EPISODE 1

661 17 4
                                    

اس کو آج پاکستان کے لیے نکلنا تھا. اس نے اپنے مھنے پر سے ہاتھ
ہٹایا اور ساہیڈ ٹیبل پر پڑا فون اٹھایا. یے
فجر کا وقت تھا اود صبح کے 5:00 بج رہے تھے. اس نے فون واپس ساہیڈ ٹیبل پر رکھا اور اپنی جان لیوا سبز آنکھیں مسلتا ہوا اٹھا اور کھڑکی کے پردے کولنے لگ
ڈینپاسر کا موسم آج کافی خوشگوار تھا.
ڈینپاسر انڈونشیا کا ایک مشہور شہر ہے. اور بالی ایلینڈ کا کپیٹل بھی یے. ڈینپاسر کا موسم زیادہ تر گرم رہتا ہے لیکن آج موسم حیرت انگیز طور پر اتنا گرم نا تھا. اور فضا میں اجیب سی خوشگواری تھی. وہ ویں کھڑا کھڑکی سے آسمان کو دیکھ رہا تھا.
جب دروازے پر دستک ہوئ اس نے چونک کر پیچھا دیکھا وہ اپنے خیالوں سے باہر آچکا تھا. یس.
اس کی بھاری رعب دار آواز فضا میں گونجی.
پھر دروازہ کھلا اور ایک چینی نقوش سنولی رنگت کی عورت اندر داخل ہوی. اس نے لمبی سی فراک ٹاہپ کچھ پہنا تھا. جو دکھنے میں بڑا اجیب لگتا لیکن یے ان کے روایتی کپڑے تھے.
اس عورت کے ہاتھ میں ایک کافی کا مگ تھا. جو اس نے وہاں رکھی میز پر رکھ دیا.
اور پھر شہریار کی طرف مخاطب ہوی .
"anda ingin yang lain pak"
آپ کو کچھ اور چاہیے سر
"Tidak, terima kashi"
نو ٹینکس.
اس عورت نے سر کو ہلکا سا خم دیا اور دروازہ بند کر کے وہاں سے نکل گی.
وہ دونوں انڈونشین زبان میں بات کرہے تھے..
وہ ابھی تک کھڑکی سے آسمان کو دیکھ رہا تھا پھر کسی خیال کےتحت مڑا اور اپنی وارڈروب کی طرف بڑھ گیا..
کافی کا کپ ابھی تک انچوھا رکھا تھا.

......


وہ کتاب میں سر دۓ بیھٹی تھی.
جب دروازے کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئ.

اس نے ایک نظر دروازے کی طرف ڈالی اور دوبارہ کتاب پرھنے میں مشغول ہوگئ.

آب تم اس فضول کتاب کے لۓ اپنی پیاری سی
دوست کو ٹھکراؤ گی.(اریج نے اس کے ہاتھ سے کتاب چھینتے ہوۓ کہا)

اریج ایما کی بہت اچھی دوست تھی.
دونوں کی آپس میں بہت بے تکلفی تھی .اور گھر قریب ہونے کے باعث ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بھی عام بات تھی.
دروازہ کھلنے کی آواز سے ہی ایما کو اندازہ ہو گیا تھا کے اریج اس کا سر کھانے آرہی ہیں.

ایما نے اس کے ہاتھ سے کتاب غصے سے چھینی اور
ساہیڈ ٹیبل کی دراز میں ڈال دی.

خبردار جو میری کتاب کے بارے میں ایک لفظ بھی نکالا...
ایما نے اریج کو غصے سے آنکھے نکالتے ہوۓ کہا.

بس بس اور باہر مت نکالنا کہیں باہر ہی نا گر جاہیے.
اور ابھی تک تو تمہیں تمہارے خوابوں کا شہزادہ بھی نہیں ملا جو تمہیں تمہاری آنکھیں گرنے پر تمہیں اٹھا کر دے گا.

وہ اور کچھ بولنے ہی والی تھی کے ایما کے تاثرات
نوٹ کیے.
ایما غصے سے لال ہو رہہی تھی .

ایما نوولز بہت پڑتھی تھی.اور ایما کو بھی سب لڑکیوں کی طرح اپنے شہزادے کا انتظار تھا.
جب کے اس کے برعکس اریج کو کتابوں میں رتھی برابر بھی دلچسپی نا تھی..
اور وہ ایما کو کتابیں پڑھتے دیکھ کر بہت تنگ کرتی تھی .
اور تو اور ایما کو کتابی کیڑے کے نام سے بھی
پکارا کرتی تھی.لیکن اریج کے علاوہ ایما کو کوئ اس نام سے نہیں پکار سکتا تھا.

کیوں کے بیسٹ فرینڈ کو بےعزت کرنے کا حق صرف بیسٹ فرینڈ کو ہیں.

اچھا اچھا کتابی کیڑے میں تو مزاق کرہی تھی تم تو برا ہی مان گئ .
اریج نے ایما کے لال پڑتھے چہرے کو دیکھ کر ہنستے ہوۓ کہا.

ایما نے اپنی موٹی موٹی آنکھوں مہں خفا خفا تاثرات لۓ اسے دیکھا مگر خاموش رہی.

وہ اپنے ناولز کی تزلیل سن کر کچھ ایسی ہی ہو جایا کرتی تھی.
اور اریج کو یے بات اچھے سے پتا تھی.پھر بھی اسے تنگ کرنے کا کوئ بھی موقع ہاتھ سے نا جانے دیتی.


اچھا سوری نانااااأااا..........
اریج کے لمبے سے سوری پر ایما مسکرا دی.
اس کی مسکراہٹ پر اریج خوش ہوگئ . اچھا یے بتاو تمہارا شہزادہ کیسا ہونا چاہیے . اریج نے ایما کو خوش کرنے کے لۓ پوچھا.

وہ.ایسی ہی تھی پہلے تنگ کرتی اور پھر باتیں بنا کر موڈ پھر سے اچھا کر دہتی.

وہ ہ ہ ہ ہ ہ.
ایما نے انگلی گال پر رکھ کر سوچنا والت انداز میں کہنا شروع کیا.

وہ کافی کا شوقین ہو.
وہ فریش ہو کر باہر نکلا تو کافی کا کپ اٹھا کر منھ سے لگا لیا.

بی بی میں نے اس کا حلیا پوچھا ہیں نا کے اس کے شوق اریج نے ایما کی بات سن کر دونوں ابرو اچکا کر کہا.

ایما نے اس کی بات کا کوئ جواب نا دیا اور اپنی کہنے میں مگن رہی.

اور اس کی آنکھوں کا رنگ ہرا ہوں
اس نے
اپنی ہری آنکھوں پر گلاسز چڑھاۓ.

اس کا رنگ گورا ہو .
اس بات پر اریج نے اسے گھور کر دیکھا ہوں تم کالا گورے میں فرق کر رہی ہو.
نہیں وہ تو ایسے ہی کہ دیا میں نے ایما نے معصومیت سے کہا.
اچھا چلو کالا بھی ہو تو اس کو فاہزہ بیوٹی کریم دے دینا.اریج نے ہنستے ہوۓ کہا.
بدتمیز ایما بھی اس کی بات پر ہنس دی.

وہ اپنی گوری رنگت کی وجا سے انڈونشیا میں الگ ہی نظر آتا تھا.

اور وہ لمبا سمارٹ اور ہنڈسم ہونا چاہیے .

وہ دراز قد کا تھا اور کافی سمارٹ اور ہنڈسم بھی.

اور.کچھ اریج نے اسے افسوس سے دیکھتے ہوۓ پوچھا.
کیوں کے اسے پتا تھا ایسے لوگ دنیا میں موجود ہی نہیں.

اور ایک آخری بات وہ پاکستان سے تعلق رکھتا ہو.

اس نے کوٹ کا بٹن بند کرتے ہوۓ شیشے میں خود کو دیکھا وہ ہمیشا کی طرح دلکش لگ رہا تھا. اور کیسے نا لگتا آخر وہ شہریار حسن تھا.پھر اس نے دروازے کی طرف قدم بڑھا دۓ.
اس کی آج پاکستان کی فلاہٹ تھی.

جاری ہے....

Bali(Completed)✔✔Where stories live. Discover now