قسط ٤

20 2 3
                                    

اس لڑکی کی شحصیت میں جانے کیا تاثر تھا کہ عنایہ ابھی تک اس پر سے نظریں نہیں ہٹا پائی تھی۔معصومیت سے لبادہ وہ چہرہ کچھ پل ہی میں اس کے ذہن میں نقش ہو چکا تھا۔اوپر سے اسکا نرم گرم سا بولنے کا انداز سامنے والے کو خود میں جکڑنے کیلیے کافی تھا۔
"مل کر خوشی ہوئی آپ سے،آتی رہیے گا یہاں،میں انتظار کروں گی آپکا"
اپنے مخصوص لہجے میں وہ بولتی عنایہ سے مخاطب ہوئی تھی۔
"ضرور" ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ عنایہ نے مصلحت کے تحت جواب تو دے دیا تھا لیکن دور اندر کہیں وہ جانتی تھی کہ یہ چہرہ وہ دوبارہ ضرور دیکھے گی۔ کب؟ یہ تو اب قسمت ہی بتائے۔
تھوڑی ہی دیر میں فریحہ اور عنایہ خدا خافظ کر کے وہاں سے نکل چکی تھیں۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"ایک تو بارش کا ایڈوینچر اللہ جی نے اتنا کوئی حسین بنایا ہے لیکن یہ جو آفٹر شاکس نازل ہو جاتے ہیں ناں مجھ پر،سارا مزہ کرکرہ کر کہ رکھ دیتے ہیں"
اپنے آپ میں مگن زارہ پورے کھر میں اکیلے گھومتی یقیناً آس پاس کے فرشتوں سے ہی مخاطب تھی کہ عنایہ ابھی تک واپس نہیں تھی آئی اور عائشہ اماں مارکٹ گروسری کیلئے گئی تھیں۔
خود سے باتیں کرنے میں خاصی مگن تھی کہ اس کا تسلسل ڈرائنگ روم میں لگے فون کی بیل نے توڑا۔
"ہائے یہ کس کا فون آ گیا،میں نے تو یہاں کبھی کسی کا اٹھایا بھی نہیں،چل زارہ دیکھتے ہیں کس کو یاد آئی ہے تیری"۔
اپنے مخصوص ڈرامے باز انداز میں وہ بولتی فون کی جانب ہو لی۔
"السلام و علیکم!" فون اٹھاتے ہی ساری شوخی تو جیسے چھو منتر ہو گئی تھی۔
"وعلیکم السلام!۔۔۔وہ میں نے یہ پوچھنے کیلئے فون کیا ہے کہ عنایہ گھر پہنچ گئی ہے"
اگلی طرف کا لہجہ ایک پل کیلیے زارہ کو سنا سنا لگا تھا۔
"آپ کون؟"
"میں حسن بات کر رہا ہوں،عنایہ صبح میرے ساتھ یونی گئی تھی،بعد میں مجھے کہیں جانا پڑ گیا تو ابھی آیا ہوں،لیکن یونی ٹائم سے پہلے ہی وہ تو نکل چکی ہے اس لئے پوچھ رہا ہوں،فون بھی نہیں اٹھا رہی وہ"
"عنایہ آپ کے ساتھ کس خوشی میں گئی تھی؟"
اسکی ساری بات کو سرے سے ہی نظر انداز کرتی اسی ایک بات پر وہ چیخ پڑی۔
"یہ تو آپ اسی سے پوچھئے گا پھر جتنا جرمانہ اس کو عائد کریں مجھے بھی بتا دیجئے گا ادا کر دوں گا اور مزید کوئی سزا آپکو معقول لگے تو لگے ہاتھوں وہ بھی دے دیجئے گا۔۔۔مطلب حد ہی ہو گئی،میں نے کونسا کھا جانا تھا آپکی بہن کو جو یوں چیخ رہی ہیں۔"
حسن کے تو مانو سر پر لگی تھی۔تبھی جل کر بولا مگر سامنے بھی زارہ تھی۔اس نے شرمندہ ہونا بھلا کہاں سیکھا تھا۔
"بھروسہ بھی نہیں ہے آپکا،کچھ بھی کر سکتے ہیں۔۔میری ایک بات ناں کان کھول کر سن لیں آپ۔۔۔عنایہ سے دور رہا کریں۔۔۔میرے بھائی کی امانت ہی سمجھیں آپ اسے۔۔۔"
"کسی اور کے پاس جاؤں تو آپکو مسئلہ،اپنے پاس آپ آنے نہیں دیتیں،سامنے ہوں تو نظریں اٹھا کر دیکھنا گوارا نہیں کرتیں اور اب فون پر مجھے بولنے ہی نہیں دے رہیں،چاہتی کیا ہیں آپ آج بتا ہی دیں؟"
یک دم ہی اسکا لہجہ بدلہ تھا۔خمار آلود لہجے میں وہ بولتا زارہ کی دھڑکنیں بڑھا گیا تھا۔اسکی تو ساری طراری نکل گئی تھی۔بولتی بھی کیا اب؟دو منٹ کی خاموشی کے بعد دوسری طرف سے ہی آواز آئی تھی۔
"طبیعت کیسی ہے آپکی؟عنایہ بتا رہی تھی رات کی بارش کا کافی اثر چڑھا ہے آپ پر"
ابھی بھی وہی لب و لہجہ۔زارہ کی تو یہیں بس ہو گئی تھی۔
"جی ٹھیک ہوں" اور ٹھک سے فون بند۔
یہ حسن کو کیا ہو گیا تھا بھلا؟مطلب صحیح سمجھتی تھی میں اسے۔چھچھورا نہ ہو تو۔توبہ توبہ!
اپنی دھڑکنوں پر وہ قابو پاتی خود کو ریلیکس کر رہی تھی کہ دروازہ کھلنے کی آواز پر پیچھے متوجہ ہوئی۔عائشہ اماں آ چکی تھیں۔زارہ جلدی سے آگے ہو کر ان کے ہاتھ سے سامان لینے لگی۔
"یہ تم کس خوشی میں بستر سے نکل کر پورے گھر میں مٹر گشتیاں کر رہی ہو"
"لیں بھلا،مجھے کیا ضرورت پڑی تھی نکلنے کی،وہ تو ابھی فون آ گیا تھا اس لئے آئی تھی کہ"
زارہ سامان رکھتے انکو پانی دیتے ہوئے بولی۔
"اچھا،فون کس کا تھا"
"وہی آپکے چشم و چراغ عرف حسن عبید کا"
زارہ ناک چڑھاتی ہوئی بولی۔سب کو ہی معلوم تھا حسن اسکو کتنا پسند ہے۔
"میرا بیٹا پتا نہیں کہتا کیا ہے تمہیں۔۔۔اتنے اچھے اخلاق والا ہے کرم سے۔۔۔ہر مشکل میں کام آتا ہے۔۔۔اللہ بھلا کرے اس کے ساتھ۔۔۔میرے بس میں ہوتا تو اب تک داماد تو بنا ہی چکی ہوتی میں اس کو"
زارہ کی تو خیرت اور صدمے کے مارے آنکھیں باہر آنے کو تھیں۔
"خدا کو مانیں پھپھو،ساری اتنی بھری دنیا کو چھوڑ کر ایک وہی نظر آیا آپکو میرے لئے جس کی طرف دیکھنے سے پہلے بھی دس دفعہ سوچوں میں؟مطلب کہ ظلم کی انتہا ہے،بتائے دے رہی ہوں میں صاف صاف۔۔۔جس قسم کے بھی فتور پل رہے ہیں نہ آپکے ذہن میں،وقت رہتے نکال لیں انکو"
زارہ کی ایکٹنگ آسمانوں پر تھی۔جانے کس بات پر اتنا نرالہ مزاج ہو گیا تھا اس کا پل بھر میں ہی۔ورنہ صبح تک تو اداسی اور چڑچڑے پن سے پاگل ہونے کو تھی۔
"یہی امید تھی مجھے تم سے،بچہ میرا ہے بھی بن ماں کا،اپنے فرائض مجھے ہی سونپے ہوئے ہیں،دیکھنا تم ایسی چاند سی دلہن لاوں گی نہ،دیکھتے آنکھیں نہیں تھکیں گیں"
عائشہ اماں بھی خاصی جزباتی ہو گئی تھیں اپنے بیٹے کے معاملے میں۔کمرے میں جاتے جاتے زارہ کو سنانا نہیں بھولیں۔
"ارے رہنے دیں پھپھو،بن ماں کا ہے اسی لئے اتنا بگڑا ہوا ہے" سیڑھیوں کی طرف بھاگتی ہوئی جاتے جاتے بدلہ لے کر ہی گئی تھی۔اس کی ماں کے بارے میں سن کر حقیقتاً افسوس ہوا تھا کہ وہ خود بھی یہ دکھ سمجھتی تھی۔لیکن کسی اور کے سامنے کبھی ظاہر نہیں ہونے دیتی تھی۔
اوپر کمرے میں آ کر بیڈ پر نیم دراز ہو گئی۔ابھی بھی دوائیوں کا ہی اثر تھا کہ لیٹتے ہی غنودگی میں چلی گئی۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆

نورِ ازلWhere stories live. Discover now