اللہ پر بھروسہ

11.5K 268 158
                                    

: "پھوپھو! وہ حسن کہاں ہے ؟" سیڑھیاں اترتے ہوۓ اسے فاطمہ پھوپھو مل گئیں جو دادا جان کی سٹڈی سے نکل رہی تھیں -
"بیٹا وہ بہت تھکا ہوا لگا مجھے تو اس کو گیسٹ روم میں آرام کرنے کے لئے بھیج دیا..تم کہیں جاریے ہو ؟" انہوں نے اس کی تیاری کو دیکھ کر اسے گھورا -
"کچھ نہیں وہ بس ایک کام نمٹانا ہے وہیں جارہا ہوں.. آپ پلیز حسن کے اٹھنے پر ناشتے وغیرہ کا پوچھ لیجئے گا" ماتھے پر آے بال درست کرتے ہوۓ وہ بولا-
"ہائیں!! اب تم اپنی پھوپھو کو یہ آداب میزبانی سکھاؤگے؟"
"ارے نہیں ہماری پھوپھو تو بہت ہی سمجھدار اور خیال رکھنے والی ہیں" اس نے شریر انداز میں کہہ کر انکے گرد بازو حمائل کئے -
"بہت تیز ہو لڑکے تم!" انہوں نے اس کے بال سنوارتے ہوۓ پیار سے کہا -
     ________________________

"سہیل صاحب یہ زارون واقعی ہماری اولاد ہے نا!" شائستہ بیگم کے بھی وہی ڈھاک کے تین پات تھے ، اتنا کچھ ہوجانے کے بعد بھی وہ کچھ بھی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھیں -

"تمہارا نا دماغ خراب ہوگیا ہے بیگم! ساری زندگی تم نے غلطیوں پر غلطیاں کی ہیں اور ہم نے کبھی تمہیں نہیں روکا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں تمہاری طرف داری کرونگا... اتنا کچھ ہوجانے کے بعد تمہیں احساس ہوجانا چاہئے تھا..تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ اب تم اپنی سوچ کو بدل لو..کم از کم اپنے بیٹے کی خوشیوں کا خیال کرلو! کب تک اپنی بہن کو ذہن میں رکھ کر دل میں نفرتیں پالتی رہوگی ، کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم سب کچھ بھلا کر اب کی زندگیوں کو آسان کردو.. مجھے لگتا ہے کہ میں بھی تمہاری نفرتوں کے زیرِ اثر بے حس بن چکا تھا لیکن اب سنبھل جانے کا وقت ہے شائستہ!" سہیل صاحب اپنے آپ میں مگن رہنے والے ٹھنڈے مزاج کے آدمی تھے بالکل شائستہ بیگم کے برعکس.. لیکن آج انہوں نے پہلی دفع اپنی غلطیوں پر ندامت کے ساتھ انہوں نے شائستہ بیگم سے اس لہجے میں بات کی تھی -
اور وہ تو سمجھ رہی تھیں کہ اس بار بھی وہ چپ چاپ تماشہ دیکھیں گے لیکن انکی باتیں سن کر انہیں لگا کہ واقعی آج کا دن کچھ اور ہی ہے..
"اب یہ بھی کہہ دو کہ سہیل صاحب کیا آپ میرے ہی شوہر ہیں!" انہوں نے ڈور ناب پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا اور باہر نکل گئے -

"انکی تو عادت ہے..پتا نہیں کیا بولتے ہیں" شائستہ بیگم نے انکی بات کو نظر انداز کرتے ہوۓ سر جھٹکا -
وقت اچھا ہو یا برا گزر ہی جاتا ہے اور ہمارا کیا دھرا ہی باقی رہ جاتا ہے - لیکن ہر انسان کے اندر کا ضمیر اس کو ہمیشہ اس کے برا کرنے پر ملامت کرتا ہے..اسی کو نفس لوامہ کہتے ہیں یعنی سخت ملامت کرنے والا - ..لیکن ہم لوگ ہمیشہ اس کی بات کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں...  اور پھر اس جگہ پر پہنچ جاتے ہیں جہاں کچھ سجھائی نہیں دیتا - شائستہ بیگم بھی اسی طرح غلطیوں پر غلطیاں کرتی ہوئیں بہت دور آچکی تھیں -

     _______________________

زروہ کی آنکھ کھلی تو گھڑی کی سوئیاں نو بجا رہی تھیں - اس نے فوراً کمبل ہٹا کر اٹھنے کی کوشش کی لیکن اسے چکر سے آیا اور وہ واپس بستر پر ڈھیر ہوگئی.. اسے نیچے سے آنے والی آوازیں سنائی دے رہی تھیں لیکن اس میں دوبارہ اٹھنے کی ہمت نہیں ہوئی - رونے اور پریشانی کی وجہ سے اس کے اعصاب تھکن زدہ ہوگئے تھے - نیند لینے کے باعث وہ فریش تو نہ ہوئی البتہ طبیعت اور بوجھل ہوگئی - یونہی لیٹے ہوۓ اسے بستر سے زارون کی خوشبو محسوس ہورہی تھی اس کے بارے میں اور اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کو سوچتے ہوۓ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ آگے کی زِندگی کیسے گُزرنے والی ہے..سب کچھ گڈ مڈ ہورہا تھا -
وہ اسی ادھیڑ بن میں تھی کہ کسی نے ڈور ناب کو گھمایا وہ فوراً متوجہ ہوئی زارون اندر داخل ہوا تو اس کی نظریں سیدھی بیڈ کی طرف اٹھی تھیں جہاں وہ  بھی اسی کو دیکھ رہی تھی دونوں کی نگاہوں کا تصادم ہوا جو زروہ کو فوراً نظریں پھیرنے پر مجبور کرگیا -
"نیچے سارا گھر جاگ چکا ہے اور آپ میڈم ابھی بھی یہاں آرام کررہی ہیں ؟ ذرہ طور اطوار سیکھ آتی زروہ! میری ہی مت ماری گئی تھی تم سے نکاح کرلیا میں تو بھول ہی گیا تھا کہ تم نہایت پھوہڑ ہو.."
وہ اپنی گھڑی اتار کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتے ہوۓ اسے چھیڑ رہا تھا - اس نے نظریں گھمائی تو دیکھا کہ وہ آئینے میں اسے ہی دیکھ رہا تھا اس نے بولنے کے لئے منہ کھولا لیکن نقاہت کی وجہ سے بولا نہ گیا تو صرف گھورنے پر اکتفا کرنا پڑا -
"کیا ہوا بول کیوں نہیں رہی؟ ہاں مانا کہ میں ہینڈسم ہوں لیکن اس طرح تو مت گھورو! مجھے بہت جلدی نظر لگ جاتی ہے" ہنسی کو روکتے ہوۓ وہ مسلسل اسے تنگ کرنے پر تلا ہوا تھا -

عجیب کنبہ از رابعہ تبسم Where stories live. Discover now