تکمیل

1.7K 132 25
                                    

"احمد مجھے تم سے کچھ کام ہے "
زارون نے احمد کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا
"جی جی بولو"
احمد جو فون میں مصروف تھا بولا
"میں نے اقراء کو ایک لڑکے کے ساتھ دیکھا ہے۔۔۔ ریسٹورنٹ میں۔۔۔"
زارون کا انداز مطمئن تھا
"تو اس میں کیا کریں "
احمد نے بنا پراہ کئے کہا
"ہمیں اس لڑکے سے ملنا چاہیے"
" اب ہمیں کیا پتہ وہ لڑکا کہاں رہتا ہے "
احمد نے سوال کیا
" وہ تم مجھ پر چھوڑ دو میں پتہ کروا دوں گا "
زارون نے سوچتے ہوئے کہا
------------------------
"چلیں نا امی ہمارے ساتھ بازار "
مہک پیچھلے گھنٹے سے ماں کو منا رہی تھی جو ضد لگائے بیٹھی تھیں کہ زروا اگر جائے گی تو میں نہیں جاوں گی
"امی آپ مت بلانا اسے اپنے دھیان رہیے گا میرے لئے چلیں"
"اے تجھے ایک بار سمجھ نہیں آتا کیوں مجھے اس کلموہی کے ساتھ بار بار چلنے کا کہہ رہی ہے "
اب کی بار تائی جان نے جھلا کر بولا جس پر مہک اپنی کی حرکتوں پر جھلس کر رہ گئی
"کیوں تم بحث کر رہی ہو مہک امی ویسے بھی بوڑھی ہو گئی ہیں بہت جالیا بازار تم چلو اور میں اپنی بیوی ساتھ جاتا ہوں آگے والی سیٹ پر اب اس کا حق ہے "
زارون نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولا جس پر شائستہ بیگم نے جلا دینے والی نظروں سے اسے دیکھا
"میں تیری ٹانگیں توڑ دوں گی زارون میں بتا رہی ہوں تو دن بند بدتمیز ہوتا جا رہا ہے "
شائستہ بیگم نے اٹھتے ہوئے کہا "پھر چل لیں ہمارے ساتھ یہ آخری دفعہ کہہ رہا ہوں "
زارون نے کندھے اچکا کر کہا اور باہر نکل گیا
"کیا بےشرم اولاد ملی ہے مجھے اللہ "
شائستہ بیگم نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا جس پر مہک ہی ہی کرتی باہر نکل آئی
گھر کے باہر کھڑی گاڑی کا دروازہ کھول کر زرواہ آگے بیٹھنے ہی لگی تھی جب شائستہ بیگم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا
"زیادہ ماں مت بن اس کی۔۔۔میں ہوں مجھے رہنے دے چل ہٹ.."
"توبہ ہے یہ عورت"
زروا نے منہ ہی منہ میں سوچا اور گاڑی کی پچھلی نشست کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئیزارون نے اپنی نشست سنبھالی اور زرواہ کی طرف دیکھا۔۔۔ زروا وہ جو بہت دنوں سے اس سے نظریں بچا رہی تھی۔۔۔ زارون نے کندھے اچکائے اور سفر کی طرف دھیان دیا۔۔
"امی ہم نے کچھ جوتیاں اور کپڑے لینے ہیں تو آپ ہمارے ساتھ چلیں گی یا یہں بیٹھی رہیں گی "
مہک نے ماں کو چھیڑنا چاہا
"جاوں گی تم لوگوں ساتھ"
شائستہ بیگم کا لہجہ قدرے دھیما تھا
مہک اور زروا میک اپ کی دکان کی طرف بڑھ گئے ۔۔شائسےہ بیگم بگ نیازی سے سائڈ پر ہو کر بیٹھ گئی
میک اپ سے فارغ ہو کر وہ دوسری دوکان کی طرف بڑھے جب مہک کے پاس سے گزرتے وقت ایک لڑکے نے اس کی کمر کو چھوا اور مہک کی دنیا وہیں منجمد ہو گئی۔۔۔
زروا جو مہک کے ساتھ باتوں میں مصروف تھی اس کا جواب نہ ملا تو اس کی طرف مخاطب ہوئی
"مہک تمہیں کیا ہوا ہے"
زروا نے مہک کے چہرے کا رنگ اڑتے دیکھا تو پوچھنے لگی
"زروا اس نے میری کمر کو چھوا ہے"
مہک نے مڑ کر جاتے ایک لڑکے کی طرف اشارہ کیا
زرواہ کے اندر جیسے آگ بھڑک گئی وہ ساری چیزیں وہیں پھینک کر لڑکے کی طرف لپکی۔۔
"نہیں زروا روکو"
مہک اس کے پیچھے لپکی شائستہ بیگم پہلے ہی آگے جا چکی تھیں
زروا نے جا کر لڑکے کی گردن دبوچ لی ۔۔۔لڑکا عمر میں کوئی سترہ اٹھارہ سال کا ہی تھا
"تمہیں شرم نہیں آتی بے حیا انسان "
زرواہ نے اونچی اونچی چلانا شروع کر دیا   
"ہمت کیسے ہوئی میری بہن کو ہاتھ لگانے کی "
زروا کے شور سے ساری مارکیٹ اسے دیکھنے لگی
"کیا ہوا باجی"
ایک دوکاندار بھاگ کر زرواہ کی طرف آیا
"اس سے پوچھیں کیا ہوا ہے بے شرم انسان اپنی ماں بہن نہیں گھر میں تمہارے دوسروں کی بہن بیٹیاں چھیرتے ہو "
زرواہ نے ہوا سے آتا ہاتھ اس کے چہرے پر رسید کیا
زرواہ نے جیسے اس لڑکے پر تھپڑوں کی بارش کر دی تھی ۔۔ "چھوڑو زرواہ چلو "
مہک نے زرواہ کو کھینچا
"نہیں مہک ہم لڑکیوں کی یہی غلطی ہے کہ ہم ایسوں کو چھوڑ دیتے ہیں "
زرواہ کا غصہ جیسے آج سب کو کھا جانے والا تھا   ۔دوکانوں کے دوسرے آدمی بھی آگئے اور لڑکے کو کم ھینچ جو پکڑ لیا
"باجی آپ چھوڑ دیں ہم دیکھ لیتے ہیں اسے "
ایک دوکاندار نے بھر کر کہا اور لڑکے کو کالر سے پکڑ کر کھینچا
"نہیں اسے آج نہیں چھوڑنا کل کو یہ یہی کام کسی دوسرے کی ںہن بیٹی کے ساتھ کرے گا "
"چلو زرواہ چلو "
مہک نے زرواہ کا بازو پکڑا اور کھینچتے ہوئے رش سے باہر لے آئی ۔۔۔اور سامنے سے کھڑی شائستہ بیگم سے ٹکرائی جو نا جانے کب سے یہ تماشا دیکھ رہی تھیں ۔۔
"امی کہاں چلی گئی تھیں آپ "
مہک نے سامنے ماں کو پایا تو گلے لگ کر رونے لگی.
"یہیں تھی تم لوگ کب پیچھے سے غائب ہوئی ۔۔"
شائستہ بیگم کی نظریں زرواہ پر تھیں جو اپنا ہاتھ دبا رہی تھی ۔۔جو کہ سرخ پڑا تھا۔۔
"چلو مہک گھر چلیں "
زرواہ نے مہک کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا اور آگے بڑھ گئی
واپسی کا سفر خاموشی سگ کٹا شائستہ بیگم پہلے ہی منع کر چکی تھیں کہ زارون کو کچھ نہیں بتانا لیکن مہک اور زرواہ کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ ان کا موڈ آف ہے
" آئس کریم کھانے چلیں "ٹی
زارون نے گاڑی میں موجود خاموشی کو توڑا
"نہیں بھائی میں نہیں آپ بس گھر چلیں "
مہک نے اپنے زرخ ناک رگڑتے ہوئے کہا
زارون نے کندھے اچکائے اور گاڑی گھر کی طرف رکھی
------------------+----
"بیگم تمہیں آج نیند کیوں نہیں آ رہی "
سہیل صاحب نے شائستہ بیگم جو دیکھتے ہوئے کہا
" کچھ نہیں۔ سو جائیں آپ "
" کوئی بات ہے تو بتا دو "
سہیل صاحب نے پھر پوچھا
"دانیال کے ابا زرواہ اتنی بھی بڑی نہیں جتنی میں سمجھتی ہوں"
شائستہ بیگم دو منٹ کچھ سوچ کر بولی
سہیل صاحب جو ٹی وی کی طرف دیکھ رہے تھے حیرانگی سے سیدھے ہو پڑے
"بیگم تمہیں آج بخار تو نہیں طبیعت ٹھیک ہے ۔۔۔"
سہیل صاحب نے حیرانگی سے کہا
"کیا مطلب ہے آپ کا "
شائستہ بیگم نے غصے سے پوچھا
" میرا مطلب ہے تم اور زرواہ کی تعریف"
"تعریف کب کی اس کی میں نے۔۔۔"
شائستہ بیگم صوفے پر بیٹھتی بولیاور پھر بازار میں ہونے والے واقعات بتانے لگی۔۔۔
"بیگم جیسے مہک اس گھر کی بچی ہے زرواہ بھی ہے ۔۔اس نے آجتک تمہیں برا نہیں بولا یہ تم ہی ہو جو اسے نہیں بخشتی اور اج جب اپنی بیٹی پر بات آئی تو کچھ محسوس ہوا تمہیں "
سہیل صاحب یہ بول کر پھر سے ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گئے
شائستہ بیگم خاموش رہی جواب بھی دیتی تو کیا سہیل صاحب ٹھیک بول رہے تھے
------------------------
پھر وہ دن بھی مہر ہاوس میں آ گیا جس کا انتظار دادا جان کو برسوں سے تھا
"زرواہ اور زارون کی شادی "
"شادی نہیں ہے صرف ایک چھوٹا سا ولیمہ ہے کنجوس لوگ"
مہک نے سڑ کر تیار ہوتے ہوئے زارون کو کہا
"آئے میرا بچہ"
زارون نےآگے بڑھ کر اس کے گرد بازو حمائل کئے
"مت کریں بھائی اتنے ارمان تھے میرے آپ نے سب پر پانے پھیر دیا "
مہک خفہ ہوتی بولی
"کچھ نہیں ہوتا مہک ہم سب جا رہے ہیں اگلے ہفتے گھومنے "
شایان کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولا
" واہ کیا ایسا ہے "
مہک کا چہرہ کھلا
زارون مے شایان کو گھورا وہ زارون اور زرواہ کے ہنی مون کی بات کر رہا تھا
"ہاں ہاں سب جائیں گئیں لیکن میرے کمرے سے باہر"
زارون نے اپنا گرے کوٹ پہنتے ہوئے بولا "چلو بہت ہوا تم سب کا باہر آ جاو دادا جان غصہ ہو رہے ہیں "
دانیال سب کو لینے آیا تھا
"بھائی میری دلہن کہاں ہے "
زارون نے پرفیوم چھڑکتے ہوئے کہا
"بیچاری ذبحہ ہونے گئی ہے "
شایان نے دانت نکالتے ہوئے کہا
" شٹ اپ .. وہ پارلر سے ڈائریکٹ پہنچے گی "
مہک نے شایان کو گھورا
" تو وہی ہوا نہ اس جیسے سے شادی کر کہ بندہ زبحہ ہی ہو سکتا ہے "
شایان نے زاران کے ظرف اشارہ کیا
"بہت زبان چل رہی ہے تیری"
زارون شایان کی طرف بھاگا جو یہ بات کہہ کر کمرے سے جہاز کی طرح بھاگا تھا
"یہ کیا کر رہے ہو تم لوگ سب انتظار کر عہے ہیں یہ کجذ بھاگتے پھر رہے ہو "
سہیل صاحب نے دونوں کو جھڑکا جو بچوں کی طرح بھاگ رپے تھے
"تایا ابو باز کریں اسے اکلوتے سالے کو مارنے چاہتا ہے "
شایان نے سہیل صاحب کے پیچھے چھپتے ہوئے کہا
"بس کرو زارون عقل کو ہاتھ مارو شادی ہونے لگی ہے تمہاریذج تمہارے بچوں والے کام ہی نہیں ختم ہو رہے "
سہیل صاحب نے سر پیٹا تھا
"کیا مطلب شادی ہونے لگی ہے تو میرا بچہ جینا چھوڑ دے کو کرتا ہے کرنے دیں "
شائستہ بیگم نے بیٹے کو تیار کھڑے دیکھا تو بلائیں لینے لگی
"کی آپ بھی ویسی اور آپ کا بیٹا بھی "
سہیل صاحب نے معصومانہ انداز میں کہا
" چلو اگر تم سب کے
ڈرامے ختم ہو گئے "
دادا جان جو کب سے یہ تماشے دیکھ رہے تھے اونچی آواز میں بولے
"یس سر"
احمد مہک اور شایان نے سلیوٹ مارتے ہوئے بولا جس پر سب کے قہقہے بلند ہو گئے
------------------------
آج جیسے چاندنی خود اتری تھی زارون اور زرواہ کے لئے
ایک طرف دادا جان اور ایک طرف شایان کا بازو پکڑ کر وہ پری سٹیج کی طرف چلا رہی تھی ۔۔۔ ہاں پری ۔۔۔ آج وہ پری لگ رہی تھی۔۔۔ زارون کی پری
زارون نے سامنے سے آتی اپنی محبت کو دیکھا اور دل ہی دل میں اس کی بلائیں لیں
سکن کلر کی کام والی میکسی پہنے وہ پری اپنے دادا جان اور شایان کا ہاتھ پکڑے سٹیج کی طرف پہنچی  اور دادا جان نے آگے بڑھ کر زرواہ کا ہاتھ زارون کے ہاتھ میں تھمایا
دونوں کے وجود میں ایک لہر سی دوڑی تھی زرواہ نے نظریں اٹھا کر اپنے شوہر کی طرف دیکھا جو نہایت شفقت اور محبت سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔ کچھ سیکنڈ کو نظریں ملیں اور زارون نے زرواہ کا ہاتھ پکڑے اسے سٹیج پر لایا
دونوں ایک ساتھ کھڑے تھے زارون نے زرواہ کا ہاتھ ابھی بھی مہیں چھوڑا تھا زرواہ نے ایک نظر ذپنے ہاتھ کی طرف دیکھا اور پھر ایک لمبی آہ بھر کر سامنے دیکھنے لگی.
دادا جان نے شکر کی نگاہوں سے اوپر دیکھا اور پھر عافیہ بیگم کو دونوں کی انکھوں میں شکر کا پانی تھا ۔۔۔شایان اور احمد نے بھی ایک دوسرے کو کندھے مارے اور پھر شور کی آوازیں بلند کیں ۔۔ اور پھر مہک شایان احمد اور پھوپھو کی آوازیں بلند ہوئیں
"وی لو یو بوتھ"۔۔اور ساتھ ہی سٹیج کے سائڈ سے پھولوں کے فوارے بلند ہوئے ۔۔زارون زرواہ کی ہنسی چھوٹی ۔۔۔ زرواہ نے ہولے سے زارون کے کندھے پر ہنستے ہوئے سر ٹکایا اور فوٹوگرافر نے اس خوبصورت منظر کو کیمرے میں بند کر لیا ۔۔۔
شائستہ بیگم نے بھی آنکھ میں آئے آنسو صاف کیے لیکن یہ کس چیز کے آنسو تھگ وہ بھی نا سمجھ پائیں ۔۔۔ اقراء نے ہمیشہ کی طرح اپنا سڑا ریکارڈ قائم رکھا اور ایک سائڈ سے بال پیچھے کئے
------------------------
"چلیں بھائی پیسے دیں "
مہک نے دروازے کے آگے کھڑے ہو کر مطالبہ کیا
"یہ کونسی بلیک میلنگ ہے"
زارون نے سر پیٹا
"ٹینشن نہیں لینی مہک آج تو جہ تمہیں اپنا پورا اے ٹی ایم دے دے گا "
سایان نے ہنسی روکتے ہوئے کہا
"دے دو بیٹا یہی بہنوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہوتی ہیں"
پھوپھو نے زارون کو کہا
زارون نے جیب میں ہاتھ ڈال کہ پانچ سو کا نوٹ بڑھایا
"یہ کیا ہے"
مہک نے پانچ سو کا نوٹ دیکھا
" اتنے ہی ہیں چلو اب سائڈ پے ہو "
زارون نے مہک کو پیچھے کرتے ہوئےکہا
مہک دروازے کے آگے پھیل کر بیٹھ گئی جس پر زارون نے اپنا اے ٹی ایم کارڈ مہک کیجھولی میں پھینک دیا
سامنے بیٹھے احد شایان کرنٹ کھا کر سیدھے ہوئے
"میں نے تو مزاق کیا تھا "
شایان نے حیران ہوتے ہوئے کہا
"چلو غریبو آج کی پارٹی میری طرف سے "
مہک نے ہوا میں ہاتھ بلند کرتے ہوئے کہا اور لاونج کی طرف بھاگی
"پکڑ اس کو احمد۔۔ میں نے بہت قرضے اتارنے ہیں "
شایان احمد بھی مہک کے پیچھے لپکے جس پر زارون کی ہنسی چھوٹ گئی
زارون نے کمرے کا دروازہ کھول کہ اندر داخل ہوا ۔۔ اور سیدھے سامنے بیڈ پر نظر کی جو کہ خالی تھا ۔۔۔ زارون نے نظریں کمرے میں گھمائیں اور زرواہ کو تلاشہ
زرواہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑی جیولری اتار رہی تھی
" محترمہ کوئی نزاکت ہوتی ہے شوہر کا انتظار ہی کر لیتی"
زارون نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا
ولیمے پر دیکھا دی نا اتنا بہت ہے اب پلیز جاو نہا کہ آہ ۔۔زرواہ نے کانوں کے جھمکے اتارتے ہوئے کہا
زارون نے حیرانگی سے زرواہ کو دیکھا
"کیا ہگ جاو یہ جو پرفیوم ہے نا بہت مشکل سے برداشت کی ہے میں نےاب تک ۔۔۔ میرا سر چکرا رہا ۔۔۔ "
زرواہ نے سے پکڑتے ہوئے کہا
"ایکسکیوزمی یہ بہت مہنگی امریکہ کی پرفیوم ہے غریب عوام ۔۔کھر میں تمہیں کبھی عطر نسیب نہیں ہوا "
زارون نے ہن۔ کرتے ہوئے کہا
"تم بس مجھ سے جیلس ہی ہوتے رہا کرو "
زرواہ نےگلے کا ہار اتارتے ہوئے کہا
" ہاں بہت جیلس ہوں "
زارون نے پہچھے سے ایک آ کر جیب سے ایک نیکلس نکالا اور زرواہ کے بالوں کو ایک سایڈ پر کیا اور پھر زرواہ کو پہنانے لگا
"ہیپی برتھڈے مائی لو "
زارون نے زرواہ کے کندھے پر تھوڑی رکھ جر پیچھے سے اسے تھامتے ہوئے کہا
"برتھ ڈے "
زرواہ نے میرر میں ہی زارون کو دیکھا
" ہن برتھ ڈے "
تم تو بھول گئی تھی لیکن مجھے یاد ہے
" تھینک یو "
زرواہ نے خود کو سمیٹتے ہوئے کہا
"بس تھینک یو "
زارون نے ایک پلک اچکائی
" ہاں تو اور کیا پورے گھر میں علان کر دوں "
زرواہ نے خود کو زارون کے حصار سے چھڑوایا اور بیڈ کے کونے پر جا بیٹھی
"قسم سے کتنی بے مروت بیوی ہو تم میں رومینٹک انداز میں تم سے بات کر رہا ہوں اور تم ہو کہ۔۔۔"
زارون نے ماتھا پیٹتے ہوئے کہا.
زرواہ نے کوئی رد عمل نہیں دیا
"جو بھی ہو گیا وہ ماضی تھا آج سے ہماری نئی زندگی کا آغاز ہے ،رواہ مجھے یقین ہے تم ہر قدم پر میرا ساتھ دو گی زارون نے بیڈ پر بیٹھ کر زرواہ کے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا
کتنا پیار اور اپنائیت تھی نا ان انکھوں یں زرواہ کچھ لمحے جھانکتی تہی پھر اقتباس میں سر ہلایا "اچھا وہ برتھ ڈے گفت تھا اب یہ لو یہ منہ دیکھائی "
زارون نے پاس پڑا لکڑی کا ڈبہ پکڑیا
"اس میں کیا ہے "
زرواہ نے پکڑتے ہوئے کہا
"ظاہر ہے رنگ ہی ہو گی اور کیا "
زارون نے جواب دیا
"اچھا "
زرواہ نے بوکس کو پکڑ کر دیکھا
"ہاں اب کھولو بھی "
زرواہ نے جیسے ہی باکس کھولا ایک مکہ پٹک سے اس کی ناک پر گا اور باکس زرواہ کے ہاتھ سے چھوٹ کیا کچھ دیر تو زرواہ کو سمجھ ہی نہیں پائی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا
اور زارون کی ہنس ہنس کر بری حالت تھی
"زارون کے بچے تم کبھی نہیں سدھرو گے "
زرواہ نے اپنی سرخ ناک پکڑے زارون کو گھورا اور پاس ڑا تکیہ زارون کو دے مارا
"ہاہاہاہاہاہا کیسا لگا یرا سرپرائز بیگم "
زارون نے بیڈ پر سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا
"بہت اچھا لگا شوہر جی"
زرواہ نے پاس پڑا لیمپ پکڑتے ہوئے کہا
"نہیں زرواہ یہ بہت زور سے لگے گا "
زارون نے زرواہ کے ہاتھ میں لینپ دیکھتے ہوئے کہا
"پہلے سوچنا چاہیے تھا "
زرواہ کے کہنے کی دیر تھی زارقن نے بیڈ کے دوسری جانب ڈور لگا دی اس کے پیچھے زرواہ بھی بھاگی
اس کی چنچل نگاہوں کی بات کریں ہم
ہم تو اس کی سادگی پر بھی دل ہارے ہیں
وہ سراپا حسن نہیں تو کیا ہوا
ہم اس کی نگاہوں پر دل ہارے ہیں
------------------------
"کیا ہنس ہنس کر پاگل ہو رہے ہو دونوں "
زرواہ نے کچن سے باہر آتے ہوئے احمد اور زارون جو پاگلوں کی طرح ہنستا دیکھاتو پوچھے بنا رہ نہ پائی
"آپی کچھ نہ پوچھیں جو ہوا ہے"
احمد نے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
" افف اب بتا بھی چلو "
زرواہ نے اسرار کیا پیچھے اقراء بھی آ رہی تھی
"اقراء یار تم تو ذیک مظلوم لڑکی کو ٹارچر کر رہی تھی "
احمد نے اقراء کو کہتے ہوئے تمسخر اڑایا
"کیا اول فول بک رہے ہو"
اقراء نے احمد کو گھورا
"تو ہوا بیگم کچھ یوں "
زارون نے زرواہ کو کندھوں سے تھامتے ہوئے کہا
"آج ہم ریسٹورنٹ میں گئے تھے اور اقراء کے دوست ثاقب سے ملے "
ثاقب کا نام سنتے ہی اقراء نے حیران ہوکہ زارون کو دیکھا
"ہاں جی ثاقب کو ہی ڈیر کزن "
احمد نے بات کو دھرایا
"تو اس میں کیا ہے "
زرواہ نے زارون سے پوچھا
"کہانی کچھ یوں ہے آ جائیں چچی آپ بھی "
زارون نے کچن سے چچی کو بلایا
"کہانی کچھ یوں ہے کہ کچھ دنوں پہلے اقراء کو میں نے ایک لڑکے کے ساتھ دیکھا تھا تو بھائی ہونے کے ناطے میں سوچا چلو بات کرتے ہیں اس لڑکے سے تو میں اور احمد اس سے ملنے گئے اور بات چیت شروع کی جیسے ہی اسے پتہ چلا کہ ہم اقراء کے کزن ہیں پتہ ہے اس نے کیا کہا "
"کیا کہا "
چچی نے بے چینی سے پوچھا
"وہ تو ہماری منتوں پر اتر آیا کہتا بھائیوں میری اس لڑکی سے جان چھڑوا دو پیچھلے ایک سال سے جینا حرام کیا ہوا ہے کہ مجھ سے شادی کرو جب کہ میری منگیتر ہے اور اب یہ دھمکیاں دے رہی ہے کہ اگر شادی نہیں کی تو چھوڑوں کی نہیں میں تمہیںآپ لوگ پلیز اپنی کزن کو سنھبالیں آپکی بڑی مہربانی ہوگی میں بہت مشکل میں ہوں اس وجہ ہے ایک ماہ بعد میری شادی ہے اور تو اور وہ بیچارہ تو رونے ہی لگ پڑا پھر ہم نے اسے حوصلہ دیا کہ بھائی معاف کعنا بیچاری کی دماغی حالت خراب ہے "
احمد نے بات میں اضافہ کیا
"اللہ اقراء یہ تو کیا کرتی پھر رہی ہے "
چیچی نے سر پیٹ لیا
"کچھ نہیں ہوتا چچی ایک دو بار کسی دماغی ڈاکٹر کو دیکھائیں ٹھیک ہو جائے گی"
شایان جو اپر کھڑا ساری باتیں سن رہا تھا بول پڑا تھا
جس پر سب کی ہنسی روکنے نہیں پائی
چچی نے ایک نظر اپنی بیٹی کو دیکھا اور سر پیٹ لیا
"تمہیں بہت دل سے چاہا تھا  پر تم نے قدر نہیں کی میری ۔۔ اب دوسروں کو سکون سے جینے دو "
احمد نے جاتی اقراء کا ہاتھ پکڑا  اور اسکی انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
"بھاڑ میں جاو تم سب "
اقراء نے ہاتھ چھڑوایا اور اپنے کمرے کیطرف بھاگ گئی.تین سال بعد
"زرواہ ہزار بار کہا ہے تمہیں میری چیزیں ادھر سے ادھر نہ کیا کرو "
زارون آفس جانے کے لئے تیار ہو رہا تھا جب اپنی ٹائی نا پائی تو چیخ پڑا
"افوہو زارون کیا آپ پورا گھر سر پر اٹھا رہے ہیں آپ کے کام کروں اسرا کے کام کروں گھر دیکھوں میں تو پاگل ہو گئی ہوں "
زرواہ نے دو سال روتی اسرا کو پکڑا
"ایک باپ بیٹی تم سے سنبھالے نہیں جاتے اپنی تو شریف ہے کیوں مائی پرنسسز"
زارون نے اسرا کے گال چھوتے ہوئے کہا جس پر وہ کھکھلا کر ہنسی
"جی ایک آپ شریف اور ایک اپ کی بیٹی میں ظالم تو میں ہوں "
زرواہ نے نیچے لاونج کی طرف جاتے ہوئے کہا
"کیا ہو گیا ہے تم دونوں کو کیوں گھر سر پر اٹھایا ہے صبح صبح "
شائستہ بیگم نے شور سنا تو کمرے سے باہر ا گئی
"امی یہ شور کر رہی میں تو خاموش ہوں "
زارون نے کھانے کی میز پر بیٹھتے ہوئے کہا
"دیکھیں تائی جان انہوں نے تنگ کیا ہوا ہے کہتے ہیں میں انہیں اور ان کی بیٹی کو نہیں سنبھال سکتی "
" کیوں زارون کیوں تنگ کر رہا ہے میری بہو کو خود بھی کچھ کیا کر"
شائستہ بیگم نے زرواہ کو پیار کرتے ہوئے کہا
شائستہ بیگم اور زرواہ کا پیار حیرانی والی بات ہے نا
جیسے جیسے زرواہ زارون کی شادی کو وقت ہوتا گیا شائستہ بیگم کا لہجہ زرواہ کے ساتھ نرم ہوتا گیا
کیوں کہ وہ سمجھ گئی تھیں کہ اج تک وہ جو بھی کرتی آئی ہیں غلط ہے یہ آسان نہیں تھا کہ شائستہ بیگم بدل جاتی مگر وقت اور حالات نے انہیں بھی سمجھا دیا
' جی جی یہی معصوم ہے نہ آپ کی بہو "
زرواہ نے زارون کو منہ چڑایا
"تم باز آ جاو زارون "
زرواہ نے میز پر پڑا چمچا اٹھایا
"دادا جان دیکھ رہے ہیں آپ اپنے شوہر کے ساتھ کیسا سلوک کر رہی ہے "
زارون نے پہچھے سےا تے داداجان کو کہا
"تم دونوں بس کر دو اب بچے نہیں ہو ایک بچی کے ماں باپ ہو زرواہ زارون "
دادا جان نے اسرا کو پکڑتے ہقئے جو کہ ماں کی گود سے اتر چکی تھی
"داداجان ہمیشہ یہہ شروع کرتا ہے"
زرواہ نے پھر چیخنا شروع کیا
"ہاں تم تو بہت سیدھی ہو نا جلیبی کی طرح "
زارون بھی کم نہیں تھا چائے کا کپ پکڑتے ہوئےبولا
"اب تم حد سے بڑھ رہے ہو "
زرواہ زارون کے سر پر کھڑی ہوگئی.
"دادو جان یہ ماما بابا چپ پلیز ۔۔ "
دو سال کی اسرا نے اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں دادا جان کو کہا جس پر شائستہ بیگم اور داداجان کا قہقہ چھوٹا
"میرے بچے انہیں تو اللہ ہی ٹھیک کرے ان کا کچھ نہیں ہو سکتا "
پیچھے سے آتے ہوئے مہک نے کہ اور اسرا بھاگتے ہوئے پھوپھو کے پاس گئی
"چلیں بابا جان آپ کی چائے میں سڈی میں لے آتی ہوں ان کو لگے رہنے دیں "
شائستہ بیگم نے دادا جان کو کہا
------------------------
" کہاں پھنس گئی میں شادی کروا کر ۔۔"
زرواہ کپڑوں کی الماری میں کپڑے رکھتے ہوئے بڑبڑا رہی تھی جب اس کا پوں صندوق سے لگا
" اللہ ایک تو یہ صندوق ہے کیا اس میں"
زرواہ نے آج صندوق کو باہر نکال ہی لیا تھا ۔۔ جس پر آج بھی تالا تھا ۔۔ جو زارون زرواہ کو ہاتھ بھی نہ لگانے دیتا تھا
"آج اسے میں کھول کر ہی دم لوں گی "
زرواہ نے اس کا تالا کسی طرح کھول ڈالا
اور کھولتے ہی ایک میٹھی سی مہک فضا میں گھل گئی
زرواہ کی نظرسب سے پہلے ایک گڑیا کے سر پر گئی
یہ وہی گڑیا کا سر تھا جو زارون نے زرواہ سے لڑتے ہوئے توڑا تھا جب وہ پانچ سال کے تھے
پھر زرواہ کی نظر ایک ٹوٹے ہوئےکلپ پڑ گئی جو اس کے سکول کے زمانے کا تھا ۔۔ گھنگھریالے بالوں کی وجہ سے کلپ بھی زرواہ کے بالوں پر نہیں ٹک پاتے تھے یہ وہی کلپ تھا جو زارون اپنی آٹومیٹک کار مار کر توڑا تھا اور زرواہ نے ایک ہفتہ زارون کو بلایا نہیں تھا
پھر اس کی نظر ایک رومال پر گئییہ وہی رومال تھا جو زارون نے زرواہ کو دانیال کیشادی پر دیا تھا جب اس کی چڑیاں ٹوٹنے کے باعث اس کے ہاتھ سے نکلا تھا
پھر آہستہ آہستہ کر کہ زرواہ کی نظر ہر اس چہز پر پڑی جو صرف زرواہ اور زارون سے جڑی تھی بچپن سے لے کہ اج تک کی ایک ایک یاد
پھر زرواہ کی نظر آخری کارڈ پر گئی جس پر زارون نے مائی لو مائی لائف لکھا ہوا تھا اور ایک طرف اپنی اور دوسری طرف اس کی تصویر لگائی ہوئی
یہ کیا تھا جس نے زرواہ کو ماضی یاد کروایا تھا سارا بچپن ساری باتیں ہر وہ لمحہ جو وہ ٹھیک سے یاد بھی نا کر پا رہی تھی زارون نے اسے سنبھالا ہوا تھا
وہ تو کبھی زارون کی نظروں سے بھی اوجھل نہیں ہوئی تھی یہ کیسی عجیب محبت تھی زارون کی جس کا احساس اسے بہت دیر بعد ہو پایا تھا
کیا زارون باتیں چھپانے میں واقعی اتنا اچھا تھا."زرواہ تم نے اسرا کو دیکھا ہے" زارون نے کمرے میں آتے ہوئے کہا
لیکن جیسے ہی وہ کمرے میں آیا اس کی نظر نیچے کارپٹ پر بیٹھی زرواہ پر پڑی اور پھر کھولے صندوق پر
" تم نے کیوں کھولا زرواہ "
زارون نے چیختے ہوئے کہا زرواہ نے نم انکھوں سے زارون کی طرف چہرہ اٹھا کر دیکھا جس پر زارون بلکل خاموش ہو گیا
"رو کیوں رہی ہو تم "
زارون کا دل بے چین ہوا تھا
کیونکہ ایسی نمی زرواہ کی انکھ میں تب آئی تھی جب اسرا اس کی گود میں آئی کچھ پا لینے کی نمی ۔۔جسے زارون سمجھ نہیں پایا تھا
"اتنی عجیب محبت بھی بھلا کوئی کرتا ہے "
زرواہ نے زارون سے کہا
زارون سب باخوبی سمجھ گیا تھا کہ زرواہ سب دیکھ اور سمجھ چکی ہے
"دیکھو بہت بری بات ہے ایسے کسی کی پرسنل چیزوں کو دیکھنا "
زارون نے زرواہ کو گھورا
"مجھے کبھی پہلے احساس ہی نہیں ہونے دیا تم نے "
زرواہ نے زارون کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے پوچھا
"کیوں کہ مجھے لگتا تھا کہ تم مجھے بہت ناپاند کرتی ہو اور اگر تمہیں بتاوں گا تو تم ہنسو گی "
زارون نے کہا
"مجھے تمہاری محبت سے محبت ہوگئی ہے زارون "
مہر زرواہ نے زارون کے قریب ہوتے ہوئے کہا
"ہر اس چیز کا شکریہ جو آج تک تم نے میرے لئے کی"
زرواہ نے زارون کے گلے لگتے ہوئے کہا
"اور اس سب کا احساس تمہیں اب ہو رہا ہے مائی ڈیر وائف شادی کے تین سال بعد "
زارون نے ہنستے ہوئے زرواہ کے بالوں میں سر پھیرا
" احساس تو شاید کب کا ہو چکا تھا مگر آج الفاظ خود چل کر زبان پر آ گئے ہیں مائی ڈیر ہزبنڈ "
زرواہ نے بھی ہنستے ہوئے کہا
"ماما بابا دو سالا "
اسرا کمرے میں دوڑتے ہوئی آئی تو زارون اور زرواہ الگ ہوئے
اسرا ڈورتے ہوئے زرواہ کی گود میں آئی تھی
" اور تمہارا اس کے لئے شکریہ "
زارون نے اسرا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
جس پر زرواہ کا قہقہہ چھوٹ گیا
کسی خوبصورت زندگی میں قدم رکھ چکی زرواہ نے زارون کے کندھوں  پر سر رکھ کر انکھیں موند لیں اور گود میں بیٹھی زرواہ کو زارون نے ایک ہاتھ سے تھام لیا
"بہت محبت ہے مجھے تم سے زرواہ مہر "
زارون نے اپنا سر زرواہ کے سر پر رکھتے ہوئے کہا
"مجھے بھی زارون مہر "
زرواہ ایک خوبصورت احساس کو محسوس کرتے ہوئے ٹھنڈی آہ بھری
عجیب ہی تھی دونوں کی محبت احساس اور اظہار ہوتے ہوتے بھی بہت عرصہ لگا ۔۔۔لیکن ہزار آزمائش کے بعد بھی زارون کی محبت نے زرواہ کے دل میں دبی محبت کو اپنی طرف کھینچ ہی لیا ۔۔
کچھ قہقہوں سے چلی کہانی کچھ مشکلوں میں گھری کہانی بہت سے راستے طے کرتی ہوئی کہانی پہنچی اپنی منزل کو کہانی

عجیب کنبہ از رابعہ تبسم

Here u go done with first novel ❤️✅ In shaa Allah will come with new novel soon pr wo episodic nhi hoga pora upload kron gi In shaa Allah tb tk duaon mn yd rkhyn ...
And follow me on Instagram guys for more updates and short stories ❤️❤️

@by_rabiologist🔥

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Feb 24, 2023 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

عجیب کنبہ از رابعہ تبسم Where stories live. Discover now