❣غازی❣(Episode 7)

94 17 47
                                    

"ہنہ...."

ذیشان نے نفرت سے حسیب کی طرف دیکھتے ہوئے ہنکارہ بھرا.

"تمہارے پاس چند گھنٹے ہیں. کھل کر اس فضا میں سانس لے لو. اس کے بعد تمہیں آسمان کی ایک جھلک بھی دیکھنے کو نہیں ملے گی".

اس نے کہتے ہوئے ایک نفرت بھری نگاہ اس پر ڈالی اور پھر سالار کی طرف متوجہ ہوا.اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا حسیب ملک کی کمزور سی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائ.

"میں نے سب کچھ بتا دیا. چاہو تو ماہ پارہ کو بھی لے جاؤ بس مجھے اور میری فیملی......"

"تو تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں اب بھی پری کو تمہارے گھر رہنے دوں گا. اور ہاں تمہاری بیٹی تمہارے گھر میں ہی موجود ہے".

ذیشان نے اسکی بات کاٹی اور کاٹ دار لہجے میں بولا. لیکن حسیب اسکی دوسری بات پر ساکت ہوا.

"کک کیا مطلب...میری بیٹی تم لوگوں کی تحویل میں نہیں ہے?"

اس نے ہکلاتے ہوئے پوچھا.

"ہاں تمہیں کیا لگا کہ ہر کوئی تمہاری طرح بے غیرت اور بے حس ہوتا ہے".

ذیشان نے کہتے ساتھ ہی سالار کو اشارہ کیا اور دروازے کی طرف بڑھا.

" کوئ فائدہ نہیں ملک....اس میں گولیاں نہیں ہیں خالی ہے یہ پسٹل...بلکل ایسے ہی جیسے اب تم خالی ہاتھ رہ گئے ہو".

وہ جو ذیشان پر پیٹھ پیچھےسے گولی چلانے لگا تھا ذیشان کے ایک دم پیچھے مڑ کر دیکھنے اور پھر بولنے پر شاک کی کیفیت میں کھڑا دروازے کی جانب دیکھ رہا تھا. جبکہ ذیشان اور سالار کب کے اس دروازے کے پار غائب ہو چکے تھے.

***************

علی اس وقت اپنے آفس کی عمارت کے سامنے کھڑا گارڈ کو دیکھ رہا تھا. اور گارڈ جو علی کو نہیں جانتا تھا وہ بھی علی کو سر سے پاؤں تک دیکھ کم اور گھور زیادہ رہا تھا. علی نے اسکو یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ اس کمپنی کا مالک ہے.

"دیکو صاب...ام تمکو نئیں جانتا. اس لیے جب تک تم ام کو آفس کا کارڈ نئیں دکائے گا تب تک تم ادر ای کڑا رہے گا. ام کو بڑا سکت آڈر اے بڑے صاب کا".

گلزار خان نامی گارڈ اب علی کی ایک ہی رٹ سے تنگ آکر بولا اور جا کر گیٹ کے ساتھ رکھی کرسی پر جا بیٹھا.

"او بھئ جانے دے مجھے میرے بھائی....پہلے ہی لیٹ ہو گیا ہوں تمہارے صاب نے میری گردن مروڑ کے رکھ دینی ہے".

علی نے بے زار ہوتے ہوئے کہا. لیکن گلزار خان نے اس بار کوئی جواب نہیں دیا. تو علی گیٹ کی دوسری طرف رکھی کرسی پر جا کر سکون سے بیٹھ گیا. گلزار خان پہلے تو حیران ہوا پھر وہ بھی ٹھنڈی سانس بھر کر رخ موڑ گیا. علی نے کچھ دیر اور انتظار کیا. جیسے گلزار خان کو یقین دلا رہا ہو کہ وہ یہیں بیٹھا رہے گا.
اور جب گلزار خان نے کافی دیر بعد علی کی طرف دیکھا تو اسکو وہیں بیٹھے دیکھ کر اب رخ موڑا اور آنکھیں بند کر کے اونگھنے لگا. اور علی جو کن اکھیوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا. وہ آہستہ سے اٹھا اور کسی چیتے کی سی تیزی سے دیوار پر چڑھا. لیکن دیوار خاصی اونچی ہونے کے ساتھ ساتھ اوپر سے شیشے کے ٹکروں سے بھی مزین تھی. لیکن اس نے ہار نہ مانتے ہوئے ایک ہاتھ دیوار پر شیشےکے ٹکڑوں سے بچا کر رکھا اور دوسرا ہاتھ گیٹ پر اس طرح رکھا کہ آواز نہ ہو. اور دوسرے لمحے وہ عمارت کے اندر تھا. یہ سب کچھ اس نے بہت کم وقت میں کیا تھا. کہ باہر بیٹھے گلزار خان کو ہلکا سا بھی شک نہیں ہوا.
اور اب اندر سے گیٹ کا چھوٹا حصہ تھوڑا سا کھولے منہ باہر نکال کر کھڑا گلزار خان کو دیکھ رہا تھا. جیسے چڑا رہا ہو اور گلزار خان دروازہ کھلنے کی آواز سے پیچھے دیکھا تو وہیں جم گیا تھا. وہ کبھی باہر رکھی کرسی کو دیکھتا جو اب خالی تھی تو کبھی اندر کھڑے علی کو دیکھتا. پھر ہوش میں آکر یکدم چلایا تھا.

❣غازی❣بقلم; اقراءاشرف                                   ✔ COMPLETE✔Where stories live. Discover now