آخری قسط

20 1 0
                                    

زندگی کی ہر صبح نئی امیدیں لاتی ہے۔نئی دنیا،نیا آغاز۔نئی سوچ۔امیدیں دل میں بسائی جاتی ہیں۔اگلا کام انسان کے عمل پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اپنے لئے اس نئی امید میں سے کیا نکالتا ہے۔وہ چاہے تو اس نئی صبح کو اپنے لئے بہتر دن بنا سکتا ہے اور نا چاہے تو دن پھر سے رات بن جاتی ہے۔یہی زندگی ہے۔
"عنایہ مجھے بات کرنی ہے تم سے" عنایہ اپنے کمرے میں کتابیں پھیلائے بیٹھی تھی جب زارہ کمرے میں داخل ہوئی۔
"ہاں بولو" وہ کتابیں ہٹا کر اس کے لئے جگہ بناتی ہوئی بولی۔
"کافی دنوں سے تم سے پوچھنا چاہ رہی تھی لیکن سمجھ نہیں آ رہا" زارہ سوچ سوچ کر بول رہی تھی۔
"کھل کہ بات کرو زارہ،میں سن رہی ہوں"
وہ اصل میں اس رات جب تم واپس آئی تھی تو حسن بھی تمہارے ساتھ تھا۔وہ کیسے؟" زارہ اپنی بات ادھوری چھوڑ گئی جب عنایہ نے ایک دم سے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا۔
"میرے الله!میں کیسے بھول گئی اتنے دنوں سے،حسن کو کال کر کہ بھلا تھینکیو ہی بول دیتی" عنایہ خود سے بولتی اپنا فون ڈھونڈنے لگی۔
"تھینکیو؟مگر کس بات کا" زارہ مزید الجھ گئی۔
"ہاں بھئی،وہی تو لے کر آیا تھا ناں مجھے"
"لے کر؟کہاں سے لایا تھا؟عنایہ پلیز پوری بات بتاؤ مجھے" وہ اب مضطرب ہونے لگی مگر جون جوں عنایہ اس کو ساری بات بتا رہی تھی زارہ کا چہرے کا رنگ اڑ چکا تھا۔
"اوہ خدایا!یہ کیا ہو گیا" وہ بے یقینی سے بولی۔
"کیا ہوا ہے؟کچھ الٹا سیدھا تو نہیں کر دیا؟"
"عنایہ وہ میں نے سمجھا کہ شاید حسن کی وجہ سے تم اتنا رو رہی ہو تو اس کو بہت غلط باتیں کہہ دی میں نے،بہت غصے میں یہاں سے گیا تھا وہ" زارہ اب حقیقتاً پریشان ہونے لگی۔اس کو اب حسن کا غصہ سمجھ میں آ رہا تھا۔
"تم پاگل ہو زارہ؟کیا کہا تم نے اس سے؟کیا کروں میں تمہارا" عنایہ بھی اب زارہ ہی طرح پریشان تھی۔
"میں کیا کرتی عنایہ؟تم اپنے ٹائم سے گھر نہیں تھی میں اتنا پریشان ہو گئی تھی،جب وہ تمہارے ساتھ آیا تو کچھ اور سمجھ ہی نہیں آیا مجھے۔تم پلیز اس کو کال کرو کچھ پتا تو چلے"
"اچھا کرتی ہوں میں" عنایہ فون پہ حسن کا نمںر ڈائل کرنے لگی۔سپیکر آن کر لیا تھا۔
"السلام علیکم حسن!کیسے ہو؟" وہ سوچ کر بولنے لگی۔
"وعلیکم السلام عنایہ!تم بتاؤ طبعیت کیسی ہے تمہاری اب؟ سوری میں آ نہیں سکا دوبارہ کافی مصروف رہا تھا میں" وہ دھیمے لہجے میں بول رہا تھا۔پہلے جیسی شوخی نہیں تھی اس کی آواز میں۔زارہ کا دل ڈوبنے لگا۔
"نہیں کوئی بات نہیں۔ٹھیک ہوں اب میں۔سوری تو میں نے کرنا تھا تم نے" وہ سامنے بیٹھی زارہ کو گھورتے ہوئے بولنے لگی۔
"مگر وہ کیوں؟"
"حسن مجھے ابھی زارہ سے پتا چلا ہے کیا اول فول بول گئی ہے وہ تمہارے آگے۔آئی ایم سو سوری۔میری وجہ سے تم دونوں میں اتنی مس انڈرسٹینڈنگ آگئی" وہ شرمندگی سے بول رہی تھی۔حسن گہرا سانس لے کر رہ گیا۔
"ایسی بات نہیں ہے۔مس انڈرسٹینڈنگ بھی کم از کم وہاں ہوتی ہے جہاں تھوڑا سا اعتبار ہو جو زارہ کو مجھ پر کبھی تھا ہی نہیں۔مجھے اب خود گلٹ ہو رہا ہے کہ اس کو نکاح کیلئے فورس نہیں کرنا چاہیے تھا۔میں تھوڑا فری ہو جاؤں پھر جیسے وہ چائے گی ویسے ہی ہو گا۔وہ میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔میں دیکھ لوں گا"
"لیکن حسن ایسے کیسے" عنایہ اب سچ میں پریشان ہوئی تھی۔
"لیکن کیا؟تم۔چھوڑو یہ سب میں دیکھ لوں گااور ہاں ہاشم بھی اسی ہفتے آ جائے گا۔کام ہمارا پورا ہو گیا ہے۔میں تو کل ہی گھر ا گیا ہوں وہ ہیڈ ہے تو اس کی کچھ فارمیلیٹیز ہیں۔تم اپنا خیال رکھنا میں ذرا اپنا کچھ کام دیکھ لوں" حسن فون رکھ چکا تھا۔
"عنایہ میں کیا کروں اب" سامنے بیٹھی زارہ اب سہی میں رو رہی تھی۔کبھی کبھی ہم نادانی میں ایسی غلطی کر جاتے ہیں کہ بس ندامت ہی رہ جاتی ہے۔
"تم فکر نہیں کرو سب ٹھیک ہو جائے گا،وہ اپ سیٹ ہے ابھی اس وجہ سے ایسا بول رہا ہے" عنایہ اس کو تسلی دینے لگی۔
بلکل!وہ سب بگاڑا بھی اسی نے تھا اب ٹھیک بھی اسی کو کرنا تھا۔اب اسے اگلی صبح کا انتظار تھا۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
سورج کی کرنیں اس کمرے کو روشن کر رہی تھیں۔ڈریسنگ ٹیبل کہ آگے کھڑی وہ اپنی کالی آنکھوں میں کاجل بھر رہی تھی۔کاجل لگانے کے بعد اس نے پیچھے ہو کر اپنی تیاری دیکھی۔ہلکے گلابی رنگ کا سوٹ پہنے،ہلکی سی جیولری اور میک اپ کے ساتھ وہ تیار نظر آ رہی تھی۔لمبے باک اس کے کیچر میں مقید تھے۔ہونٹوں پر مسکراہٹ برقرار تھی۔امید بھری مسکراہٹ،محبت بھری مسکراہٹ۔
نیچے لاونج کی طرف جاتے وہ آخری سیڑھی پر تھی جب کچن میں کافی بناتی عنایہ کی اس پر نظر پڑی۔
"ہو گئی تیار" عنایہ اس کے پاس آ کر اس کو دیکھنے لگی۔
"ہاں!ٹھیک لگ رہی ہوں؟" زارہ بہت نروس نظر آ رہی تھی۔
" بہت پیاری لگ رہی ہو،بس کام پورا کیے بغیر نہیں آنا" عنایہ اس کی تیاری دیکھتی آخر میں شرارت سے بولی۔
"بد تمیز! اچھا یہ بتاؤ چابیاں مجھے وہیں مل جائیں گی ناں"
"ںے فکر ہو کر جاؤ،ایک دفعہ میں گئی تھی اس کے ساتھ تب بتایا تھا اس نے کہ یہ ایک چابی یہیں باہر اس گلدان کے نیچے ہی ہوتی ہے"
"اچھا ٹھیک۔چلو میں چلتی ہوں" وہ عنایہ کو کہتی پاس پڑے صوفے سے شاپنگ بیکز اٹھاتی باہر نکل گئی۔اس کی منزل قریب تھی۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
لاونج میں قدم رکھتے اس نے آگے پیچھے نگاہ دوڑائی۔سامنے کوئی نہیں تھا۔آہستہ چلتی وہ کچن تک آئی اور بیگز وہیں رکھ دیے۔چابی اس کو لاونج کے دروازے کے باہر پڑے گلدان کے نیچے سے مل چکی تھی۔وہ ایکسٹرا کی تھی۔لاونج زیادہ بڑا نہیں تھا۔سامنے ہی دو کمرے تھے۔وہ یقیناً انہیں میں سے ایک میں ہو گا۔زارہ مسکراہٹ کے ساتھ ان کمروں کو دیکھتی کچن کی طرف واپس گئی اور بیگز سے چیزیں نکالنے لگی۔
ہلکی سی کھٹ پٹ سے اس اکی نیند کھل گئی تھی۔پہلے تو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے۔گھڑی صبح کے نو بجا رہی تھی۔وہ اتنی دیر تک سونے کا عادی نہیں تھا۔کبھی کبھی کام زیادہ ہونے کی وجہ سے لیٹ سوتا تھا تو اس کی آنکھ دیر سے کھلتی تھی۔اس بار کی آواز سے وہ چوکنا ہو گیا۔اس کو احساس ہوا کہ گھر میں اور کوئی بھی ہے۔ننگے پاؤں وہ اٹھا اور آہستہ سے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر آیا۔لاونج میں کوئی نہیں تھا۔آواز کچن کی طرف سے ایک بار پھر آئی تھی۔نزدیک جانے پر ساتھ مدھم سی گنگنانے کی آواز بھی آنے لگی۔وہ جی بھر کر حیران ہوا۔
ذرا پیچھے ہو کر اس نے کچن میں جھانکا۔اگلے ہزار سالوں میں وہ یہ منظر تصور نہیں کر سکتا تھا جو اس وقت اس کے سامنے تھا۔ابھی وہ اتنا پاگل نہیں تھا ہوا کہ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتا۔وہ اس کے کچن میں تیار کھڑی کام کر رہی تھی۔لمبے بال اس کی کمر کو چھپائے ہوئے تھے۔جن میں ذرا سا نیچے آ کر کرلز بن رہے تھے۔زارہ کی حسن کی طرف پشت تھی۔وہ خاموشی سے آیا تھا اس لئے زارہ کو اس کے آنے کا احساس نہیں ہوا۔قدم قدم چلتا وہ اس کے عین پیچھے آ کر کھڑا ہوا اور کان کی طرف جھک کر بولا۔
"تم شاید جانتی نہیں میں ان مردوں میں سے نہیں ہوں جن کے دل کا راستہ ان کےپیٹ سے ہو کر گزرتا ہے" زارہ کی سانسیں تھم گئیں۔(یہ کب آئے؟) وہ ساکت ہو گئی تھی۔حسن نے اس کو کندھوں سے پکڑ کر رخ اپنی طرف کیا۔زارہ کا سر جھکا ہوا تھا۔حسن نے اس کو ٹھوڑی سے پکڑ کر اوپر کیا اور سر تا پیر اس کا جائزہ لیا۔
"اتنی تیاری؟خیریت ہے زرتاش صاحبہ؟" وہ اتنے اکھڑ لہجے میں بولا کہ زارہ کا دل ڈوبنے لگا۔
"مسز زرتاش حسن معید نام ہے میرا اور مجھے اچھا لگے گا اگر آپ اسی نام سے مخاطب کریں" وہ ہمت کر کہ بولی۔آج کچھ بھی کر کہ حسن کو منانا تھا۔وہ ہنسا۔
"یاد ہے تمہیں کہ مسز حسن معید ہو؟مجھے لگا بھوک گئی" وہ ابھی بھی اس کر نظریں ٹکائے اسی لہجے میں بولا تھا۔
"میں تو نہیں لیکن آپ بھول گئے ہیں جو چھوڑے کی باتیں کر رہے ہیں" وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کہ بولی۔
"باتیں سنی تھی تم نے اپنی؟"
"سوری" وہا پھر سے چہرہ جھکا گئی۔
"زارہ وہ کوئی چھوٹی بات نہیں تھی جو تم نے کی تھی یاں ایسی بات جو محض ایک سوری کہہ دینے سے ختم ہو جائے"
"آئی نو،میں بس عنایہ کی وجہ سے اتنا پریشان ہو گئی تھی کہ سمجھ ہی نہیں آیا کیا کیا بولتی گئی" وہ بولنے کے ساتھ ساتھ اب رونے بھی لگی تھی۔
"زارہ رشتے بھروسے اور یقین سے بنتے ہیں،اس وقت تم میری بات تحمل سے سن لیتی تو اتنی بات بڑھتی ہی نہیں" زارہ کے رونے میں اضافہ ہوتا گیا۔
"پلیز سوری" وہ روتے روتے اس کی طرف دیکھ کر بولی۔اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔حسن اس سے زیادہ نہیں دیکھ سکا۔آگے بڑھ کر اس کو اپنے ساتھ لگایا اور اس کے بال سہلانے لگا۔
"آپ ناراض ہو کہ گئے تھے مجھے ذرا اچھا نہیں لگ رہا تھا" وہ اسی طرح اس کے ساتھ لگے کچھ دیر بعد بولی۔
"وہ تو مجھے پتا لگ ہی گیا ہے تبھی صبح صبح منانے آ پہنچی ہو۔ورنہ تو میں سمجھا تھا محبت والا کام بس میرا ہی رہ گیا ہے"
"اب ایسی بھی بات نہیں ہے"
"پھر کیسی بات ہے؟" غلط فہمی کے بادل جھٹے تو دنیا پھر سے خوبصورت لگنے لگی۔
"پہلے بھی جب آپ اتنے دن غائب رہے تھے تو اتنا مس کیا میں نے"
"لو بھئی! مجھے لگا میڈم اظہارِ محبت کرنے آئی ہیں" وہ جل کر بولا تھا۔
" آپ کو کیوں اتنا شوق ہو رہا ہے اظہار کا" زارہ مسکراہٹ دبا کر بولی۔
"ہاں تو،جب تک کرو گی نہیں معافی بھی نہیں ملنے والی"
"یہ کیا بات ہوئی؟" وہ آنکھیں سکیڑ کر بولی۔
"جلدی کرو زیادہ ٹائم نہیں ہے"
"اچھا پھر اب آپ نے میری تعریف شاعرانہ انداز میں کی تھی تو میں بھی ذرا اچھے الفاظ ہی سناتی ہوں آپکو۔مگر اس اظہار کے وقت آپ صرف سنیں گے مجھے" وہ اسکی آنکھوں پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔حسن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگی۔زارہ کی آواز اس کے کانوں میں پڑنے لگی۔
تو عرض کیا ہے۔۔۔
کہا ناں پیار ہے تم سے
تو پھر کیوں ضد تمہاری ہے
کہ جب بھی ملوں تم سے
یہی اظہار ہو لب پہ
مجھے تم سے محبت ہے
تمہیں معلوم ہے جاناں
محبت تو محبت ہے
یہ تو آنکھوں میں دکھتی ہے
حسیں سے خواب کی صورت
اسے کہنا نہیں پڑتا،مگر اظہار ہوتا ہے
کبھی باتوں کی خوشبو سے
کبھی آنکھوں کی شوخی سے
اسے کہنا نہیں پڑتا،مگر اظہار ہوتا ہے
کبھی لفظوں کی بولی سے
لبھی گالوں کی لالی سے
مگر تم جانتے ہو ناں
تمہاری بات کو جاناں
نہیں میں ٹال سکتی ہوں
چلو میں تم سے کہتی ہوں
مجھے تم سے محبت ہے

نورِ ازلWhere stories live. Discover now