Episode 13

752 69 62
                                    

سنہری صبح مہکتی مہکتی اُفق پر چڑھ گٸی تھی۔آج مرحا کو ہسپتال سےگھر آۓ تین دن ہوگٸے تھے۔ آٸرہ جوس لیے کمرے میں داخل ہوٸی۔ مرحا روم سوینگ پر بیٹھی کتاب پڑھنے میں مصروف تھی۔ ” حد ہے ویسے اس لڑکی کی بھی۔۔۔بیماری میں بھی کتابيں۔۔۔اُف میرے اللّٰه “ آٸرہ بڑبڑاتی ہوٸی جوس ساٸیڈ ٹیبل پر رکھتی اس کی طرف متوجہ ہوٸی۔

”باہر آجاٶ لاٶنج میں بی جان بلا رہی ہے۔ اکیلی وہ بور ہورہی ہے فہد اور حور اپنا کوٸی پروجيکٹ مکمل کرنے میں لگے ہیں۔ چھوٹے شہزادے کا کوٸی آتا پتا نہیں۔“ حیدر کے بارے میں کہتے اس کے چہرے پر دبا دبا غصہ تھا۔

”بھٸی صبح صبح خیر تو ہے بھاٸی صاحب سے اتنی ناراضگی؟“ مرحا نے ہلکے پھلکے انداز میں پوچھا
”رات دیر سے آیا اور صبح ناشتہ کیے بنا ہی نکل گیا۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتا۔ پورے شہر کے حالات اب جا کر کہی بہتر ہوۓ ہیں۔ ان لاڈ صاحب کو اتنا کونسا کام ہے۔ ایسی حالت ہے جیسے پورا ملک چلا رہا ہو۔“

آٸرہ کی فکر پر مرحا مسکراۓ بغیر نہ رہ سکی۔
اُف او آپی جان آپ ایسے ہی اتنا پریشان ہورہی ہے۔ اس بھوکر نے مزے سے بونگ پاۓ سے لطف اندوز ہوتے سہی ناشتہ کیا ہونا ہے۔ اور اتنا پیار کرتی ہےآپ  بھاٸی سے۔ ابھی وہ سن لے ناں ایویں ہواٶں میں ہو گا۔ کبھی ہم معصوم بچوں پر اتنا پیار نہیں آیا۔“ مرحا نے جوس کا گلاس منہ کو لگاتے باہر کا رُخ  کیا۔
"He is our foster brother but
more important than any other thing  else."
(وہ ہمارا رضاٸی بھاٸی / دودھ شریک بھاٸی ہے مگر کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ اہم ہے۔)

اس کی بات پر آٸرہ مسکراٸی۔ حیدر آٸرہ سے چھوٹا تھا۔ حیدر کی پیداٸش کے بعد فاطمہ بیگم کچھ عرصہ بیمار رہی۔ اس وقت فوزیہ بیگم نے حیدر کو اپنی گود میں لیا تھا۔ اس کی دیکھ بھال وہی کرتی رہی تھی۔ اسےفیڈ کروانے کی وجہ سے وہ ان کے بچوں کا رضاٸی بھاٸی تھا۔ آٸرہ کے بعد حیدر کی آمد بہت خوش آٸندہ ثابت ہوٸی تھی۔ وہ آٸرہ کے بہت قریب تھا۔ حسن گھر کا بڑا بیٹا تھا۔ کم عمری سے ہی وہ اپنے بابا اور چچا کا لاڈلا تھا۔ حیدر اپنے بابا کی نسبت سفیان صاحب کے زیادہ قریب تھا۔ کوٸی فرماٸش کرنی ہو یا شرارت کے بعد ڈانٹ سے بچنا ہو۔ سفیان صاحب اس کے لیے حاضر ہوتے تھے۔ حسن سرد مزاج کا تھا تو حیدر خوش مزاج تھا۔ دونوں بھاٸیوں کے درمیان آٸرہ نرم مزاج تھی۔ حیدر بندوق اپنی اور کندھا آٸرہ کا ہمیشہ آزماتا تھا۔ حسن سے ڈانٹ سے بچنا ہو یا لاڈ اٹھوانے ہو اس کی آپی اس کی شیلڈ تھی۔
پھر مرحا کی پیداٸش کے وقت ان تینوں بچوں کی خوشی کا کوٸی ٹھکانہ نہیں تھا۔ گھر میں گڑیا کی آمد پر وہ بے حد خوش تھے۔ جب پہلی دفعہ مرحا کو سفیان صاحب نے  گود میں لیا تو وہ مسکراتے ہوۓ بچی کو دیکھ رہے تھے۔ مرحا کے نین نقش سب حیدر جیسے تھے۔ حتٰی کے گہری سمندر جیسی آنکھیں  بھی حیدر جیسی تھی۔
"Ooo waoo Bhayan she totally looks like me."

(او واٶ بھیا یہ بالکل میرے جیسی دیکھتی ہے۔)
ننھی سی مرحا دیدے پھاڑے حیدر کو دیکھ رہی تھی۔ روتی ہوٸی مرحا کو حیدر نے پکڑا تھا جو کسی سے چپ نہیں ہورہی تھی۔ حیدر کے پکڑتے بالکل خاموش ہوگٸی تھی۔ ننھے وجود کو خود سے لگاۓ اس چھوٹے بچے کے چہرے پر نرم مسکراہٹ تھی۔

وقت گزرتا گیا۔ مرحا چند ماہ کی تھی۔۔۔ جب وہ مرحا کو پکڑے اسے چلانے کی کوشش کررہا تھا۔ وہ گرتی تو وہ اسے پکڑ لیتا پھر کارپٹ پر بیٹھا اسے کھڑا کرتا ہاتھ پھیلاۓ اپنی طرف بلاتا۔ وہ آج کل سکول سےواپسی پر اسی مشق پر لگا تھا۔ منو کو چلنا سیکھانا اس کےلیے سب سےاہم کام تھا۔ اسے اسی اپنی بہن  اولاد کی طرح عزیز تھی۔

وقت کا کام ہے گزرنا اور وہ بہت سی یادیں ہمارےلیے چھوڑتا گزرتا جاتا ہے۔ حیدر کی ہر شرارت میں مرحا پیش پیش ہوتی تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کا حصہ تھے۔ مرحا میں سب کی جان بستی تھی۔ کسی کی اتنی ہمت نہیں ہوتی تھی اس کے ہوتے کوٸی مرحا کو زرہ بھی چوٹ پہنچا سکے۔

*-*-*-*-*

مرحا لاٶنج میں آتی بی جان کے قریب ہی صوفے پر ٹک گٸی۔ جوس کا گلاس ختم کرتے اسنے ٹیبل پر رکھا۔
”حیدر صاحب کہاں ہیں۔؟“ مرحا نے مزے سے تمیز سے مخاطب کرتے واٹس ایپ پر میسج کر دیا۔ ڈبل ٹیک نہیں لگا۔ مرحا کو اندازہ ہوگیا اس کا نیٹ بند ہے۔ کہی کام سے گیا ہوگا۔  ساتھ ٹی-وی پر خبریں چل رہی تھی۔  مرحا نے ہیڈ لاٸن سنی تو تبصرہ کیا۔۔” پتا نہیں کب بچوں کو اغوا کرنے اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کی دردناک وارداتيں ہونا بند ہوگی اور یہ والدین اپنے بچوں کا خیال کیوں نہیں رکھتے؟اور کوٸی کچھ کرتا کیوں نہیں؟“
مومنہ بیگم نے ایک نظر اسے دیکھا اور رقت انگیزی سے مسکرا کر بولیں۔۔۔

”مرحا“ مرحا نے زرہ سی گردن موڑی۔۔ سر میں ہلکی سے درد کی ٹھیس اٹھی۔ مگر وہ بر وقت بی جان کی طرف متوجہ ہوٸی۔۔۔۔
”جی؟“
آج سے چودہ سو سال پہلے جہالت ہر طرف عام تھی تب جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد  اور بہت سے صحابہ اکرام کی قربانیوں سے فلاح کا بول بالا ہوا۔پھر برصغیر میں بے حیائی، مسلمانوں کا خون بہنا، عورتوں کی عزت سے کھیلنا، تب بہت سے  لیڈروں اور ہمارے اسلاف نے قربانیاں دیں۔ پاک سرزمین سے ہمیں نوازا۔ دنیا میں اسلامی پرچم چمکتا ستارہ بن کر روشن ہوا۔ اسی طرح آج ہمارے ملک کے بُرے حالات ،بڑھتی ہوٸی مہنگاٸی ،دہشت گردی، عورتوں کا ریپ، بچوں کے اغواکے کیس عام ہیں۔ ان سب میں امید کی کرن پاک فوج ہے۔ اندرونی طور پر پھیلتے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کو پاک فوج کے جوانوں نے یہ مشن اپنے سر لیا ہے۔ شہداء اور غازیوں کی یہ داستان صدی در صدی ہمارے لیے باعث فخر ہے۔ نوجوان نسل کا غیرملکی سازشوں کے ہاتھوں ڈرگز اور دوسری برائیوں میں ملوث ہونا ہمارے معاشرے کے بگاڑ میں اضافہ کر رہا ہے ہر کام کو پاک آرمی نے آکر ہمیں نہیں کر کے دینا کچھ حصے ہم نے بھی ادا کرنا ہے جہاں براٸی دیکھو اس سے روکو اگر اتنی ہمت نہیں ہے آپ کمزور ہو تو اسے پوائنٹ آٶٹ کرنا ضروری ہے۔ اس سے ہم اپنے پرچم کو سدا بہار فخر  سے روشن ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔

وہ زرا سا مسکراٸیں تو مرحا بھی مسکرا پڑی۔
”ان شاء اللہ!“

*-*-*-*-*

یوں ہم ملے از نازش منیر(completed)Opowieści tętniące życiem. Odkryj je teraz