اور  جھجھک کی ایک دیوار حائل تھی۔ جس نے وقت کے ساتھ ساتھ خودی ڈھے جانا تھا۔
"تم واک کرتی ہو روز؟"
زیان نے اس سے پوچھا تھا۔
"جی جب تک نانو کو جوڑوں کا مسلہ نہیں تھا ہم دونوں روز صبح فجر  کی نماز کے بعد واک کے لیے جایا کرتے تھے۔پر اب ان سے گھر میں چلنا ہی مشکل ہو گیا ہے اس لیے میں اکیلی بھی نہیں جاتی۔زرشی کے ساتھ جا تو سکتی ہوں مگر وہ اٹھے تو نہ"
اس نے اینڈ پے گندا سا منہ بنایا تھا جسے دیکھ کر زیان کے لبوں پے مسکراہٹ بکھڑی تھی۔
"آپ نے آج گلاسز نہیں لگائیں؟"
"نہیں وہ تو بس میں شوق کی وجہ سے لگاتا ہوں نظر تو الحمداللہ  بلکل ٹھیک ہے میری۔"
عنایہ نے بس سر ہلانے پر اکتفا کیا تھا۔
"ایک بات کہوں مانو گی؟"
وہ اچانک اس کے سامنے آ کر بڑے مان سے پوچھ رہا تھا۔
"جی؟"
"تم مجھے آپ نا کہا کرو۔ قسم سے مجھے اپنے اور دادا کی عمر میں فرق ہی نہیں فیل نہیں ہوتا پھر۔ "
عنایہ اس کی بات سن کر بے ساختہ ہنس دی تھی۔
"ہنس کیوں رہی ہو؟ زرشالا بھی تو مجھے اور سفی کو تم کہہ کر ہی بلاتی ہے تو تم بھی ہمیں ایسے مخاطب کر سکتی ہو"
اس نے ہنسی روک کر اسے دیکھا تھا۔
"ہاہا سفی کو میں بھی تم کہہ کر ہی بلاتی ہوں۔ بس آپ کو آپ کہتی ہوں پر آج اس بات کا پتا چلا آپ کو عزت نہیں راس"
وہ دوبارہ سے بے تحاشا ہنسنے لگی تھی۔ پر اس بار اس کے قہقہہ میں زیان کا قہقہہ بھی شامل تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کہاں گئی  تھی طوطا مینا کی جوڑی "
ان کو اپارٹمنٹ میں داخل ہوتا دیکھ کر سفیان نے وہیں سے بیٹھے بیٹھے آواز لگی تھی۔
"تجھے کیوں بتائیں پاکستان کے سوئے مستقبل؟"
"اوہ ہو بتانے لائک نہیں کے کہاں سے آ رہے ہو۔۔ نو پرابلم"
اس نے ایک آنکھ دباتے ھوۓ کہا تھا۔
جس پر عنایا نے کہا تھا۔
"جب بھی بولنا فضول ہی بولنا تم تو"
"ہی ہی "
عنایہ کے ایسا کہنے پر سفیان نے دانتوں کی نمائش کی تھی۔اور اس کی اس حرکت پے زیان نے اس کے منہ پر ہی مکا رسید کیا تھا۔
"ہائے منہ توڑ  دیا تونے"
وہ کراہتے ھوۓ کہ رہا تھا۔ اسی لمحے دروازہ کھلا تھا اور فریش سی زرشالا لاؤنج میں آئی تھی۔  ان سبھی نے نظریں گھما کر پہلے زرشالا کو دیکھا تھا پھر وال کلاک کو اور پھر سب نے صوفے سے دو دو  پلو اٹھا کر زرشالا کی طرف پھینکے تھے۔ وہ اس افتاد پے حیرت سے انہیں دیکھ رہی تھی۔ پر وہ کہاں باز آنے والی تھی اس نے بھی  سارے پلو ان کی طرف دوبارہ اچھالے تھے۔ اور یہاں ایک جنگ شروع ہوئی تھی جس میں ہتھیار  خنجر اور تلواروں کی بجاۓ پلو تھے۔ اور یہ دنیا کی پہلی جنگ تھی جس میں مخالف دشمن نہیں دوست تھے۔ اور اس میں جانی نقصان کیا کسی کو ہلکی سی کھڑوچ بھی نہیں آئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حالِ دل کہوں کیسے (COMPLETED)Where stories live. Discover now