Episode#19

2.1K 126 33
                                    

انہوں نے رنج و الم کے عالَم میں اپنے خبرو بیٹے کو دیکھا تھا۔ وہ بیٹا جو ان کا مان تھا ان کا فخر تھا۔ وہ تو ان سب کو ہی خودغرض سمجھ رہے تھے۔ پر ہمیشہ وہ نہیں ہوتا جو نظر آ رہا ہوتا ہے۔ کبھی جو سامنے نظر آ رہا ہو وہ حقیقت نہیں ہوتی۔ اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کے آنکھیں حقیقت کو دیکھ نہیں پاتیں۔ انسان اپنے ہی خیال میں مست و مگن رہتا ہے۔ غفلت میں پڑا رہتا ہے اور جب اس کے ہوش بحال ہوتے ہیں تو سب کچھ ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ اسے وہ سب اب بلکل صاف شفاف دکھائی دیتا ہے جو پہلے کسی دنیاوی نشے کی وجہ سے دندھلا ہو جاتا ہے۔ پر اگر صحیح وقت میں انسان کو اچھے برے کی پہچان ہو جاۓ تو اسے اور کیا چاہیے۔ انسان اور اس کی حماقتیں۔۔۔
"بلال تم بھی؟"
ان کی زبان الفاظ ادا نہیں کر پا رہی تھی۔ یا شاید صدمے کا اثر تھا۔
"جی ابا جان جب سب آپ کو سمجھانے میں ناکام ہو گئے ہیں تو میں کیسے آپ کو سمجھاوں۔۔ ابھی پھپھو آپ پر بلکل واضح الفاظ میں حقیقت سے پردہ اٹھا کر گئیں ہیں مگر نا جانے آپ کس غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔"
اس نے افسوس سے اپنے باپ کے چہرے کو دیکھا تھا۔
"بیٹا تم میرا غرور ہو"
وہ اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے بولے تھے۔
"آپ بھی میرا غرور تھے ابا جان۔ میرا خیال ہے کے ہیں اور تھے کا فرق آپ بخوبی جانتے ہوں گیں۔ ویسے بھی غرور و تکبر اللّه کو سخت ناپسند ہے سو یہ تو ایک دن ٹوٹنا ہی تھا نا"
اس نے یہ کہتے ہوئے سختی سے اپنی آنسوؤں سے بھرتی آنکھیں رگڑ ڈالی تھیں۔ اور سحرش کا ہاتھ تھامے زیان کو کندھے پر اٹھاۓ گھر کی دہلیز پار کر گیا تھا۔ پیچھے بس ریاض احمد بچے تھے۔ شکستہ قدموں سے وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بیٹا تمھیں تو اپنے باپ کے پاس رہنا چاہیے تھا نا"
"پھپھو جان اگر آپ کو میرے یہاں رہنے سے کوئی اعتراض ہے تو میں یہاں سے چلا جاتا ہوں پر ابا جان کا نام لے کر میرے زخموں کو ہرا مت کریں۔"
وہ آنکھیں موندے بولا تھا۔ اس وقت وہ دونوں  جمیلہ بیگم کے گھر کے لاؤنج میں موجود تھے۔ دانی نے اپنا سر جمیلہ بیگم کی گود میں رکھا ہوا تھا۔
"بیٹا میں تو اس لیے کہہ رہی کے وہ اکیلا ہو گیا ہو گا تمہارے آنے سے اور تمہارے اس عمل سے اسے بہت تکلیف پہنچی ہوگی۔ نہیں تو تم بھی تو میرے بیٹے ہو میں بھلا تمہیں یہاں سے جانے کو کیوں کہوں گی۔"
وہ پیار سے اس کا سر سہلاتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔
"پھپھو کیا آپ نے سنا نہیں انھوں نے خود مجھے کہا تھا کے میں انھیں زندگی بڑھ اپنی شکل نا دکھاؤں۔ تو اگر وہ ضدی ہیں تو میں بھی کم ڈھیٹ نہیں ہوں۔"
وہ ہلکا سا مسکرایا تھا۔
"بیٹا پر تم یوں کیسے رہو گے؟"
وہ اس کے لیے پریشان ہو رہی تھیں۔
"میں رہ لوں گا ویسے بھی آپ یہ سمجھ لیں میں بچپن کی طرح چھٹیاں گزارنے آیا ہوں۔ پھر دیکھیےگا کچھ دن بعد خودی آپ کو میری عادت ہو جاۓگی اور میرے بغیر آپ سے رہا نہیں جاۓ گا بلکل مہوش کی طرح"
اس نے آخری لائن لاؤنج میں چائے لے کر آتی مہوش کے لیے کہی تھی۔ اس نے سن کر اگنور کر دیا تھا مگر اس کے کان جمیلہ کے ہاتھ آ گئے تھے۔
"اوہ ہو پھپھو کیا ہوا ہے بھئی؟"
وہ اپنے کان ان کے ہاتھ سے چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوئے بولا تھا۔
"آیندہ بولے گا ایسے میری بیٹی کو؟"
"یہ نہیں سدھرنے والا پھپھو آج اس کی دھلائی کر ہی دیں"
بلال نے جھماکے سے دروازہ کھولا تھا اس کے پیچھے سحرش بھی زیان کو اٹھاۓ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی آ رہی تھی۔
"بیٹا تم دونوں؟؟"
انہیں دیکھ کر وہ حیرت سے کھڑی ہوئی تھیں۔ دانیال اور مہوش بھی تعجب سے انہیں تک رہے تھے۔
"جی جب آپ سب ان کی اصلاح کے لیے انھیں اکیلا چھوڑ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ آخر مقصد تو ہم سب کا ایک ہی ہے نا۔ بس اللّه کرے کے وہ جلد اپنی غلطی تسلیم کر لیں اور خدا سے توبہ کر لیں"
"پر بیٹا تمہیں تو اس  کے پاس ہی رہنا چاہیے تھا۔ ایسے اگر ہم سب اس سے دور ہو جائیں گیں تو کہیں مقصد الٹا نا پر جاۓ۔"
وہ نرمی سے انہیں سمجھاتے ہوئے بولیں تھی۔
"پھپھو جان مجھے یقین ہے کے ہم سب کی جدائی انھیں ضرور محسوس ہو گی اور بہت بری طرح سے محسوس ہو گی۔ انشاءاللہ تھوڑے عرصے میں ہم سب پھر سے پہلے کی طرح ایک ساتھ رہیں گیں۔ بس انھیں تنہائی میں خود گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔"
بلال صوفے پر بیٹھ کر جوتے اتارنے لگا تھا۔ سحرش بھی اس کے پاس ہی بیٹھی تھی۔
"ہاں کیوں کہ ہم جتنا انہیں سمجھانے کی کوشش کریں گیں وہ اتنا ہی اس بات سے چڑے گیں۔ "
دانی نے یہ کہتے ہوئے زیان کو سحرش کی گود سے اٹھایا تھا۔
"چلو تم سب آرام کر لو۔ مہوش تم کھانا لگا دینا۔ شاید تم سب ٹھیک کہتے ہو تنہائی سے وہ صحیح رہ پر آ جاۓ گا۔ یا اللّه تو میرے بھائی کو ہدایت دے۔"
وہ انہیں کہتے ہوئے اپنے کمرے میں چل دی تھیں۔
"بلال بھائی مجھے معاف کر دیں میری وجہ سے آپ دونوں کو یوں دربدر ہونا پڑا ہے"
مہوش روتے ہوئے بلال کے پاس کھڑی ہوئی تھی۔
"دربدر کیسا خیر سے میرا سسرال ہے۔ اور ہماری پھپھو کا گھر بھی تو ہے۔  وشی اس میں تمہاری کیا غلطی ہے بھئی؟ذرا ادھر آ کر میرے پاس بیٹھو اور بتاؤ تمہیں کیوں ایسا لگا؟"
اس نے نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے قریب رکھے صوفے پر بٹھایا تھا۔ سحرش اور دانی بھی دوسرے صوفے پر بیٹھے ان دونوں کو ہی دیکھ رہے تھے۔
"بھائی میں نے اسے سمجھایا بھی تھا پر اسے خود کو بلیم کرنے کا بہت شوق ہے"
وہ روٹھا روٹھا سا بولا تھا۔
"تم چپ کرو ذرا سننے دو وہ کیا کہنا چاہتی ہے۔ "
دانی نے اس کی بات سن کر منہ بنایا تھا۔
"ہاں بتاؤ میری چھوٹی سی ڈول"
اس نے پیار سے اس کا سر سہلایا تھا۔
"بھائی!!!! وہ میری ڈول ہے"
دانی میری پر زور دیتے ہوئے بولا تھا۔  جس پر سحرش اور مہوش سمیت بلال نے بھی اسے گھورا تھا۔
"تو پھر بولا؟"
بلال غصے سے بولا تھا۔
"دیکھ لے زیان یہ سب مجھے اپنی محبت کا اظہار بھی نہیں کرنے دیتے تو بڑا ہو جا پھر ہم دونوں مل کر انہیں ستایا کریں گیں اور میں اپنے سارے بدلے تیرے ساتھ مل کر لوں گا۔"
وہ اپنی گود میں بیٹھے زیان سے مخاطب تھا اس کی آواز اتنی اونچی ضرور تھی کے پاس بیٹھے سب افراد با آسانی سن سکتے تھے۔ اس کی خود کلامی سن کر سب کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی تھی۔
"دانی میرے بیٹے کو الٹی سیدھی پٹیاں نا پڑھاؤ"
سحرش مصنوئی خفگی سے بولی تھی۔
"ارے بھابی میں تو بس۔۔۔"
"اب ہمیں بھی بات کرنے دیں گیں آپ؟"
بلال نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔
"ہاں تو کیوں لگا تمہیں ایسا وشی؟"
"بھائی وہ۔۔"
گھبراہٹ میں اس سے کچھ بولا نہیں جا رہا تھا۔
"بتاؤ نا۔ فیل ایزی۔"
"بھائی آپ دونوں کو میری وجہ سے اپنا گھر اور اپنے ابو کو چھوڑنا پڑا ہے نا۔"
ضبط ایک بار پھر ٹوٹا تھا۔وہ پھر رونے لگی تھی۔
"نہیں ہم نے اپنا گھر اپنی مرضی سے چھوڑا ہے۔ وہ بھی اپنے ابا کی بھلائی کی نیت سے۔۔ کیوں کہ ہمیں ایسا لگتا ہے کے ہم دونوں بھائیوں کے گھر چھوڑنے سے وہ تنہا ہو کر شاید اپنے گناہ سے توبہ کر لیں اور اپنے بابا سے ملنے اور ان کی باتیں ماننے سے گریز کریں۔ اس میں بھلا تمہاری کیا غلطی ہوئی؟"
وہ اتنے نرم انداز میں سمجھا رہا تھا کے مہوش کو اپنے دل کی بات کہنے میں دشواری نہیں محسوس ہو رہی تھی۔
"پر بھائی اگر دانی مجھ سے شادی کی بات نا کرتا تو شاید اتنا بڑا مسلہ کھڑا نا ہوتا"
"اوہ ہو تم سے شادی  تو اب بھی دانی کے لیے کوئی اتنا بڑا مسلہ نہیں ہے"
اس نے یہ کہتے ہوئے دانی کو آنکھ ماڑی تھی سحرش بھی مسکرا کر انہیں دیکھ رہی تھی ان دونوں کو اب اپنے پلان پر عمل کرنا تھا جو وہ راستے میں بنا کر آئے تھے۔ جب کہ مہوش کا سر جھکا ہوا تھا اس لیے وہ ان کے معنی خیز اشارے دیکھ نہیں پائی تھی۔
"کیا مطلب بھائی؟وہ ہکلاتے ہوئے بولی تھی۔
"کچھ نہیں گڑیا تم کھانا لگاؤ سب پتا چل جاۓ گا"
وہ اسے تذبذب کا شکار چھوڑ کر فریش ہونے چلا گیا تھا۔
"آپی یہ بھائی کیا کہہ رہے تھے؟"
"مجھے کیا پتا تمہارے بھائی کو ہی پتا ہو"
وہ بھی اپنی ہنسی چھپاتی بلال کے پیچھے روم میں گئی تھی۔
اس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی دانی بول پڑا تھا۔
"میں ذرا زیان کو سامنے والے پارک میں گھمانے لے کر جا رہا ہوں۔"
"جاؤ تم بھی بدتمیز۔۔ پتا نہیں کیا سوچ لیا ہے اب سب نے"
وہ غصے سے کچن کی طرف بڑھی تھی جب کے دانی مسکراتے ہوئے باہر نکل گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"پھپھو آپ اگر فری ہیں تو ہم آ جائیں؟"
ان کے کمرے کے دروازے میں سحرش بلال اور دانی کھڑے تھے۔
"ہاں ہاں بیٹا۔ یہ مہوش کہاں ہے؟  آئی نہیں تم لوگوں کے ساتھ؟"
مہوش کو غائب پا کر انہوں نے پوچھا تھا۔
"جی اس کے سر میں درد تھا اس لیے دوائی لے کر وہ سو گئی ہے۔"
سحرش ان کے قریب بیٹھتے ہوئے بولی تھی۔
"اچھا بیٹا خیریت تھی تم سب اتنی رات گئے یہاں؟"
دانی نے بلال کو اشارہ کیا تھا بلال نے بات شروع کی تھی۔
"پھپھو وہ آپ نے کل آدھی بات تو سن ہی لی تھی دراصل یہ دانی نکما مہوش سے شادی کرنے کا خواہشمند ہے۔ ابا جان نے تو بات ماننے سے بلکل انکار کر دیا تھا اور اس کی وجہ بھی آپ بخوبی جانتی ہیں۔ اس لیے میں اس کا بڑا بھائی دانیال کے لیے مہوش کا رشتہ لینے آیا ہوں۔  اس کے بارے میں آپ سب جانتی ہیں پھر بھی اگر کوئی بات ہو تو میں حاضر ہوں۔ اور ہم دیگر فضول رسومات کی بجاۓ سادگی سے نکاح کریں گیں اور اب تو خیر سے آپ کا اور ہمارا گھر ایک ہی ہے تو نکاح کے ساتھ ہی رخصتی بھی کر دیں گیں۔ کیا خیال ہے آپ کا؟"
اس نے مختصر مگر مکمل بات کہی تھی۔
"بیٹا پر ہم تمہارے باپ کو نکال کر تو اتنا بڑا خوشی کا قدم نہیں اٹھا سکتے نا"
"دیکھیں پھپھو میں سیدھی بات کروں گا کہ ابا جی کی ضد کا آپ کو ہم سے بہتر پتا ہے۔ اگر وہ بابا جی سے ہٹ کر بھی سوچیں گیں تو بھی وہ روایت کے اتنے پکے ماننے والے ہیں کے اس رشتے پر بلکل رضامند نہیں ہوں گیں۔ پر ہم ان کو اطلاح ضرور دیں گیں اور دعوت بھی دیں گیں آگے جیسے آپ مناسب سمجھیں۔"
بلال نے تحمل سے کہا تھا۔ یہ فیصلہ کرتے ہوئے ان دونوں بھائیوں کے دل پر کیا گزری تھی یہ وہی دونوں جانتے تھے۔
"اچھا تو پھر سوچتے ہیں کچھ"
وہ اتنا کہہ کر خاموش ہو گئی تھیں۔ ان سب کے لٹکے ہوئے منہ دیکھ کر انہوں نے بڑی مشکل سے  اپنی ہنسی کنٹرول کی ہوئی تھی۔
"ٹھیک ہے فیصلہ کر کے ساتھ والے کمرے میں پیغام بھیج دیجیے گا"
بلال نے سنجیدگی سے کہا تھا۔ ان کے آرام کے خیال سے وہ سب ان کے کمرے سے جانے لگے تھے۔ جب کمرے کے دروازے پر پہنچ کر جمیلہ بیگم کی آواز آئی تھی۔
"ہماری طرف سے رشتہ پکا ہے"
انہو نے ساتھ تھمبز اپ کا سگنل بھی دیا تھا۔ جسے سن کر سب نے خوشی سے چیخیں ماڑی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہاں بھئی لڑکے والوں کب آ رہے ہو برات لے کر"
جمیلہ بیگم کے مزاج میں بھی ظرافت خوب پائی جاتی تھی جس سے سب ان سے جلد مانوس ہو جایا کرتے تھے۔
"جب آپ کہیں ساسو ماں"
دانیال بھی شریر ہوا تھا۔
" تمہارے تو میں کان کھینچتی ہوں کتنی بار کہا ہے جب بڑے بات کر رہے ہیں چھوٹے نہیں بولتے۔ پر کہنا مانتا نہیں ہے یہ لڑکا"
وہ دانیال کو گھورتے ہوئے بولیں  تھیں۔
"آپ بس میرے کانوں کے پیچھے پڑی رہا کریں۔ پہلے ہی خرگوش بن گیا ہوں۔"
"ابھی تو بہت کچھ ہونا باقی ہے ابھی سے ڈر  گئے؟"
بلال نے مسکراہٹ دبائی تھی۔
"نہیں میں بہت بہادر ہوں"
وہ کالر جھاڑتے ہوئے بولا تھا۔ اسی لمحے مہوش نے آ کر اس کے کان کے قریب چیخ ماڑی تھی جواباً وہ بھی چیخ پڑا تھا۔
"کیا بدتمیزی ہے یہ وشی؟"
وہ چیخا تھا۔
"ابھی تو بہت بہادر بنا جا رہا تھا ب کیا ہوا ہے؟"
مہوش نے ایک تیوری چڑھا کر پوچھا تھا۔
اس کی بات پر سب کے فلک شگاف قہقہے نکلے تھے۔ وہ بس منہ بنا کر رہ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حالِ دل کہوں کیسے (COMPLETED)Where stories live. Discover now