Episode#6

3K 163 35
                                    

اپنی تمام تر گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے وہ میٹنگ روم کے اندر داخل ہوئی تھی۔ وہاں موجود تمام لوگ اسی کی آمد کے منتظر تھے۔ اس نے ڈائیس پر کھڑے ہو کر لمبا سانس لیا تھا۔ اس کے ذہن میں نانی ماں کے الفاظ گونج رہے تھے۔
"بیٹا وہ اللہ بڑا مہربان ہے۔  وہ کبھی کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا۔ بس اللّه کے بعد اپنی محنت پر یقین رکھنا اور پورے کانفیڈینس سے پریزنٹیشن دینا۔ ہمیشہ یاد رکھنا کے وہ بندے کی محنت کا صلہ جلد یا بدیر دے ہی دیتا ہے۔  جاؤ  اللّه تمھیں کامیاب کرے امین۔"
زیر ِلب بسمللہ پڑھتے ہوئے اس نے پریزنٹیشن کا آغاز کیا تھا۔ وہ اپنی خوبصورت آواز کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بول رہی تھی۔  لب و لہجہ اتنا دل نشین تھا کے لوگ اس کی آواز میں کھوۓ ہوئے تھے۔ ایک سحر سا طاری تھا۔ جب عنایہ کی آواز آنا بند ہو گئی تو وہاں موجود تمام افراد نے تالیاں بجا کر اس کی حوصلہ افزائی کی تھی۔  ریاض احمد نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا انکے لب ستائشی انداز میں کھلے تھے۔
"ویری گڈ مس عنایہ۔ یو مے ہیو سیٹ ناؤ "
وہ سر کو ہلکا سا خم دیتے ہوئے اپنی نشست پر جا بیٹھی تھی۔ اپنا سارا دھیان سینئرز کی گفتگو کی طرف کرتے ہوئے اسکی نظر زیان پر پڑی تھی۔ جو ہلکا سا مسکراتے ہوئے سب سے نظریں چھپا کر اسی کی طرف دیکھنے میں مگن تھا۔ عنایہ نے ایک ابرو اچکاتے ہوئے اسے سوالیہ نظروں  سے دیکھا تھا۔ جیسے پوچھ رہی ہو 
"کیا ہے؟ کیوں ایسے گھور رہے ہو؟"
جواباً اس نے بھی دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کو انگھوٹے سے ملا کر "بہت خوب" کہا تھا۔ عنایہ نے مسکرا کر اس کی تعریف وصول کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"واہ یار آج تو کمال ہی کر ڈالا۔"
زرشی دھڑلے سے اس کے کمرے میں داخل ہوئی تھی۔ عنایہ ابھی تک اس کے آنے کے انداز پر حیران تھی جبھی زرشالا بھاگ کر اس کے گلے لگی تھی۔
"اوہ ہو  زرشی بس کرو کیا چاہیے تمھیں جو اتنا پیار آ رہا ہے؟"
عنایہ نے زبردستی اسے خود سے دور کیا تھا۔ اور گھورتے ہوئے پوچھا تھا۔ وہ یقیناً ایسا ہر گز نا کرتی اگر اس کی نیچر سے بخوبی آگاہ نا ہوتی۔
زرشی نے پہلے تو انتہائی معصوم شکل بناتے ہوئے اس کے سامنے اپنے دانتوں کی نمائش کی تھی پھر اس کے کان کے قریب آ کر بولی تھی۔
"پی سی میں آج رات ڈنر" 
وہ ہنوز چہرے پر معصومیت سجاۓ بولی تھی۔
"شرم کر لو تھوڑی سی۔۔ ابھی اس ماہ کی پے نہیں ملی ہے اور تمھیں ڈنر چاہیے واہ"
وہ خفگی سے بولی تھی۔
'

تم میری خوشی کے لیے اتنا نہیں کر سکتی۔ میں تو تمہارے لیے جان بھی دینے کو تیار ہوں۔ بس کبھی مانگنا مت"
رونی شکل بناۓ وہ بڑی معصومیت سے کہی جا رہی تھی۔ آخری لائن اس نے بہت دھیرے سے کہی تھی۔ پر عنایہ اچھی طرح سن چکی تھی۔
"تم سے کینڈی مانگ لو تو مفلسی کے ایسے ایسے قصے سناتی ہو کے میرے تو کان پک گئے ہیں سن سن کر۔ جان کہیں تم دے ہی نا دو وہ بھی میرے لئے۔ " وہ پھر سے خفگی سے بولی تھی۔
"اف عنایہ کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ آج تو موڈ فریش رکھو۔ " وہ بھی ناراض نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
"پتا نہیں عجیب بیچنی ہو رہی ہے۔"
"کس قسم کی بیچنی؟ "
اس نے بولنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کے اس کے روم میں زیان اور سفیان کی انٹری ہوئی تھی۔
"ہیلو لیڈیز۔"  زیان نے مسکراتے ہوئے کہا تھا جب کے پیچھے سے سفیان نے اس کے لیڈیز کہنے پر بڑی مشکل سے اپنے قہقہے کا گلہ گھونٹا ہوا تھا۔
"کیا کہا زیان بھائی؟  لیڈیز؟ "
زرشالا زیان کو بھائی کہہ کر ہی مخاطب کرتی تھی۔ کیوں کے عنایہ کے گھر نانی ماں کی برتھڈے والی رات وہ اچھے خاصے بے تکلف ہو گئے تھے۔
"کیوں کوئی اعتراض میری چھوٹی بہن کو؟"
عنایہ اور سفیان تعجب سے ان کی گفتگو سن رہے تھے۔  جو بغیر کسی جھجھک کے گفتگو کرنے میں مصروف تھے۔ اور ان دونوں کو مکمل نظر انداز کیے ہوئے تھے۔
"اہم اہم۔۔۔" سفیان نے کھانستے ہوئے ان کی توجہ اپنی طرف کی تھی۔ زیان تو چپ کر کے اسے دیکھنے لگا تھا جب کے لیڈیز اور لڑکیوں میں فرق بتاتی ہوئی زرشالا نے اسے ایک زبردست گھوری سے نوازا تھا۔
"ہاں کیا ہوا؟ پانی چاہیے؟ "
زیان نے لہجے میں  معصومیت سموتے ہوئے کہا تھا۔
"نہیں بھائی ہم بھی ہیں یہاں۔ اور شاید تو یہاں آنے کا مقصد بھول گیا ہے۔"
اس نے زیان کو اپنی موجودگی کا احساس دلایا تھا۔ اور ساتھ ہی اپنے یہاں موجود ہونے کا مقصد یاد کرایا تھا جسے شاید وہ فراموش کر چکا تھا۔  پر یہ صرف سفیان کا وہم تھا۔
عنایہ جو ان اب کو نظر انداز کیے نانی ماں کو آج کی پریزنٹیشن کے بارے میں بتا رہی تھی۔ وہ بھی اب فون بند کر کے ان کی طرف متوجہ ہو چکی تھی۔
"ہاں بھئی عنایہ کیا کھلا رہی ہو ؟ ٹریٹ تو بنتی ہے ناں"
زیان کے اس طرح فرینک ہو کر اسے مخاطب کر کے دیکھنے پر وہ تلملا ہی تو اٹھی تھی۔
"کس بات کی ٹریٹ؟"
وہ انجان بنتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔ جس پر زیان نے ایسی نظروں سے اسے دیکھا تھا جیسے کہہ رہا ہو
"اوہ تو یہ بات ہے ابھی بتاتا ہوں۔"
"جو کل صبح سے لے کر رات تک اپنا آرام سائیڈ پر کر کے تمھیں اتنی تیاری کروائی اس کی ٹریٹ۔ اور آج کو اتنی تالیوں کی آواز میٹنگ روم میں گونج رہی تھیں اس کا آدھے سے زیادہ کریڈٹ تو مجھے جاتا ہے۔"
زیان یہ کہتے ہوئے اس کی کرسی پے بیٹھ چکا تھا۔
"اوہ خوشفہمیاں تو دیکھو اپنی۔  کوئی ٹریٹ نہیں ملنی کسی کو۔"
وہ آنکھیں سکیڑ کر بولی تھی۔
"ہم تو آج لے کر جائیں گیں پھر۔"
سفیان بھی درمیان میں آیا تھا۔ اتنی دیر میں زیان کو میسج رسیو ہوا تھا۔  اس نے سفیان اور زرشالا کو اشارہ کیا تھا جنہوں نے فوراً کمرے سے باہر کی راہ لی تھی ۔ اب کمرے میں صرف زیان اور عنایہ ہی موجود تھے۔  زیان ایک جھٹکے سے کرسی سے اٹھا تھا۔ اور اگلے ہی لمحے وہ عنایہ کے بلکل قریب کھڑا تھا۔ عنایہ کو دو قدم پیچھے ہونا پڑا تھا۔
"کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ؟"
"مجھے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے مس عنایہ احمد ہاں ابھی چند منٹوں میں تمھیں  ضرور مسئلہ ہونے والا ہے۔"
وہ ہونٹوں پے دلکش مسکراہٹ لئے بولا تھا۔
"آپ کی غلط فہمی ہے مسٹر  زیان احمد "
وہ بھی جواب دینے میں ماہر تھی۔ اسکی یہ ادا دیکھ کر زیان کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی تھی۔ عنایہ کی نظر اس کی مسکراہٹ پر ٹک گئی تھی۔  کوئی تو بات تھی اس شخص میں جو وہ اسے اپنی طرف دیکھنے پے مجبور کر دیتا تھا۔ اس کی زندگی میں کوئی مرد نہیں تھا۔ ماں کے ساتھ ساتھ اس کا باپ بھی اس کی پیدائش سے پہلے ہی یہ فانی دنیا چھوڑ کر جا چکا تھا۔ نانی ماں سے جب بھی اس نے ان دونوں کی وفات کے بارے میں پوچھنے کی کوشش کی تھی وہ ہمیشہ اسے یہ کہتے ہوئے ٹال دیتی تھیں۔
"بیٹا انسان کی موت کا وقت مقرر ہوتا ہے۔جتنی سانسیں اللّه نے اس کے نصیب میں لکھی ہوتی ہیں وہ اتنی ہی لے سکتا ہے۔ تم بھی اپنے رب کے فیصلوں پے سر کو جھکا دو۔ اور اس کی رضا میں راضی رہو۔"
وہ بھی ہمیشہ اچھے بچوں کی طرح ان کا کہنا مان کر اپنے ماں باپ کی وفات کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیتی تھی۔ بندے کے پاس گلہ یا شکوہ کرنے کا اختیار بھی کہاں ہوتا ہے۔  اسے تو اس صورتحال سے بھی گزرنا پڑتا ہے جس  کا اس نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔  اور یہ رب کی آزمائش ہی تو ہوتی ہے۔ جو اللّه اپنے پسندیدہ بندوں پر ہی ڈالتا ہے تاکہ وہ مشکل لمحات میں صبر کر کے اللّه کے مزید قریب ہو جائیں۔ یہ آزمائشیں ہی تو ہوتی ہیں جو ہمیں زندگی گزرنے کا ہنر سیکھتی ہیں۔ ہمیں اندر سے مضبوط بنا دیتی ہیں۔  اور ہمارے ایمان کی مضبوطی کا امتحان بن کر آتی ہیں۔
دروازہ کھلنے پر اس کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا تھا اور ساتھ ہی اپنی طرف یک ٹک دیکھتی عنایہ کو دیکھتے ہوئے زیان کو بھی ہوش آیا تھا۔
"لو بھئی تم ٹریٹ دو یا نا دو ہم نے تو لے لی۔"
زرشالا شرارتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ اس کے ہاتھ میں لارج سائز کے پیزا کا ڈبہ تھا اس کے پیچھے سفیان چلا آ رہا تھا اس کے ہاتھ میں کولڈ ڈرنکس موجود تھیں اور ان دونوں کے پیچھے ایک خادم کچھ برتن ٹرالی میں لیے آ رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں وہ عنایہ کی آفس ٹیبل برتنوں سے بڑھ گئی تھی۔  درمیان میں پیزا رکھا گیا تھا جسے عنایہ نے کاٹ کر سرو کرنا تھا۔ زرشالا نے چار گلاس میں کولڈ ڈرنک ڈال دی تھی۔ عنایہ کو ان سب کی یہ حرکتیں مشکوک لگ رہی تھیں۔ اور وہ اچھمبے سے ان سب کو دیکھ رہی تھی۔  جو چہروں پے مسکراہٹ سجاۓ اس ہی کو دیکھ رہے تھے۔
"کیا ہوا اب پیزا کاٹ بھی لو۔ تم نے تو ٹریٹ دینی نہیں تھی اب ہم سب نے کلیکشن کر کے یہ تمہارے لیے منگوایا ہے۔ تمہاری خوشی بھی تو منانی تھی ناں۔۔ "
زیان نے مسکرا کر کہا تھا جس کی آنکھیں آج بے تحاشا چمک رہی تھیں۔  عنایہ  کو کسی انجانے خوف نے آ گھیرا تھا۔پر اس نے اپنے دماغ میں گردش کرتے سارے سوالوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی نشست سمبھالی تھی اور ان سب کی بھرپور تالیوں میں پیزا کاٹ ہی دیا تھا۔  اب سب کو پیزہ پلیٹس میں سرو کر دیا گیا تھا۔ کچھ ہی دیر میں انہوں نے ٹیبل پرموجود ساری کھانے والی چیزوں کا صفایا کر دیا تھا۔
"تھینک یو سو مچ عنایہ بہت مزہ آیا۔"
سفیان یہ کہتے ہوئے جلدی سے باہر بھاگا تھا۔
عنایہ کو شدید حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔ اسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تھا۔
"ہاں تھینک یو عنایہ اس گدھے کو کچھ زیادہ ہی  جلدی تھی۔  تمہیں تھوڑا سا خوشی کا احساس تو ہونے دیتا۔  خیر چلو کوئی بات نہیں۔  پھر ملتے ہیں۔"
زیان بھی یہ کہتے ہوئے باہر کی جانب بھاگا تھا اب وہاں صرف زرشالا بچی تھی وہ بھی بھاگنے کی تیاری میں تھی پر ایسا ہونے سے پہلے ہی عنایہ نے اسے گھیر لیا تھا۔ ۔
"زرشی مجھے سچ سچ بتا دو کیا کیا ہے تم لوگوں نے؟ "
"کچھ بھی تو نہیں۔ وہ مجھے سر ریاض نے بلایا تھا شاید میں چلتی ہوں۔"
وہ بھی یہ کہتے ہوئے عنایہ کو با مشکل سامنے سے پیچھے کر کے بھاگی تھی۔  اسی لمحے عنایہ کو ایک میسج رسیو ہوا تھا۔ وہ اپنے فون کی جانب لپکی تھی۔ میسج بھیجنے والا زیان تھا۔
جیسے جیسے عنایہ میسج پڑھتی جا رہی تھی اس کی آنکھیں حیرت اور غصّے کی زیادتی کی وجہ سے مزید کھلتی جا رہی تھیں۔
"ڈیر عنایہ احمد۔۔ ہمیں پتا تھا تم اتنی کنجوس ہو ہمیں ٹریٹ بلکل نہیں دو گی۔  اس لیے ہم نے خود لے لی۔ رکو کیسے لے لی وہ بھی میں تمہیں بتاتا ہوں۔میں اور سفیان تمہارے روم میں آنے سے  پہلے ہی آرڈر دے آئے تھے۔ زرشالا بھی ہمارے پلان  کا حصہ تھی۔ تمہارے روم میں بیٹھے ہوئے ہی مجھے ڈیلیوری آ جانے کا میسج آیا تھا۔  میری اور تمہاری بحث کے دوران سفیان اور زرشالا تمہارے بیگ میں سے پیسے نکال چکے تھے۔ وہ دونوں چپکے سے کمرے سے نکلے تھے کے تمہیں بلکل بھی شک نا ہوا۔لیکن ڈلیوری کے پیسے سفیان مجھ سے نکلوا چکا ہے۔  سو یہ ٹریٹ میری اور تمھاری دونوں کی طرف سے ہوئی۔ خیر یہ سب چھوڑو یہ بتاؤ مزہ آیا ناں؟ چلو اب منہ تو بند کر لو۔"
اس کا منہ واقعی کھلا ہوا تھا اس نے پہلے منہ بند کیا تھا اور اب اسے سمجھ آئی تھی کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ پر اب وہ کیا کر سکتی تھی۔  ان سب پر دو حرف بھیج کر وہ سر ریاض کے روم کی جانب چل دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے کمرے میں آتے ہی ان تینوں کو پہلے سے موجود دیکھ کر اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا تھا۔
"اکیلے بس ان تینوں کو ٹریٹ دے دی آپ نے؟ ہمیں بھی تو  انوائٹ کیا جا سکتا تھا ناں۔"
وہ نروٹھے انداز میں بولے تھے۔ ان تینوں نے اچانک امڈ ابے والی مسکراہٹ پر بڑی مشکل سےقابو کیا تھا۔
"سر اگر مجھے پتا ہوتا کے میں ٹریٹ دے رہی ہوں تو ضرور انوائٹ کرتی۔"
عنایہ نے بظاھر مسکرا کر کہا تھا۔  پر اس کے لہجے کی تپش محسوس کر کے ان تینوں کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔جسے عنایہ نے غصّے سے دیکھا تھا۔
"کیا معملہ ہے؟ کوئی ہمیں بھی تو کچھ بتاۓ"
انکے اتنا کہنے پر زرشالا نے آج کی ساری روداد سمیٹ چٹپٹی مرچ اور مثالے  کے سنائی تھی۔ اس دوران عنایہ کا بس نہیں چل رہا تھا کے ان تینوں کو اٹھا کر باہر کسی ایسی جگہ پھینکے جہاں سے ان کی واپسی کا کوئی چانس نا ہو۔
پر ہائے  اس کی یہ معصوم خواہش۔۔۔

حالِ دل کہوں کیسے (COMPLETED)Where stories live. Discover now