قسط ٥

9 1 0
                                    

زندگی کی چہچہاہٹ کا راج ہر سو ہی تھا۔ساری فضا میں سکون ہی سکون تھا کہ جانے زندگی میں سکوں تھا۔زندگی میں کچھ لمحات ایسے بھی آتے ہیں کہ جب ساری دنیا سے کٹ کر بس خود کے ساتھ وقت گزارنے کو جی چاہتا ہے۔یہ بھی شاید ایسا ہی وقت تھا۔سورج کی ہلکی ہلکی سی کرنیں اس کے چہرے پر پڑتے ہی اس خمار بھرے چہرے کو مزید پرکشش بنا رہی تھیں۔چائے کا کپ ہاتھ میں لئے وہ دونوں ٹانگیں صوفے پر رکھے وہ سوچوں میں غرق تھی۔

اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ تو میں تمہارا
یاں اس پہ مبنی کوئی تاثر کوئی اشارہ تو میں تمہارا
غرور پرور،انا کا مالک،کچھ اس طرح کے ہیں نام میرے
مگر قسم سے جو تم نے اک نام بھی پکارا تو میں تمہارا
تم اپنی شرطوں پہ کھیل کھیلو میں جیسے چاہوں لگاؤں بازی
اگر میں جیتا تو تم ہو میرےاگر میں ہارا تو میں تمہارا
تمہارا عاشق تمہارا مخلص تمہارا ساتھی تمہارا اپنا
رہا ناں جب ان میں سے کوئی تمہارا تو میں تمہارا
تمہارا ہونے کا فیصلہ میں اپنی قسمت پہ چھوڑتا ہوں
اگر مقدر کا کوئی ٹوٹا کبھی ستارا تو میں تمہارا
یہ کس پہ تعویز کر رہے ہو یہ کس کو پانے کے ہیں وظیفے
تمام چھوڑو جو کر کو بس اک استخارہ تو میں تمہارا۔
(عامر امیر)
اس کو آج بھی یہ غزل حرف بہ حرف یاد تھی۔پچھلے سال جب ہاشم رہنے آیا تھا تب عنایہ نے یہ اس کے لیپ ٹاپ میں سے چوری چھپے پڑھی تھی۔
جانے وہ کتنی ہی دیر یونہی سوچوں میں غرق رہتی اگر ساتھ رکھے فون نے اس کا سکوت ناں توڑا ہوتا۔
"اف اللہ!کس کو صبح ہی صبح موت پڑ گئی ہے؟چین ہی نہیں"
اپنا یہ سکوت وٹنا اسکو سخت ناگوار گزرا تھا۔بڑبڑاہٹ کرتی وہ فون اٹھا گئی۔
"ہیلو۔۔۔جی بولیں"؟ انتہائی رکھائی کے ساتھ وہ بولی تھی۔
"ماما کدھر ہیں،فون دو انکو" دوسری طرف سے آواز آتے ہی عنایہ کی آنکھیں مارےحیرت کے باہر آنے کو تھیں۔وہ اس وقت یہ فون کال تصور بھی نہیں تھی کر سکتی۔
"آپ؟"وہ تقریباً چیخی تھی۔
"ہاں میں،جلدی دو ذرا کام ہے مجھے،تمہاری فضول باتیں سننے کو فون نہیں کیا میں نے"۔جتنی حیرت اور خوشی عنایہ کے روئیے سے جھلکی تھی اتنی ہی بےرخی ہاشم دکھا گیا تھا۔اس روئے ہر عنایہ کا رویہ بھی بجھ گیا۔گئے تو ٹھیک تھے اب کیا ہو گیا بھلا؟
"وہ اماں ابھی سو رہی ہیں" اس دفعہ لہجہ دھیما تھا۔
"اس وقت،خیریت ہے؟طبعیت ٹھیک ہے انکی؟یوں کرو زارہ کو فون دو"
(واہ واہ!پہلے اماں اب زارہ،میرے سے بات کرتے تو زبان پر چھالے پڑتے ہیں ناں)
"آج چھٹی ہے ہمیں تو زارہ بھی سوئی ہے اور اماں بھی فجر پڑھ کہ دوبارہ سو گئی تھیں،بلکل ٹھیک ہیں وہ"
"اوکے"
"اچھا سنیں تو۔۔۔" ہاشم فون رکھنے ہی لگا تھا کہ عنایہ کی آواز پر بیزاری سے رک گیا۔
"ہمم بولو"
"آپ ناراض ہیں مجھ سے؟"
"کیوں؟میرا تم پہ کونسا حق ہے ناراض ہوں؟"ابھی بھی وہی لٹھے مار لہجہ۔ وہ جو اس کے بیگانے لہجے پر اداس ہوئی تھی اب تو رو دینے کو تھی۔
"بات تو اتنی روڈلی کر رہے ہیں"
"اور کیسے بات کروں میں تم سے؟میری پیار کی زبان بھی تو تمہاری سمجھ سے باہر ہے ناں۔چلو میرے روڈلی بیہیویر کو ہی تھوڑا سیریس لے لیتی ہو مہربانی ہے یہ بھی"
"کیا کیا ہے میں نے؟یہ تو بتائیں"آہستہ آہستہ آنسو اس کے گالوں پر آنے لگے تھے۔
"یہ تمہیں خود ذیادہ اچھے سے پتا ہونا چاہیے کہ کیا کیا ہے تم نے؟"
"اچھا سوری" تھوڑی دیر پہلے وہ جس شخص کو سوچتے اس قدر خوشگوار تھی اب وہی شخص اس کو آنسوؤں تک لے آیا تھا۔
"کس لیے؟"
"جس لیے بھی آپ ناراض ہیں"
"عنایہ لسن ٹو می!اگر تو تم یہ سمجھتی ہو کہ اتنی دور ہو کر مجھے تمہاری کوئی خبر نہیں تو یہ بھول ہے تمہاری۔وجہ تمہارا پیچھا کروانا نہیں تمہاری کئیر ہے۔میرے لئے میرے سے جڑا ہر رشتہ اہم ہے اور عنایہ کا نام ان میں ٹاپ آف دا لسٹ ہے،اگر وہ تھوڑی سی سیدھی ہو جائی تو۔"
کیسا دھوپ چھاؤں سا انسان تھا وہ۔ایک پل میں تنہا کڑکتی دھوپ میں کھڑا کر دے تو دوسرے پل اتنی اپنائیت کہ کسی اور سہارے کی ضرورت ہی ناں پڑے۔
"مجھے کل سے یہ تصور ہی مارے جا رہا ہے کہ وہ لڑکے اگر تمہیں کوئی نقصان پہنچا دیتے تو میں خود کو کیا جواب دیتا؟تمہاری حفاظت ناں کر سکنے پر کونسی سزا دیتا خود کو اور جتنی سزائیں سوچیں ہیں سب اس درد سے بہت چھوٹی میں جو میں اس تصور سے ہی سہہ رہا ہوں"
اور یہاں آکر عنایہ کی ساری دنیا رک گئی۔برے سے بھی برا خواب ہوتا مگر وہ یہ کبھی ناں دیکھتی کہ کل کے اس واقعے کے خبر ہاشم کو بھی ہے۔بولنے کو کچھ بچا ہی نہیں تھا۔وہ حق پر تھا۔
"تم اس قدر لاپرواہ کیسے ہو سکتی ہو عنایہ؟ آواز میں صدیوں کی تھکن تھی ۔ عنایہ کے آنسو اب روانی میں تو تھی ساتھ ہچکیاں بھی جاری تھی۔
"خود کیلئے ناں سہی،میرے لئے ہی سہی،انسان کو خود کی خفاظت خود سے زیادہ ان لوگون کیلئے کرنی پڑتی ہے جو آپ سے محبت کرتے ہیں،آپ کی فکر کرتے ہیں۔اب رکھو گی اپنا خیال؟"
"پرامس" اور بولتی بھی کیا؟
"گڈ گرل!زارہ اور مما کو سلام دینا میرا۔خداخافظ!"
"خداخافظ"
فون رکھتے ہی وہ ٹھک سے صوفے پر گری۔چہرہ آنسوؤں سے بھرا لیکن ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔یہ جانے بغیر کہ اس کا کیا جانے والا وعدہ کتنی جلدی ٹوٹنے والا ہے۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
صبح کی خنکی اب آہستہ آہستہ کم ہو رہی تھی لیکن ماحول قدرے بہتر تھا۔تینوں نفوس اس وقت لاونج میں ہی موجود تھے۔ہاشم کے فون کا وہ ان دونوں کو صبح ہی بتا چکی تھی۔اس وقت ان تینوں کے درمیان ایک بات کو لے کر بحث چل رہی تھی۔مسئلہ کچھ یوں تھا کہ پاکستان میں ایک ہفتے بعد عنایہ کے تایا کے بڑے بیٹے کی شادی تھی۔زارہ اور عنایہ کے نیکسٹ ویک ویک مڈ ٹرم ہونے کی وجہ سے وہ دونوں نہیں جا رہی تھیں۔ اور عائشہ اماں کا اکیلے جانے کو دل نہیں تھا لیکن ہماری روایتیں!رشتہ داریاں نبھانی ہوتی ہیں۔یہی تو ہماری پہچان ہوتی ہیں۔اس لئے جانا ضروری تھا۔اور عنایہ نے حسن کو اب تک تو سیٹ کنفرم کروانے کا بھی کہہ دیا تھا۔
"یار پھپھو،اکیلے کیسے رہیں گے ہم؟میرے سے تو رہا نہیں جاتا آپکے بغیر"۔ زارہ پیچھے سے ان پر لپٹتی ہوئی اداسی سے بولی۔
"میرا بچہ بس کچھ ہی دنوں کی تو بات ہے،پتہ بھی نہیں چلے گا اور میں آ جاؤں گی"۔ وہ پیار سے اس کا گال تھپکتی ہوئی بولیں تھیں۔
"پھر بھی پھپھو یار! آئی ول مس یو"
"ہاں سارے کا سارا تم نے ہی مس کر لینا ہے،میری اس بیٹی کو دیکھ لو،ذرا جو ایک بار اس نے کہا ہو کہ نا جائیں"
اماں اب زارہ کی اداسی کم کرنے کو بات عنایہ پہ لے گئی تھیں۔
"ہاں تو میں کونسا دودھ پیتی بچی ہوں،یہ بھی ڈرامے کر رہی ہے۔دیکھنا آپ کے جانے کے بعد کیسے اچھل رہی ہو گی"
عنایہ بھی انکی بات سمجھ گئی تھی۔
"انسان بنو تم!دیکھتے ہیں کون اچھلتا ہے"
"ہاں ہاں دیکھتے ہیں"
"اچھا بس!دونوں چپ کرو اور جا کر پیکنک کرو میری۔جب دیکھو لڑائیاں ہی ختم نہیں ہوتی دونوں کی،فوراً اٹھو"۔
عائشہ اماں کو بھی ذرا دیر نہیں تھی لگی "اماں" بننے میں۔وہ دونوں بھی منہ بسورتی انکے کمرے کی جانب چل پڑیں۔پھر شام تک ان کی پیکنگ کر کے اماں کو کمرے میں سلا کر زارہ آتے ہی واپس کمبل میں گھس گئی۔پچھلے دو دن زارہ کے فیورٹ رہے تھے کہ سوائے سونے کو اور کوئی کام نہیں تھا۔اور عنایہ کو اتنی جلدی سونے کی عادت نہیں تھی اور کچھ کرنے کو بھی نہیں تھا تو رائٹنگ ٹیبل پر بیٹھ کر ڈائری کھول چکی تھی۔کیونکہ یہ کام سکون طلب تھا اور رات سے ذیادہ سکون طلب ٹائم اور کوئی نہیں تھا۔زندگی کی ساری سوچیں ایک طرف زہن سے جھٹکیں تو ایک بار پھر وہ جمعہ کی اسی کلاس میں اسی پرنور چہرے پر پہنچ گئی۔
"وہ چہرہ۔۔۔شاید ہی کبھی بھول پاؤں میں۔۔۔اور اسکی باتیں۔۔۔کس قدر سچ کہا تھا اس نے کہ لوگ ہم سے ہمیشہ اپنی بات کرتے ہیں،اپنی خواہش سامنے رکھتے ہیں کہ تم یہ کر لو وہ کر لو۔۔۔کوئی اللہ کی بات کیوں نہیں کرتا؟اور میرے جیسی ہزاروں لڑکیاں جو صرف یہ سوچ کر کہ میں ان کی خواہش پر کیوں کچھ کروں اگر ان کو یہ کہا جاتا کہ یہ میں نہیں اللہ چاہتا ہے کہ تم یہ کرو تو ہو سکتا ہے ہم کر لیتیں۔شاید میں آج ایسی ناں ہوتی جیسی میں ہوں۔
لڑکیوں میں ضد ہوتی ہے۔کچھ کی ضد انکو فائدے دے جاتی ہے تو کچھ کی ضد انکو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔میں کس جگہ پر ہوں؟شاید ان کے کہیں درمیان یا شاید ابھی مجھے فیصلہ کرنا ہے کہ میں اپنی ضد سے خود کو کندن بناؤں گی یا راکھ کا ڈھیر۔۔۔"
اور فیصلہ ہو چکا تھا۔وہ خود کو کبھی راکھ کا ڈھیر نہیں بننے دے گی۔آج تک وہ ہمیشہ اپنی سنتی آئی تھی۔ہمیشہ اپنی سن کے پچھتائی تھی۔اب اس کو راہ بدلنی تھی اور وہ اب کی بار جانتی تھی کہ اسکو کہاں جانا چاہیے۔اب وہ ہر سکون تھی۔
صبح ہوتے ہی جو سب سے پہلا کام اس نے کیا تھا وہ فریحہ سے آمنہ کا سیل نمبر لیا تھا اور بات کرنے کے بعد وہ ایک بار پھر اس کے سامنے تھی۔وہ دونوں کھلی فضا میں ایک بینچ پر آمنے سامنے بیٹھی تھیں۔
"مجھے پتا تھا کہ تم ضرور آو گی،میرے پاس ناں سہی لیکن کہیں اور مگر اللہ نے وہ خوش قسمت مجھے بنا دیا"۔
وہی دھیمی، شائستہ آواز۔
"آپکو کیسے پتہ تھا؟"
"تمہارا چہرہ بول بول کر بتا رہا تھا کہ تم واپس آؤ گی۔اب بتاؤ مجھے کیا چیز تنگ کر رہی ہے تمہیں؟"
وہ ایسے بولتی تھی کہ بندے کو باقی دنیا کا ہوش ہی نہیں رہتا تھا۔
"مجھے پتا ہی نہیں۔بہت باتیں ذہن میں آتی ہیں۔کبھی سوچتی ہوں مجھے صحیح سے گائیڈ نہیں تھا کیا گیا لیکن پھر خیال آتا ہے یہ میرا ہی قصور تھا۔مجھے اپنی منزل خود بنانی تھی کسی اور نے نہیں۔آخر ہم لڑکیاں اتنی ضدی کیوں ہوتی ہیں؟"
وہ تھکن ضدہ لہجے میں پوچھ رہی تھی۔
"یہ تم نے صحیح بات کی ہے۔ہم لڑکیاں واقعی ضدی ہوتی ہیں۔پتا ہے کیوں؟حضرت حوا کا قصہ جانتی ہو؟وہ حضرت آدم کی ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی تھیں۔یہی نوسٹلجیا ہم سب لڑکیوں کا ہے۔ہم ٹیڑھی پسلی سے ہیں۔اسی لئے ضد اور چڑچڑا پن ہمارا خاصا ہے اور ہمیں سیدھا کرنے کرنے کے چکروں میں ہمارے اپنے ہی ہمیں توڑ دیتے ہیں۔شیشہ اگر ٹیڑھی شکل کا ہو تو کون اس کو توڑتا ہے؟بلکہ اس کو اسی طرح سمبھال کر رکھتے ہیں کہ وہ ٹوٹ ناں جائے۔عورتوں کو بھی ٹریٹ کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ان سے باتیں ہمیشہ پیار سے منوائی جاتی ہیں۔لیکن اس چکر میں خود کو اتنا نازک بھی نہیں بنا لینا چاہیے کہ کوئی بھی آپکے ساتھ کھیل کر چلا جائے۔
لڑکیاں اپنے ساتھ پیار کرنے والوں کے ساتھ بھی ویسی ہی ہوتی ہیں،تم نے دیکھا ہو گا۔ہم اپنے باپ،بھائی اور شوہر کیلئے ہمیشہ نرم ہوتی ہیں باقی دنیا کہ لئے جلاد ہی کیوں ناں ہوں۔ہم اپنے نخرے بھی انہیں کو دکھاتی ہیں،اپنا غصہ بھی اور پیار بھی۔کیونکہ یہاں ہم جانتی ہیں کہ اگر یہ ہمیں ڈانٹ بھی دیں گے تو سنبھالنے والے بھی یہی ہوں گے۔یہی ہمارا غصہ برداشت بھی کرتے ہیں اور نخرے بھی اٹھاتے ہیں اسی لئے ہمیں ان رشتوں کی قدر بھی زیادہ ہے۔ ماؤں کو دکھائے ہیں نخرے کبھی؟کوشش بھی کریں ناں تو اڑتی ہوئی چپل آتی ہے۔لیکن ان کے ساتھ ہمارا رشتہ اور طرح کا ہے۔اور جو لوگ ہم پر بلاوجہ کی سختی اور روک ٹوک کرتے ہیں ناں ہم ان سے بددل ہوجاتے ہیں۔اور ان کو چھوڑ دیتے ہیں۔یہ ناں کر سکیں تو ان کی باتوں کی نفی کرنے لگتے ہیں۔سمجھ رہی ہو ناں؟"
"ہوں" عنایہ بس اتنا ہی بول سکی۔کوئی مرہم اتنا آرام دہ بھی ہو سکتا تھا بھلا؟
"تمہاری زندگی میں ایسا کوئی رشتہ ہے؟" عنایہ نے آمنہ کو کہتے سنا۔
"میرے بابا بہت اچھے تھے۔بارہ سال کی تھی میں جب ان کی ڈیتھ ہو گئی۔بھائی میرا کوئی ہے ہی نہیں۔ایک رشتہ ہے میرے پاس جو مجھ سے جھگڑتا بھی ہے،ڈانٹ بھی دیتا ہے لیکن میرا غصہ سہہ بھی جاتا ہے،ہر بات پوری کرتا ہے۔اس کا مجھ سے بات کرنا مجھے اچھا بھی لگتا ہے۔وہ ناراض ہو تو منانے کو دل کرتا ہے اور جب تک مان ناں جائے چین نہیں آتا...."
وہ اپنی رو میں بولی جا رہی تھی۔
"تو پھر جتنی ہو سکے اس رشتے کی قدر کرو۔کیونکہ یہی رشتے ہماری زندگی کا کل اثاثہ ہوتے ہیں۔اپنی کسی نادانی پر ان کو کھو مت دینا۔"

نورِ ازلWhere stories live. Discover now