Episode 5

1.5K 123 5
                                    


شاہنواز صاحب اپنے آفس میں بیٹھے کوئی فائل پڑھنے میں مصروف تھے جب ان کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
اجازت ملنے پر مصطفی کمرے میں داخل ہوا تو وہ بے نیازی سے اپنے کام میں مصروف رہے۔ ایک نظر بھی مصطفی کی طرف نہیں دیکھا۔
"ابو مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔"
وہ آہستہ سے بولا
"کہو"
وہ ہنوز اپنے کام میں مصروف بولے
"میں آپ سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ "
وہ سر جھکا کر بولا
"اور کچھ؟"
اب کی بار وہ کھڑے ہوئے مگر لہجہ ویسا ہی تھا۔
مصطفی آگے بڑھ کر ان کے سینے سے لگ گیا ۔
"میں واقعی میں بہت شرمندہ ہوں ابو۔میں بہت برا بیٹا ہوں میں نے آپ کو بہت پریشان کیا ہے۔ میں آپ کی امیدوں پر کبھی پورا نہیں اتر پایا۔ میں نے ہمیشہ آپ کا ساتھ دینے کے بجائے آپ کا سہارا بننے کی بجائے آپ کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔
آپ پلیز مجھے معاف کردیں۔ "
وہ ان کے گلے سے لگا شرمندگی سے کہہ رہا تھا۔
"اگر تم واقعی میں شرمندہ ہو تو میری ایک بات مانو گے؟"
اسے خود سے الگ کرکہ شانوں سے تھامتے ہوئے انہوں نے پوچھا
"آپ جو کہیں گیں میں کروں گا ابو آپ بس حکم کریں۔"
وہ فوراََ سے بولا
"میں چاہتا ہوں تم شادی کرلو۔"
ان کہ کہنے پر اس نے حیران نظروں سے انہیں دیکھا۔
"اگر آپ کہتے ہیں تو ٹھیک ہے۔"
وہ رضامندی دیتے ہوئے بولا۔ اب وہ ان کی کسی بھی بات پر اختلاف نہیں کرنا چاہتا تھا ۔
"تمہیں کوئی پسند ہے یا تم کسی سے شادی کرنا چاہتے ہو؟"
"نہیں ابو آپ جہاں کہیں گے میں وہیں شادی کروں گا"
وہ صاف گوئی سے بولا
"تو پھر ٹھیک ہے میں چاہتا ہوں تم بریرہ سے شادی کرلو۔"
انہوں نے جیسے کوئی بم پھوڑا تھا۔ مصطفی کو کئی لمحے اپنی سماعت پر یقین ہی نا آیا تھا۔ وہ بے یقین نظروں سے انہیں دیکھتا رہا۔
"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ابو میں بریرہ سے کیسے۔۔۔۔"
وہ یہ بات سوچ بھی نہیں سکتا تھا جو شاہنواز صاحب نے بڑے آرام سے کہہ دی تھی۔
"کیوں نہیں کرسکتے تم اس سے شادی؟ جب پانچ سال چھوٹی لڑکی سے شادی ہوسکتی ہے تو پانچ سال بڑی لڑکی سے کیوں نہیں؟ آخر کیا برائی ہے اس میں؟ اسلام بھی ہمیں اس بات کی اجزات دیتا ہے۔"
"پھر بھی ابو میں بریرہ سے شادی نہیں کرسکتا میں نے کبھی اس کے بارے میں ایسا نہیں سوچا۔۔"
وہ اب بھی نے یقین تھا۔
"تو پھر تم مجھ سے کس چیز کی معافی مانگنے آئے ہو جب تم میرا ایک مطالبہ ہی پورا نہیں کرسکتے؟ زندگی میں پہلی بار میں نے تمہارے لیے کوئی فیصلہ لینا چاہا مصطفی اور تم اسے بھی رد کر رہے ہو۔"
وہ دکھی ہوتے ہوئے بولے
"یہ میری ساری زندگی کا سوال ہے ابو۔ کوئی اور بات ہوتی تو میں آپ کو خوش کرنے کے لیے اپنی جان بھی دے دیتا لیکن بریرہ سے شادی بالکل نہیں کر سکتا۔"
وہ قطیعت سے بولا
"میرا اتنا حق نہیں ہے کہ میں اپنی اولاد کی زندگی کا فیصلہ کر سکوں؟ "
انہوں نے آخری حربہ استعمال کیا
"کیا اس سے آپ مجھ سے خوش ہوجائیں گے؟ اگر میں بریرہ سے شادی کرلوں تو کیا آپ مجھ سے راضی ہوجائیں گے؟"
اس نے عجیب سے لہجے میں سوال کیا
"میں بے حد خوش ہوں گا تمہارے اس فیصلے سے۔ میرا سر فخر سے بلند ہوجائے گا اگر تم میرا مان رکھو گے۔ میرے لیے میری زندگی کی یہ سب سے بڑی خوشی ہوگی مصطفی اگر تم میری بات مان لو۔"
وہ امید سے بولے
"ٹھیک ہے اگر آپ کو خوش کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔"
سپاٹ لہجے میں کہتا وہ وہاں سے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہنواز صاحب کے آفس سے نکلنے کے بعد وہ سیدھا بغیر کچھ سوچے سمجھے بینک پہنچ گیا جہاں بریرہ کام کرتی تھی۔ ریسیپشن سے اس کے کیبن کا پوچھ کر وہ دندناتا ہوا بغیر دستک دیے اندر داخل ہوا۔
"تم آخر چاہتی کیا ہو ہاں؟ُ مسلۂ کیا ہے تمہارے ساتھ؟"
بریرہ فائلوں میں سر گھسائے کام کرنے میں مصروف تھی جب اچانک سے دروازہ کھلنے کی آواز پر چونکی اور اپنے سامنے مصطفی کو کھڑا دیکھ کر حیران ہوتی ہوئی کھڑی ہوگئی۔
"تم یہاں کیا کر رہے ہو مصطفی اور یہ کیا طریقہ ہے کسی کے روم میں داخل ہونے کا؟"
وہ غصے سے بولی
"سارے طریقے تو تمہیں ہی آتے ہیں کہ کس کو کس طرح سے قابو کرنا ہے۔"
وہ دانت پیستے ہوئے بولا
"فضول بکواس کر کہ میرا وقت ضائع نہ کرو اور نکلو یہاں سے۔"
وہ بے زاری سے بولی
"ویسے تمہیں زرا برابر بھی شرم نہیں آئی؟ ایک بار یہی سوچ لیتی کہ میں تم سے پانچ سال چھوٹا ہوں۔"
وہ سنجیدگی سے بولا
"کیا بکواس کیے جا رہے ہو؟"
وہ غصے سے بولی
"ایک بار یہی سوچ لیتیں کہ میں تمہارے چھوٹے بھائی کی طرح ہوں لیکن تم۔۔۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا اتنی گھٹیا نکلو گی تم۔ "
"مصطفی تم کیا کہہ رہے ہو مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔ "
وہ نا سمجھی سے بولی
"اتنی بھولی مت بنو بریرہ تم اچھے سے جانتی ہو میں کیا کہہ رہا ہوں۔ ابو کہ دماغ میں تم نے ہی یہ بات ڈالی ہے کہ وہ تمہارا رشتہ مجھ سے جوڑ دیں ہیں نا؟ ورنہ تو وہ اتنے بے وقوف بلکل نہیں ہیں کہ تم جیسی لڑکی کو میرے پلے باندھ دیں۔"
وہ غصے سے دھاڑا
"یہ کیا بکواس ہے؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔"
وہ بے یقینی سے بولی
"یہ بکواس نہیں ہے میڈم یہ تمہاری نہایت ہی کوئی گھٹیا چال ہے جو میں کامیاب ہرگز نہیں ہونے دوں گا۔ "
"میں نہیں جانتی مصطفی کہ تم کیا بات کر رہے ہو۔ قسم سے مجھے اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔"
وہ پریشانی سے بولی
"اپنے یہ گھٹیا طریقے مجھ پر مت آزماؤ۔ اب دیکھنا میں تمہارے ساتھ کرتا کیا ہوں۔"
نہایت طیش سے کہتے ہوئے وہ اس کے آفس سے باہر چلا گیا جبکہ وہ گنگ سی وہیں بیٹھی رہ گئی۔
وہ کیا کہہ کر گیا تھا بریرہ کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ اس کی عجیب سی باتیں بریرہ کو تجسس میں مبتلا کر رہی تھیں لیکن گھر پہنچتے ہی سب کچھ اسے سمجھ میں آ گیا تھا۔ اور جو کچھ بھی اسے سننے کو ملا وہ سب اس کی برداشت سے باہر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہنواز صاحب نے جو مطالبہ مصطفی کے سامنے رکھا تھا اس پر تو مصطفی کا دل چاہا کہ ایک ہی دفع میں سب کچھ تہس نہس کردے لیکن اس بار اسے تحمل سے کام لینا تھا۔ اس بار وہ ہمیشہ کی طرح جذبات میں آ کر کچھ بھی الٹا سیدھا کرکہ برا نہیں بننا چاہتا تھا۔ اس بار وہ بریرہ کو استعمال کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے وہ ان کے سامنے خاموش ہوگیا تھا اور چپ چاپ ہامی بھر لی تھی لیکن ایسا ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ اور بریرہ سے شادی کہ بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
لیکن اب وہ کسی کے سامنے برا بھی نہیں بننا چاہتا تھا۔ اس بار وہ سب سوچ سمجھ کر کرنا چاہتا تھا۔
لیکن کوئی بھی چال چلنے سے پہلے وہ بریرہ کو مطلع کرنا نہیں بھولا تھا کیونکہ یہ بات بہت اچھے سے اس کے زہن میں بیٹھ چکی تھی کہ یہ سب بریرہ کا ہی کیا دھرا ہے۔ اسی نے شاہنواز صاحب کے ذہن میں ایسی کوئی بات ڈالی ہوگی۔
اور یوں بدلا لیے بغیر تو وہ کبھی خاموشی سے نہیں بیٹھنے والا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بریرہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی سب لیونگ روم میں موجود تھے۔ شاہنواز صاحب اور فاروق صاحب ابھی آفس سے واپس نہیں آئے تھے لیکن دادا جان اور دادی جان سمیت سبھی وہاں موجود تھے اور مصطفی لیونگ کے بیچ و بیچ کھڑا اونچی اونچی کچھ بول رہا تھا۔
"یہ لیں آگئی ہے آپ سب کی لاڈلی۔ پوچھیں اس سے کیا گل کھلاتی پھر رہی ہے یہ اور آپ لوگ اسے میرے پلے باندھنا چاہ رہے ہیں؟"
مصطفی کی نظر جیسے ہی اندر آتی بریرہ پر پڑی وہ اسے دیکھتے ہوئے سب کو مخاطب کر کہ بولا
"ایسا نہیں ہوسکتا مصطفی تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی۔۔"
دادا جان آہستہ سے بولے
"سب اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی آپ لوگ یہ کہہ رہے ہیں؟"
وہ فوراََ سے بولا
بریرہ دروازے کی چوکھٹ پر حیران پریشان سی کھڑی تھی جب آمنہ بیگم نے اس کے قریب آ کر ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا۔
بریرہ گال پر ہاتھ رکھے بے یقینی سے انہیں دیکھ رہی تھی۔ باقی سب بھی گنگ سے انہیں دیکھ رہے تھے۔
"مجھے زرا بھی تم سے ایسی امید نہیں تھی بریرہ۔ آج تم نے میرا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ "
غصے سے کہتیں وہ وہاں سے چلی گئیں۔
ابھی وہ نکلی ہی تھیں کہ شاہنواز صاحب اور فاروق صاحب دونوں اندر داخل ہوئے۔
"کیا ہوا ہے سب ایسے کیوں کھڑے ہو؟"
شاہنواز صاحب سب کو جمع دیکھ کر بولے
"بریرہ تم کیوں رو رہی ہو؟"
جب کسی نے کوئی جواب نا دیا تو فاروق صاحب بریرہ کی طرف مڑے جو منہ پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی۔ آنکھوں سے آنسو متواتر بہہ رہے تھے۔
"یہ کیا بتائے گی چاچو میں بتاتا ہوں کیا ہوا ہے بلکہ دکھاتا ہوں۔۔"
اس سے پہلے کہ کوئی اور کچھ بولتا مصطفی بول پڑا۔
"کیا بات ہے مصطفی بتاؤ مجھے۔"
"یہ دیکھیں آپ لوگوں کی لاڈلی کیا گل چھڑے اڑاتی پھر رہی ہیں اور آپ کہہ رہے تھے کہ میں اس سے شادی کرلوں؟ یہ دیکھیں ساری تصویریں اور پوچھیں اس سے آفس کا کہہ کر کہاں کہاں جاتی رہتی ہے یہ۔۔"
مصطفی اپنا موبائل شاہنواز صاحب کو پکڑا کر انہیں بریرہ اور زین کی ایک ایک تصویر دیکھا رہا تھا۔
فاروق صاحب بالکل گنگ ہوگئے تھے اس کی بات سن کر جبکہ شاہنواز صاحب مطمئن سے ان تصویروں کو دیکھ رہے تھے۔
"تو کیا ہے ایسا ان تصویروں میں جو تم یوں واویلا کر کہ کھڑے ہو؟"
شاہنواز صاحب اطمینان سے بولے
"کیا ہے کیا مطلب؟ گھر سے یہ آفس کا کہہ کر جاتی ہے اور وہاں جاکر کبھی لنچ پر نکلی ہے تو کبھی شاپنگ پر وہ بھی کسی غیر مرد کے ساتھ۔ واہ ابو واہ آپ کے گھر کی بیٹی کسی غیر کے ساتھ بزاروں میں اور ہوٹلوں میں گھوم رہی ہے لنچ کرتی پھر رہی ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کیا برا ہے ان تصویروں میں؟ پوچھیں زرا اس سے کیا چکر چل رہا ہے اس کا اور اس لڑکے کا؟ کتنی دفعہ تو میں اسے دیکھ چکا ہوں اس لڑکے کے ساتھ بزاروں میں پھرتے ہوئے۔"
وہ نہایت غصے سے بولا
بکواس کر رہا ہے یہ تایا جان ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میرا اس سے ایسا کوئی تعلق نہیں ہے آپ جانتے ہیں میں ایسا ہرگز نہیں کرسکتی۔"
بریرہ چیختے ہوئے بولی۔ وہ مصطفی سے سب کچھ توقع کر سکتی تھی لیکن اتنی گھٹیا حرکت کی امید نہیں کرسکتی تھی۔
"جھوٹ مت بولو بریرہ بتاؤ انہیں کیا اس دن تم مجھے مال میں ملی نہیں تھی اس لڑکے کے ساتھ؟ بتاؤ؟ بلکہ تم کیا بتاؤ گی یہ تصویر ہے نا میرے پاس یہی سب بتا رہی ہے۔"
وہ بھی تیز لہجے میں بولا لیکن اس سے پہلے کے وہ کچھ اور بولتا شاہنواز صاحب کا زور دار تھپڑ اس کی بولتی بند کرا گیا۔
"تم اس قدر گھٹیا ہو جاؤ گے میں نے بالکل نہیں سوچا تھا مصطفی۔"
وہ نہایت افسوس سے بولے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بریرہ کے آفس سے نکل کر وہ نہایت غصے میں گاڑی تک آیا تھا لیکن گاڑی میں بیٹھتے ہی اچانک سے ایک خیال اس کے ذہن میں کودا تھا۔
کچھ دن پہلے ہی وہ عمر کے ساتھ شاپنگ مال آیا تھا اور وہاں اس نے بریرہ کو کسی لڑکے کے ساتھ دیکھا تھا ۔ مصطفی جانتا تھا کہ وہ یقیناً اس کا کوئی کولیگ ہی ہوگا اور وہ بریرہ کی طبیعت سے بھی واقف تھا کہ وہ لازماً کسی ضروری کام سے ہی اس کے ساتھ آئی ہوگی لیکن پھر بھی مصطفی نے چھپ کر ان کی تصویر لے لی تھی کیونکہ وہ اس تصویر سے بریرہ کو تنگ کرکہ اس سے اپنا کوئی نہ کوئی کام نکلوانا چاہتا تھا۔
اتفاق سے کچھ دن بعد اس نے پھر بریرہ جو ایک ریسٹورنٹ میں لنچ کرتے دیکھا تھا لیکن وہ اکیلے نہیں تھے بلکہ ان کے ساتھ اور بھی کافی لوگ تھے لیکن مصطفی نے عادت سے مجبور ہو کر اس اینگل سے ان کی تصویر لی تھی جس میں صرف بریرہ اور وہ لڑکا ہی ایکسپوز ہو رہے تھے۔
اور آج اچانک سے ہی اسے وہ دونوں تصویریں غنیمیت لگیں تھیں جنہیں وہ عین موقع پر استعمال کرنا چاہتا تھا ۔
اس لیے وہ شام ہوتے ہی گھر پہنچ گیا تھا۔ گھر میں کوئی بھی اس بات سے واقف نہیں تھا کہ شاہنواز صاحب نے فاروق صاحب سے مصطفی کے لیے بریرہ کا ہاتھ مانگا ہے۔
مصطفی نے گھر جاتے ہی سب کو اکھٹا کرکہ وہ تصویریں دکھائیں تھیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے سے بھی کئی باتیں جڑ کر سب کو سنائی تھیں۔
پہلے تو اس کی بات پر کسی کو بھی یقین نہیں آ رہا تھا لیکن تصویریں دیکھ کر سب ہی ماننے پر مجبور ہوگئے تھے۔
ابھی وہ سب کو متنفر کر رہا تھا جب بریرہ اندر داخل ہوئی اور آمنہ بیگم نے بغیر بریرہ کی کوئی بات سنے اسے تھپڑ دے مارا تھا۔ ایک لمحے کو تو مصطفی کو بہت ملال ہوا لیکن یہی وہ آخری طریقہ تھا جس سے وہ بغیر برا بنے بریرہ سے جان چھڑا سکتا تھا۔
کچھ ہی دیر میں جب شاہنواز صاحب اور فاروق صاحب اندر داخل ہوئے تو مصطفی کو اپنا مقصد پورا ہوتا نظر آیا۔ وہ یہی چاہتا تھا کہ سب کو خاص طور پر شاہنواز صاحب کو بریرہ سے متنفر کرنا چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ جو بات آج شاہنواز صاحب نے اس سے کی ہے آئندہ وہ کبھی خیال میں بھی ایسا نا سوچیں لیکن اس سب میں وہ خود کو برا ثابت نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے یہ بریقہ استعمال کیا تھا۔
وہ جانتا تھا سب ضرور اس کی بات کا یقین کریں گے اس لیے پوری پلیننگ کے ساتھ اس نے سب کچھ کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سانول یار 😍❤. (COMPLETE)Where stories live. Discover now