قسط ١

77 6 6
                                    

پوری گیلری میں محض اندھیرے کا راج تھا۔ٹارچ کی
مدہم روشنی میں وہ چلتا ہوا گیلری کے ساتھ قطار میں
موجود کمروں کے لاک چیک کر رہا تھا۔ایک کے بعد ایک۔
کوئی بیس کمرے وہ دیکھ چکا تھا لیکن ابھی تک سب ہی
لاکڈ تھے۔ان کو کھولنے کا سامان موجود تھا اس کے پاس۔
لیکن ابھی انتظار کرنا تھا۔کہ دفعتاً ایک دروازے کا ہینڈل گھمایا اسی سوچ پر کہ لاک ہوگا لیکن وہ کھلتا چلا گیا۔ دروازے کی حرکت پر وہ بلکل چوکنا ہو گیا۔کمرے میں منہ دیا تو وہاں بھی اندھیرا ۔لیکن کچھ تھا وہاں جو وہ محسوس کر سکتا تھا۔ٹارچ کی لائٹ ہلکی سی بڑھائی کہ ٹھیک سے دیکھ سکے۔لیکن جیسے ہی روشنی میں سامنے کا منظر واضح ہوا اس کو یوں محسوس ہوا جیسے ساتوں آسمان اسکے سر پر آ گرے ہوں۔یہ منظر کسی قیامت سے کم نہ تھا اس کے لئے۔دماغ ساتھ چھوڑ چکا تھا۔روح تو مانو جسم میں ہو ہی نہ،کاٹو تو ںدن میں خون نہیں۔ ہلکے سے اسکے لب کھلے،بمشکل ہی بول پایا وہ۔
"عینا۔۔۔" انتہائی مدھم صدمے سے بھرپور آواز جیسے کسی کھائی سے آئی ہو۔
ابھی وہ اپنی جگہ ساکت کھڑا ہی تھا کہ اچانک پیچھے سے اسکے سر پر وار ہوا۔ایک پل کے لئے اس کا سر گھوما اور وہ نوجوان زمین بوس ہو چکا تھا۔
"اسکو بھی ابھی یہیں بند کر دو بعد میں دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے اسکا۔۔۔کمینہ یہاں بھی پہنچ گیا،لیکن اب کی بار اس کو کامیاب نہیں ہونے دوں گا میں"
اس کو گھسیٹتے ہوئے وہ اسی کمرے میں بند کر کے چلے گئے یہ سوچے بغیر کہ یہی انکی سب سے بڑی غلطی ثابت ہونے والی تھی۔

∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
آج کی یہ چمکتی صبح الگ ہی رنگ لے کر آئی تھی۔صاف آسمان اور اوپر سے طلوع کے وقت کی یہ رم جھم اس کے چہرے کو مزید نکھار رہی تھیں۔اپنے ہاتھوں کی تلیاں پھیلائے بارش سے لطف اندوز ہوتی مسکراتے چہرے کے ساتھ وہ کسی اور ہی جہاں میں گم تھی۔
اور یہ پہلی بار تو نہیں ہوا تھا کہ وہ یوں کھڑی کھڑی دنیا جہاں سے غافل ہو گئی تھی۔ بلکہ یہ بارش جب بھی آتی تھی اسکو کہیں اور ہی پہنچا دیتی تھی مگر آج تو اس حسین چہرے سے مسکراہٹ ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ چہرہ کھلتا گلاب سا ہو جاتا تھا۔گہری بھوری آنکھیں،مڑی ہوئی پلکیں,ہلکا گندمی رنگ،تیکھے نقوش،سر کے بال کمر تک جھولتے ہوئے اور انکا رنگ بھی اسکی آنکھوں جیسا قدرتی بھورا۔بلاشبہ وہ ایک پرکشش لڑکی تھی۔
ترکی کے اس حسین شہر انقرہ کا یہ دلفریب موسم اس کی خوبصورتی کو مزید نکھار رہا تھا۔ ٹیرس پر کھڑی وہ لڑکی ابھی اپنی سوچوں میں ہی گم تھی کہ پیچھے سے آتی آواز نے اسکی سوچوں میں خلل پیدا کیا تھا اور یہ گستاخی اسکو کچھ زیادہ پسند نہیں آئی تھی اس بات کا ثبوت اس کے چہرے کے زاؤیے دے رہے تھے۔
"عنایہ یار تم ادھر کھڑی ہو کب سے آوازیں لگا رہی ہوں کون سے جہاں میں چلی جاتی ہو کھڑی کھڑی، اوفوو یار یونیورسٹی بھی جانا ہے اور تم ہو کہ۔۔۔"

"اوو میری بہن بریک پہ پیر رکھو اور عرض کرو کہ کونسا کام پڑ گیا مجھ ناچیز سے صبح صبح جو یوں شور مچا رہی ہو" ۔عنایہ زارہ کی بات کاٹتی ہوئی بولی کیونکہ وہ جانتی تھی جب تک نہیں جواب ملے گا وہ یونہی لگی رہے گی۔
عنایہ کے سامنے کھڑی وہ لڑکی جس کا نام زارہ ہی تھا کچھ حد تک عنایہ سے مشابہت رکھتی تھی۔لیکن اس چہرے پر بلا کی معصومیت تھی۔اپنی عمر میں وہ دونوں ہی لگ بھگ بائیس اکیس سال کی لڑکیاں ہی تھیں۔
"کام کیا ہونا ہے ناشتہ بنا دیا ہے میں نے آ کہ کر لو، ٹھنڈا ہو جائے گا اور پھر نکلنا بھی ہے"
وہ عنایہ کا ہاتھ پکڑتی ہوئی واپسی کی طرف مڑتے ہوئے اسکی بات کا جواب دینے لگی۔
"زارہ کی بچی تم نے پھر میرے لئے بھی ناشتہ بنا دیا،اچھی طرح پتا ہے تمہیں کہ نہیں کیا جاتا مجھ سے صبح ہی صبح ناشتہ،اور اب تم نے بنا دیا ہے تو امی تو کھلا کے چھوڑیں گی مجھے"
عنایہ زارہ کے ساتھ چلتی ہوئی ٹیرس سے نکلتے ہوئےکمرے میں داخل ہوئی۔گھر کا یہ ٹیرس چونکہ عنایہ کے کمرے کے برابر میں ہی تھا تو یہاں بھی انہیں کی ملکیت تھی۔
"میری ماں ناشتہ صبح ہی کیا جاتا ہے اور یہ اب کمرے میں کیوں گھس رہی ہو؟"
زارہ نے اسے کمرے کیطرف جاتے ہوئے پوچھا۔
"یونی کیلئے تیار ہونے,تم جا کہ بیٹھو میں بس پانچ منٹ میں آئی"
"اچھا ٹھیک ہے جلدی آنا"
زارہ اسکو کہتی ہوئی نیچے لاونج کی طرف آئی۔
لاونج دیکھنے میں ذیادہ بڑا نہیں تھا لیکن بہت نفیس طریقے سے سجایا گیا تھا۔ ایک کونے میں صوفہ رکھا گیا تھا جس کی سامنے والی دیوار پر ایل۔ای۔ڈی نصب تھی اور دائیں طرف ایک چھوٹا سا اوپن کچن تھا۔کچن کے باہر کی طرف کی شلف کے ساتھ چار کرسیاں رکھی گئی تھیں جو کہ کچن کا حصہ ہی شمار ہوتا تھا
گھر تین کمروں کا اپارٹمنٹ تھا۔ نیچے کے پورشن میں دو کمرے اور لاونج تھا جن میں سے ایک ہی ذیر استعمال تھا جبکہ دوسرا ذیادہ تر بند ہی رہتا تھا۔اگر کوئی پاکستان سے آئے تو یہیں رہتا تھا۔ اور اوپر ایک ہی کمرہ اور ٹیرس تھا۔ زارہ اور عنایہ دونوں نے اپنا ڈیرہ ایک ہی کمرے میں جمایا تھا۔ اور نیچے والے کمرے میں عائشہ اماں رہتی تھیں۔ جو عنایہ کی امی اور زارہ کی پھپھو تھیں۔ دِکھنے میں وہ کافی بھلی معلوم ہوتی تھیں۔اپنی عمر کے حساب سے وہ کچھ حد تک کمزور تھیں،لیکن مزاج کی بہت دھیمی اور پر شائستہ تھیں۔
زارہ نیچے آتی کچن کی طرف گئی جہاں عائشہ اماں پہلے سے بیٹھی تھیں۔
"پھوپھو آپ شروع کریں میں چائے بنا لوں تب تک عنایہ بھی تیار ہو کہ آ رہی ہے"
زارہ انکو وہاں بیٹھا دیکھ کر بولی۔
"میرا بچہ آ کر خود بھی کچھ کھا لو بس بنائے ہی جا رہی ہو کب سے"
" میری پیاری اماں کرتی ہوں میں بھی، بیٹی آ لے آپکی اسکے ساتھ کرتی ہوں ورنہ وہ بھی کچھ نہیں کھائے گی"
زارہ بھی پیار سے انہیں اماں کہہ لیتی تھی۔عائشہ خود بہت کہتی تھیں کہ ماں ہوں میں بھی تمہاری امی ہی کہا کرو مجھے لیکن بچپن کی عادتیں کہاں جلدی جاتی ہیں۔ زارہ کے بچپن میں والدین کی وفات کے بعد بالکل ماں بن کر ہی تو پالا تھا عائشہ اماں نے زارہ اور اسکے بڑے بھائی کو،لیکن زارہ کا بھائی اپنے ملک میں ہی کچھ بننا چاہتا تھا اس لئے تعلیم کے بعد وہ واپس پاکستان چلا گیا تھا اور پولیس میں ایک اعلی عہدے پر فائز اپنی زمہ داریاں نبھا رہا تھا۔اور عنایہ اور اسکی ماں بہت سالوں سے ترکی میں ہی تھے۔پہلے عنایہ کے باپ مبین صاحب کی نوکری کی وجہ سے اور انکی وفات کے بعد عنایہ اور زارہ کی پڑھائی اور عنایہ کا ترکی میں ہی رہنے کے اسرار کی وجہ سے۔
پانچ منٹ بعد زارہ چائے لیکر حاضر ہوئی اور ایک کپ عائشہ اماں کے آگے رکھتی ہوئی بولی
"یہ عنایہ ابھی تک نہیں آئی،کہہ رہی تھی تم بس چلو آئی میں،دوبارہ بلا کر لاتی ہوں میں اسکو تو"
"زارہ تم بیٹھو آرام سے، تمہارے کہنے سے نہ نکلی یہ۔۔۔ میں جاتی ہوں اسکو بلانے"
عائشہ اماں چلتی ہوئی سیڑھیوں کی طرف گئی اور وہیں کھڑے عنایہ کو آواز لگائی۔
"عنایہ تم آ رہی ہو یا میں خود اوپر آؤں ہاں؟
"امی قسم سے بس دو منٹ میں آئی نیچے "
عنایہ نے بھی دروازے سے منہ نکالتے ہوئے آواز لگائی۔
"اور اگر یہ دو منٹ تیسرے منٹ میں گئے نہ تو میرے ساتھ میری جوتی بھی آئے گی"
"ہاں ہاں بس آئی"
عنایہ کہتی ہوئی فٹافٹ اپنی کتابیں بیگ میں ڈال رہی تھی کہ اچانک ذہن میں ایک جھماکہ ہوا اور بھاگتی ہوئی سنگھار میز تک گئی اور وہاں سے ایک پنک کلر کی لپسٹک اور ایئر رنگز اٹھائے،بیگ میں رکھے اور نیچے کو بھاگی۔اب امی کا کیا بھروسہ سچ مچ میں ہی جوتی سمیت حاضر ہو جایئں پھر؟
نیچے آتی ہوئی عائشہ اماں کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھی اور متلاشی نظروں سے اپنی چائے ڈھونڈنے لگی جسکا شلف پر کوئی نام و نشان نہ تھا۔
"امی میری چائے!"
عنایہ دھیمی سی آواز میں بولی کیونکہ وہ جانتی تھی آگے کیا ہونا ہے
"انسانوں کی طرح ناشتہ کرو چپ چاپ پھر ملے گی چائے"
اس جواب سن کہ عنایہ زارہ کو گھورنے لگی کیونکہ یہ اسی کی کرم نوازی تھی ۔ایک سلائس اٹھا کر زبردستی منہ میں ڈھونسنے لگی وہ۔
"یونیورسٹی سے جلدی آنے کی کوشش کرنا دونوں،پتا ہے ناں ہاشم آ رہا ہے آج اتنے سالوں بعد"
عائشہ اماں کے اس جملے پہ عنایہ کی آنکھوں میں الگ ہی چمک رمکی تھی جس پر وہ فوراً ہی کنڑول کر گئی اور جھٹ سے بولی۔
"جی جی یاد ہے امی،آپ فکر ہی نہ کریں ہم جلدی آ جائیں گے"
"لیکن عنایہ بھول گئی ہو کیا آج ایکسڑا لیکچر بھی ہے وہ بھی دو گھنٹوں کا"
جواب زارہ کی طرف سے آیا تھا جس پر عنایہ نے گھور کر دیکھ اسے۔
"کوئی شرم حیا ہے تمہارے اندر کہ نہیں، توبہ توبہ بھائی آ رہا ہے تمہارا اتنے سالوں بعد،اصولاً تو تمہیں آج چھٹی کرنی چاہیے تھی(ساتھ مجھے بھی کروانی تھی کہ!)اور تم لیٹ آنے کی باتیں کر رہی ہو"
عنایہ نے زارہ کو شرم دلانی چاہی۔
"ہاں تو اگر لیکچر ہے تو کوئی بات نہیں،ہاشم کونسا بھاگ جائے گا تم دونوں کے آنے تک،آرام سے جاؤ آرام سے آو"
اس سے پہلے کہ زارہ کوئی جواب دیتی زارہ کی پھوپھو میدان میں کود پڑیں اور عنایہ کی ساری پلیننگ پر پانی پھیر کر یہ جا وہ جا۔ جبکہ عنایہ اب غصے میں اپنا بیگ اٹھاتی باہر کو ہو لی اور پیچھے بیٹھے دونوں نفوس یہ سوچنے میں مصروف کہ ناراضگی والی کونسی بات تھی اور پھر زارہ بھی اسی کے پیچھے بیگ اٹھاتے بھاگی کہ کہیں مجھے چھوڑ کر ہی نہ نکل جائے۔
اب وہ دونوں ہمراہ ہوکر گھر سے نکل کے بس سٹاپ کی طرف رواں دواں تھی اور زارہ اس سے باتیں کرنے میں مصروف اور عنایہ کے چہرے پر مسکان اور دل میں کوئی اور جہان۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆
عنایہ بھی اپنے نام کی پکی تھی،زارہ کو بہلا پھسلا کر اپنا مطلب نکال ہی لیا تھا اس نے۔
"عنایہ بہت بدتمیز ہوتی جا رہی ہو تم،ہاشم بھائی نے کہیں چلے تو نہیں جانا تھا ہم سے ملے بغیر فضول میں اپنے ساتھ ساتھ میرا بھی لیکچر بنک کروایا"
زارہ اور عنایہ کلاس سے نکل کر گیٹ کی طرف جا رہی تھیں اور عنایہ کے اس بنکنگ پلین پر زارہ کو غصہ تو بہت تھا مگر وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتی تھی اور پھر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ عنایہ لیکچر لے ہی لے گی کسی سے۔
"میڈم میں نے سوچا تمہیں تو کوئی خوشی ہی نہیں اپنے بھیاء سے ملنے کی میں ہی لے چلوں تمہیں جلدی"
وہ ایک ادا سے کہتی زارہ کے آگے آگے چل رہی تھی۔
"میری خوشی کو تو رہنے دو ہاں البتہ تمہارے رنگ ڈھنگ کل سے کچھ بدلے بدلے لگ رہے ہیں"زارہ مسکراہٹ دباتی کہہ رہی تھی اور یہیں عنایہ اس انکشاف پر بوکھلا کر رہ گئی۔
"دماغ ٹھیک ہے کہ نہیں،کیا اول فول بکے جا رہی ہو"
جواب کھٹک سے آیا تھا۔
"دماغ بھی خیر سے ٹھیک ہے اور نظر بھی فٹ ہے، یہ کانوں میں بالیاں،ہونٹوں پہ لالی یہ سب صبح گھر سے آتے وقت تو نہیں تھا اور خیر سے آجکل تو لوگ اکیلے میں کھڑے کھڑے مسکرا بھی رہے ہوتے ہیں"
زارہ بھی جانچتی نظروں سے کھل کہ اب تبادلہ کر رہی تھی اور عنایہ اب سچ مچ کنفیوز ہو گئی تھی۔
ابھی وہ کچھ کہتی کہ سامنے سے ایک لڑکا آتا عنایہ سے مخاطب ہوا۔
"ارے عنایہ کدھر جا رہی ہو،کلاس بھی ہے ابھی اور ہمارا آج آؤٹنگ کا بھی پلین تھا نا"۔
وہ سیدھا عنایہ سے مخاطب ہوا اور ساتھ کھڑے نفوس کو مکمل نظرانداز کیا تھا۔
"ہاں حسن یاد ہے مجھے آئی ایم سوری میں بتانا بھول گئی تمہیں۔۔۔ گھر میں کچھ گیسٹ آ رہے ہیں تو میں اور زارہ نہیں آ سکتی،تم لوگ کرنا اینجوائے کرنا ہم پھر کبھی"
عنایہ ہی اس لڑکے کو جواب دے رہی تھی جبکہ زارہ بھی مکمل طور ہر اسے نظرانداز کئے ہوئے تھی جیسے یہاں ہے ہی نہیں۔
"عنایہ یہ بلکل اچھی بات نہیں،تم جانتی ہو مجھے مزہ نہیں آتا تمہارے بغیر،پہلے بتا تو دیتی یار"
"آئی نو لیکن۔۔۔"
"عنایہ دیر ہو رہی ہے ہمیں، چلیں؟؟" اس بار زارہ نے عنایہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
"ہاں، حسن پھر ملتی ہو تم سے ابھی ہم لیٹ ہو رہے ہیں بائے" اسکو کہتی دونوں آگے چل پڑیں جبکہ حسن کی نظروں نے دور تک ان کا پیچھا کیا تھا۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"عنایہ ایک آنکھ نہیں بھاتا مجھے تمہارا یہ عجیب و غریب دوست،پتا نہیں بات کیسے کر لیتی ہو تم اس کارٹون سے"
وہ دونوں اب بس میں بیٹھی ہوئی تھیں اور بیٹھتے ہی زارہ روز کی طرح شروع ہو چکی تھی۔
"پتا نہیں کیا مسئلہ ہے تمہں اس بیچارے سے، کہتا کیا ہے وہ تمہیں، امی بھی جانتی ہیں اس کو،میں نے کوئی چھپ کے تو دوستی نہیں کی ہوئی نہ اس سے، باز آ جاؤ تم"
"ہاہ!!!مجھے کچھ کہہ کے دیکھے تو سہی، آنکھیں ناں نکال دوں میں اس بجوبٹر کی،اور بات میری ماں چھپ کے دوستی کی نہیں ہے،بات سہی بندے سے دوستی کی ہے،اس الو کی نظریں اتنی عجیب ہیں، اور تم ہو کہ۔۔۔"
"اچھا میری ماں بس نہ،کافی ہے آج کے لئے اتنا۔۔۔باقی کل۔۔۔"
عنایہ اسکو چپ کرواتی کانوں میں ہینڈ فری لگا چکی تھی۔مطلب صاف تھا کہ اب نو مور لیکچر۔
زارہ اسکو دیکھتی برا سا منہ بناتی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
گھر کا دروازہ پار کرتے ہی زارہ بھاگتی ہوئی اندر گئی تھی۔عنایہ وہیں کھڑی دل میں اچانک اٹھنے والے شور پر قابو پانے لگی۔آخر کو آج اتنے سالوں بعد وہ دشمنِ جاں سامنے آنے کو تھا۔
قدم قدم اٹھاتی وہ لاونج کی جانب ہوئی کیونکہ آوازیں وہیں سے آ رہی تھیں۔وہ منظر سامنے تھا۔وہ شخص سامنے تھا جس کی ایک جھلک نے اتنے سال انتظار کروایا تھا۔
زارہ ہاشم کے گلے لگی اسکو کچھ کہہ رہی تھی۔ان دونوں کی عنایہ کی طرف پیٹھ تھی اس لئے فوری طور پر وہ عنایہ کو نہ دیکھ پایا۔لیکن پیچھے سے آتی عائشہ اماں کی آواز نے اسے گردن موڑنے پر مجبور کیا تو پیچھے وہ بھی تھی۔نظریں ٹکرائیں،بیک وقت دونوں طرف بجلیاں گریں۔
چاروں طرف اور کوئی نہیں تھا بس لیلی اور سامنے لیلی کا مجنوں۔
اتنے سالوں بعد بھی اسکی شاندار پرسنیلٹی اور پروقار شخصیت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ہاں البتہ مزید بڑھ ضرور گئی تھی۔بلاشبہ وہ ایک ایسا مرد تھا جو ایک ہی نظر میں سامنے والے کو جکڑنے کا فن جانتا تھا۔اسکی سحر انگیز شخصیت میں کھوئی عنایہ کو آس پاس کا ہوش ہی نہیں رہاتھا۔
ہاشم پہلے سنبھلا۔
"کیسی ہو۔۔۔؟"
نرم مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا گیا سوال۔
"ٹھیک۔۔۔"
وہ بمشکل بول پائی۔
"بھائی آپکو پتا ہے آپکے آنے کا سب سے زیادہ انتظار اسی کو تھا،کھینچ کے لائی ہے مجھے یونیورسٹی سے"
زارہ کی بات پر وہ اسے گھور کر رہ گئی اور ہاشم مسکرا دیا۔
"اسکو میرا نہیں میرے لائے گفٹس کا انتظار ہوتا ہے،کیوں عنایہ۔۔۔"
"بلکل بلکل، میرا کیا لینا دینا آپ سے،بتائیں جلدی سے کدھر ہیں میری چیزیں جلدی بتائیں۔۔۔"
وہ بھی اب اپنی ٹون میں واپس آ چکی تھی۔
"کچھ شرم کرلو،یہ نہیں کہ اسکو کھانے کا پوچھو،اپنی پڑ گئی ہے اسکو"
کمر پر پڑنے والے عائشہ اماں کےتھپڑ نے اسکی چلتی زبان کو بریک لگائی۔
"اوفوو امی۔۔ایک تو آپکو ہر بات پہ یہ تشدد کرنا لازمی ہوتا ہے کیا،کمر ٹوٹ جانی ہے کسی دن میری"
عنایہ برے برے منہ بناتی ہوئی بولی۔
""ڈرامے بند کرو اپنے ورنہ پڑے گی ایک اور،آ کہ کھانا لگاؤ"
امی اسکی بات کو نظرانداز کرتی ہوئی بولیں۔
"ہاں بس اسی کام کے لئے رہ گئی ہو میں"
جتنے خوشگوار موڈ میں وہ آئی تھی اب اتناہی موڈ کا بیڑا غرق ہو چکا تھا۔
ٹیبل پر کھانا لگاتے اسکی نظریں بار بار ہاشم کی طرف اٹھ رہی تھیں۔بلاشبہ دیکھنے میں وہ ایک لمبے چوڑے قد کا خوبصورت نوجوان تھا اور پولیس جیسی جاب سے وہ مزید فٹ اور ہیلدی ہو چکا تھا۔ان چار سالوں میں کافی تبدیلیاں آئی تھی۔ جن میں سب سے بڑی اس کے مزاج میں آئی تھی۔پہلے کی نسبت سنجیدہ ہو گیا تھا۔ عنایہ اس کو دیکھتی ہوئی ذہن میں خیالات کا تبادلہ کر رہی تھی اور اس کی یہ بار بار اٹھتی نظریں زارہ نوٹ کر چکی تھی اور بعد میں تنگ کرنے کے بارے میں سوچتے ہوئے ایک شیطانی مسکراہٹ اسکے چہرے کا طواف کر رہی تھی۔

___________________________________
Assalam o Alaikum everyone!
___________________________________
نور ازل میرا لکھا جانے والا اور شائع ہونے والا پہلا ناول ہے۔اللہ مجھے اس کا حق ادا کرنے کی توفیق دے،اور اس سفر کو کامیاب بنائے۔آمین۔
___________________________________
Genre: Police based,cousin marriage based,light funny,inspiratioal

نورِ ازلWhere stories live. Discover now