قسط ٧

8 1 0
                                    

سارے دن کی تھکاوٹ کے بعد اب رات کے دس بجے وہ کمرے میں پہنچی تھی۔میک اپ کے مٹے مٹے نشانوں کے ساتھ وہ خمار آلود آنکھیں لیے سنگھار میز کے سامنے کھڑی اپنی جیولری اتار رہی تھی۔آج سارا دن سب کے سامنے خود کو مضبوط ظاہر کرنے میں وہ ہر کام میں بڑھ چڑھ کر آگے تھی۔آخر کو اس کی بہن کا نکاح تھا۔لیکن ہاشم کی یاد ہر پل اس کے ساتھ رہی تھی۔ہوتے ہیں ناں کچھ لوگ ایسے جن کی کمی کبھی کوئی پوری نہیں کر سکتا۔بھری دنیا میں وہ ایک شخص ناں دکھے تو آنکھیں اسی کو ڈھونڈتی ہیں۔اس وقت وہ ایک شخص بغیر کسی غرض کے بس چاہیے ہوتا ہے۔وہ چپ کر کے بس بیٹھا رہے پاس لیکن وہ ساتھ تو ہو ناں۔
عنایہ مبین کیلئے وہ شخص ہمیشہ سے ہاشم  ہی تھا۔اور کوئی ہو بھی کیسے سکتا تھا۔
"آج سارا دن فون بھی نہیں آیا ہاشم کا" اچانک کھڑے کھڑے اس کو یاد آیا تھا۔پھر ایک اور جھماکا ہوا ذہن میں۔
"الله الله! ابھی تک نہیں سیو کیا میں نے ہاشم کا نمبر"  ہاشم کی ڈانٹ کے بعد بھی وہ نمبر سیو کرنا بھول چکی تھی۔لیکن اس وقت وہ جانتی تھی اس کو کیا کرنا ہے۔اپنے پیروں کو ہیلز سے آزاد کر کے وہ دبے پاؤں بیڈ کی طرف گئی جہاں زارہ دنیا و مافیہ سے بے خبر پڑی تھی۔عنایہ نے آہستہ سے ساتھ پڑا موبائل اٹھایا اور اسی طرح ٹیرس پر آ گئی۔زارہ کے فون کا پاسورڈ معلوم تھا اس کو۔کانٹیکٹ لسٹ میں سے "Bhaiya" کے نام سے موجود نمبر نظر آیا۔پہلے دو منٹ سوچتی رہی کہ کال کرے یاں نہیں پھر دل پر ہاتھ رکھ کر ڈایل کر دیا۔ بیل اب جا رہی تھی۔لیکن قسمت نداد!آگے سے ریسیو نہیں کیا گیا۔اس نے کان سے ہٹا کر دوبارہ ڈائل کیا مگر پھر وہی۔اب اس کو یقین کو چکا تھا کہ قسمت آج اس کا ساتھ نہیں دے گی۔
یقیناً وہ مصروف تھا۔
وہ مایوسی سے واپس جانے لگی جب اچانک سے رات کی خاموشی میں فون کی گھنٹی نے خلل ڈالا۔وہی نمبر سکرین پر جگمگا رہا تھا۔اس کو مایوسی سے نہیں لوٹایا گیا تھا۔جلدی سے ریسیو کر کے اس نے کان سے لگایا۔
"السلام علیکم میرا بچہ" وہ یقیناً یہی سمجھا تھا کہ زارہ ہے۔
"وعلیکم السلام!" عنایہ آہستگی سے بولی۔دوسری طرف اس کی آواز سنتے ہی وہ سیدھا ہو کر بیٹھا تھا۔یہ آواز وہ بھری دنیا میں بھی پہچان سکتا تھا۔
"عنایہ؟" اب کی بار آواز واضح پرجوش تھی۔
"نہیں عینا" وہ فوراً سے بولی۔دوسری طرف سے ہلکی سی ہنسی کی آواز آئی۔
"کیسی ہو؟ آج مجھے کیسے یاد کر لیا؟" وہ فریش موڈ میں لگ رہا تھا۔ورنہ ہاشم اور اس قدد خوشاخلاقی سے بات کر لے؟ الامان!
"میں تو آپکو یاد کرتی رہتی ہوں آپ ہی بھول جاتے ہیں ہر دفعہ" وہ ذرا خفگی سے بولی۔
"اعزاز ہے یہ میرے لیے کہ آپ مجھے یاد کرتی ہیں،یہ بتاؤ مِس کیا مجھے آج؟" وہ شرارت سے بولا تھا کہ وہ کسی تڑخ جواب کی توقع میں تھا۔
"بہت زیادہ" وہ سچائی سے بولی تھی۔کچھ لمحے ہاشم بول ہی ناں پایا۔
"آپکو پتا ہے میں نے آج بلیک کلر کا ڈریس پہنا تھا" عنایہ جانتی تھی کہ ہاشم کو وہ بلیک کلر میں کتنی خوبصورت لگتی تھی اس لیے جان بوجھ کر بتانے لگی۔
"یہ اب ذیادتی ہے میرے ساتھ" عنایہ محسوس کر سکتی تھی کہ اسکا لہجہ جھکتا ہوا تھا۔
"ہائے! چلیں کیا یاد کریں گے۔میں آپکو ابھی زارہ کے سیل سے ہی پکس سینڈ کر دیتی ہوں۔اب اتنا خیال تو میں کر ہی سکتی ہوں آپکا" وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولی۔
"آہ! تمہاری انسانی ہمدردی" وہ جل کر بولا تھا۔رات کی اس ہر سو پھیلتی خاموشی میں عنایہ کی ہنسی نے ہر طرف تارے جگمگا دیے تھے۔کچھ دیر وہ اس آواز کے سحر سے ہی ناں نکل پایا۔
"یہ بتاؤ حسن کیسا ہے؟" وہ اب سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔
"لو بھلا! جن خفیہ ذرائع سے میری خبر گیری کروا رہے ہوتے ہیں وہیں سے حسن کی بھی کروا لیتے ناں،کافی اچھی معلومات مل جانی تھی"
"وہ بات تو تم ناں ہی کرو،ابھی تک اس کا غصہ ہے مجھے تم پر.اتار نہیں رہا تو یہ مت سمجھو کہ بھول گیا ہوں۔ذرا جو ابھی ڈانٹا میں نے تو آواز نہیں نکلنی تمہاری" وہ ایک دم سے غصیلے لہجے میں بولا تھا لیکن آج عنایہ پر کسی چیز کا اثر نہیں ہونا تھا۔
" جائیں جائیں! میں نہیں ڈرتی آپ سے"
"سوچ لو! کسی دن یہیں کچھ ہو گیا مجھے تو یاد کرو گی اس ڈانٹ کو بھی" وہ اب ہنستے ہوئے بولا لیکن عنایہ کا دل دہلا گیا تھا۔
"آپکو شرم نہیں آتی اس طرح سے بات کرتے ہوئے"وہ بےساختہ بولی تھی۔آواز میں واضح لڑکڑاہٹ تھی۔
"مطلب ذرا بھی یاد نہیں کرو گی،حد ہے" اب عنایہ کچھ نہیں بولی۔آنسو خاموشی سے گال پر بہنے لگےتھے کیونکہ انکو صاف کرنے والا بے رحم تھا۔
"رو رہی ہو؟" وہ محسوس کر چکا تھا۔
"میں روؤں یا ہنسوؤں آپ سے مطلب؟ اور میں نے آج کے بعد کبھی بات نہیں کرنی آپ سے،بہت برے ہیں آپ،ذرا رحم نہیں آتا مجھ پر" وہ اب باقائدہ رو رہی تھی۔
دنیا کے سامنے وہ مضبوط تھی اوہ یہ شخص ہر دفعہ اس کی آنکھوں میں آنسو لاتا تھا پھر بھی عزیز تر تھا۔
"عینایار سوری!اب فون پر تو کان پکڑنے سے بولا" وہ اب بیچارگی سے بولا۔
"واپس کب آئیں گے؟"
"جب آپ حکم کریں"
"میں کہنے پر آئی تو کل کا کہہ دوں گی لیکن مجھے پتا ہے آپکو بس باتیں بنانی آتی ہیں" وہ بولتے بولتے رکی تھی کہ ہاشم کے پیچھے سے کچھ اور لوگوں گی آوازیں بھی آنے لگی تھیں۔ایک منٹ بعد وہ بولا۔
"لسن میں بعد میں بات کرتا ہوں اور ہاں پکس بھیج دینا مجھے"وہ جلدی سے بول کر فون رکھ چکا تھا۔
ایک لمبی سانس خارج کر کے اس نے فون کان سے ہٹایا۔یہ آج کے پورے دن کا سب سے خوبصورت وقت تھا۔اب وہ وہیں کھڑے ہاشم کو آج کی تصوریں بھیجنے لگی۔اپنا کام کر کے جب وہ پیچھے پلٹی تو زارہ آنکھیں بڑی بڑی کر کے اس کو گھور رہی تھی۔
"تو آدھی رات کو میرے معصوم بھائی پر ڈورے ڈالے جا رہے ہیں" وہ ابھی بھی ایسے ہی کھڑی بولی تھی۔
"ابھی مجھے ضرورت ہے تمہارے بھائی پر ڈورے ڈالنے کی؟" وہ بغیر اثر لئے بولی اور کمرے کی طرف چل پڑی۔زارہ بھی اس کے پیچھے پیچھے گئی تھی۔
"ہائے کانفیڈنس تو چیک کرو ذرا،استنبول میں کوئی اور مل گئی ناں تو تم یہاں بیٹھ کر ہاتھ ملتی رہنا"۔
" قتل ناں کر دوں میں تمہارے بھائی کا جو کسی اور پر نظر بھی ڈالی تو"بیڈ پر بیٹھتے بیٹھتے وہ زارہ کو تڑخ کر خواب دینے لگی۔
"الله ہی رحم کریں میرے معصوم بھائی پر" عنایہ کو دھکا دیتی وہ اپنی جگہ پر آ کہ لیٹی تھی۔سارے دن کی تھکاوٹ پر لیٹتے ہی وہ دونوں نیند کی وادیوں میں گم تھیں۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
آج کا دن معمول سے ہٹ کر ہی تھا۔عائشہ اماں کی فلائٹ تھی۔حسن اور زارہ ان کو ائیر پورٹ تک چھوڑنے گئے تھےاور عنایہ اکیلی ہی گھر تھی۔ظہر کا وقت تھا۔نماز سے فارغ ہو کر وہ قرآن پاک لے کر بیٹھ گئی تھی۔اب یہ اس کا معمول ہی بن گیا تھا فجر کے بعد قرآن پڑھنا اور جس دن ناں پڑھ سکے تو دن میں جو وقت فارغ ملے اس میں پڑھ لینا لیکن چھوڑنا نہیں۔پڑھتے پڑھتے وہ ایک آیت پر رکی۔

نورِ ازلWhere stories live. Discover now