Last Episode (Part I Mehandi Special)

2.2K 130 27
                                    

"اٹھ بھی جا زیان تجھے کب سے کہہ رہا ہوں۔"
سفیان اب تنگ آ گیا تھا۔ وہ کب سے زیان کی منتیں کر رہا تھا مگر وہ بھی ایسا ڈھیٹ تھا اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
"یار تو میری حالت نہیں سمجھ رہا۔۔ تو نہیں سمجھ رہا جو بچپن میں کہنے سے پہلے سمجھ جایا کرتا تھا۔"
وہ دکھ سے اسے دیکھتے ہوئے بولا تھا۔
"میں سمجھ رہا ہوں  پر ہم کیا کر سکتے ہیں یار"
وہ بھی اس کے قریب بیٹھ کر تھوڑی نرمی سے بولا تھا۔
"تم کر سکتے ہو سفی وہ تمہیں اپنا بھائی مانتی ہے"
وہ اس کی طرف امید سے دیکھتے ہوئے بولا تھا۔
"ہاں پر میں اس سے اس بارے میں بات نہیں کر سکتا اسے تکلیف ہو گی۔۔ مجھے میری بہن بہت عزیز ہے اسے تکلیف دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا میں"
اس کے لہجے میں عنایہ کے لیے محبت اور فکر محسوس ہورہی تھی۔
"ہاں دوست جاۓ بھار میں اس کی تکلیف کا کیا۔۔ کیا کسی کو بھی یہاں میری تکلیف نظر نہیں آ رہی شادی کی تیاریوں میں مگن ہیں بس۔۔ کسی کو میری پرواہ نہیں"
وہ روٹھ کر اس سے جدا ہو کر بیٹھ گیا تھا۔
"تو تجھے کس نے کہا تھا اس لڑکی کو اتنی بڑی بڑی باتیں کہنے کو ہاں؟؟ تب تجھے پتا نہیں تھا بعد میں تجھے خود کو ہی کتنی تکلیف ہو گی"
سفیان اس پر غصہ ہوا تھا۔
"نہیں پتا تھا مجھے۔۔۔ بس۔۔ اگر پتا ہوتا تو ضرور خود کو قابو میں رکھتا۔۔پر اب میں کیا کروں یار۔۔ میرا دل میرے قابو میں نہیں رہا۔۔ مجھے واقعی اس حجابی لڑکی سے محبت ہو گئی ہے۔۔ بہت شدید قسم کی محبت۔۔ میں اس کے بغیر رہنے کا تصور بھی نہیں کرنا چاہتا۔۔۔"
وہ بےبسی سے حالِ دل کہہ رہا تھا۔
"زیان دیکھ میری بات سن ہم سب بھی تو بےبس ہیں۔۔ تیری طرح۔۔ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔۔ وہ تو اس موضوع پر بات بھی نہیں کرنا چاہتی۔۔ بیشک اللہ تعالیٰ حالِ دل سنتا ہے نا۔۔ یقین ہے نا تجھے اس بات پر؟؟"
وہ اس سے استفسار کر رہا تھا۔
"بیشک مجھے ہے اس بات پر یقین ہے"
وہ صاف گوئی سے بولا تھا۔
"ہاں تو پھر کہہ اس رب کے سامنے جو اسباب بنانے میں ماہر ہے۔۔ میرے یار وہ تو بگڑی بھی بنا دیتا ہے تو تیرا معاملہ اس کے سامنے کیا ہے۔۔ بس سچے دل سے معافی مانگ اللہ سے اور اپنا سارا حالِ دل اس کے سامنے کہہ دے۔۔ اور پرسکون ہو جا"
وہ اس کے کندھوں پر ہلکا سا دباؤ ڈال کر چلا گیا تھا۔۔۔
"خدا کے سامنے حالِ دل"
زیان کچھ سوچتے ہوئے اٹھا تھا۔ کچھ دیر کے بعد وہ عشاء کی نماز پڑھ کے رب سے دعا کرنے میں مصروف تھا۔
"یا اللہ۔۔ مجھے آپ کو اپنے دل کی بیقرار کیفیت بتانے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ آپ تو انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں اور اس کے دل میں کوئی خیال آنے سے پہلے ہی بھامپ لیتے ہیں۔۔ اللہ تعالیٰ مجھے اس لڑکی سے سچی مچی والی محبت ہو گئی ہے۔۔۔میں جانتا ہوں یہ محبت جائز نہیں کیوں کہ یہ ایک نامحرم کی محبت ہے مگر  اللہ تعالیٰ آپ تو  دینے والے ہیں راہیں ہموار کرنے والے ہیں۔۔ بس میری بھی راہ ہموار کر دیں۔۔ میری محبت کو میرے حق میں جائز بنا دیں یا اللہ۔۔ جو میرے حق میں بہتر ہے مجھے اس سے نواز دے یا رب کریم"
دعا کر کے ایک سکون تھا جو اسے اس کے پورے وجود میں محسوس ہو رہا تھا۔ وہ اطمینان سے اٹھ کر ریڈی ہونے لگا تھا نہیں تو سفیان نے اس کی درگت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اک نظر کو تیرا انتظار آج بھی ہے"
وہ بیقراری سے بار بار تھوڑا سا دروازہ کھول کر باہر دیکھ رہی تھی۔ اس کی حالت پر زرشالا نے بڑے خوبصورت انداز میں شعر پڑھا تھا مگر عنایہ نے اس کا شعر مکمل ہی نہیں ہونے دیا تھا۔
"کیا ہے۔۔ کسی کو کسی کا انتظار نہیں ہے اچھا۔۔۔"
وہ اس کی طرف دیکھ کر سختی سے بولی تھی۔
"اب ہم سے نا چھپاؤ عنایہ"
زرشالا اسے چھیڑتے ہوئے بولی تھی۔
"میں کچھ نہیں چھپا رہی زرشی"
وہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے بولی تھی۔
اس وقت وہ دونوں ریاض کے گھر کے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھیں پالر سے آ کر ان دونوں نے یہیں ٹھہرنا مناسب سمجھا تھا۔ کیوں کے یہ کمرہ گھر کے باقی کمروں سے تھوڑا علیحدہ بنا ہوا تھا۔
زرشی کچھ بولنے ہی والی تھی جب مریم آئی تھیں۔
"چلو بچوں باہر مولوی صاحب آ گئے ہیں"
مریم انہیں بلانے کے لیے آئی تھیں۔ان کے ہمراہ سیمل بھی تھی۔
"آنٹی آپ جائیں ہم آتے ہیں سیمل تم ہمارے ساتھ چلنا"
زرشی نے اٹھتے ہوئے کہا تھا۔
"ہاں زرشی کوئی کام تو نہیں جو مجھے یوں روک لیا"
سیمل حیران ہوتے ہوئے بولی تھی۔
"نہیں مجھے تم سے کیا کام ہو گا بس کچھ کلئیر کرنا تھا"
وہ بھی مسکرا کر بولی تھی۔
"ہاں؟"
وہ کنفیوز ہو گئی تھی۔
"زرشی جلدی کرو ہم لیٹ ہو رہے ہیں تم بعد میں اپنا کلئیر کر لینا"
عنایہ نے ان کی گفتگو میں حصہ ڈالا تھا۔
"تمہارے لیے ہی کرنا ہے"
زرشی اسے دیکھتے ہوئے بولی تھی۔
"کیا؟؟"
سیمل اور عنایہ ایک ساتھ بولی تھیں۔
"یہی کے تم دونوں ایک دوسرے کو بلاتے کیوں نہیں؟؟"
زرشی نے ان دونوں کو مشکوک نظروں سے دیکھا تھا۔
"ارے نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے"
عنایہ نے اسے غلط ثابت کرنا چاہا تھا۔ مگر وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی۔
"عنایہ آئی ایم ویری ویری سوری۔۔ میری وجہ سے تم اور زیان۔۔۔"
سیمل شرمندگی سے بولی تھی جب عنایہ نے اس کی بات کاٹی تھی۔
"نہیں سیمل تمہیں سوری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔ آؤ ہم لیٹ ہو رہے ہیں"
عنایہ نے تو بات ہی ختم کر دی تھی۔
"مگر پھر بھی اگر تمہارے دل میں ابھی بھی کچھ ہو تو پلیز مجھے معاف کر دو محبت کی خاطر میں نے غلط قدم اٹھا لیا تھا۔ مگر مجھے جیسے ہی احساس ہوا میں نے سب سے معافی مانگ لی۔۔"
وہ سچے دل سے بولی تھی۔
"سیمل میں تم سے بلکل بھی ناراض نہیں ہوں۔۔ بس میں ناجانے کیوں تم سے بات کرنے سے کترانے لگی تھی خیر اب ایسا نہیں ہو گا چلو بھئی نہیں تو سفیان نے مولوی لے کر یہاں آ جانا ہے"
وہ ہنستے ہوئے بولی تھی۔  اس کی بات پر وہ دونوں بھی مسکرائی تھیں۔
"چلو اس لڑکے کا واقعی کوئی اعتبار نہیں"
سیمل بھی ہلکے پھلکے انداز میں بولی تھی۔
"خبر دار جو تم دونوں نے اب  میرے ہونے والے پتی دیو کی شان میں گستاخی کی تو"
زرشی غصے سے بولی تھی۔
"یہ دیکھو نکاح ہونے سے پہلے ہی کیسے اس کا ڈیفنڈ کر رہی ہے محترمہ"
عنایہ نے زرشی کو گھورتے ہوئے کہا تھا۔
"اس کو لے چلیں نہیں تو سفیان کا پتا ہے نا"
سیمل نے ہنستے ہوئے انہیں یاد کروایا تھا کے انہیں جانا بھی ہے۔۔
"ہاں"
عنایہ نے یہ کہتے ہوئے زرشی کے سنہرے حجاب کے اوپر لال رنگ کا خوبصورتی سے بنا ہوا نیٹ کا دوپٹہ اوڑھا دیا تھا۔ اور وہ دونوں اسے لے کر باہر لاؤنج میں لے گئیں تھیں جہاں نکاح ہونا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریاض کے گھر کے لاؤنج کی سیٹنگ نکاح کے لیے بدل دی گئی تھی۔۔ ان کا لاؤنج کافی وسیع تھا اس لیے اس کے بلکل درمیان میں ایک پردہ لگایا گیا تھا۔ وہ پردہ سنہرے رنگ کا تھا اور اس میں سے دوسری جانب کا منظر آسانی سے دیکھا جا سکتا تھا۔ کمرے کا ایک حصہ زنانہ لوگوں پر مشتمل تھا جب کے دوسرے حصے میں دولہا سمیت سب مرد تھے۔ عنایہ اور سیمل زرشی کو لے کر زنانہ حصے میں آگئی تھیں جہاں پر ایک صوفہ سیٹ کیا گیا تھا اور اس کے اطراف میں تھوڑی سی کرسیاں لگائی گئیں تھیں۔۔ کیوں کے اصل فنکشن تو لان میں ہونا تھا۔ زرشی صوفہ پر اپنی اماں اور مریم کے ساتھ بیٹھ گئی تھی۔ اس  صوفہ کے بلکل ساتھ ہی جمیلہ کے لیے کرسی رکھی گئی تھی۔ عنایہ اور سیمل اس کے بلکل پیچھے کھڑی ہوئی تھیں۔ دوسری جانب بھی ایسے ہی انتظام کیا گیا تھا۔ وہاں رکھے گئے صوفہ پر سفیان براجمان تھا اور اس کی ایک جانب  زیان بیٹھا ہوا تھا۔ ان دونوں نے کرتا شلوار پہن رکھی تھیں۔ سفیان نے سنہرے رنگ کے کرتے کے نیچے سفید رنگ کی شلوار پہنی تھی جب کے زیان نے ہلکے چاکلیٹی رنگ کا کرتا پہنا ہوا تھا اور اس کے نیچے سفید شلوار زیب تن کی ہوئی تھی۔ اپنی گردن کے گرد اس نے چاکلیٹی کلر کی ہی چادر کو ایک بل دے کر اوڑھا ہوا تھا۔ جس کے دو لمبے لمبے حصے آگے کی جانب کیے ہوئے تھے۔ سفیان کی دوسری جانب مولوی صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔۔ان کے صوفہ کے بلکل پاس ہی ریاض بھی اپنی ویل چیئر پر بیٹھے ہوئے تھے۔
باقی مہمان پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔
"نکاح شروع کریں اب"
ریاض نے اپنی بھاری آواز میں مولوی صاحب کو مخاطب کیا تھا۔مولوی صاحب اٹھ کر پردے کے دوسرے جانب گئے تھے۔اور نکاح کے کلمات پڑھے تھے۔
"زرشالا کیا آپ کو سفیان احمد کے ساتھ یہ نکاح قبول ہے؟"
مولوی اور سارے مہمان خصوصاً سفیان اس پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ حیا اور شرم کی وجہ سے اس کے لبوں سے کچھ بھی بولا نہیں جا رہا تھا۔
"ویسے تو صبر نہیں ہو رہا تھا اب پوچھ رہے ہیں تو چپ کر گئی ہے"
عنایہ نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا تھا۔۔
زرشی نے دھیرے سے قبول ہے کہا تھا اور سر اثبات میں ہلا دیا تھا۔۔۔ مزید دو مرتبہ بولنے پر بھی اس نے یونہی اقرار کیا تھا اور اپنی محبت کو محرم بنا لیا تھا۔اب مولوی صاحب سفیان کے پاس آئے تھے۔
"سفیان احمد کیا آپ کو زرشالا بنت یوسف سے نکاح قبول ہے؟"
اس نے مسکرا کر پردے کی دوسری جانب بیٹھی زرشالا کو دیکھا تھا۔ وہ بھی منتظر نگاہوں سے اسے ہی تک رہی تھی سفی کی اپنی جانب دیکھتا پا کر اس نے نظریں جھکا لی تھیں۔ سفی تو اس کی اس ادا پر گھائل ہی ہو گیا تھا زیان کے اسے ہلانے پر وہ دوبارہ حال میں آیا تھا۔
"ہاں قبول ہے"
اس نے مسکراتے ہوئے گہری نظروں سے زرشی کو دیکھا تھا۔ اس کی آواز اتنی بلند تھی کے پردے کے اس پار بیٹھی ہوئی زرشالا کو بھی سنائی دی تھی۔ مبارکوں کا شور اٹھا تھا۔ خوشی میں اس نے سب سے پہلے ریاض سے سر پر پیار لیا تھا۔ اور پھر زیان اس کے کس کے گلے لگا تھا۔
"اگر آہستہ بھی بول دیتا تو بھی نکاح ہو ہی جانا تھا یار"
وہ بظاہر  مسکراتے ہوئے اس کے کان میں بولا تھا۔
"ہاں پر اس تک نہیں پہنچنی تھی پھر آواز"
وہ بھی ڈھٹائی سے مسکرا کر اس کے کان میں گھستے ہوئے بولا تھا۔
"بےشرم"
کہتے ہوئے زیان اس سے دور ہٹا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکاح کے بعد ان دونوں کو ساتھ لان میں رکھے گئے خوبصورتی سے سجاۓ ہوئے جھولے پر بیٹھا دیا گیا تھا۔ سب مہمان اپنے میزبانوں سمیت لان میں بیٹھ چکے تھے۔ مہندی کی رسم شروع ہونے والی تھی۔مٹھائی کی پلیٹ لانے کے لیے عنایہ گھر کے اندر جا رہی تھی جب داخلی دروازے کے تھوڑا سا آگے اسے کسی چیز نے آگے بڑھنے سے روک دیا تھا۔ وہ حیرت سے پیچھے مڑی تھی۔
اس کا دوپٹے کا پلو زیان کی گھڑی کے ساتھ اٹکا ہوا تھا۔ وہ بھی اتنی ہی حیرانگی سے اپنی گھڑی دیکھ رہا تھا۔ اور پھر دونوں نے نظریں اٹھا کر ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔ ان دونوں نے سارے فنکشن میں اب ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔ زیان کو تو عنایہ کو دیکھ کر اپنا دل سمبھالنا مشکل ہو گیا تھا۔  وہ آتشی رنگ کے لہنگے میں ملبوس تھی۔ اور اس کے اوپر اس نے بلیک کلر کی کرتی پہن رکھی تھی جس کی لمبائی بہت چھوٹی بلکل نہیں تھی۔ اس کے ساتھ اس نے بلیک کلر کا ہی حجاب کیا ہوا تھا اور اپنے کندھوں کے گرد آتشی رنگ کا ریشمی دوپٹہ خاص سٹائل سے لیا ہوا تھا۔ آج خلاف معمول میک اپ میں وہ زیان کو بہت حسین لگی تھی۔ اتنی کے اسے دھیان ہی نہیں رہا تھا کب عنایہ اس کی گھڑی سے اپنا دوپٹہ آزاد کروا کر جا چکی ہے۔۔ وہ بھی اس کے پیچھے لپکا تھا۔ اس وقت گھر میں کوئی بھی نہیں تھا۔ سب لوگ باہر موجود تھے۔ اس نے عنایہ کو کچن میں پایا تھا وہ وہاں سے مٹھائی کی پلیٹ لے رہی تھی۔
"سنو؟"
زیان نے اسے پکارا تھا۔ عنایہ کو اس کی موجودگی پر شدید حیرت ہوئی تھی۔ باہر لاؤڈ میوزک لگا ہوا تھا اس لیے ان کی آوازیں باہر
نہیں جا سکتیں تھیں۔
"کہو"
وہ نا چاہتے ہوئے بھی وہیں رک گئی تھی۔ زیان کی طرف اس کی پشت تھی۔
"مولوی صاحب ادھر ہی ہیں ابھی"
اس کی بات پر وہ مڑی تھی اور ناسمجھی سے اسے دیکھا تھا۔
"تو؟؟"
"نکاح کرنا ہے؟؟"
عنایہ کو اس کی بات پر شدید جھٹکا لگا تھا۔
"کس نے؟"
وہ الٹا اس سے سوال کر رہی تھی۔
"میں نے"
وہ مسکراتے ہوئے دو قدم اس کے قریب آیا تھا۔
"کیوں"
وہ اب بھی کچھ سمجھ نہیں سکی تھی یا سمجھ کر انجان بنی ہوئی تھی۔
"ابھی نہیں کروں گا تو کیا بوڑھا ہو کر کروں گا"
وہ مزید دو قدم آگے بڑھا تھا۔۔لہجے اب بھی دلنشیں بنایا ہوا تھا۔ یا شاید خودی اس لڑکی کو دیکھ کر بن گیا تھا۔
"تو کر لو"
وہ مٹھائی کی پلیٹ لے کر اس کے سائیڈ سے ہو کر گزرنے لگی تھی جب زیان نے اس کا بازو سختی سے پکڑا تھا۔
"مجھے تم سے کرنا ہے"
وہ اس کی آنکھوں میں براہ راست دیکھتے ہوئے بولا تھا۔
"یہاں پر بہت سی لڑکیاں موجود ہیں کسی سے بھی کر لو"
وہ کہتے ہوئے جانے لگی تھی مگر مقابل کی گرفت مضبوط تھی۔
"تمہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیا اگر میں کسی اور سے کر لوں گا تو؟"
وہ بڑی چاہت سے اسے دیکھتے ہوئے بولا تھا۔
"نہیں"
وہ ایک لفظی جواب دے کر اس سے زبردستی اپنا بازو چھڑوا کر چلی گئی تھی۔۔ اور زیان اس کے لیے تو جیسے وقت ہی تھم گیا تھا۔۔ بےرخی سہنا اسے عنایہ نے سکھایا تھا۔۔ وہ جو سمجھتا تھا کے وہ ہر چیز پا سکتا ہے غلط تھا۔۔۔ ہر چیز پیسے یا اقتدار سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔۔ وہ اچھی طرح سمجھ گیا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہندی کا فنکشن بخیر و عافیت اختتام پذیر ہو چکا تھا۔ زرشی کو عنایہ دوبارہ اسی کمرے میں لے آئی تھی جہاں پر وہ نکاح سے پہلے رکی ہوئی تھیں۔ ان کو وہاں ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی جب دروازہ کھٹکھٹایا گیا تھا۔ گھڑی رات کے دو بجا رہی تھی۔وہ دونوں دروازہ اور ٹائم دیکھ کر حیران ہوئی تھیں
"بھلا اس وقت یہاں کون آیا ہو گا"
عنایہ نے سوچتے ہوئے دروازہ کھولا تھا۔۔
سامنے سفیان صاحب دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کھڑے ہوئے تھے۔
"تم اس وقت یہاں کیا لینے آئے ہو؟"
عنایہ نے اسے گھورتے ہوئے کہا تھا۔
"لے کے تو کل جاؤں گا ابھی بس ملنے آیا ہوں"
وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا۔
"کیا مطلب"
عنایہ نے الجھن سے اسے دیکھا تھا۔۔
"مطلب کچھ نہیں۔۔ بس تم جاؤ لاؤنج میں دادا بلا رہے ہیں"
وہ اسے کمرے سے زبردستی نکال کے دروازہ بند کر چکا تھا اور عنایہ غصے سے پیر پٹھکتی ہوئی لاؤنج کی جانب بڑھی تھی۔۔ لاؤنج کے دروازے کے ساتھ ہی سیڑھیاں اوپر کی جانب جاتی تھیں۔ اس نے لاؤنج کی طرف ایک قدم رکھنا ہی چاہا تھا جب کسی نے زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے سیڑھیوں کی طرف کھینچا تھا۔ اس نے ڈر اور خوف کے ملے جلے تاثرات سے کھینچنے والے کی جانب دیکھا تھا۔۔
"کیا مسلہ ہے تمہارے ساتھ؟ اور یہ کیا بدتمیزی کی ہے تم نے ابھی؟؟؟"
وہ غصے سے دبی ہوئی آواز میں بولی تھی۔۔ اگر اونچا بولتی تو خاموش گھر میں اس کی آواز کی وجہ سے ارتعاش پیدا ہو جاتا۔۔زیان نے بھی اسے گھورا تھا۔
"لاؤنج میں سارے مہمان مرد سو رہے ہیں تم وہاں کیا لینے جا رہی تھی؟"
وہ بھی غصے سے آہستہ آواز میں بولا تھا۔
"مجھے تو سفیان نے کہا کے لاؤنج میں جاؤں دادا بلا رہے ہیں"
وہ منہ بسورتے ہوئے بولی تھی۔۔ اسے شرمندگی نے گھیر لیا تھا۔ اگر اسے پتا ہوتا کے وہاں غیر مرد ہیں تو کبھی نا جاتی پر ذرا جو سفیان تھوڑی عقل مندی کا اظہار کر لے۔۔ عنایہ کو بھیجنا ہی تھا کہیں بھی بھیج دیتا پر۔۔ اس سے بعد میں نبٹنے کا سوچ کر عنایہ نے زیان کو دیکھا تھا۔۔ جس نے ابھی تک ایونٹ والے کپڑے تبدیل نہیں کیے تھے اور بلاشبہ وہ اب بھی ویسا ہی فریش لگ رہا تھا۔ بس اس کی آنکھوں میں سرخ لکیریں بہت واضح تھیں۔۔
"سفیان کو تو میں کل دیکھ لوں گا"
وہ غصے سے بولا تھا۔اور عنایہ کا بازو چھوڑ دیا تھا وہ دونوں اب ایک دو سیڑھیاں اوپر چڑھ کے ایک دوسرے کے روبرو کھڑے ہوئے تھے۔
"جاؤ سو جاؤ تم بھی تھک گئی ہو گی"
وہ اس کی فکر میں بولا تھا۔
"میں کیسے جاؤں سفیان وہاں روم میں ہے اور اس نے مجھے نکال کے لاک کر لیا ہے روم"
وہ منہ بناتے ہوئے بولی تھی۔۔ اس کی یہ ادا زیان کو بہت پسند تھی اور عنایہ کا یہ انداز دیکھ کر وہ بے اختیار مسکرایا تھا۔
"اچھا چلو تھوڑا انتظار کر لو"
وہ اپنی مسکراہٹ پر قابو پاتے ہوئے نرمی سے بولا تھا۔ وہ بھی اس سے تھوڑا دور ہو کر وہاں ہی کھڑی ہو گئی تھی۔۔ مگر ایک بار پھر سے اجنبیت کی دیوار ان کے درمیان حائل ہو گئی تھی۔ زیان نے اپنی پاکٹ سے چاکلیٹ نکالی تھی۔ اور اس کا ریپر اتارا تھا اور عنایہ کی طرف بڑھائی تھی۔عنایہ نے تکلف بلائے طاق رکھتے ہوئے آدھی لے لی تھی۔
زیان کی گھورتی ہوئی نظریں دیکھ کر وہ ہلکا سا مسکرا کر بولی تھی۔۔
"مجھے بہت پسند ہیں"
زیان اس کی بات سن کر مسکرایا تھا۔
"مجھے بھی بہت پسند ہیں"
اس کی بات سن کر وہ دوبارہ چاکلیٹ کھانے لگی تھی۔
"جانتی ہو کیا؟؟"
زیان نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا تھا۔عنایہ نے نظریں اٹھا کر زیان کی طرف سوالیہ نظروں سے  دیکھا تھا۔
"کیا؟"
"تم"
اس کے لہجے سے اس کے جذبات کی شدت عیاں ہو رہی تھی۔ اس کے لہجے کی تپش عنایہ کو اپنے پورے وجود میں محسوس ہوئی تھی۔۔۔اسے سمجھ نہیں آیا تھا وہ کیا کہے  کس قسم کا اظہار کرے۔۔ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کے کبھی زیان بھی اسے یوں کہے  گا۔۔ وہ تو بس گم سم سی کھڑی تھی۔
"کیا ہوا؟؟"
زیان بولا تھا۔
وہ بغیر کچھ کہے وہاں سے چلی گئی تھی۔۔ زیان بس اسے جاتا ہوا دیکھ رہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تم"
زرشی کو سفیان کو اس کے کمرے میں دیکھ کر عجیب سا احساس ہوا تھا جو اس نے پہلےکبھی محسوس نہیں کیا تھا۔۔
"ہاں اب میں ہی ہوں تمہارا سب کچھ"
سفیان مسکراتے ہوئے بولا تھا۔۔ اور دو قدم  قریب آیا تھا۔۔
"ہاں سو تو ہے۔۔ پر اس ٹائم تمہارے یہاں پاۓ جانے کامقصد؟؟"
وہ اسے مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی تھی۔
"کچھ نہیں ڈیٹ پے جا رہا تھا سوچا تم سے ملتے ہوئے چلا جاؤں"
سفیان کا دل چاہا تھا اپنا سر پیٹ لے۔۔ زرشی اتنی معصوم تو نا تھی اسے یہاں آنے کا مقصد سمجھ نا آئے۔۔
"کیا کہا تم نے؟"
وہ غصے سے بولی تھی۔
"ہاں تمہیں بھی تو آسان الفاظ میں بات سمجھ میں نہیں آتی"
وہ بھی اسے گھورتے ہوئے بولا تھا۔۔
"تم سمجھاتے کب ہو آسان الفاظ میں"
وہ روٹھتے ہوئے بولی تھی۔
"افو زرشالا سفیان آج بھی آپ ہم سے لڑیں گیں؟ جانتی ہیں نا آج کتنا خاص دن ہے ہمارا نکاح ہوا ہے آج"
وہ اسے پیار سے دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔زرشالا کو  اپنا نام اس کے منہ سے سن کر بہت اچھا لگ رہا تھا۔
"نہیں لڑوں گی"
وہ مسکراتے ہوئے بولی تھی۔ سفیان نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامے تھے۔
"سفی"
زرشی نے اسے پکارا تھا۔
"جی زرشالا سفیان"
وہ اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔
"ہمارا نکاح آج نہیں کل ہوا ہے دیکھو ٹائم بارہ بجے سے اوپر ہو گئے ہوئے ہیں"
وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے معصوم بنتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
"افو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کب ہوا ہے بس یہ احساس کتنا خوبصورت ہے نا کے ہمارا نکاح ہو چکا ہے۔۔ ہم ایک دوسرے کے محرم ہیں"
سفیان مسکراتے ہوئے بولا تھا۔ زرشی بھی مسکرا دی تھی۔
"تم جانتی ہو؟"
سفیان نے اس کی طرف دیکھا تھا۔
"کیا؟"
"میں نے کبھی اپنی حد سے بڑھ کر تم سے اظہار محبت نہیں کیا۔۔ اس کی وجہ یہی تھی کے میں خود کو خدا کے آگے گناہگار نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔ پر اب ہم محرم ہیں۔۔ ہمارا ایک دوسرے سے اظہار کرنا اور محبت کرنا جائز ہے"
وہ بڑے دھیرے سے کہہ رہا تھا۔۔
"ہاں اس لیے تو تم مجھے اچھے لگتے ہو کہ تمہیں اپنی حدود کا بخوبی علم ہے"
وہ مسکراتے ہوئے بولی تھی۔
"میں کیا صرف تمہیں اچھا لگتا ہوں؟"
سفی نے اسے گھورا تھا۔
"ہاں تو اور کیا"
زرشی نارمل انداز میں بولی تھی۔
"کیا تمہیں مجھ سے محبت نہیں؟"
وہ بڑی امید سے اسے دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔
"ہے نہیں تو کیا ہوا ہو جاۓ گی"
وہ شرارت سے بولی تھی مگر سفی اس کی یہ شرارت سمجھ نہیں سکا تھا۔
"اوکے چلو تم سو جاؤ"
وہ کہتے ہوئے باہر جانے لگا تھا۔
"سنو؟"
سفی دروازے کے قریب کھڑا تھا جب زرشی نے اسے پکارا تھا۔وہ واپس مڑا تھا۔ اس بار زرشی نے اس کی طرف اپنے قدم بڑھاۓ تھے۔
"جی؟"
سفی نے کہا تھا۔
"مجھے تم سے محبت ہے"
وہ کہہ کر شرما گئی تھی۔۔سفیان تو جیسے خوشی سے کھل اٹھا تھا۔۔ اس کی اس ادا پر وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔
"اوہ زرشی آئی لو یو سو مچ"
اس نے زرشی کے ماتھے پر اپنی محبت کی پہلی نشانی سبط کی تھی۔ وہ بھی اس قسم کے اظہار پر کھل ہی تو اٹھی تھی۔
"سنو"
زرشی نے ایک بار پھر اسے پیار سے پکارا تھا۔
"کہو"
سفیان اسی کا  منتظر تھا۔
"منزل اور بھی کتنی حسین ہو جائے
میسر اگر ہم کو تیرا ساتھ ہو جائے
قدم بہ قدم گر چلے تو ساتھ میرے
صحرا کی تپتی زمیں بھی نخلستاں ہوجائے
نہ کوئی گلہ نا کوئی شکوہ کروں کبھی تم سے
نشانی اک محبت کی اگر تو چھوڑ جائے
ہمیشہ رہے گی یہ محبت کی ماری ساتھ تیرے
تیری طرف سے بھی اک بار اظہار محبت ہو جائے
چھوڑوں گی ساتھ تیرا بس اسی صورت
تعلق سانسوں سے ہمارا جو ٹوٹ جائے"
وہ دلنشیں انداز میں اسے غزل سنا رہی تھی۔ سفیان تو بس اس کے انداز اور لفظوں کی گہرائی میں کھو گیا تھا۔۔
"اب جاؤ تم"
اس کے شوخ ارادے بھامپ کر زرشی نے اسے دروازے سے باہر دھکیلا تھا۔
"شرم کرو اپنے شوہر کو کمرے سے یوں باہر نکال رہی ہو"
وہ اسے گھور کر بولا تھا۔
"اوہ مسٹر اب یہ روز کی کہانی ہو گی"
اس نے بھی شرارت سے کہہ کر دروازہ بند کر دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حالِ دل کہوں کیسے (COMPLETED)Waar verhalen tot leven komen. Ontdek het nu