Last Episode (Part II Barat Special)

2.3K 122 19
                                    

"ہاں تو سیمل تم کس کے ساتھ ہو؟"
عنایہ نے مسکراتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔وہ لوگ اس وقت اکھٹے بیٹھ کر چاۓ پی رہی تھیں۔ برات کا فنکشن رات کا تھا۔ کل رات دیر تک جاگنے کی وجہ سے وہ صبح بہت دیر سے اٹھی تھیں اس لیے ناشتہ کرنے کے بعد وہ سکون سے چاۓ پینے میں مگن تھیں۔
"ظاہر ہے آج تو میں تم لوگوں کے ساتھ ہوں۔۔لڑکی والوں کے ساتھ"
سیمل ہنستے ہوئے بولی تھی۔
"کیوں بھئی کوئی خاص بات؟"
زرشی نے اپنا کپ ٹیبل پر رکھا تھا۔
"ہاں نا آج کمائی ادھر زیادہ ہونی ہے"
وہ شرارت سے بولی تھی۔
"اوہ چالاک لڑکی کمائی کے لیے ہمارے ساتھ آئی ہو"
عنایہ نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔
"ہاں پر مجھے سمجھ نہیں آ رہا ویلکم میں دولہے اور دولہے کے بھائی کے لیے کچھ خاص ہونا چاہیے کیا کروں۔۔ تم دونوں ہی کوئی آئیڈیا دے دو"
اس نے اپنی پریشانی انہیں بتائی تھی۔
"اس کے لیے تو تم عنایہ سے رابطہ کرو یہ ایسا آئیڈیا دے گی کے زیان تمہیں ہال سے ہی باہر چھوڑ آئے گا"
زرشی نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔ ان دونوں کے بھی قہقہوں کے فوارے چھوٹے تھے۔
"بس پھر فیصلہ ہو گیا تم ہی مجھے بتا رہی ہو زیان کا ویلکم کیسا ہونا چاہیے"
سیمل عنایہ کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔
"مگر پھر باقی رسموں میں تمہیں اچھا خاصا لوس ہو گا اگر تم نے زیان سے کوئی پنگا لیا تو"
عنایہ نے اسے وارن کیا تھا۔
"کوئی فکر نہیں مجھے وہ تو میں سفیان سے نکلوا ہی لوں گی"
سیمل مسکرا کر بولی تھی۔
"ویسے ویلکم دولہے کا ہونا چاہیے تم لوگ زیان کے ویلکم کا سوچ رہے ہو"
زرشی نے کہا تھا۔
"اوہ ہو عنایہ کہیں سے جلنے کی سمیل نہیں آ رہی۔۔ تم نے چولہے پر کچھ رکھا تو نہیں تھا؟؟"
سیمل شرارت سے بولی تھی۔
"نہیں نہیں پر شاید زرشی نے ضرور رکھا تھا"
عنایہ نے بھی شرارت سے کہا تھا۔
"دفع ہو جاؤ تم دونوں"
وہ غصے سے بولی تھی
"اچھا تو اب ایسے کہو گی ہمیں"
عنایہ نے ایموشنل ہونے کی پوری کوشش کی تھی۔
"ہاں اب شادی شدہ عورت بن گئی ہے۔۔ ہم کنواروں کو کہاں منہ لگاۓ گی"
سیمل بھی عنایہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بولی تھی۔
"ہو۔۔۔۔ اب عورت تو نا کہو"
وہ منہ بسورتے ہوئے بولی تھی۔
"جس کی شادی ہو جاۓ وہ عورت ہی ہوتی ہے زرشی"
عنایہ نے اسے حقیقت بتائی تھی۔
"نہیں ایسا نہیں ہو سکتا"
وہ صدمے سے بولی تھی۔
"ایسا ہو چکا ہے"
وہ دونوں ایک ساتھ اونچی آواز میں بولی تھیں۔
"اماں"
وہ روتی شکل بناتے ہوئے اپنی اماں کے پاس جانے کو بھاگی تھی۔ پیچھے سے ان دونوں کے قہقہے گونجے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یا اللہ‎ تو تو جانتا ہے نا میرے دل کی حالت۔۔ میں نے کس دل سے اپنے سب اپنوں سے دور جانے کا اتنا بڑا فیصلہ کیا ہے تو اس سے بلکل بھی بے خبر نہیں ہے۔۔۔یہ میرے لیے بڑا تکلیف دہ مرحلہ ہے۔۔یا اللہ‎ مجھے ہمت دے میں کر سکوں جو میں نے فیصلہ کیا ہے۔۔اور اللہ‎ تعالیٰ پلیز مجھے زیان کے معاملے میں بھی صبر دے دے۔۔۔مجھے آزمائش پر پورا اترنے کی توفیق دے یا اللہ‎۔۔۔"
اپنے رب سے دل کی باتیں کرتے ہوئے اس کی آنکھیں اشکبار ہو چکی تھیں مگر وہ اس سے بلکل بےخبر مگن انداز میں دعا مانگنے میں مشغول تھی۔
"عنایہ کیا ہوا کیوں رو رہی ہو؟"
زرشی نے اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے اس کا کندھا ہلایا تھا۔ وہ عنایہ کو پالر جانے کے لیے بلانے آئی تھی جب اس نظر عنایہ کے آنسوؤں سے تر چہرے پر پڑی تھی۔
"نہیں تو"
عنایہ نے جلدی سے چہرہ صاف کیا تھا۔
"مجھ سے چھپاؤ گی تم؟؟"
زرشی نے بڑے مان سے اس کی طرف دیکھا تھا۔
"زرشی مجھ سے تم سب سے دور نہیں رہا جاۓ گا ۔۔ یہ میرے لیے بہت مشکل ہے"
وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی تھی۔
"تو تم مت جاؤ نا عنایہ"
وہ اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولی تھی۔
"پر میرا جانا ضروری ہے۔۔ یہاں رہوں گی تو تکلیف میں ہی رہوں گی۔۔"
وہ اس کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے بولی تھی۔
"عنایہ کیا تم زیان کی وجہ سے یہ کہہ رہی ہو؟"
زرشی نے پوچھا تھا۔
"مجھے نہیں معلوم"
عنایہ نے اسی پوزیشن میں جواب دیا تھا۔
"تو تم خود جا کر اسے کیوں نہیں کہہ دیتی کے تمہیں اس سے محبت ہے"
زرشی نے اسے مشورہ دیا تھا۔
"نہیں میں اس کی دوسری ترجیح کبھی نہیں بنوں گی۔۔ تم جانتی ہو نا اس نے سیمل سے شادی کے لیے ہاں بھی کر دی تھی۔"
اس کے وجود میں پھر درد سے ٹیس اٹھی تھی۔
"پر عنایہ تمہیں تو پتا بھی نہیں کے۔۔۔"
اس کی بات ختم نہیں ہو پائی تھی کیوں کے سیمل نے آ کر انہیں کہا تھا۔
"اوہ اپنا یارانہ بعد کے لیے رکھ لو تم دونوں جلدی چلو پالر کا ٹائم ہو رہا ہے"
"ہاں آ رہے ہیں"
عنایہ نے اٹھ کر جاۓ نماز کو تہ لگائی تھی۔۔
زرشی بھی بس بےبسی سے اسے کچھ بھی بتا نہیں سکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"جلدی کرو وہ آ رہے ہیں"
سیمل نے عنایہ کو کہا تھا۔ جو اس وقت کاغذ کو مڑوڑ کر چھوٹے چھوٹے گیند کی شکل دے رہی تھی۔ انہوں نے ایک میڈیم سائز کی ٹوکری بھر کے ایسے گیند بنا کے رکھ لیے تھے۔
"ریڈی ہیں؟؟"
زرشی نے ان دونوں کی کاروائی دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ وہ تینوں اس وقت برائیڈل روم میں موجود تھیں باہر سے ڈھول کی آواز کی وجہ سے وہ لوگ جان گئیں تھیں کے برات آ چکی ہے۔
"ہاں۔۔"
سیمل بھاگ کر وہ ٹوکری لے گئی تھی۔ عنایہ اس کی پھرتی پر ہنس پڑی تھی۔
"تم نہیں جا رہی؟"
زرشی نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا۔
"ہاں نہیں جا رہی"
عنایہ نے اس سے نظریں پھیر لی تھیں۔ وہ زرشی سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی۔
"پر عنایہ ساری محنت تم نے کی ہے اور تم نے سیمل کو بھیج دیا"
زرشی نے اسے بے یقینی سے دیکھا تھا۔
"اگر میں جاتی تو تمہیں پتا ہے نا کیا ہوتا"
عنایہ نے اسے دیکھنے کی سکت پیدا کی تھی۔
"کیا ہوتا عنایہ؟؟؟"
وہ اسے دیکھتے ہوئے بولی تھی۔
"زیان کو لگتا کے ہماری خلش ختم ہو گئی ہے اور اب سب نارمل ہے"
وہ اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے بولی تھی۔
"تو اچھا ہو جاتا نا۔۔ تم دونوں کے درمیان بھی سب ٹھیک ہو جاتا"
وہ افسوس سے بولی تھی۔
"نہیں میں ایسا نہیں کرنا چاہتی"
وہ نظریں پھیرتے ہوئے بولی تھی۔
"عنایہ تم غلط کر رہی ہو اپنے ساتھ بھی اور اس کے ساتھ بھی"
"میں جانتی ہوں"
اس نے زور سے آنکھیں میچ لی تھیں جیسے کسی بڑی حقیقت سے نظریں چڑا رہی ہو۔
"کیا اس نے سب ٹھیک کرنے کے لیے اب تک ایک بھی قدم نہیں بڑھایا؟؟"
زرشی نے اس سے استفسار کیا تھا۔
"بڑھایا تھا۔"
"عنایہ جب وہ اپنی انا کو کچل کر تم تک آ سکتا ہے تو تم بھی ایک قدم تو اس کی طرف بڑھاؤ۔۔ ہو سکتا ہے تم دونوں کی خوشیاں بس ایک قدم کی مسافت پر ہوں"
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی تھی۔ پر عنایہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
"عنایہ یاد رکھنا نانی ماں اور ریاض سر کی خوشیاں تم دونوں پر منحصر ہیں"
وہ نرمی سے بولی تھی۔
"میں جانتی ہوں زرشی۔۔ خیر میں فوٹوگرافر کو بلاتی ہوں تمہارا علیحدہ فوٹو شوٹ کر لے"
وہ بات ختم کرتے ہوئے وہاں سے چلی گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیان مسکراتے ہوئے سفیان کے ہمراہ ہال کے اندر داخل ہو رہا تھا۔ جب اس کے اوپر کسی عجیب سی چیز کی برسات ہوئی تھی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا تھا سب باراتیوں کے اوپر پھول برساۓ جا رہے تھے تو وہ کیا شے تھی جو اس کے اوپر انتہائی فراخ دلی سے پھینکی جا رہی تھی۔ اس نے وہ چیز پکڑ کے غور سے دیکھا تھا۔ وہ اور کچھ نہیں بلکہ کاغذ کے چھوٹے چھوٹے گیند تھے۔ اس نے پھینکنے والے کو تلاش کرنا چاہا تھا۔ اس کے دل میں خوش فہمی پیدا ہوئی تھی کہ شاید اس کے ساتھ یہ شرارت عنایہ نے کی تھی۔
"ہاں ہیرو آیا مزہ؟؟"
سیمل نے آخری کاغذ کا گیند اس کے منہ پر پھینکتے ہوئے پوچھا تھا۔ دل کی ساری خشفہمیاں ایک دم سے غائب ہو گئیں تھیں۔ اب وہ باراتیوں سے زرا ہٹ کے کھڑا ہو گیا تھا۔سیمل بھی اسے چڑانے کے لیے وہاں کھڑی ہوئی تھی۔
"شرم نہیں آتی تمہیں اتنے ہینڈسم بھائی پر یہ پتھر پھینکتے ہوئے"
وہ اسے گھور کر بولا تھا۔
"اب اتنے جھوٹ ایک ساتھ تو نہ بولو"
وہ شرارت سے بولی تھی۔
"کونسا جھوٹ بولا ہے میں نے لڑکی"
زیان نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔
"پہلا یہ کے تم نے خود کو ہینڈسم کہا دوسرا یہ پتھر نہیں ہیں کاغذ کے بناۓ ہوئے پیارے پیارے پھول ہیں"
وہ اپنی ہنسی دباتے ہوئے بولی تھی۔
"اب تم بھی جھوٹ بول رہی ہو یہ پھول تو ہر گز نہیں ہیں"
وہ بڑے معصوم انداز میں کہا تھا۔ اس کی شکل دیکھ کر سیمل کی ہنسی نکل گئی تھی۔
"بدتمیز کہیں کی"
وہ بھی ہنستے ہوئے اس کے سر پر چپت لگاتے ہوئے بولا تھا۔ سیمل بھی ہنستے ہوئے بولی تھی۔
"پراؤڈ ٹو بی"
اور ہنستے ہوئے وہاں سے چلی گئی تھی۔
ان دونوں کو یوں ساتھ ہنستے ہوئے دیکھ کر دور کھڑی کب سے ان کو دیکھتے ہوئے عنایہ کے دل کو تکلیف ہوئی تھی۔ پر وہ بھی مسکرا کر درد سہنا سیکھ گئی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یار یہ دونوں ہماری جان لے کر چھوڑیں گیں"
زیان نے اسٹیج پر شان سے بیٹھے ہوئے سفی کی توجہ سامنے سے آتی ہوئیں عنایہ اور زرشالا کی طرف مبذول کروائی تھی۔ عنایہ نے زرشی کا بھاری لہنگا سمبھالا ہوا تھا۔ اور اسے آگے چلنے میں مدد کر رہی تھی۔ اس کی نظر جب ان پر پڑی تو بس دیکھتے ہی رہ گیا تھا۔ سفیان نے مہرون رنگ کی شیروانی پہن رکھی تھی۔ جس پر سنہری رنگ کا ہلکا پھلکا کام کیا گیا تھا۔ اس کی مناسبت سے زرشی نے بھی مہرون رنگ کا لہنگا زیب تن کیا ہوا تھا اور اس کے لہنگے پر بھی سنہرے رنگ کا ہی کام ہوا تھا جس سے اس کی خوبصورتی میں اضافہ ہو گیا تھا۔ اس نے مہرون رنگ کا ہی حجاب کیا ہوا تھا اور وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔زیان نے بلیک کلر کی شلوار قمیض پہن رکھی تھی۔۔ پاؤں کو پشاوری چپل میں قید کیے وہ پوری محفل میں چھایا ہوا تھا۔ عنایہ نے گلابی رنگ کی قمیض اور بلیک کلر کی کیپری پہن رکھی تھی اس کے نیچے پینسل ہیل پہن کر وہ دنیا تسخیر کرنے کی طاقت رکھتی تھی۔ سر پر گلابی رنگ کا ہی حجاب اوڑھے وہ زیان کے دل کی دنیا میں ہلچل مچا رہی تھی۔ ان دونوں کو یوں دیکھ کر زیان اور سفیان کو لگا تھا جیسا دنیا کا سارا حسن تو ان کی جانب آ رہا تھا۔
"ہاں یار یہ حسین عورتیں واقعی جان لے کر چھوڑیں گیں"
وہ بھی زرشی کو محویت سے دیکھتے ہوئے بولا تھا۔
"عورت نا کہہ۔۔ نہیں تو انہوں نے موقعے اور وقت کا خیال کیے بغیر تیری یہاں ہی درگت بنا دینی ہے"
زیان نے عنایا کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
"ہاں سہی کہا ہے تو نے"
وہ اپنی ہنسی دباتے ہوئے بولا تھا۔
اب وہ دونوں اسٹیج کے قریب پہنچ چکی تھیں۔
مووی میکر کے کہنے پر سفیان نے زرشالا کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تھا۔۔ زرشی نے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔ سب نے اس دلفریب منظر کو دیکھ کر ہوٹنگ کی تھی۔ عنایہ کو ہیل کی وجہ سے اسٹیج پر چڑھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پر رہا تھا۔ وہاں موجود ایک کزن نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی مدد کرنا چاہی تھی مگر زیان اسی لمحے آگے آیا تھا کزن کا ہاتھ جھٹک کر اس نے عنایہ کا ہاتھ تھام لیا تھا۔
"سنو میرا ہاتھ بھلے ہی تم نا تھامو مگر کوئی اور تمہارا ہاتھ تھامے یہ مجھ سے برداشت نہیں ہو گا"
زیان نے اس کے کان کے قریب آکر کہا تھا۔ اس کے لہجے میں محبت ہی محبت تھی۔
وہ بس اس کی بات سن کر سن ہو گئی تھی۔
"عنایہ سیمل کو بلا لو رسم کریں ہال کا ٹائم کم ہے بیٹا"
مریم کی آواز اسے ہوش میں لائی تھی۔
"جی آنٹی"
وہ کہتی ہوئی دوبارہ اسٹیج سے اتر گئی تھی اور اس کے بعد وہ دوبارہ اسے ہال میں نظر نہیں آئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"چلو سفیان پیسے نکالو"
سیمل نے خوبصورتی سے سجا ہوا دودھ کا گلاس پکڑ کے دھڑلے سے کہا تھا۔
"کیوں بھائی؟؟"
سفیان نے اسے گھورتے ہوئے کہا تھا۔
"کیوں کے یہ رسم ہوتی ہے۔۔ نکالو اب بیس ہزار روپے"
وہ اسے وضاحت دیتے ہوئے بولی تھی۔
"ہوتی ہو گی رسم مجھے کیا"
سفیان نے کندھے اچکاۓ تھے۔ اس کی اس حرکت پر اسٹیج پر موجود سب لوگ ہنس پڑے تھے۔
"تم شرافت سے پیسے نکال رہے ہو کے نہیں"
وہ دانت پیستے ہوئے پوچھ رہی تھی۔
"بلکل نہیں"
سفیان اسے بتیسی دکھاتے ہوئے بولا تھا۔
"یار سفیان ایسی ہی لڑکیاں سگنل پر کھڑے ہو کر مانگ رہی ہوتی ہیں نا"
زیان نے سیمل کو تنگ کرنے کے لیے کہا تھا۔
"ہاں ساتھ تم جیسے لڑکے بھی مدد کے لیے موجود ہوتے ہیں"
سیمل نے بھی برابر کا جواب دیا تھا۔ سب لوگ ایل بار پھر سے ہنس پڑے تھے۔
"اچھا لڑنا بس کرو تم دونوں"
سفیان ان کے درمیان آیا تھا۔
"کہہ تو ایسے رہے ہو جیسے خود صلح کروا رہے ہو"
سیمل نے اس پر بات کی تھی۔
"سفی پیسے دو اسے"
زرشی نے بھی حصہ ڈالا تھا۔
"تم بھی اس کے ساتھ ملی ہوئی ہو"
سفیان نے صدمے سے زرشی کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
"ہاں چلو نکالو بھی"
زرشی نے ہنسی دباتے ہوئے کہا تھا۔
"پیسے پیسے پیسے"
سب لڑکیوں کی طرف سے شور اٹھا تھا۔
سفیان کو مجبوری میں پیسے نکالنے ہی پڑے تھے مگر وہ پورے بیس ہزار دے دے اتنا اس کا ظرف نہیں تھا اس نے دس ہزار نکالے تھے۔۔ پر سب لڑکیوں نے شکر کر کے اتنے لے لیے تھے کیوں کے انہیں سفیان سے اتنے کی بھی امید نہیں تھی۔ کنجوس کہیں کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رخصتی کے وقت بڑا آبدیدہ منظر تھا زرشی اپنی اماں سے لپٹ کے خوب روئی تھی۔ اسے پھر سفیان کے بنگلے میں روانہ کر دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ وہاں بنگلے میں مریم اور سیمل تھیں۔ عنایہ ریاض احمد کے گھر ہی مقیم تھی۔ اسے سر میں بہت درد ہو رہا تھا اس لیے چاۓ بنانے کے ارادے سے وہ کچن میں آئی تھی۔ چولہے پر پتیلی رکھتے ہوئے اس نے اپنے پیچھے کسی کے قدموں کی آواز سنی تھی۔ اسے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تھا اس نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو زیان کھڑا اسے ہی تک رہا تھا۔
"کوئی کام تھا؟"
عنایہ نے پہل کی تھی۔
"نہیں"
اس نے ایک لفظی جملہ بولا تھا۔
"تھک گئے ہو؟"
وہ ناجانے کیوں اتنے احمقانہ سوال کر رہی تھی۔
"ہاں"
زیان نے پھر مختصر جواب دیا تھا۔
"چاۓ پیو گے؟"
وہ جھجھک کر بولی تھی۔
"نیکی اور پوچھ پوچھ"
وہ مسکراتے ہوئے کچن میں ہی رکھے ڈائننگ ٹیبل کی ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا تھا۔
عنایہ مگن انداز میں چاۓ بنانے میں لگ گئی تھی۔ اس کے ہاتھ میں چاۓ تھمانے تک ان دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔
"تم کہاں چلی؟"
اسے اپنی چاۓ لئے جاتا دیکھ کر زیان نے پوچھا تھا۔
"روم میں"
"تھوڑی دیر کے لیے بھی کیا ہم ساتھ بیٹھ نہیں سکتے؟؟"
وہ بڑے مان سے پوچھ رہا تھا۔ عنایہ کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔ وہ اسے انکار نہیں کر پائی تھی اور اس کے ساتھ رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔
"کوئی بات کرنی تھی؟"
اس بار پھر اس نے بات کا آغاز کیا تھا۔
"ہاں"
وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا تھا۔
"کہو؟"
وہ اس کے بات کہنے کی منتظر تھی۔
"تم کیا واقعی اسلام آباد جا رہی ہو؟؟؟"
کہہ دو کے تم کہیں نہیں جا رہی۔۔ تم جانا نہیں چاہتی۔۔ تم بھی میری طرح مجھ سے دور نہیں رہنا چاہتی۔۔ زیان کے دل نے عنایہ کی منت کی تھی۔
"ہاں"
اس نے مختصر جواب دے کر سر جھکا لیا تھا۔
"کب؟"
تم کیوں جا رہی ہو؟؟ مجھ سے تمہاری دوری برداشت نہیں ہو پاۓ گی
اس کے دل نے کہا تھا۔
"کل"
میں اس لیے جا رہی ہوں کیوں کے تم نے کبھی مجھے روکنے کی زحمت نہیں کی۔۔۔ میں بھی کب تم سے دور رہنے کا سوچ سکتی ہوں۔۔۔
اس نے بھی دل کی بات دل میں ہی رہنے دی تھی۔
"اوکے شب بخیر"
وہ چاۓ کا کپ سنک میں رکھتے ہوئے چلی گئی تھی۔ اور زیان اسے روک بھی نہیں پایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفیان نے کمرے میں داخل ہوتے ساتھ یوں دروازہ بند کیا تھا جیسے اس کے پیچھے کسی نے گنڈے چھوڑ دیے ہوں۔
"کیا ہوا خیر ہے؟"
زرشی ڈریسنگ ٹیبل کے قریب کھڑی ہوئی تھی۔
"ہاں وہ سیمل پھر پیسے مانگنے کے موڈ میں تھی بڑی مشکل سے بچ کے آیا ہوں"
سفیان بھی اس کے قریب چلا آیا تھا۔
"کنجوس"
زرشی اس کی طرف مڑی تھی۔
"اپنے شوہر کو کنجوس کہتے ہوئے تمہیں ذرا بھی شرم نہیں آئی"
وہ اس کے ہاتھ تھام کر بولا تھا۔
"نہیں بلکل بھی نہیں"
وہ پر اعتماد لہجے میں بولی تھی۔
"بدتمیز"
سفیان نے اس کے سر سے اپنا سر ٹکایا تھا۔
"کون تم؟"
وہ بھی آنکھیں بند کر تے ہے بولی تھی۔
"نہیں تم"
سفیان شرارت سے بولا تھا۔
"نہیں ہم دونوں"
وہ بھی مسکرا کر بولی تھی۔ سفیان اسے مسکراتا دیکھ کر مسکرا دیا تھا۔
"سنو"
زرشی نے اسے پکارا تھا۔
"کہو میری پیاری وائف"
وہ پیار سے پیچھے ہو کر اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے بولا تھا۔
"عنایہ زیان کے درمیان بھی سب ٹھیک کر دو نا تم"
زرشی نے کہا تھا۔
"میں کیسے کروں یار؟؟ وہ دونوں اپنی اپنی انا چھوڑنے کو تیار ہی کب ہیں"
سفیان نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
"پر ہمیں پھر بھی کچھ کرنا چاہیے"
وہ ان کے لیے فکر کرتے ہوئے بولی تھی۔
"کیا کریں گیں ہم؟؟ پلیز زرشی آج اپنی ویڈنگ نائٹ پے تو ان دونوں کا ذکر چھوڑ دو"
وہ اسے خفگی سے دیکھتے ہوئے بولا تھا۔
"شرم کرو تم مطلبی انسان آج جو ہم دونوں ایک ساتھ یہاں موجود ہیں نا۔۔۔ وہ دونوں نا ہوتے تو آج یہ سب بھی نا ہوتا۔۔"
وہ اس سے ناراض ہو کر دور ہو کے کھڑی ہو گئی تھی۔ سفیان مسکرا کر اس کے دوبارہ قریب آیا تھا۔
"ان دونوں کی ٹینشن تم نا لو میری جان۔۔ اللہ‎ تعالیٰ سب ٹھیک کر دیں گیں"
وہ اسے یقین دلاتے ہوئے بولا تھا۔
"انشاء اللہ‎"
وہ مسکرا دی تھی
"انشاء اللہ‎"
سفیان نے مسکرا کر کہا تھا۔زرشی اس کے پاس سے جانے لگی تھی جب سفیان نے اس کا بازو پکڑ کے اس کو ایسا کرنے سے باز رکھا تھا۔
"کیا ہے اب؟"
وہ اسے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی تھی۔
"تم نے تو ویسا اظہار نہیں کیا جیسا میں نے کیا تھا کل"
وہ شرارت سے اسے دیکھتے ہوئے بولا تھا۔
"کر دوں گی کبھی میں بھی"
وہ اس سے اپنا بازو چھڑواتے ہوئے شرما کر بولی تھی۔پر ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائی تھی۔
"ابھی کیوں نہیں؟"
وہ اس کے چہرے کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا تھا۔
"ابھی ہی سہی پھر آنکھیں بند کرو تم"
اس کے ایسا کہنے پر سفیان خوشی سے کھل اٹھا تھا۔ اور اس نے آنکھیں بند کر کے چہرہ تھوڑا جھکایا تھا۔
"بازو تو چھوڑو نا"
اس کے پیار سے کہنے پر سفی نے اس کا بازو بھی چھوڑ دیا تھا۔
زرشی پھرتی سے نیچے جھکی تھی اور باتھ روم میں جا کر اس نے زور سے دروازہ بند کر لیا تھا۔
"یہ کیا بدتمیزی ہے؟"
"ہاہا بس تم دیکھتے جاؤ یہ تو بس شروعات ہے"
باتھ روم کے اندر سے زرشی کا قہقہہ گونجا تھا۔ سفیان بھی اس کی شرارت پر ہنس دیا تھا۔
"تم باہر آؤ پھر بتاتا ہوں مائے لو"
وہ دل ہی دل میں اس سے مخاطب تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حالِ دل کہوں کیسے (COMPLETED)Where stories live. Discover now