قسط ٨

7 1 0
                                    

زندگی اپنی دھن میں چلی آ رہی تھی۔کوئی کسی کیلئے کہاں رکتا ہے۔جو پیچھے رہ جاتے ہیں وہ وقت کی رفتار کا مقابلہ نہیں کرتے۔عنایہ بھی چلتی جا رہی تھی مگر دھیرے دھیرے،سکون کے ساتھ۔وہ خود کو کافی حد تک بدل چکی تھی۔زندگی کو اب سمجھنے لگی تھی۔زندگی کا۔مقصد،اس کو جینے کا طریقہ۔دنیا کا ایک نیا رنگ آ رہا تھا اس کے سامنے۔یونیورسٹی جاتے ہوٸے بھی اس کی ڈریسنگ میں بدلاؤ آیا تھا۔وہ جو لوگ سمجھتے ہیں ناں کہ انسان کا ظاہر اس کی کردار کشی کرتا ہے غلط سمجھتے ہیں۔ہم میں سے کوئی نکیں جانتا کہ کسی کے دل کے اندر کیا چھپا ہے۔
اپنی کلاس کی طرف جاتے ہوئے زارہ بھی اس کے ہم قدم تھی۔ذہن کی سوچیں حسن کی طرف تھیں ساتھ نظریں بھی اسی کو تلاش کررہی تھیں۔وہ اس دن کے بعد ناں تو یونی آیا تھا اور ناں ہی کوئی کال کی تھی۔زارہ کو اپنے رویے کا احساس تھا مگر ایک انسان جو ایک دن اجنبی تھا اس سے اگلے دن رشتہ بدل چکا تھا۔اتنی جلدی وہ خود کو کیسے سمجھاتی۔لیکن اب وہ تھا کہ سامنے ہی نہیں آ رہا تھا۔اور یوں روپوش ہونے کا مطلب کیا تھا بھلا؟
سوچوں کو جھٹک کر اس نے دھیان یونیورسٹی اور کلاسز پر لگانا چاہا مگر اب اس کی غیر موجودگی زارہ کو پریشان کر رہی تھی۔کلاس میں پوچھنے پر بھی کچھ پتا نہیں چلا تھا۔
دو دن بعد جیڈی کی سالگرہ تھی جس کیلئے وہ سب کو انوائیٹ کر رہا تھا۔زارہ کا بلکل جانے کو دل نہیں تھا تو اس نے منع کر دیا مگر جیڈی کے بہت اصرار پر صرف عنایہ آنے کو راضی ہوئی تھی۔فریحہ نے بھی ہامی بھر لی تھی۔
پچھلے دو دنوں سے جانے وہ کتنی بار حسن کا نمبر ٹرائے کر چکی تھی مگر یا تو وہ اٹھاتا نہیں تھا یا پھر نمبر ہی بند ہوتا تھا۔زارہ کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ایک ہفتہ ہونے کو تھا اور حسن کا کچھ پتا نہیں تھا۔اب وہ اپنے رویے پر شرمندہ بھی تھی۔حسن کے ڈیڈ بھی چار دن پہلے ہی واپس گئے تھے  تب وہ اس قدر پریشان نہیں تھی ورنہ انہی سے پوچھ لیتی۔ایسے بھی کوئی کرتا ہے؟ناراض ہو تو بتا تو دے ناں یا سامنے تو آئے کہ اگلا انسان بات کر سکے۔
عنایہ کا آج یونی جانا مشکل ہی تھا۔پہلے اس نے آمنہ کے پاس جانا تھا جو اب اس کی روز کی روٹین کا ایک حصہ بن چکا تھا۔پھر وہیں سے اس نے جیڈی کی سالگرہ  پر جانا تھا۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
سڑک کے کنارے چلتی وہ بس سٹاپ پر جا رہی تھی کہ ساتھ ایک گاڑی آ کر رکی اور ہارن دے کر اسے روکنے لگی۔وہ جیڈی تھا۔
"عنایہ آؤ تمہیں ڈراپ کر دوں" جیڈی وہیں سے شیشہ نیچے کر کے بولا۔ عنایہ نے اب اگر اسی کی پارٹی میں ناں جانا ہوتا تو منع کر دیتی۔اب وہ یوں اس کے ساتھ اکیلے جانے سے بھی پرہیز ہی کرتی تھی۔چلتی ہوئی وہ فرنٹ ڈور تک آئی اور کھول کر بیٹھ گئی۔
"تمہاری طرف ہی آ رہی تھی میں،ہیپی برتھڈے" عنایہ بیٹھتے ہی اس سے بولی۔
"تھینکیو سو مچ،خیر اس وقت کہاں سے آ رہی ہو؟" وہ گاڑی چلاتے ہوئے باتیں کرنے لگا۔
"ایک دوست سے ملنے گئی تھی میں،وہیں سے آ رہی تھی"
"سہی!اچھا ایک منٹ ویٹ مجھے یہاں سے کچھ لینا ہے" جیڈی سڑک کی جانب ایک دکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔گاڑی سائڈ پر روک کر وہ گیا۔تھوڑی ہی دیر میں وہ واپس آیا تو ہاتھ میں ایک شاپنگ بیگ تھا اور ایک سلش۔
"ٹیک اٹ! میں نے سوچا بندی کبھی کبھار تو آتی ہے میری گاڑی میں اور ہر دفعہ ایسے ہی ٹرخا دیتا ہوں"
"ضرورت نہیں تھی اس کی،ویسے بھی جا تو تمہاری پارٹی پر ہی رہی ہوں ناں" عنایہ نے سلش پکڑ لیا اور سڑک کے پار دیکھتے ہوئے پینے لگی۔جیڈی اب خاموشی سے گاڑی چلا رہا تھا۔دس پندرہ منٹ گزرنے کے بعد ہی عنایہ کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا اور چند سیکنڈ کا کھیل تھا وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی۔اس کا سر لڑکھتے ہی جیڈی نے اس کی طرف دیکھا اور گاڑی روک دی۔
"ہو گیا یہ کام بھی آج"
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
پوری گیلری میں محض اندھیرے کا راج تھا۔ٹارچ کی
مدہم روشنی میں وہ چلتا ہوا گیلری کے ساتھ قطار میں
موجود کمروں کے لاک چیک کر رہا تھا۔ایک کے بعد ایک۔
کوئی بیس کمرے وہ دیکھ چکا تھا لیکن ابھی تک سب ہی
لاکڈ تھے۔ان کو کھولنے کا سامان موجود تھا اس کے پاس۔
لیکن ابھی انتظار کرنا تھا۔کہ دفعتاً ایک دروازے کا ہینڈل گھمایا اسی سوچ پر کہ لاک ہوگا لیکن وہ کھلتا چلا گیا۔ دروازے کی حرکت پر وہ بلکل چوکنا ہو گیا۔کمرے میں منہ دیا تو وہاں بھی اندھیرا ۔لیکن کچھ تھا وہاں جو وہ محسوس کر سکتا تھا۔ٹارچ کی لائٹ ہلکی سی بڑھائی کہ ٹھیک سے دیکھ سکے۔لیکن جیسے ہی روشنی میں سامنے کا منظر واضح ہوا اس کو یوں محسوس ہوا جیسے ساتوں آسمان اسکے سر پر آ گرے ہوں۔یہ منظر کسی قیامت سے کم نہ تھا اس کے لئے۔دماغ ساتھ چھوڑ چکا تھا۔روح تو مانو جسم میں ہو ہی نہ،کاٹو تو بدن میں خون نہیں۔ ہلکے سے اسکے لب کھلے،بمشکل ہی بول پایا وہ۔
"عینا۔۔۔" انتہائی مدھم  صدمے سے بھرپور آواز جیسے کسی کھائی سے آئی ہو۔
ابھی وہ اپنی جگہ ساکت کھڑا ہی تھا کہ اچانک پیچھے سے اسکے سر پر وار ہوا۔ایک پل کے لئے اس کا سر گھوما اور وہ نوجوان زمین بوس ہو چکا تھا۔
"اسکو بھی ابھی یہیں بند کر دو بعد میں دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے اسکا۔۔۔کمینہ یہاں بھی پہنچ گیا،لیکن اب کی بار اس کو کامیاب نہیں ہونے دوں گا میں"
اس کو گھسیٹتے ہوئے وہ اسی کمرے میں بند کر کے چلے گئے یہ سوچے بغیر کہ یہی انکی سب سے بڑی غلطی ثابت ہونے والی تھی۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
آہستہ آہستہ اس کا ذہن بیدار ہونا شروع ہوا۔دھیرے سے وہ پلکیں اٹھا رہی تھی مگر ہر طرف اندھیرا ہی تھا۔ذہن پر زور دینا شروع کیا تو گزرے مناظر واضح ہوئے۔اس سلش میں ہی کچھ تھا مطلب کہ جیڈی؟ اف خدایا! کہاں پھنس گئی۔وہ رو دینے کو تھی۔اچانک اس کو احساس ہوا وہ جہاں لیٹی ہے وہاں اس کا سر کہیں ہلکا اونچا ہے،کسی نرم جگہ پر۔شاید کسی کی گود میں؟اور۔۔۔اور اس کے ماتھے پر ایک ہاتھ بھی تھا۔کرنٹ کھا کر وہ اٹھی۔لیکن اٹھ کر دیکھتے ہی وہ پتھر ہو گئی۔جی چاہا زمیں پھٹے اور وہ اس میں سماں جائے۔اب وہ زندگی میں اس شخص کا سامنا دوبارہ کیسے کرے گی۔وہ خالی نگاہوں سے اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔یوں جیسے بولنے کو کچھ بچا ہی ناں ہو۔اچانک عنایہ کی نظر اس کے ماتھے پر لگی چوٹ پر گئی۔ہمت کر کے وہ آگے ہوئی اور اس پر ہاتھ رکھ کر بولی۔
"یہ کیسے آئی؟"
"کونسی چوٹ کا پوچھ رہی ہو؟جو سامنے نظر آ رہی ہے یاں جو دل پر لگی ہے؟" اس کا لہجہ سخت ذرا بھی نہیں تھا۔یوں جیسے وہ سچ میں جاننا چاہتا ہو۔عنایہ کا سر جھک گیا۔آنسو نیچے گر رہے تھے۔
"تم بے آواز رہ رہی ہو اور میرا چیخ چیخ  کر رونے کو دل کر رہا ہے۔دوسروں کے گھروں کی حفاظت کے چکروں میں میرے اپنے گھر کی عزت آج وہیں ہے جہاں سے میں دوسرے گھروں کی عزتوں کو بچانے آیا تھا" وہ تھکے ہوئے لہجے میں بول رہا تھا۔عنایہ نے آج سے پہلے ہاشم کو اس طرح کبھی نہیں دیکھا تھا۔
"سمجھ نہیں آ رہی مجھے کہ میں شکر ادا کروں اس بات پہ کہ الله نے مجھے بھیج دیا یاں روؤں بیٹھ کے کہ تم یہاں تک کیسے آئی"
وہ اب ہلکی ہلکی سانس لے رہا تھا۔عنایہ کی نظریں نیچے زمین پر ہی تھیں۔
"بھول گئی ہو تو یاد کرواتا چلوں اس گھر سے پہلے تم میری عزت میری زمہ داری ہو۔چار سال پہلے نکاح ہوا تھا نا۔پتا نہیں وقت کی اس دوڑ میں تم بھول گئی تھی یاں میں جو حفاظت تک نا کر سکا تمہاری"
کون سا اعتراف کہاں ہوا تھا۔کتنی خواہش تھی عنایہ کی کہ کبھی تو وہ اپنے اور اس کے مابین رشتے کا احساس دلائے۔اور آج وہ وقت آیا بھی تو اس طرح۔
"ادھر آو۔۔ناراض نہیں ہوں تم سے،سمجھو ضرورت ہے تمہاری" اس کے بلانے پر وہ ڈر کر اس کی طرف دیکھنے لگی تو وہ پھر سے پکارنے لگا۔عنایہ ہلکا سا مزید آگے ہوئی تو ہاشم نے آہستہ سے ہاتھ آگے کر کے اس کے آنسو صاف کئے اور اس کا سر اپنے کندھے پر رکھ کر تھپکنے لگا۔ان دونوں کو اس وقت ایک دوسرے کی ضرورت تھی۔
"ہم یہاں سے نکلیں گے کیسے؟" تھوڑی دیر میں وہ کچھ سمبھلی تو ہاشم سے پوچھنے لگی۔
"میں تو اس چیز کیلئے ریڈی ہو کر آیا تھا مگر تھینکس ٹو یو اب پلان چینج کرنا پڑے گا کچھ مجھے،وہ میں کر لوں گا تم۔مجھے پہلے اس بندے کا نام بتاؤ جو تمہیں یہاں تک لایا ہے" اپنی بات کے آخر میں پہلی دفعہ ہاشم کے چہرے پر سختی آئی تھی۔
"جیڈی نام ہے اس کا،کافی عرصے سے کلاس فیلو تھا ہمارا" وہ دھیمے لہجے میں بتانے لگی۔
"ہمم ٹھیک ہے،تم یوں کرو کچھ دیر آرام کر لو پہلے کی طرح،تھک جاؤ گی"
"میں کیا یہاں ایڈونچر کرنے آئی ہوں؟"
"کیوں؟ نکلی تو ایڈونچر کیلئے ہی تھی ناں،اب سہی سے شوق پورا ہو رہا ہو گا میڈم کا" عنایہ کی بات پر وہ جل کے بولا۔
"بلکل میری تو بچپن کی خواہش تھی ناں کہ ایک دفعہ تو میں زندگی می ضرور کنڈنیپ ہوں" وہ اس کو گھورتی ہوئی اسی طرح اس کے کندھے کر سر رکھ کے لیٹ گئی اور آنکھیں موند لیں۔ہاشم اب اس کو آرام سے سہلا رہا تھا۔
یہ محض اتفاق ہی تھا کہ ریڈ کیلئے اس نے آج کا دن منتخب کیا تھا۔اس کی پوری ٹیم اس وقت بس ایک اشارے کی منتظر تھی۔اپنے جس مشن کیلئے وہ یہاں آیا تھا آج اس کا آخری دن ہونا تھا پھر کچھ دن بعد وہ سکون سے گھر جانا چاہتا تھا مگر جو ہوا وہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔عنایہ اس کی منکوحہ تھی پچھلے چار سال سے۔پہلی بار اپنی جاب پر جانے سے پہلے ہی یہ نکاح ہاشم کی مرضی پر ہوا تھا۔وہ میچور انسان تھا۔سمجھتا تھا کہ عنایہ بڑی ہو رہی ہے اور ترکی جیسے ملک میں رہتے ہوئے وہ کسی میں دلچسپی لے تو یہ انوکھی بات نہیں ہونی تھی۔اسی لیے جانے سے پہلے وہ اپنا نام اس کو دے کر جانا چاہتا تھا تا کہ اس کی سوچوں کا محور وہی رہے۔وہ محسوس کر رہا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ عنایہ اپنے اور ہاشم کے رشتے کو سمجھنے لگی تھی۔آج سے پہلے کبھی ہاشم نے اپنے اور اس کے رشتے کے متعلق کوئی بات نہیں کی تھی۔مگر آج ضروری ہو گیا تھا۔وہ جانتا تھا عنایہ بہت حساس ہے۔یہاں بہادر ثابت کر رہی ہے خود کو مگر جا کر پتا نہیں کیسے اثر لے۔یہ ایک پریشان کن بات تھی۔لیکن اس کو پہلے عنایہ کو جلد از جلد یہاں سے نکالنا تھا۔آہستہ سے عنایہ کا سر اپنے کندھے سے ہٹا کر پاس پڑی اپنی جیکٹ پررکھا۔بازو کی آستینوں کر مروڑتے اس نے کچھ نکالا۔وہ ایک چھوٹے سائز کا تیز دھار چاقو تھا۔اس کے بعد اس نے اپنے بائیں پاؤں کا بوٹ اتارا۔ایک طرف سے اس نے جوتے کی سول کو چاقو سے کاٹنا شروع کیا۔آدھا کاٹ کر اس نے دو انگلیوں کی مدد سے اندر سے کچھ نکالا۔وہ ایک بھدا سا بٹنوں والا فون تھا۔چاقو اور بوٹ سائڈ پر رکھ کہ وہ فون پر کوئی نمبر ملانے لگا۔یہ یقینا" ایسی ہی کسی غیر متوقع صورت حال کیلئے تھا۔
"ہیلو! میں اندر تو پہنچ گیا ہوں لیکن ایک مسئلہ ہو گیا ہے"رابطہ لگ گیا تھا وہ دھیمی آواز میں بول رہا تھا۔
"وہ اصل میں عنایہ بھی یہیں پر ہے،تم یوں کرو بیک سائڈ پر آدھے گھنٹے تک گاڑی تیار رکھو میں بھیجتا ہوں اس کو"وہ بولنے کے ساتھ ساتھ آگے پیچھے بھی دیکھ رہا تھا۔
"وہ کیسے آئی یہ بعد کی بات ہے پہلے جو کہا ہے جلدی کرنا پلیز" دوسری طرف سے یقیناً کچھ پوچھا گیا تھا۔
"میں اس کو بھیجتا ہوں تم ریڈی رہنا" فون بند کر کے اس نے وہیں پھنسایا اور اٹھ کر اس جگہ کو دبا کر بند کر دیا۔اس جگہ شاید کوئی گوند لگی تھی جو وہ چپک گئی۔جوتا پہن کر وہ کمرے کے بائیں کونے کی طرف گیا اور نیچے بیٹھ کر دیوار کا معائنہ کرنے لگا۔وہ دیوار پوری بنی تھی مگر ایک حصہ حالی تھا جہاں پتھر پھنسایا گیا تھا۔وہ جانتا تھا یہ راستہ باہر کو جاتا ہے۔وہ یہاں کے راستوں سے واقف ہو کر آیا تھا۔دھیرے دھیرے وہ پتھر اس نے سرکایا تو کمرے میں ہلکی سی روشنی ہوئی۔عنایہ کو نکالنے کا راستہ اسے مل چکا تھا۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"آج کا دن ہی خراب ہے،پہلے اتنے دنوں سے ہاشم کی پریشانی اور اب شام ہونے کو ہے اور عنایہ کا کچھ پتا نکیں،فون بھی نہیں اٹھا رہی" زارہ لاؤنج میں ٹہلتے ٹہلتے بول رہی تھی۔پریشانی اس کے چہرے سے صاف ظاہر تھی۔ہاتھ میں فون پکڑے وہ بار بار عنایہ کا نمبر ملا رہی تھی مگر وہ بند ہی جا رہا تھا۔تبھی گیٹ کی بیل بجی۔وہ تقریبا" بھاگتے ہوئے پہنچی تھی۔دروازہ کھولتے ہی وہ عنایہ کو سنانے کیلئے زبان کھولنے ہی لگی تھی کہ۔۔۔۔
"آمنہ آپ۔۔۔آئیں پلیز اندر" سامنے آمنہ فاطمہ تھی۔اپنی مخصوص نرم مسکراہٹ کے ساتھ وہ اندر آئی۔
"میں نے سوچا تم اتنے ٹائم سے آئی نہیں تو میں ہی آ جاؤں،ویسے بھی قریب ہی آئی تھی میں" صوفے پر بیٹھتے وہ دوستانہ انداز میں بولی۔
"دراصل میں پچھلے کچھ دنوں کافی مصروف رہی تھی اس وجہ سے نہیں آ پائی،آپ سنائیں کیسی ہیں؟"
"میں الحمدللہ ٹھیک ہوں مگر تم ٹھیک نہیں لگ رہی،کوئی پریشانی ہے کیا؟" زارہ کے چہرے کے تاثرات ہی صاف بتا رہے تھے کہ وہ ٹھیک نہیں ہے۔
"وہ اصل مین پھپھو آجکل پاکستان میں ہیں اور عنایہ تو صبح جب آپ سے ملنے گئی تھی اس کے بعد واپس نہیں آئی ابھی تک اور فون بھی بند ہے اس کا،اس لیے کافی پریشان ہوں میں"
"مگر عنایہ تو ایک بجے سے پہلے ہی چلی گئی تھی میرے پاس سےاور اب تو سات بج رہے ہیں" آمنہ کا انداز بھی اب پریشان کن تھا۔
"جی وہ اس نے بعد میں ایک دوست کی برٹھ ڈے پارٹی  پر جانا تھا اسی لیے لیٹ انا تھا مگر وہ کہہ کے گئی تھی چار بجے تک آ جائے گی،اس لیے زیادہ ٹینشن ہو رہی ہے مجھے"  وہ اب سارا مسئلہ بتانے لگی۔
"دیکھو تم فکر مت کرو،اللہ سے اچھے کی امید رکھو وہ ٹھیک ہو گی،دیر ہو جاتی ہے اکثر" آمنہ اب زارہ کو سمجھا رہی تھی اور واقعی میں ابھی سب سے زیادہ اس کو تسلی کی ہی ضرورت تھی۔

نورِ ازلDonde viven las historias. Descúbrelo ahora