قسط ٢

28 2 0
                                    

کھانا خوشگوار ماحول میں کھایا گیا۔کچھ دیر بعد ہی زارہ کچن سے چائے لاتی لاؤنج کی طرف بڑھ رہی تھی۔باری باری سب کو دینے کہ بعد وہ ہاشم کے ساتھ والے صوفے پر پہ بیٹھ گئی تھی۔
"ہاشم اتنے عرصے بعد آئے ہو تم،اب کی بار میں جلدی نہیں بھیجنے والی تمہیں،پچھلی مرتبہ بھی تم نے جلدی جلدی مچا کہ رکھی تھی،کان کھول کر سن لو تم۔۔۔"
عائشہ اماں کی طرف سے گفتگو کا آغاز ہوا تھا۔
"پھپھو یار،پچھلی بار تو میں چھٹی لے کر سپیشل آیا تھا آپ سب سے ملنے لیکن اب کی بار میں اکیلا سیر سپاٹے کرنے تھوڑی آیا ہوں۔۔۔پوری ٹیم ساتھ ہے میرے۔۔۔اپنے مشن پر آیا ہوں، بتایا تو تھا آپکو میں نے۔۔۔کل شام تک نکل جاؤں گا میں استنبول کیلئے۔۔۔"
اس بات پر وہاں موجود سب کے چہروں پر اداسی چھا گئی جسے وہ اچھی طرح دیکھ اور محسوس کر چکا تھا۔جب زیادہ دیر تک نہ دیکھا گیا تو خود ہی بول اٹھا۔
"ارے اداس تو سارے ایسے ہو جیسے پکا پکا جا رہا ہوں،آپ لوگ بس دعا کریں میں کامیاب ہو کر آؤں ،پھر دیکھنا پورے دو مہینے آپ کے نام"
ہاشم نے اپنی بات سے ماحول کی افسردگی ختم کرنے کی کوشش کی تھی اور کافی حد تک وہ کامیاب بھی ہو گیا تھا لیکن وہ خود یہ بات اچھے سے جانتا تھا کہ یہ مشن بلکل بھی آسان نہیں ہے،اور اس مشن کو چنتے وقت یہ بات واضح تھی کہ جان جانے کا خطرہ واپس لوٹنے سے زیادہ ہے لیکن وہ ایک عزم لیکر استنبول آیا تھا کہ وہ اسے یہ جنگ جیتنی ہے چاہے اسکی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔
لیکن وہ ابھی یہ ساری باتیں یہاں نہیں کر سکتا تھا کیونکہ یہ تینوں ہی تو ہاشم کے جینے کا سہارا تھیں۔اگر یہ اداس ہو جاتیں تو وہ بھی اپنا مشن دل لگا کہ نہ کر پاتا۔
"باقی سب باتیں تو ٹھیک ہیں،لیکن یہ کیا بات ہوئی جاب آپ پاکستان میں کرتے ہیں اور کام کیلئے استنبول آئے ہیں؟"
سوال عنایہ کی طرف سے آیا تھا۔
"اسی قسم کے فضول ترین سوال کی توقع تھی مجھے تم سے"
"میں فضول،میرے سوال فضول،ایک کام کریں نہ آپ ،مجھے کسے یتیم خانے میں ہی چھوڑ آئیں،سکون سے رہیں گے تب آپ"
عنایہ کی بات سے سب مسکرا اٹھے اور یہی تو ہوتا آیا تھا۔عنایہ اور ہاشم کی لڑائی ہوتی تھی اور باقی دونوں مزے لیتی تھیں۔
"توبہ ہے،بتا رہا ہوں فورا ہی ایموشنل ہو جاتی ہو۔۔۔۔تو معاملہ یہ ہے کہ پاکستان میں کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں کافی عرصے سے ایک گروپ پھیلا ہوا تھا،جو کالج اور یونیورسٹیز کی لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر ان سے دوستی کر کے موقع ملتے ہی کیڈنیپ کر لیتے تھے اور پھر باہر ایکسپوڑٹ کرتے تھے،پولیس کے پاس یہ کیس آیا تو اس پر کام شروع ہوا،بہت لوگ پکڑے بھی گئے،اسی ڈر سے کہ وہ پوری ٹیم نہ پکڑی جائے وہ اپنا ٹھکانہ بدل کہ استنبول آ گئے ہیں،اور وہی کام شروع کر دیا ہے، ہماری آرمی نے ترک آرمی کے مشورے سے ان کو حراست میں لینے کا حکم ہوا ہے اور اس مشن کا سربراہ اللہ کے کرم سے میں ہوں،دعا کریں آپ سب کامیاب جاؤں واپس لوٹوں "
ہاشم۔کی بات سنتے ہی کوئی بولا تو کچھ نہیں لیکن پریشانی صاف جھلک رہی تھی۔
"اچھا بس کریں،پھپھو آپ کے سونے کا ٹائم ہو گیا ہے دوائی کھائیں اور سوئیں،اور تم دونوں،کیا پلین ہے پھر،لڈو کھیلیں؟؟"
ہاشم سب کو مخاطب کرتا ہوا بولا۔
" ڈئیر انسپیکٹر ہاشم، آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے اب ہم بچیاں نہیں ہیں جو لڈو کھیلیں،جائیں جا کہ سوئیں"
عنایہ کا موڈ اسکی پہلی بات سے اداس ہو چکا تھا اور کھیلنے کا اب کوئی موڈ نہیں تھا۔
"ہاں ہاں پتہ ہے دو سو سال کی ہو چکی ہو تم۔آ کے کھیلو ورنہ نکل جاؤں گا ابھی"
ہاشم جانتا تھا ایک ہیں دھمکی کام کرے گی اسی لئے بولا۔موڈ تو اسکا اپنا بھی نہیں تھا کچھ کھیلنے کا لیکن عنایہ کا اترا چہرہ دیکھا نہیں جا رہا تھا اس لیے وہ بولا تھا۔
"ہونہہ۔۔۔چلیں کھیلتے ہیں،لیکن پہلی باری میری"
"چیٹر نہ ہو تو کہیں کی"
"آپ ٹہرے ایماندار۔۔"
اسی طرح کھیلتے اور لڑتے ہی رات گزرنے لگی تھی۔ان ہنسی سے جڑے لمحوں کو جیتے ہوئے کون جانتا تھا کہ قسمت آگے کیا لئے کھڑی ہے ان کے لئے۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
صبح کی روشنی چاروں سو پھیل چکی تھی۔پرندوں کی چہچہاہٹ بھی صبح کی تازگی کا احساس جگا رہی تھیں۔
ایسے میں عنایہ اپنے کمرے میں کھڑی آئینے کے سامنے بال بنا رہی تھی۔سورج کی بلکل ہلکی ہلکی روشنی اسکا چہرہ نکھارے ہوئے تھی۔پیچھے بیڈ پر زارہ اپنے بیگ سے پنز نکال کر شاید حجاب کرنے لگی تھی۔ہاشم کی جب نظر پڑی اس پر تو حیرت ہوئی اسکو۔
"میں نے تو سن رکھا تھا ترکی کی یونیورسیٹیز میں ہیڈ کور پر پابندی ہے،اب نہیں ہے کیا"
سوال زارہ سے تھا،عنایہ سوال سن کر بھی انجان بنی رہی۔
" بھائی یہ لاء کچھ ہی پرائیویٹ سیکٹرز میں ہے،ہم دونوں تو گورنمنٹ یونی میں پڑھتی ہیں۔۔۔انقرہ یونیورسٹی،اور یہاں شکر ایسا کوئی قانون نہیں"
"اچھی بات ہے یہ تو پھر"
ہاشم کی نظر اب عنایہ کی طرف تھی اور عنایہ اسکی نظروں کا مطلب بھی سمجھ رہی تھی۔زیادہ دیر برداشت نہ ہوا تو بول اٹھی۔"ایسے کیا دیکھ رہے ہیں"
"دیکھ رہا ہوں تم اب عینا نہیں رہی،سچ میں عنایہ بن گئی ہو،اسی لئے تم پھوپھو کو بھی پاکستان نہیں آنے دیتی نہ تا کہ وہاں تمہارے چچا اور تایا روک ٹوک کریں گے، جس کی اب تم عادی نہیں رہی، لیکن ایک بات یاد رکھنا عنایہ،زندگی بار بار موقعے نہیں دیا کرتی،اسکی نہ سنیں تو یہ بھی آپکی نہیں سنتی ، اٹھا کر ایسا گراتی ہے کہ انسان کسی قابل نہیں رہتا اور یقین جانو اس وقت شاید میں بھی تمہاری مدد نہ کر سکوں"
ہاشم کی بات عنایہ کے دل کو لگی تھی۔اس کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے۔بولی کچھ نہیں بس بیگ اٹھایا اور چلی گئی۔
نیچے لاونج میں آتے ہی بنا کچھ کہے گھر سے نکل گئی،امی نے دیکھا تو اسکے پیچھے جانے لگیں لیکن ہاشم کی آواز نے انکے قدم روک دیے۔
"پھپھو جانے دیں،دماغ ہلا ہوا ہے اسکا،جاؤ زارہ تم بھی،اکیلی نکل جائے گی"
زارہ ہاں میں سر ہلاتی نکل گئی۔
"پتا نہیں کب لڑنا چھوڑو گے تم دونوں۔۔۔"
عائشں اماں کی بات سےہاشم کے چہرے ہر مسکراہٹ آئی۔
"زندگی بھر نہیں۔۔۔"
ہاشم کی بات پر دونوں کی نظریں ملیں،پھر ساتھ مل کر ہی ہنس دیے۔۔۔
"پھوپھو رات کو جو بات کی تھی میں نے آپ سے کب عمل کرنے کا ارادہ ہے اس پر؟"
ہاشم نے شرارت بھری آواز میں پوچھا۔
"بھئی جب میرا بچہ واپس آئے گا اسکی خواہش سر آنکھوں پر،ابھی آؤ ناشتہ دوں تمہیں"
دونوں ہنستے ہوئے کچن کی طرف چل پڑے۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
یونیورسٹی میں آج بھی معمول کی طرح رش تھا۔سٹوڈنٹس کی چہل پہل ہر طرف ہی تھی۔لیکن ہمیشہ کی طرح ماحول ترو تازہ نہیں تھا،یاں شاید دل کا موسم اچھا نہ کو تو ہر سو ویرانی ہی لگتی ہے۔
معمول سے ہٹ کر آج عنایہ پہلے ہی نکل چکی تھی کلاس سے اور زارہ اس کو ڈھونڈنے میں مصروف۔
"اللہ جانے یہ لڑکی مجھے ستانا کس دن چھوڑے گی،اب دو منٹ کلاس سے لیٹ کیا نکلی خود ہی نکل گئی اور فون بھی نہیں اٹھا رہی۔۔۔اب آج اکیلے ہی جانا پڑے گا "
زارہ منہ ہی منہ میں عنایہ کو القابات سے نوازتی باہر کے رستے کی طرف چل پڑی۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
ہاشم کے وہ الفاظ ابھی تک اس کے ذہن میں انتشار پھیلائے ہوئے تھے۔اور سب سے زیادہ تکلیف تو ان الفاظ کی ہوئی تھی "تم اب پہلے والی عینا نہیں رہی" اسکو اچھی طرح یاد تھا کہ ہاشم بچپن سے ہی اسکو عنایہ کی بجائے عینا کہا کرتا تھا اور اسکے ہر بار جھنجھلا کر پوچھنے پہ کہ "عینا کیوں کہتے ہیں مجھے" ایک ہی جواب آتا تھا۔ "تمہیں عینا کہنا زیادہ اچھا لگتا ہے مجھے۔ عنایہ تو سب ہی بولتے ہیں نہ،میں وہ بولتا ہوں جو کوئی اور نہ بولے تمہیں،اور یہ سوٹ بھی کرتا ہے نہ تم پہ"۔۔۔
تو کیا اب میں انکو اچھی نہیں لگتی؟یہی سوچ سوچ کر صبح سے دماغ بھاری کر لیا تھا اسنے اور اس وقت بھی یونی کے لان میں بیٹھی وہ بلکل کسی اداس بلبل کی طرح ہی تو لگ رہی تھی۔
اچانک سامنے ہی گراونڈ میں سٹوڈنٹس کے مچائے شور کی وجہ سے اسکی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا اور بیگ سے سیل نکال کر ٹائم دیکھنے لگی تھی کہ سکرین پر زارہ کی بے تحاشا کالز کا نوٹیفیکیشن جگمگا رہا تھا۔ عنایہ وہیں سر تھام کر بیٹھ گئی۔
"اف الله جی۔۔۔یہ اب کہاں کہاں ڈھونڈ رہی ہو گی مجھے"
عنایہ خودکلامی کرتے ہوئے زارہ کو فون کرنے لگی۔دوسری بیل پر ہی فون اٹھا لیا گیا تھا اور ساتھ ہی زارہ کی کڑاکے دار آواز فون سے باہر تک آ رہی تھی۔
"عنایہ قسم خدا کی آج گھر پہنچنے دو مجھے،جتنا ذلیل کیا ہے نہ آ کہ بتاتی ہوں تمیں میں،اچھی طرح جانتی ہو کہ ڈر لگتا ہے مجھے اور پھر بھی چھوڑ کر چلی گئی،کبھی معاف نہیں کروں گی میں تمیں،بھائی کا غصہ مجھ پر نکالا ہے نہ،بس ختم آج سے تمہاری میری۔۔۔"
"ماں میری بس بس،، لے لینا بدلے،یہ بتاؤ ہو کہاں تم یار میں آتی ہوں..."
عنایہ بھی اس بے لگام گھوڑی کو چپ کراتی ہوئی بولی۔
"کیا مطلب لینے آتی ہوں۔۔۔بیٹھو گھر اب،نکل آئی ہوں میں اور بس میں بھی بیٹھ گئی ہوں،بس جہاں ہو تین بار آیت الکرسی پڑھ کہ پھونک دو مجھ پر،قسم سے ڈر کے مارے جان نکل رہی ہے"
زارہ کی روتی آواز عنایہ کے کانوں تک پڑی تو اچھل کر کھڑی ہو گئی،گود میں موجود بیگ اور ساری چیزیں زمین بوس ہو چکی تھیں اور اب عنایہ زارہ پر چیخ رہی تھی۔
"کیا مطلب کیا ہے کہ بس میں ہو؟؟مجھے چھوڑ کہ ہی چلی گئی؟بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہارا وہ سائیکو بھائی۔۔۔دونوں ہی ایک جیسے ہو"
عنایہ اپنی کھری کھری سناکر فون بند کر چکی تھی اور دوسری ظرف زارہ ارے ارے ہی کرتی رہ گئی۔
غصے اور جھنجھلاہٹ میں اپنی چیزیں اٹھاتے باہر کو رواں تھی وہ۔اب بس بھی جا چکی تھی۔
"ہاں،حسن کو کال کرتی ہوں،آ جائے گا وہ"
عنایہ سوچتے ہوئے بیگ میں سے فون نکال کر حسن کو فون کرنے لگی وہ توقع کے عین مطابق فون جلدی ہی اٹھا لیا گیا تھا۔
"ہاں بولو ڈئیر۔۔۔"
دوسری ظرف سے حسن کی آواز جاگی۔
"کدھر ہو تم۔۔۔"
عنایہ نے بغیر تمہید مطلب کا سوال پوچھا تھا۔
"باہر پارکنگ میں،نکل رہا تھا،،،خیریت ہے نہ سب؟؟
"اچھا تم مجھے گھر ڈراپ کر سکتے ہو؟؟میری بس چھوٹ گئی ہے آج"
عنایہ بےبسی سے بتاتے قدم باہر کی ظرف بڑھا رہی تھی۔وہ جانتی تھی حسن اگر یہاں نہ بھی ہوتا تب بھی وہ آ کر اسکی پریشانی ختم کر دیتا۔وہ ایک اچھا دوست ثابت ہوا تھا عنایہ کے لئے۔یونی میں پاکستانی بہت ہی کم تھے۔اس لیے عنایہ کی حسن کے ساتھ اچھی بن جاتی تھی۔ اور انکی کلاس میں تو گنتی کے پانچ ہی تھے۔ عنایہ، زارہ،حسن ، جیڈی اور فریحہ۔ لیکن حسن کے ساتھ دوستی اچھی تھی۔
"زہے نصیب۔۔۔میں تو یہ ڈیوٹی روز نبھانے کو تیار ہوں، ہاں اپنی کزن سے پوچھ لو،اسکی آنکھ کو کافی کھٹکتا ہے میرا چہرا"
حسن مسکرتے ہوئے کہنے لگا،لیکن اسکے لہجے میں شکوہ نہیں تھا۔
"ایسی بات نہیں ہے وہ بس میرے علاوہ کسی سے ذیادہ فرینک نہیں ہوتی اور آج البتہ میں اکیلی ہی ہوں،وہ چلی گئی ہے"عنایہ زارہ کے بارے میں بہانہ بنا دیتی کہ وہ آئی ہی نہیں لیکن حسن تو کلاس میں دیکھ ہی چکا تھا اسے۔
"چلو تم آؤ چلتے ہیں۔۔۔"
"ہمم بس ہہنچی میں..."
عنایہ کہہ کر فون بند کر کے واپس بیگ میں رکھتے ہوئے نکل گئی۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"آج جب تم نے میری گاڑی کو یہ رونق بخش ہی دی ہے تو کہیں آئسکریم کھائیں یا جو تم کہو۔۔۔"
حسن خوشگوار موڈ کے ساتھ گردن عنایہ کی جانب موڑے
پوچھ رہا تھا۔
"حسن آئی ایم رئیلی سوری لیکن آج بلکل موڈ نہیں کسی چیز کا بھی،پھر کبھی سہی۔۔۔"
عنیہ بوجھل لہجے میں کہہ رہی تھی۔اسکا ہر چیز سے ہی یکدم دل اچاٹ ہو گیا تھا ورنہ کوئی آئسکریم کی آفر کرے اور عنایہ ٹھکرا دے؟؟؟
"ارے۔۔۔یہ سورج کہاں سے نکلا ہے آج؟تم آئسکریم سے منع کر رہی ہو؟تم آج ٹھیک نہیں لگ رہی مجھے۔۔۔"
حسن کو بھی وہ بجھی بجھی لگی اس لئے ہوچھے بنانہ رہ سکا۔
"ہاں بس تھکن کو رہی ہے۔۔۔تم بس گھر اتار دو ریسٹ کروں گی تو ٹھیک ہو جاؤں گی"
"ایز یو وش"
حسن نے گاڑی عنایہ کے گھر کی جانب بڑھا دی۔گھر کے آگے گاڑی رکی تو عنایہ حسن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے نکل آئی۔حسن جا چکا تھا۔ لیکن جانے سے پہلے پیچھے دروازے پر کھڑے اس شحص کا چہرہ ضرور دیکھ چکا تھا جو سخت تاثرات میں تھا اس وقت۔
وہ مڑی تو ہاشم سخت آنکھوں سے دروازے ہر کھڑا اسی کو گھور رہا تھا۔عنایہ جانتی تھی وہ کس بات ہر غصہ ہوگا۔خود کو مضبوط کرتی وہ اسی کی جانب بڑہی۔
"کون تھا یہ اور اسکے ساتھ کیوں آئی ہو؟"
ہاشم سخت تیوریاں لئے اس سے پوچھنے لگا۔
"بہن تو آپکی چھوڑ آئی تھی مجھے،کسی کے ساتھ تو آنا تھا نہ مجھے۔۔۔"
"مر گیا تھا میں؟؟؟ایک کال نہیں ہو سکتی  تھی مجھے؟ویسے تو بہت زبان چلتی ہے میرے آگے؟
عنایہ نہیں جانتی تھی وہ اتنا غصہ ہوگا اس لیئے دھیمے لہجے میں جواب دینے لگی۔مرنے والی بات پہ تو تڑپ ہی اٹھی تھی لیکن سامنے والا بغیر کوئی نوٹس لئے اپنے جواب کا منتظر تھا۔
"نمبر نہیں تھا میرے پاس آپکا۔۔۔" چہرہ نیچے جھکائے وہ جوب دے گئی۔
"جب زارہ کو فون کر کے اسکا پوچھ سکتی کو تو میرا نمبر اس سے لیتے ہوئے بل آ رہا تھا تمہارہ۔۔۔" عنایہ تو رو دینے کو تھی ہاشم کے اس روئے پر۔وہ تو پیدل گھر آ جاتی اگر ذرہ اندازہ ہوتا کہ ایسا ری ایکشن ہوگا ہاشم کا۔
"ڈانٹ کیوں رہے ہیں،دھیان نہیں آیا نہ سوری۔۔۔" ہمت جمع کرتی ہوئی معصومانہ لہجے میں بولی اور ہاشم تو دیکھ کر رہ گیا۔
"بہت بگڑ گئی ہو تم سچ میں۔۔۔ابھی اندر جاؤ بعد میں کلاس لیتا ہوں تمہاری" ہاشم اب کی بار نرم لہجے میں بولا۔
"ابھی اور کلاس لینی ہے؟" عنایہ بھی اسکا نرم مزاج دیکھ کر اپنی پر آ تو گئی تھی لیکن ہاشم کی گھوریروں نے زیادہ دیر ٹکنے نہ دیا تو اندر کو بھاگ گئی۔
پاگل لڑکی!!!!
ہاشم سر جھٹکتا سیل فون پہ کوئی نمبر ملا کر کان سے لگا چکا تھا۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
ٹی وی لاونج میں دوپہر کے اس وقت سب بیٹھے تو تھے لیکن زارہ اپنی ناراضگی کے اظہار میں عنایہ کو نظر انداز کئے بیٹھی تھی لیکن اس وقت تو عنایہ کہیں خیالوں میں ہی تھی اور یہی چیز زارہ کو مزید غصہ دلا رہی تھی کہ بدتمیز منا بھی نہیں رہی۔
اور عنایہ تو یہ سوچ سوچ کی خوش تھی کہ ہاشم مجھے حسن کے ساتھ دیکھ کہ جیلس ہوا ہے اس لئے ایسے ری۔ ایکٹ کر رہا تھا۔اور یہی خوشی صبح والی ناراضگی بھلائے اسکے چہرے ہر مسکان کے آئی تھی۔
"پھپھو یار شام کو نکل رہا ہوں میں،لیکن آپ نے ابھی تک مجھے یخنی پلاؤ نہیں بنا کہ دیا جبکہ ہر بار بناتی ہیں آپ"۔۔۔ہاشم لاونج میں آتا عائشہ اماں سے مخاطب ہوا۔۔۔
"میری جان،ابھی بناتی ہوں،کل مجھے کہاں پتا تھا کہ تم اتنی جلدی نکل جاؤ گے"
"بس کیا کہہ سکتا ہوں،ڈیوٹی از ڈیوٹی"
"میں بناؤں؟" عنایہ نے ہاشم کی فرمائش سنی تو کہے بغیر نہ رہ سکی جبکہ اسکی بات سن کر تو یاشم کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔
"چائے آتی ہے بنانی تمہں،بلکہ یہ بتاؤ آخری بار کب کچن میں کچھ بنایا تھا؟؟ بڑی آئی میں بناؤں.." ہاشم پہلے اسکو تنگ کرنے لگا اور آخر میں اسکی نکل اتارنے پر اتر آیا تو عنایہ تو غصے سے لال پیلی ہی ہو گئی تھی۔
"زیادہ ہی ہلکا لے لیا ہے آپ نے مجھے،بنا کہ دکھاؤں گی میں بھی آپ کو آج۔۔."
"ہاں ہاں دیکھتا ہوں کونسے تیر مارتی ہو تم۔۔۔زارہ اسکے آس پاس رہنا،ایویں کچھ الٹا سیدھا نہ کر دے۔۔۔۔"
ہاشم بھی پھر سے اب دونوں کو مخاطب کرتا بولا تو عنایہ کو زارہ کا خیال بھی آ گیا کہ میڈم ناراض ہیں۔اب عنایہ کا روح اسی کی جانب تھا اور شکل پر بلا کی معصومیت!!!
"میری گڑیا ناراض ہے مجھ سے؟معاف کردو بہن کو۔۔۔یار سوری ناں۔۔۔کتنا روٹھو گی مجھے تو منانا بھی نہیں آ رہا۔۔۔۔"
"جاو جاو معاف کیا ۔۔۔کیا یاد کرو گی کس سخی سے پالا ہڑا ہے۔۔۔"زارہ ایک ادا سے کہتی ہوئی اسکے برابر آ گئی۔وہ تو جیسے انتظار میں تھی کہ میڈم کچھ بولیں۔
اور اب دونوں یوٹیوب پر یخنی پلاؤ کی ریسیپی سرچ کرنے میں مصروف ہو گئی۔ہاشم بھی انکو دیکھتا پھپھو کے ساتھ باتوں میں لگ گیا۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"اچھا اب ایسے کرو یہ چکن بوائل کیلئے رکھ دو،لیکن ہاں ہلکی آنچ پہ عنایہ،،،کہیں جلا کہ نہ رکھا ہو"
عنایہ اور زارہ اس وقت کچن میں مصروف تھیں لیکن اس یخنی پلاؤ کے چکر میں کچن کا جو حشر آدھے گھنٹے میں ہو چکا تھا عائشہ اماں کے بیہوش ہونے کیلیے کافی تھا۔زارہ نے یوٹیوب سے ریسیپی ڈاونلوڈ کر لی تھی لیکن خود وہ صرف بولنے کا کام سرانجام دے رہی تھی۔پکانے کا کام ورلڈ بیسٹ شیف عنایہ کے پاس تھا اور یہ لقب بھی پانچ منٹ پہلے اسنے خود ہی اپنے لئے منتحب کیا تھا۔
"میری ماں نہیں جلتا،تم دیکھنا کیا شاہکار بناؤں گی میں آج۔۔۔فلحال باتیں کم اور فریج میں سے سلاد کی چیزیں پکڑاؤ۔۔۔چکن بوائل ہونے تک وہی کاٹ دوں میں۔۔۔۔"
"ہم اچھ۔۔۔" زارہ فریج میں ڈے کھیرے،مٹر اور دوسری اشیاء نکال کر شلف پر رکھنے کے ساتھ ہی ہھر سے فون میں گھس گئی اور عنایہ سلاد بنانے میں مگن۔۔۔
"عنایہ پچس منٹ ہو گئے ہیں چکن بوائل ہو گیا ہو گا چیک کرلو۔۔۔۔"
"ہمم۔۔۔اچھا ریسیپی سے پوری لائن تو پڑھ کر بتاؤ نہ "
عنایہ چلہے کی طرف جاتی ہوئی زارہ سے محاطب ہوئی اور زارہ ہاں میں سر ہلاتی لائن دیکھ کر پڑھنے لگی۔
"اب بوائل ہوئے چکن کو علیحدہ کرلیں۔۔۔"
"ہمم ٹھیک"
عنایہ زارہ کی بات سننے کے بات چکن والا برتن اٹھاتی سنک کی طرف گئی اور سنک میں چھلنی رکھ کر اسمیں چکن انڈیل دیا۔
اور چکن کو باؤل میں ڈال کر رکھا اور زارہ سے محاطب ہوئی۔
"ہاں ہو گیا آگے پڑھو۔۔۔"
"آگے لکھا ہے کہ۔۔۔اور یحنی کو نکال کر سائیڈ پر رکھ لیں۔۔۔"
"اوکے۔۔۔" عنایہ زارہ کی بات سننے کے بعد چکن والے باؤل کی طرف ہوئی لیکن اچانک ذہن میں ایک خیال آیا اور واپس رخ زارہ کی طرف کیا۔
"لیکن زارہ یخنی نکالوں کہاں سے یہ تو بتاؤ"
"کہاں سے نکالنی ہے نکمی لڑکی،ابھی جو چکن بوائل کیا ہے اسکا جو پانی تھا وہی یخنی ہوتی ہے۔۔۔جلدی کرو یار بہت سلو لگی ہو تم"
زارہ کی بات سنتے ہی عنایہ کا دماغ بھگ سے اڑ گیا اور دل کیا اپنا دماغ ہی کسی دیوار میں مار ڈالے۔
"تم ابھی یہیں کھڑی ہو؟؟بی بی جلدی کرو" زارہ نے عنایہ کو وہیں کھڑے دیکھا تو بول پڑی۔
"زارہ وہ جو چکن بوائل کیا تھا اسکا ہی جو پانی تھا وہ یخنی تھی کیا؟؟"
عنایہ کی صدمے سے بھرپور منمناتی ہوئی آواز زارہ کے کانوں میں پہنچی۔
"ہاں یار وہی۔۔۔۔۔ایک منٹ تم یہ "تھی " کیوں کہہ رہی ہو کدھر ہے وہ "
زارہ کو عنایہ کی بات سن کر کچھ شک ہوا تو پوچھنے کے ساتھ ساتھ نظریں دوڑانے لگی۔
"وہ تو مجھے لگاویسٹ ہے تو گرا دیا میں نے سنک میں" عنایہ کی منمناتی آواز زارہ کے کانوں میں پڑتی گئی ساتھ ہی ہاتھ میں سے فون چھوٹ کہ فرش بوس ہو چکا تھا اور خود وہ آنکھیں پھاڑے اس ورلڈ بیسٹ شیف کو دیکھ رہی تھی جو اس وقت خود کو کٹہرے میں موجود مجرم تصور کیے سر جھکائے کھڑی تھی۔زارہ کا تو دل کر رہا تھا کچن کی ہر چیز اٹھا کی اس دنیا جہاں کی نکمی کہ سر پر دے مارے۔
"ابھی کہ ابھی نکلو تم کچن سے،آتا جاتا کچھ ہے نہیں اور کھانا بنانے آئی ہے۔۔۔میرا بھی کام ںڑھا دیا ہے۔۔۔"
زارہ کا غصہ بھی اب دیکھنے والا تھا اور پھر عنایہ اب نکلنے کے علاوہ کر بھی کیا سکتی تھی۔چپ کر کے نکل آئی اور سیڑھیاں چڑھتی ٹیرس میں جا کر گھٹنوں میں سر دیے بیٹھ گئی۔اب زارہ نیچے دوبارہ سے تیزی تیزی سے ہاتھ پیر ہلا کر نیا چکن لے کر کھانا بنانے میں مصروف ہو چکی تھی ساتھ میں فون کے شہید ہونے کا الگ غم۔خیر اسکے پیسے تو وہ عنایہ سے ہی نکلوائے گی یہ تو طے کر لیا تھا اسنے۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"یس باس۔۔۔جیسا آپ نے کہا تھا بلکل اسی طریقے سے کام کر رہا ہوں میں۔۔۔"
اس اندھیر کمرے میں موجود وہ نوجوان کھڑا فون پر یقیناً اپنے باس سے محو گفتگو تھا۔ہاتھ میں سگریٹ دبائے کمرے کے وسط میں موجود واحد کرسی پر براجماں اس شخص کا چہرہ کچھ اندھیر جگہ اور کچھ سگریٹ کے دھویں سے نظر آنے سے قاصر تھا۔لیکن اسکا لہجہ صاف اردو کا تھا جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ ہاکستانی ہی تھا۔
فون کان سے لگائے وہ اب سن رہا تھا۔
"جی باس۔۔۔وہ پہلی والی لڑکی تو سمجھیں قابو میں ہی ہے۔۔۔لیکن وہ دوسری چڑیا ابھی بہت اڑ رہی ہے۔۔۔لیکن آپ بے فکر رہیں۔۔۔مایوس نہیں کروں گا میں آپکو۔۔۔"
اپنی بات مکمل کر کے وہ پھر سے اگلے کی سننے لگا۔
"نہیں باس خطرے کی کیا بات۔۔۔لیکن چلیں وہ دوسری نہ بھی قابو آئی تو ایک شکار تو ہے ہی اپنے پاس۔۔۔اور یقین کریں۔۔۔کسی اپسرا سے کم نہیں ہے وہ۔۔۔اچھا منافع بخشے گی ہمیں"
بات پوری کر کے وہ اب خباثت سے قہقہہ لگا رہا تھا اور ساتھ ہی فون بند کر کے آگے کے پلیننگ سوچنے لگا۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆

Assalam o Alaikum!
___________________________________
نور ازل میرا لکھا جانے والا اور شائع ہونے والا پہلا ناول ہے۔میری اللہ سے دعا ہے کہ میں اس کے ساتھ اپنا حق ادا کر سکوں۔جزاکاللہ
___________________________________

نورِ ازلWhere stories live. Discover now