2nd Last Episode

822 36 5
                                    

سیاہ ماسک سے چہرے چھپاۓ سب لوگ اپنی پوزیشن لے چکے تھے۔ حدید اور حیدر گاڑی کے پیچھے جھکے ہوۓ تھے۔"میں خود اندر جارہا ہوں۔۔"حیدر نے احتجاج کیا۔
"اچھا یہ لوگ اپنا دماغ ایویں جھونک رہے ہیں۔"حدید نے اسے بازو سے پکڑتے نیچے بیٹھایا۔
"حیدر تم فضول ضد کررہے ہو۔"حدید نے دانت پیسے۔
"حیدر تم زرہ تحمل سے کام لو۔سب سنبھال لوں گا۔"وہ پریشانی سے گویا ہوا۔

لان کی دیوار پھلانگ کر دو آدمی پیچھے سے اندر داخل ہوۓ۔۔۔۔ڈراٸنگ روم تک وہ لوگ رینگتے ہوۓ پہنچے۔ہر طرف سناٹا تھا۔گہری سنسناہٹ امیز خاموشی لیے فارم ہاٶس ویران پڑا تھا۔
داٸیں جانب کے پہلے کمرے سے زیب کا دوست باہر نکلا۔۔۔حیدر فورا دیوار کی اوٹ میں ہوگیا۔۔۔دوسری سمت کھڑے آفیسر کو اسے ٹھکانے لگانے کا اشارہ کرتا وہ احتیاط سے سارے کمرے چیک کرنے لگا۔۔۔

اوپری منزل پر ریلنگ سے چڑھتے حدید گیلری میں داخل ہوا۔۔۔وہ بھاگتا ہوا کمروں کے دروازے کھول رہا تھا۔۔زیب اپنے دوست سے بات کرتا تیز تیز چلتا جارہا تھا۔۔۔حدید اسکی آواز کی سمت آیا۔زیب کے قدم حدید کی آمد پر ڈگمگاۓ۔۔۔۔حدید سرد آنکھیں لیے اسے غصے سے دیکھتا آگے بڑھا۔۔۔زیب نے اپنی جیب میں سے چاچو ٹٹولتے اس پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔۔۔حدید نے ایک کک اسکے چہرے پر ماری وہ دھورا ہوتا زمین پر گرا۔۔۔”بتا کہاں رکھا ہے اسے۔۔۔۔“ضبط سے حدید کی آنکھیں سرخ ہوگٸی تھی۔۔۔وہ اسکے سامنے مرحا کا نام بھی نہیں لینا چاہتا تھا۔
زیب نے مکا حدید کے چہرے پر مارا۔۔۔خون کی لہر اسکے گربان پر گرنے لگی۔۔۔کیوں بتاٶ۔۔۔۔کمینے سمجھتا کیا ہے خود کو ہمیشہ تو درمیان میں آجاتا ہے۔۔۔۔اب دیکھ تم لوگوں کا غرور کیسے توڑتا ہوں میں۔۔۔“ زیب نے چاقو حدید کی گردن پر مارنا چاہا جب اسکا ہاتھ درمیان میں ہی روکھتا وہ اسکا بازو مڑورتا اسکے بازو کی ہڈی توڑ چکا تھا۔۔”کر لی بکواس۔۔۔تم اس لاٸق ہی نہیں تھے۔تمھارے ساتھ نرمی کی جاتی۔۔۔بکو گے اب۔۔۔۔۔کہاں ہے وہ۔۔۔باخدا جان سے مار دوں گا۔۔۔“زور سے اپنے سر سے اسے کک کرتے اسکے چہرے پر مکوں کی برسات کردی۔۔
بڑا درد ہورہا ہے نہ۔۔۔۔مجھے بھی ایسے ہی ہوا تھا۔۔۔جب تیرے کمینے باپ کی کمپنی کی وجہ سے میرے پاپا کو اتنا نقصان ہوا۔۔۔۔۔تو زیادہ ہوشیار یے نہ اپنے باپ کی کمپنی کا تارا۔۔۔“ ابھی اسکی بات پوری نہیں ہوٸی تھی۔۔حدید نے اسکا سر دیوار میں مارا۔۔۔۔”میرے بابا کا نام بھی اپنی گندی زبان سے نہ لینا۔۔۔تمھارا باپ غیر قانونی سرگرميوں میں ملوث ہے اور اسی لیے وہ اس وقت جیل میں ہے۔۔۔زیب مزید ایک لفظ نہیں۔۔۔۔بتاٶ اسے کہا رکھا ہے تم نے۔۔۔“ حدید کی رگیں تنی ہوٸیں تھیں۔۔۔”اب کیا فاٸدہ بےچاری دنیا کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہی۔۔۔کیاکرو گے اگر وہ تمھیں مل بھی گٸی۔۔۔۔افسوسسسسسسس۔۔۔“زیب نے نیا جھوٹ گھرا۔۔۔ خون سے لت پت چہرہ خباثت سے ہنستا وہ حدید کی آنکھوں میں دیکھتا بولا۔۔۔۔”بکواس بند میں نے کیا کہا۔۔۔۔“حدید کی دھڑکن سست ہورہی تھی۔۔۔۔
حدید نے اسکا سر مزید زور سے دیوار میں مارا۔۔۔زیب کے دو آدمی پیچھے سے آتے حدید پر جھپٹے۔۔۔وہ ان کی گرفت سے خود کو چھڑواتا پیچھے ہوا۔۔۔زیب فورا وہاں سے فرار ہوگیا۔۔۔

یوں ہم ملے از نازش منیر(completed)Where stories live. Discover now