عجیب کنبہ

4.9K 215 79
                                    

آخری قسط پارٹ 1 :

"یہ کہاں چلی گئی ہے اب" وہ ہاسپٹل کے وارڈز میں اسے تلاش کرتا پھر رہا تھا جب اسے کینٹین میں جانے کا خیال آیا - وہاں پر پہنچ کر اس نے دیکھا وہ ایک کونے والی میز پر بیٹھی سینڈوچز کھا رہی تھی ساتھ چاۓ کا مگ بھی رکھا ہوا تھا -
"واہ میں تمہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پاگل ہورہا ہوں اور تم یہاں بیٹھی ٹھونس رہی ہو موٹی" وہ اسکے سر پر جا کھڑا ہوا -
"ہاں تو دادا جان اٹھیں گے اور میری یہ عجیب سی شکل دیکھیں گے تو پریشان ہونگے اس لئے کھا رہی ہوں تاکہ قائم دائم رہوں" وہ اسکو دیکھے بنا بولی -
"کچھ شوہر کو بھی پوچھ لو کل سے کچھ نہیں کھایا میں نے بھی" وہ مسکین شکل بناتا اس کے پاس بیٹھ گیا -
"ہاں تو کھالو جو دل کرے ،اب میں تو کھلانے سے رہی" وہ چاۓ کے سپ لیتے ہوۓ بولی -
"بہت بے مروت ہو ویسے... کہتا ہوں میں چچی سے کچھ آداب سکھائیں تمہیں اور عقل دیں کہ شوہر بھی خدمت بھی کوئی چیز ہے" زارون نے اس کے ہاتھ سے سینڈوچ اچک لیا -
"ارےے.. اور مجھ سے کوئی خدمت کی امید نا رکھنا ، لو یہ چاۓ بھی پی لو سارا مزہ خراب کردیا" وہ غصے سے اٹھ کھڑی ہوئی -
"ایز یو وش میری جان.." زارون نے چاۓ پیتے کہا -
"اگلی بار یہ لفظ مت کہنا مجھے!" وہ غصیلی نگاہوں سے کہہ کر جانے لگی -
"اوکے میری جان ، اور دھیان سے کہیں گرنے لگی تو تمہارے ساتھ ہاسپٹل کی بنیادیں بھی لڑکھڑا جائیں گی" وہ شریر انداز میں گھورتے ہوۓ کہنے لگا -
"بد تمیز شخص، آوارہ کہیں کا بات کرنا فضول ہے اس سے" وہ زیر لب کہتے ہوۓ آگے بڑھ گئی -

________________________
رات تک دادا جان کو ہوش آچکا تھا اور یہ سب ڈاکٹرز کے لئے کسی معجزے سے کم نا تھا -
کیا معجزے اب بھی ہوتے ہیں" زارون نے دادا جان کو دیکھتے ہوۓ سوچا تھا اور وہ اپنے رب کی عظمت کا اور قائل ہوگیا تھا -
ان دونوں کا ایک ایک ہاتھ دادا جان کے ہاتھوں میں تھا "چلو میری بیماری کا ایک فائدہ ہوا کہ میری زروہ نے اپنی ضد چھوڑ دی" وہ آہستگی سے کہہ رہے تھے آواز میں اب بھی نقاہت صاف محسوس ہورہی تھی -
"ایسے مت بولیں دادا جان پلیز..! اگر کچھ ہوجاتا آپکو تو ؟ میں اپنے آپ کو کبھی معاف نا کر پاتی" اس نے آنکھ کا کونا پوچھتے ہوۓ کہا -
"جب تک تمہاری دعائیں میرے ساتھ ہے مجھے کچھ نہیں ہوتا میری بچی" انہوں نے محبت سے اسے دیکھتے ہوۓ کہا - "اور یہ اسے دیکھا ہے کتنا سمجھدار ہوگیا ہے آوارہ گردی کرنے والا" -
"بس دادا جان زِندگی میں کچھ موڑ ایسے آتے ہیں کہ انسان کو اپنے آپ کو صحیح رخ پر لانا پڑتا ہے ، اپنے لئے نا صحیح تو اپنوں کے لئے ہی" اس نے نظر اٹھا کر زروہ کو دیکھا -
"اب میں آرام سے مرونگا تم لوگوں کے بچوں کو دیکھ کر" دادا جان نے اپنی گرفت کو انکے ہاتھوں پر مضبُوط کیا -
"بچے..! " زروہ نے زیر لب دوہرا کر دادا جان کی بات کو سمجھنے کی کوشش کی -
اور زارون نے دادا جان کی نظروں سے بچ کر زروہ کی طرف دیکھ کر ایک آنکھ دبائی -
"چلیں آپ اب آرام کریں پتا نہیں کونسی باتیں لیکر بیٹھ گئے ہیں.. اور جلدی سے ٹھیک ہوجائیں" زروہ نے انکے گرد چادر درست کرتے ہوۓ کہا -
"ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو ، اور ابھی تو تم دونوں کا ولیمہ بھی تو کرنا ہے مجھے کیوں زارون ؟" انہوں نے زارون کو مخاطب کیا -
"میں تو کہتا ہوں دادا جان مہندی بارات سب کچھ کر ڈالتے ہیں" وہ اپنی مسکراہٹ دبا کر بولا -
"چلیں آپ سوجائیں اور خیال رکھیں اپنا" زروہ مزید رکنے کی متحمل نہیں ہوسکی اور باہر نکل گئی -
"ویسے یہ نکاح کے لئے کیسے مان گئی تھی ؟" دادا جان نے زارون سے پوچھا -
"یہ تو خود مجھے بھی نہیں معلوم... میں نے تو مذاق میں نکاح کے پیشکش کی تھی اور یہ سنجیدہ ہی ہوگئی..." زارون نے رازداری سے کہا اور ہنسنے لگا -
"بدمعاش کہیں کا" دادا جان نے مسکرا کر اس کے سر پر چپت لگائی -
________________________

عجیب کنبہ از رابعہ تبسم Where stories live. Discover now