قسط ٦

9 1 0
                                    

رات کو سونے سے پہلے آج پہلی بار عنایہ نے الارم پورے دل سے فجر کیلئے لگایا تھا اور حیرت انگیز طور پر وہ پورے آدھا گھنٹہ پہلے ہی اٹھ چکی تھی۔یہ آج اس کے ساتھ پہلی دفعہ ہوا تھا کہ وہ بغیر کسی کہ اٹھائے اٹھ گئی تھی اور آج پہلی مرتبہ ہی یہ احساس ہوا تھا کہ فجر کہ وقت پر اٹھنے والوں کو اتنی خوشخبریاں کیوں سنائی گئی ہیں۔ سکون سے بھرپور تھا یہ وقت۔نعمتوں،رحمتوں سے بھرپور۔نور سے بھرپور۔اور پھر نور اتارا بھی انہی پر جاتا ہے جو چن لئے جاتے ہیں۔
تو پھر ہم اکیسویں صدی کے انسان کیوں بھول جاتے ہیں کہ اگر ہم آج کفرانِ نعمت کر رہے ہیں،لوگوں کے دل دکھا رہے ہیں،حرام کھا رہے ہیں تو ہمارا حساب نہیں ہوگا؟اس رب ذوالجلال کو کیوں نظرانداز کر دیتے ہیں جس کے بس ایک کن پر ہیں ہماری یہ چلتی سانسیں؟ روزبروز  بنتی روائتیں ہمیں ہمارے اصل سے کتنا دور لے کر جاتی جا رہی ہیں ایسے میں جو اجنبیوں میں اجنبی اس دنیا کے فتنوں سے خود کو بچا لے تو کیوں ناں میں اس کو خوش قسمت کہوں؟
اوہ الله! میں کیوں ناں تھی ان خوش قسمتوں میں!  مگر وہ جو تمام کائنات کیلئے رحمان اور ایمان والوں کیلئے رحیم ہے وہ پکڑ کہ لے آیا مجھے کہ نہیں ہے وہ رستہ تمہارے لئے جس میں کانٹے ہیں۔
وہ آج اپنی زندگی کو ایک الگ نہج پہ دیکھ رہی تھی۔ایک محفوظ مقام پہ۔مگر سونے کو کندن بننے کیلئے بھی جلنا پڑتا ہے۔یہ فیصلہ ابھی باقی تھا کہ جلنے کہ بعد وہ کندن بنے گی یاں  راکھ کا ڈھیر۔فیصلے کی گھڑی قریب تھی۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
یونیورسٹی میں معمول کے مطابق چہل قدمی تھی۔سٹوڈنٹس کا رش معمول سے زیادہ تھا۔وجہ شاید نئے ایڈمیشنز تھے۔ایسے میں وہ دونوں ہمقدم چلتی آ رہی تھیں۔رستے میں ہلکی پھلکی بوتیں کرتیں وہ سیدھی ہی جا رہی تھیں کہ سامنے سے حسن دکھائی دیا۔عنایہ کو یاد آیا کہ ابھی پاسپورٹ اور ٹکٹ لینا ہے۔حسن بھی انہیں کی طرف ہی آ رہا تھا۔زارہ نے بھی اس کا آتا دیکھ لیا تھا۔آج چہرے کے زاویے نہیں بگڑے تھے البتہ سخت ضرور کر لئے تھے۔
"ہیلو لیڈیز " وہ خوشگوار موڈ میں نظر آیا تھا۔
"وعلیکم ہیلو،پاسپورٹ پلیز" عنایہ ہتھیلی آگے کرتی ہوئی بولی۔
"بڑی بے مروت ہو عنایہ،بندہ حال چال ہی پوچھ لیتا ہے تم تو اس سے بھی گئی ہو"
"وہ کیا ہے نا۔ میں نے سوچا میری بہن کے سامنے ذیادہ دیر کھڑے رہنے سے تمہیں اپنا آپ دہشتگرد فیل ہوتا ہے تو اس فیل کو میں کم ہی ٹائم دوں۔۔۔" وہ مسکراہٹ دباتی بولی تھی اس کے برعکس حسن  دل کھول کر ہنسا تھا۔زارہ نے بات اس سنی کر دی۔
"آپ کچھ نہیں بولیں گیں" اب حسن کا رخ زارہ کی جانب تھا۔
"میرا بولنا آپکو نا گوار ہی گزرے گا اس لئے میں چپ ہوں" وہ تڑخ کہ بولی۔
"تم تو یہ پاسپورٹ اور ٹکٹ پکڑو اور چلتی بنو یہاں سے،مجھے اپنی وائف ٹو بی سے ذرا پرسنل باتیں کرنی ہیں" وہ چیزیں عنایہ کے ہاتھ میں دیتا جھک کر اس کے کان میں بولا تھا۔
"دھیان رکھنا،کہیں آپکی وائف ٹو بی،وائف بننے سے پہلے ہی خود کو بیوہ ناں کر لیں" جواب میں وہ زور سے ہنسا تھا۔
"اگر آپ دونوں نے یونہی کانوں میں باتیں کرنی ہیں تو میں نکل جاتی ہوں ناں،کھل کہ کر لیں " وہ دونوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہوئی بولی کہ وہ تو بھول ہی چکے تھے اس کو۔
"اچھا زارہ بس دو منٹ رکنا ادھر،وہ سامنے کیفیٹیریا پر ایک  انکل کے پاس کچھ نوٹس رکھوائے تھے میں نے،میں بھاگ کر لا رہی ہوں بس ہلنا مت ادھر سے" عنایہ نے زارہ کو کچھ سمجھنے کا موقع دیے بغیر بات کہی اور بھاگ نکلی۔زارہ بھی اس کے پیچھے بھاگی تھی کہ حسن کی پکار پر رک گئی۔
"آپ کو سچ میں مجھ سے کوئی پرابلم ہے یاں صرف باتیں ہی بناتی ہیں" وہ اب سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔
"یہ سوال مجھ سے پوچھنے کا حق نہیں ہے آپ کے پاس" وہ رکھائی سے بولی تھی۔
"حاصل تو کیا جا سکتا ہے نہ اگر آپ اجازت دیں،یقین کریں اتنا برا نہیں ہوں جتنا آپ سمجھتی ہیں"  وہ عین اس کے سامنے کھڑا آنکھوں میں دیکھ کر بول رہا تھا۔زارہ کا دل زوروں سے دھڑکا تھا البتہ چہرہ نارمل رکھنے کی بھرپور کوشش میں تھی وہ۔
"یہ باتیں کچھ عرصے بعد تب آکر میرے کھر کیجئے گا جب میرا بھائی آ جائے،پھر انکا جو فیصلہ ہوا مجھے منظور ہوگا" وہ مختاط ہو کر بولی۔
"تو مطلب آپکی زندگی کے فیصلے کا اختیار عنایہ کی مدر کے پاس نہیں ہے؟" حسن کو جو سمجھ میں آیا وہی بولا۔
"ایسی بات ہرگز نہیں ہے۔میرے لئے پھپھو کا ہر فیصلہ قابل قبول اور قابل احترام ہے۔میں بس یہ کہہ رہی ہوں کہ میری زندگی کہ اس فیصلے کہ وقت میں اپنے بھائی کو مِس کروں گی" لہجا یکدم ہی دھیما ہوا تھا۔
"آپکی بات سے متفق ہوں میں،مگر کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپکے بھائی کے آنے میں ابھی وقت ہے تو تب تک منگنی یاں نکاح وغیرہ؟رخصتی آپکے بھائی کہ آنے کے بعد ہی ہوگی"
کیسی بےقراری تھی حسن کے لہجے میں۔زارہ اسکو دیکھ کہ رہ گئی۔
"یہ باتیں آپ جا کر میری پھپھو سے کریں تو ہی مناسب ہو گا" وہ بات اب بھی سمبھل سمبھل کہ کر رہی تھی مگر اب دل نہیں سمبھل رہا تھا۔سامنے کھڑا شحص بھی عجیب تھا۔بیچ راستے میں کھڑا کر کہ نکاح کا یوں پوچھ رہا تھا جیسے پسند کے کپڑے پوچھ رہا ہو۔اب وہ مزید یہاں کھڑی نہیں رہ سکتی تھی۔جلدی سے کلاس کی جانب چل پڑی۔
"بات سنیں۔۔۔اس دفعہ آپکی طرف سے تو کوئی رکاوت نہیں ہو گی ناں" پیچھے سے دوبارہ اس کی آواز آئی تھی۔ وہ مڑے بغیر بولی۔
"سوچوں گی" اور وہ اس آواز سے ہی پہچان گیا تھا کہ یہ اقرار ہے۔اس کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔
کیا زندگی میں اس صبح سے حسین کچھ ہو سکتا تھا؟ وہ کچھ سوچتے ہوئے باہر کی طرف نکل پڑا۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
سارے دن کی ٹھکاوٹ لئے وہ دونوں بس سٹاپ سے اتر کر گھر کی راہ پر تھیں۔
"اور کون سی بات کی تھی حسن نے تم سے؟"
"کب؟ اوہ اچھا صبح۔۔۔وہ تو بس ایک دو ادھر ادھر کی باتیں کر کے چلی گئی تھی میں کلاس میں"
زارہ لہجے کو نارمل بناتے ہوئے بتانے لگی۔اب ادھر رستے میں بتا دیا جو اسکو تو جانے کیا ری ایکشن دے،گھر چل کر ہی دیکھتے ہیں۔
وہ دروازے پر پہنچی ہی تھیں کہ یکدم دونوں کے قدم رکے۔زارہ کی آنکھوں میں بے یقینی تھی۔ (وہ اتنی جلدی آ بھی گیا؟)سامنے کھڑی حسن کی گاڑی اس کا منہ چڑا رہی تھی۔
"آر یو شیور کہ صبح بس ادھر ادھر کہ ہی باتیں ہوئی تھیں" عنایہ مسکراہٹ دباتی ہوئی پوچھنے لگی۔
"بکواس نہیں کرو اندر چلو،مجھے کیا پتا کیا لینے آیا ہے"
آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی وہ اندر کی جانب چل پڑی۔عنایہ اس سے پہلے جا چکی تھی۔لاونج میں قدم رکھا تو سامنے وہ بیٹھا نظر آیا۔وہی شہد آنکھوں میں زندگی سے بھرپور خوشی۔اپنی وجاہت سمیٹتا وہ اس کے سامنے تھا۔زارہ نے آج پہلی بار اس پر بھرپور نظر ڈالی تھی۔چھ فٹ سے نکلتا قد،توانا جسم اور شاندار پرسنیلٹی سے بھرپور وہ ایک وجیح  مرد تھا۔عنایہ صوفے پر بیٹھی اس کے ساتھ محو ہو چکی تھی اور ہمیشہ کی طرح وہ کسی بات پر ہنس رہے تھے۔
"شکر تم بھی آ گئی" عائشہ اماں کی آواز کچن کی طرف سے آئی تھی۔وہ ہاتھ میں ٹرے لیے کچھ لا رہی تھیں۔زارہ جلدی سے انکی طرف ہو کر انکے ہاتھ سے چیزیں لینے لگی۔
"ادھر لائیں میں رکھتیں ہوبیٹھیں آپ" ٹرے ٹیبل پر رکھ کر وہ ادھر ہی بیٹھ کر چائے بنانے لگی۔
"چینی کتنی؟" زارہ نے پوچھنے کیلئے سر اٹھایا تو وہ اسکی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ زارہ کو عجیب سی بے چینی ہوئی۔مطلب کہ وہ سامنے بیٹھی اس کی پھپھو کا لحاظ بھی نہیں کر رہا تھا۔
"آدھا چمچ بس" وہ ابھی بھی اس کو دیکھتے ہوئے بولا۔
(حد ہے! ایسے انکھیں پھاڑ کر کون دیکھتا ہے؟سو ڈھیٹ مرے ہوں گے جب یہ اکیلا پیدا ہوا۔۔۔ابھی اس کے خوابوں پر پانی پھیر کر بتاتی ہوں۔آیا بڑا۔۔۔ہونہہ)
سب کو چائے سرو کر کہ وہ عنایہ کے ساتھ جا کر بیٹھی تھی کہ عائشہ اماں نے اس کو مخاطب کیا۔
" زری بچے ادھر میرے پاس آ کر بیٹھو" زارہ کو اپنے آس پاس خطرے کی گھنٹی محسوس ہوئی۔وہ قدم اٹھاتی انکے برابر جا کر بیٹھی تو انہوں نے بات شروع کی۔
"زری اگر میں تمہارے بارے میں کوئی فیصلہ کروں تو مجھے اس چیز کی اجازت دو گی؟" اماں کا انداز پوچھنے،اجازت طلب کرنے والا تھا۔زارہ کو ڈھیروں شرمندگی ہوئی۔
"کیسی باتیں کر رہی ہیں پھپھو،آپ حکم کریں،میں نے بھلا پہلے آپ کی کون سی بات ٹالی ہے جو اب منع کروں گی" وہ جلدی سے بولی۔
(ہائے! ابھی حسن یہاں ناں ہوتا تو کیسے رولا ڈال لینا تھا اس میسنی نے!) عنایہ مسکراہٹ دباتی ہوئی سوچنے لگی۔
"مجھے پتا تھا میرا بچہ منع نہیں کرے گا،بیٹا میں نے تمہارے اور حسن کے نکاح کا فیصلہ کیا ہے"
زارہ کو اندازہ رشتہ پکا ہونے کا تھا لیکن اب وہ کچھ کر بھی نہیں سکتی تھی لیکن اماں کی اگلی بات پر وہ حیرت سے انہیں دیکھنے لگی۔
"دو دن بعد میری فلائٹ ہے،میں چاہتی ہوں جانے سے پہلے یہ کام کر کے جاؤں۔اس لئے میں نے پرسوں کا سوچا ہے۔ہاشم سے بھی بات ہو گئی ہے میری۔اس کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے اور حسن کی طرف سے اس کے ڈیڈ آ جائیں گے،ان سے بھی رابطہ ہوا ہے میرا“۔
(چلو جی! طے تو سب پہلے سے ہی تھا) زارہ سوچ کر رہ گئی۔ حسن کے چہرے پر اطمنانیت بھری مسکراہٹ تھی۔عنایہ کے چہرے کے زاوئیے بھی بتا رہے تھے کہ وہ بھی اس سب سے واقف تھی۔
عنایہ اٹھ کر سب کے منہ میں مٹھائی کھلا کم اور ٹھونس زیادہ رہی تھی۔ مٹھائی منہ میں ڈالتے ہوئی بس ایک ہلکی سی نظر اس نے حسن پر ڈالی تھی۔وہ عنایہ کہ کسی بات پر متوجہ تھا۔زارہ آج تک یہی سمجھتی آئی تھی کہ وہ عنایہ میں انٹرسٹڈ ہے لیکن وہ اب جس طرح سے بات کرتا تھا،دیکھتا تھا اور جو اب اس نے جلدی مچائی تھی اس کے سارے اندیشے دھل گئے تھے۔قسمت نے ضرور کچھ اچھا سوچا تھا اس کے لئے۔اس سب میں پہلی بار ہلکی سی مسکان اس کے چہرے پر آئی تھی۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"یار امی،اس کو بولیں ناں چلے ساتھ شاپنگ پر،میڈم کے نخرے ہی ختم ہونے کو نہیں آ رہے۔کل نکاح ہے اسکا اور کام دیکھیں اس کے،واپسی پر پارلر بھی لے کر جانا ہے میں نے اس کو"
کل نکاح کا دن تھا۔حسن نے ڈین سے بات کر کہ تینوں کی چھٹیاں کے لی تھیں۔عنایہ اب شاپنگ پر جانے کی رٹ لگائے تھی اور زارہ کی ابھی آنکھ ہی نہیں کھل رہی تھی۔
"سولینے دو تھوڑا،اٹھ جاتی ہے۔کیوں بیچاری کے پیچھے پڑ گئی ہو" عنایہ کو اوپر جاتا دیکھ کر اماں بولی تھیں لیکن عنایہ ان سنی کرتی اوپر چلی گئی۔کمرے میں پہنچ کر آگے پیچھے دیکھنے لگی کہ کس چیز سے اس سلیپنگ بیوٹی کو اٹھایا جائے۔سامنے ہی ٹیبل پر پانی سے بھرا جگ پڑا تھا۔اس کو دیکھتے ہی عنایہ کہ چہرے پر شرارتی مسکراہٹ آ گئی۔وہ جگ پکڑتی بیڈ تک آئی اور کمبل آہستہ سے ہٹا کر سائیڈ پر رکھا اور اگلے سیکنڈ سارہ پانی زارہ کے اوپر تھا۔ زارہ چیخ مارتی اٹھی۔پہلے تو کچھ سمجھ ناں آیا مگر جب عنایہ کے ہاتھ میں جگ دیکھا تو اس کے پیچھے لپک گئی۔
"عنایہ کی بچی،کبھی غلطی سے بھی انسانوں والی حرکت ناں کرنا،چھوڑنا نہیں میں نے تمہیں" اب عنایہ آگے تھی اور زارہ پیچھے پیچھے۔بھاگتے بھاگتے دونوں ٹیرس تک آئیں۔پہلے تو عنایہ نے مار کھائی پھر دونوں ساتھ ہی ہنسنے لگیں۔
زارہ بھی اب جلدی کرتی تیار ہوئی اور اماں کے ساتھ تینوں نکل گئیں۔شام تک وہ اپنی اپنی تیاریاں کر چکی تھیں۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
بالآخر وہ دن آ ہی گیا جس کا حسن کو بےتابی سے انتظار تھا۔قدآور شیشے کے سامنے کھڑا وہ اپنی تیاری کو آخری ٹچ دے رہا تھا۔سفید شلوار قمیض کے اوپر بلیو کلر کی ویسٹ کوٹ میں اس کی شخصیت مزید ابھر رہی تھی۔آخری بار وہ خود کو شیشے میں دیکھتے ہوئے اپنے سائیڈ ٹیبل پر آیا اور فون اٹھا کر مسیج ٹائپ کرنے لگا۔
"آئی ایم مسنگ یو برو!" اور مطلوبہ نمبر پر بھیج دیا۔دوسرے ہی پل ریپلائے آیا تھا۔
"آئی وش آئی واز دئیر!"
" چلو نیکسٹ ٹائم"
"اور کتنی شادیاں کرنے کے ارادے ہیں تمہارے؟" مسیج پڑھ کر حسن کھل کر ہنسا تھا۔
"یہ ایک خیروعافیت سے ہو جائے کافی ہے میرے لئے،ویسے بھی سنا ہے اس کا بھائی کافی ڈراؤنا قسم کا ہے۔دوسری کا سوچا بھی تو مجھ معصوم کو اڑا دے گا"
"گڈ فار یو" حسن نے ہنستے ہوئے فون واپس جیب میں رکھا تھا اور چابیاں اور والٹ اٹھا کر باہر کو چل پڑا۔ابھی اسے ائیرپوڑٹ سے ڈیڈ کو پک کرنا تھا۔
∆∆∆∆∆∆∆
وہ ائیرپورٹ پہ کھڑا ان کا انتظار کر رہا تھا۔فلائٹ کا ٹائم ہو چکا تھا اور پیسنجرز بھی آ رہے تھے کہ انہی میں اسکو اپنے ڈیڈ نظر آئے۔ہاتھ ہلاتا وہ انکو اپنی موجودگی کا بتانے لگا۔حسن  خوبخو ان سے ملتا تھا۔انکو دیکھتے ہی کوئی بھی پہلی نظر میں کہہ سکتا تھا کہ یہ باپ بیٹا ہی ہیں۔سامنے آتے ہی وہ دونوں بغلگیر ہوئے۔
"ویل مائے سن! تم نے تو باپ کو بھی مہمانوں کی طرح ہی بلایا ہے یار" سامان کی ٹرالی حسن لے چکا تھا۔اس کے ساتھ چلتے وہ کہنے لگے۔
"اوہ کم آن ڈیڈ۔بتایا تو تھا آپکو کہ سب ایمرجنسی میں ہوا تھا بس اسی لئے" وہ جانتا تھا کہ اس کے ڈیڈ ناراض نہیں ہیں اب اتنا تو ان کا بھی حق بنتا تھا۔
"میں نے ترکی تمہیں اس لئے تو نہیں جانے دیا کہ یہاں آ کر عشق معشوقیاں چلاؤ۔" اب کہ وہ شرارت سے بولے۔
" ناں کریں ڈیڈ۔ میری تو حسرت ہی رہ گئی تھی عشق معشوقیاں چلانے کی۔ آپ کی جو بہو ہے ناں سیدھے منہ دیکھتی بھی نہیں ہے مجھے،جیسے اس کو منایا ہے ناں میں جانتا ہوں"  اور اس کے ڈیڈ اپنے بیٹے کی بیچاری سی کہانی سن کر کھل کہ ہنسے تھے۔آس پاس سے گزرتے لوگ ان باپ بیٹا کو دیکھ رہے تھے جو اس وقت باپ بیٹا کم اور دوست زیادہ لگ رہے تھے۔سامان گاڑی میں رکھ کر اب وہ نکل چکے تھے۔
"ویسے تمہاری اطلاع کے لئے عرض ہے کہ عافیہ سخت ناراض ہے تم سے۔کہہ رہی تھی بھائی کو میرے فائنلز والی ہی ڈیٹ ملی تھی نکاح کو۔اور اپنی بھابھی سے ملنے کو بےتاب بھی ہے"
"میں سنبھال لوں گا اس کو آپ فکر نہ کریں"
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
شیشے کے سامنے کھڑی وہ خود کو جانے کتنی بار دیکھ چکی تھی۔آج پہلی بار یہ خود کو سجانا کسی اور کے لئے تھا۔یہ احساس عجیب تھا یا خوبصورت لیکن دل کی حالت آج پہلے سے مختلف تھی۔لیمن گرین کلر کی پیروں تک ڈھکتے لباس میں وہ اس وقت ملبوس تھی جس پر ہلکے سے میک اپ کے ساتھ وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔کہاں سوچا تھا کہ جس شخص سے وہ اتنی متنفر رہتی تھی اس کے ساتھ ہی زندگی بھر چلنا ہو گا۔زندگی عجیب ہے۔ہم اس کے بارے میں کیا سے کیا سوچتے ہیں اور یہ ہمارے بارے میں بہت پہلے سے کیا طے کئے ہوتی ہے۔
وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی کہ یکدم دروازہ کھلنے کی آواز پر پلٹ کے دیکھا۔
عنایہ کے ساتھ کوئی اور بھی تھا۔وہ انکو نہیں پہچانتی تھی۔
"زارہ یہ حسن کے فادر ہیں"عنایہ کے بتانے پہ وہ خود سے چل کر ان سے سلام کرنے لگی۔
"بھئی میں بھی کہوں میرے اتنے پر سکون بیٹے نے اتنی جلدی کیوں مچا رکھی ہے۔اب سمجھ میں آیا نہ،اتنی پیاری بیٹی ہوگی تو جلدی تو مچائے گا ہی ناں"وہ زارہ کو پیار دے کر ہنستے ہوئے بولے تھے۔زارک جھینپ کر ہلکا سا مسکرائی۔
"آئیں انکل امی ابھی روم میں ہی ہیں میں انکو بلا کر آپ سے ملواتی ہوں" عنایہ ان کو لے کر باہر کی طرف چل پڑی۔
تھوڑی ہی دیر میں نکاح پڑھوایا گیا۔نکاح نامے پر دستخط  کرتے ہوئے ہی اس کی سانسیں منتشر ہو رہی تھیں۔ہاتھ باقائدہ کانپ رہے تھے۔ساری زندگی کیلئے ہی خود کو کسی اور کے سپرد کر دینا،کہاں آسان ہوتا ہے؟ اور چند لمحوں کا کھیل تھا وہ "زرتاش عالم" سے "زرتاش حسن" بن چکی تھی۔آنسو بے تحاشا بہے تھے۔عنایہ اور پھپھو اس وقت بے شک ساتھ تھیں اس کے لیکن ہاشم کی کمی ابھی کوئی پوری نہیں تھا کر سکتا۔تھوڑی دیر میں سب کے چپ کروانے سے وہ کچھ پر سکوں ہوئی تھی۔اس لئے اب وہ کمرے میں اکیلی ہی تھی۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"آہا۔۔۔۔دلہے میاں کدھر؟" وہ۔عنایہ کے پاس ہی جا رہا تھا کہ راستے میں روڑے اٹکانے عنایہ آ گئی۔
"اپنی نئی نویلی زوجہ سے ملنے۔۔۔کوئی اعتراض؟" وہ بھی اسی کے انداز میں جواب دینے لگا۔
"بلکل۔۔۔اعتراض ہی کرنے کھڑی ہوئی ہوں،جیب ہلکی کرو پہلے پھر اجازت ملے گی"
"اوہ میڈم!اجازت کس نے مانگ لی تم سے،اور ویسے بھی یہ رسمیں ناں رخصتی پر ہوتی ہیں ابھی چلتی پھرتی نظر آؤ" وہ مسکراہٹ دباتا بولا۔
"حسن کے بچے!نکاح ہوتے ہی کیسے آنکھیں پھیری ہیں تم نے،اب جا کہ دکھاؤ زرا اندر مجھے" وہ پوری کی پوری دروازے کے آگے آ چکی تھی۔
"یہ پکڑو کارڈ اور خوش ہو کر بھاگو یہاں سے" حسن نے والٹ میں سے کارڈ نکال کر ہی اس کے حوالے کر دیا۔عنایہ بھی تھمز اپ دکھاتے نکل گئی۔ اور حسن دروازہ کھول کر اندر چل پڑا۔
زارہ جو اپنے دھیان  میں بیٹھی تھی دروازہ کھلنے کی آواز پر پلٹ کے دیکھا تو سامنے وہ کھڑا تھا۔جھٹکے سے وہ خود بھی کھڑی ہو گئی۔
"آپ۔۔۔آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟" زارہ کے سوال کا جواب دیے بغیر وہ قدم قدم چلتا اس کے پاس آنے لگا۔زارہ بھی جگہ سے نہیں ہلی۔پلکیں جھپکائے بغیر اس کو دیکھنے لگی۔وہ بلکل اس کے سامنے آ کھڑ ہوا اور آہستگی سے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے۔زارہ نے بے اختیار تھوک نگلا۔دونوں کے دل کی حالت مختلف نہیں تھی۔زارہ کی آنکھوں میں دیکھتے وہ بولنے لگا۔
"میں یہ دیکھنے آیا ہوں کہ میری بیگم نے رورو کے کتنی آنکھیں سوجھا لی ہیں۔باہر تو سب سمجھ رہے ہیں کہ پتا نہیں حسن نے کتنا ڈرایا ہوا ہے کہ زارہ چپ ہی نہیں ہو رہی۔اب ان کو کون بتاتا کہ حسن کی تو خود جان پہ بن گئی تھی یوں تمہیں اتنا  روتا دیکھ کر" وہ گہرے لہجے میں بولا تو زارہ ان نظروں کا تاب ناںا سکی تو نظریں خود جھک گئیں۔
"ایسی بات نہیں ہے،بس مجھے بھائی کی یاد آ رہی تھی اس لئے" وہ دھیمے لہجے میں بولی۔اسی دوران حسن نے اپنا ایک ہاتھ اس کے ہاتھ سے نکالا تو زارہ نے دیکھا وہ قمیض کی جیب سے کچھ نکال رہا تھا۔وہ جیولری باکس تھا جس کو کھولنے پر ایک انگوٹھی نظر آئی۔زارہ کی آنکھوں میں خوشی کے تاثر ابھرے۔یہ تحفہ ملنے کی خوشی نہیں احساس کئے جانے کی خوشی تھی۔وہ دوسرا ہاتھ چھڑا کر بھی انگوٹھی نکال کر اب اس کے بائیں ہاتھ میں پہنا رہا تھا۔اس سب میں زارہ کے چہرے پر مسکان برقرار تھی۔انگوٹھی پہنانے کے بعد اسی ہاتھ کی پشت کو وہ نرمی سے سہلانے لگا۔
"اب اس کی قیمت بڑھ گئی ہے"وہ جھک کر اس کے کان میں بولا۔
"ایک بات پوچھوں؟" حسن نے پھر سے کلام کا سلسلہ جوڑا۔
"ضرور"
"تم خوش ہو؟"
"میں۔۔۔میں مطمئین ہوں" وہ اسکی طرف دیکھتے یقین سے بولی تو حسن مسکرا اٹھا۔اس کا اطمینان ہی سب کچھ تھا۔یہی وہ چاہتا تھا۔
"میں نے سوچا تھا اپنے متعلق بہت سی باتیں بتاؤں گا اج تمہیں لیکن ابھی شاید سہی وقت نہیں ہے۔لیکن ایک بات ہے کہ میرے ساتھ زندگی آسان نہیں ہو گی۔آج یہاں ہوں کل کا کچھ پتا نہیں لیکن ڈیڈ پاکستان میں ہی ہوتے ہیں تو تمہیں بھی وہیں لے جاؤں گا۔عافیہ میری بہن ویسے ہی کافی ایکسائیٹڈ ہے تم سے ملنے کو۔یہاں آنا سمجھ لو بس اتفاق تھا لیکن آنے کا صلہ اتنا دلکش ملے گا یہ نہیں تھا سوچا"
زارہ اس کی باتوں سے الجھ گئی تھی۔وہ اس کا چہرہ پڑھ سکتا تھا۔
"اتنا پریشان کیوں ہو رہی ہو۔اطمینان رکھو" لیکن اس کا چہرہ مزید بجھ گیا تھا۔
"ارے۔۔۔ادھر دیکھو میری طرف" وہ اس کا چہرہ ہاتھوں میں لیے بولا۔
" تمہیں پریشان کرنے کو تو نہیں بتایا کچھ،یقین کرو جو ابھی نہیں بتایا جب جانو گی خوش ہی ہو گی،پہلے ہی آنکھیں سوجھائی ہوئی ہیں،بھلا ایسے ویلکم کرتے ہیں اپنے ایک گھنٹا پہلے بنے شوہر کا" اس کے انداز پر وہ ہنس پڑی۔ساری پریشانی زائل ہوئی تھی۔
"ایسے ہی خوش رہا کرو۔تمہارے کی یہ مسکراہٹ کسی کیلئے زندگی ہے"
وہ واقعی اس حسن سے پہلی دفعہ متعارف ہوئی تھی۔اس کے چہرے پر حسن کی محبت کے رنگ جھلکنے لگے تھے۔
"کافی دیر ہو گئی ہے اب،چلتا ہوں میں۔خیال رکھنا اپنا"
وہ جانے کیلئے مڑا تو زارہ کی آواز نے روک دیا۔
"بات سنیں"
"سانئیں سنائیں" وہ حیرانگی سے مڑتا بولا تھا۔
"آپ نے ساری باتیں کی مجھ سے۔اپنی محبت کا یقین بھی دلا دیا لیکن ایک شکایت رہ گئی ہے میری طرف سے" وہ مسکراہٹ دباتی بولی۔
"اچھا وہ کیا؟" وہ سوچ میں پڑ گیا۔
" آپ نے میری تعریف نہیں کی کہ میں کیسی لگ رہی ہوں“۔
وہ گھورتے ہوئے بولی۔حسن کو یکدم احساس ہوا کہ وہ سنگین غلطی کر چکا ہے۔ایک دم وہ ہنس پڑا۔ دونوں ہاتں سینے پر باندھ کر اس کے سامنے کھڑا ہوا۔
"تو مسز زرتاش حسن! کیا آپکو میری نظروں نے نہیں بتایا کہ آپ آج کیسی لگ رہی ہیں"
"بتایا ہے بتایا ہے۔۔۔لیکن وہ کیا ہے ناں میں وہ تعریف زرا لفظی شکل میں دیکھنے کی خواہش مند ہوں" وہ بھی اس کے مقابل کھڑے ہو کر کہنے لگی۔
"آہا۔۔۔سہی سہی پھر تو عام الفاظ میں یہ تعریف کچھ اچھی نہیں لگے گی تو عرض کیا ہے کہ۔۔۔"
وہ اس کے ہاتھ پھر سے تھامتا نظریں اس پر ٹکائے بولنے لگا۔
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہے اسکی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کی سیاہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں

دونوں کی نظریں ایک دوسرے پر ہی تھیں۔زندگی کچھ پل کو ٹھہر گئی تھی۔یا وہ روکے رکھنا چاہتے تھے۔دھڑکنوں کے شور کے علاوہ خاموشی ہی تھی۔
"کافی ہے اتنی تعریف یا کچھ اور عرض کروں" حسن پہلے خود کو سنبھالتا ہوا بولا۔
"جی نہیں کافی ہے اب جائیں" وہ اپنے ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہنے لگی۔حسن اس کی جھجھک سمجھ گیا تھا۔وہ ہنستے ہوئے باہر نکل گیا۔زارہ واپس دھک سے بیڈ پر گری۔چہرے پر مسکراہٹ برقرار تھی۔زندگی ایک دم خوبصورت لگنے لگی تھی۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆

نورِ ازلWhere stories live. Discover now