Episode 21

1.7K 122 2
                                    


دن ایسے ہی گزرتے جا رہے تھے۔۔ نا بریرہ نے اس کی کوئی بات سنی تھی نا ہی عمر سے بات کرنے کا حوصلہ پیدا ہو رہا تھا اس میں۔۔ وہ عجیب سی زندگی گزار رہا تھا ان دنوں۔۔ گھر سے باہر ہوتا تو عمر کے بارے میں سوچتا رہتا گھر میں ہوتا تو بریرہ کو ہی دیکھتا رہتا۔۔ کبھی کبھی اسے محسوس ہوتا تھا جیسے اسے بریرہ کو دیکھنے کا نشا سا ہوگیا ہو۔۔۔ وہ کوئی بھی کام کر رہی ہوتی وہ بس اسے دیکھتا رہتا۔۔ ابھی بھی وہ کہیں جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی جب مصطفی بیڈ پر بیٹھا مسلسل اسے دیکھے جا رہا تھا۔۔
"کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ کیوں گھور رہے ہو مجھے؟ "
اس کی نظریں خود پر محسوس کرکہ وہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتی ہوئی بولی
"مجھے لگتا ہے تم مجھ پر کوئی جادو کرتی ہو۔۔ "
وہ بیڈ سے اٹھ کر آہستہ سے اس کہ پیچھے جا کر کھڑا ہوتا ہوا بولا بریرہ نے نظریں اٹھا کر آئینے میں اس کا عکس دیکھا۔۔ وہ بھی اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔
"میں جتنا تم سے دور جانے کی کوشش کرتا ہوں اتنا ہی تمہاری طرف کھینچا چلا آتا ہوں۔۔ "
وہ اسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے بولا
"تمہارے یہ بال۔۔۔ "
مصطفی اس کی لٹوں کو اپنی انگلی میں لپیٹتا ہوا بولا
"کبھی مجھے زہر لگتے تھے۔۔ اب لگتا ہے آہستہ آہستہ انہی کا اسیر ہو رہا ہوں۔۔ "
"تمہاری آنکھیں۔۔ "
اب وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا
"کبھی ان میں دیکھنے سے مجھے بہت اکتاہٹ ہوتی تھی۔۔ لیکن اب جب بھی انہیں دیکھتا ہوں اپنے دل کو ڈوبتا ہوا محسوس کرتا ہوں۔۔ "
"تمہاری سانولی رنگت۔۔ "
اب وہ اس کی گال پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا
"کبھی بہت طنز کیا کرتا تھا اس پہ۔۔ اب پتا نہیں کیوں اس میں خود کو کھویا ہوا محسوس کرتا ہوں۔۔ "
وہ ایک جذب سے کہے جا رہا تھا اور بریرہ کو یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اس کا دل دھڑک کر باہر آجائے گا۔۔
"تمہارے ہاتھ۔۔ یہ بھی کتنے خوبصورت ہیں یہ بھی مجھے اب پتا لگا ہے۔۔ "
اس کہ ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اس کا رخ اپنی طرف کرتا ہوا بولا
"میں آہستہ آہستہ تمہارا اسیر ہوتا جا رہا ہوں۔۔ پہلے تمہیں دیکھنا پسند نہیں کرتا تھا اب تمہارے سوا کچھ دیکھنا اچھا نہیں لگتا۔۔ "
"مصطفی تم اگر پھر میرے ساتھ کوئی مزاق کرنا چاہ رہے ہو تو اچھا نہیں ہوگا۔۔ "
بریرہ کا دل مصطفی کی ہر بات پر ایمان لانا چاہتا تھا جبکہ اس کا دماغ اس کی کسی بھی بات پر یقین کرنے سے روک رہا تھا۔۔ وہ پہلے ہی اس کہ ساتھ ہر بار اتنا برا کر چکا تھا کہ اب اس کی طرف سے اچھائی کی توقع وہ بالکل کھو چکی تھی۔۔
"مزاق تو میرے ساتھ ہوا ہے۔۔۔ کبھی شدید نفرت کرتا تھا تم سے۔۔ اب پتا نہیں کہاں گئی وہ نفرت۔۔ پتا نہیں کن جذبات میں بدل گئی وہ نفرت کہ میں خود بھی سمجھنے سے قاصر ہوں۔۔۔ میں نہیں جانتا یہ جذبہ محبت کا ہے یا نہیں کیونکہ شاید میں اس جذبے کو نہیں جانتا لیکن میں ہمیشہ تمہیں اپنے قریب دیکھنا چاہتا ہوں۔۔ اپنے دل کہ۔۔ اپنی نظروں کے۔۔ مجھے نہیں پتا محبت کیا ہوتی ہے۔۔ مجھے بس اتنا پتا ہے کہ مجھے تمہاری عادت ہوگئی ہے۔۔ "
بریرہ کی بات کہ جواب میں وہ سنجیدگی سے بولا تو بریرہ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔ اس کی آنکھوں میں ایسا کچھ تھا کہ بریرہ زیادہ دیر اسے دیکھ نا پائی اور نظریں چراتی ہوئی بولی
"تمہیں مجھے قبول کرنے میں اتنا وقت لگا ہے۔۔ مجھے بھی کچھ وقت چاہیے تمہارے سابقہ ہر رویے کو بھلانے کے لیے۔۔ "
"تمہیں جتنا وقت درکار ہے تم لے لو لیکن مجھے قبول کرلو۔۔۔ میری ہر کمی ہر برائی ہر خامی سمیت مجھے قبول کرلو۔۔۔ میں جانتا ہوں میرا رویہ مجھے اس بات کہ قابل نہیں رہنے دیتا کہ کوئی مجھے قبول کرے لیکن میری خواہش ہے کہ میں جیسا ہوں تم مجھے ویسے قبول کر لو۔۔ "
وہ سنجیدگی سے بولا
"تم نے مجھ پر زندگی بہت تنگ کی ہے مصطفی۔ ہر لمحہ ہر پل کبھی عمر کا تو کبھی بدصورتی کا طنز کر کہ۔۔ تم نے کبھی کسی معاملے میں میری خوشی کا خیال نہیں کیا۔۔ تم نے ہمیشہ اپنے لیے اپنے بارے میں سوچا ہے۔۔ میں کیا چاہتی ہوں کبھی اس کا خیال نہیں کیا۔۔ "
وہ اتنے مہینوں میں شاید پہلی بار اس سے کوئی شکوہ کر رہی تھی۔۔
"میں مانتا ہوں۔۔ اپنی ہر غلطی تسلیم کرتا ہوں۔۔ میں جانتا ہوں میں اب بھی خود غرضی کا مظاہرہ کر رہا ہوں تم سے تمہاری مرضی جانے بغیر بس اپنی خواہش کا اظہار کیے جا رہا ہوں لیکن کیا کروں۔۔ آج مجھے اپنا دل قابو میں نہیں لگ رہا۔۔ وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہے لیکن تمہارے بغیر نہیں رہنا چاہتا۔۔ "
وہ ہارے ہوئے لہجے میں کہہ رہا تھا۔۔
"ساری زندگی جس سے لڑتا آیا ہوں آج اسی کہ آگے دل ہار بیٹھا ہوں۔۔ خود پہ ہنسی بھی آ رہی ہے غصہ بھی اور ترس بھی۔۔ دیکھو کس دوراہے پر کھڑا ہوں آج جسے ہمشیہ نفرت انگیز سمجھا جس سے ہمیشہ دور رہنا چاہا آج اس سے اپنی خوشی مانگ رہا ہوں۔۔
"مجھے اظہار نہیں کرنا آتا۔۔ جذبات کے معاملے میں بہت پوہڑ ہوں۔۔ اپنے آپ کو خود نہیں سمجھنا آتا مجھے لیکن میں چاہتا ہوں تم مجھے سمجھو۔۔ جو میں خود کو نہیں سمجھا پا رہا تم وہ سمجھاؤ مجھے۔۔۔ "
"مجھے دیر ہو رہی ہے مصطفی۔۔ "
اس کہ عجب سے اظہار کے جواب میں بریرہ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا اس لیے وہ اتنا کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔۔
جب کہ مصطفی اسے خود سے دور جاتا دیکھتا رہا۔۔
کبھی موم بن کر پگھل گیا
کبھی گرتے گرتے سنبھل گیا
وہ بن کہ لمحہ گریز کا
میرے پاس سے یوں نکل گیا
اسے روکتا بھی تو کس طرح
کہ وہ شخص کتنا عجیب تھا
کبھی تڑپ اٹھا میری آہ سے
کبھی اشک سے نا پگھل سکا
سر راہ ملا وہ اگر کبھی
تو نظر چرا کر گزر گیا
وہ اتر گیا میری آنکھ سے
میرے دل سے کیوں نا اتر سکا
وہ چلا گیا جہاں چھوڑ کے
میں وہاں سے پھر نا پلٹ سکا
وہ سنبھل گیا مگر آج تک
میں بکھر کہ پھر نا سمٹ سکا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔۔ عمر کی امی اب عدت سے نکل چکی تھیں۔۔ وہ آفس سے آنے کے بعد کھانا کھا رہا تھا جب وہ بولیں
"تمہارے ابو کہ بعد اب میں بہت اکیلی ہو گئی ہوں عمر۔۔ سوچ رہی ہوں سلمی بھابھی سے رشتے کی بات کروں۔۔ "
"جہاں میرے کردار ہر الزام لگایا گیا ہو میں وہاں اب کبھی رشتہ نہیں جوڑوں گا۔۔ "
وہ سنجیدگی سے بولا
"تو تمہاری محبت کا کیا۔۔؟ "
"وہ اب بھی اپنی جگہ پر ہے لیکن ایسی محبت کا کوئی فائدہ نہیں جو آپ کو سب کی نظروں میں بے اعتبار کردے۔ "
"تو پھر میں کہیں اور رشتے کی بات کروں۔۔؟ "
انہوں نے غور سے عمر کے تاثرات دیکھتے ہوئے سوال کیا جس کا چہرہ ایک پل میں تاریک ہوا تھا۔۔
"فلحال آپ اس موضوع کو یہیں رہنے دیں۔۔ "
سنجیدگی سے کہتا وہ اٹھ گیا جبکہ وہ پر سوچ نظروں سے دیکھتی رہیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"السلام علیکم آنٹی۔۔ بہت اچھا کیا آپ نے یہاں آ کر۔۔ "
اگلی صبح عمر کی امی کو اپنے گھر دیکھ کر بریرہ خوشگواری سے بولی اور انہیں اندر بٹھایا۔۔
"بہت اچھا کیا بھابھی یہاں آ کر آپ نے۔۔ "
سلمیٰ بیگم بھی خوشدلی سے بولیں
"بس عمر کہ ابو کے بغیر گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔۔ عمر بھی گھر نہیں ہوتا تو اکیلا محسوس کرتی ہوں۔۔۔ "
"واقعی اکیلا پن تو بہت جان لیوا ہوتا ہے۔۔ "
"میں اسی اکیلے پن کو مٹانے آپ کہ پاس آئی ہوں۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ میری بات سن کر کیسا محسوس کریں گی لیکن میں کہنا چاہتی ہوں۔۔۔ "
وہ جھجکتے ہوئے بولیں
"کیا بات ہے۔۔؟ "
سلمیٰ بیگم نے پوچھا
"میں عمر کے لیے زینب کا ہاتھ مانگنے آئی ہوں۔۔ میں جانتی ہوں ہم دونوں خاندانوں میں بہت فرق ہے۔۔ ہمارے مالی حالات میں بھی بہت فرق ہے لیکن میرے دل میں یہ خواہش تھی جس کا اظہار میں نے آپ سے کر دیا۔۔ "
وہ مسکراتے ہوئے بولیں تو ایک لمحے کو سملی بیگم حیران رہ گئیں ان کی بات پہ لیکن پھر مسکراتے ہوئے بولیں۔۔
"میں مشورہ کرتی ہوں باقی سب سے پھر جیسے اللہ کو منظور۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیا بات ہے مصطفی کیسی حالت بنائی ہوئی ہے تم نے آج کل۔۔ "
ڈائیننگ پر بیٹھے سب ڈنر کر رہے تھے جب شاہنواز صاحب نے مصطفی سے پوچھا۔۔ سب نے ہی ایک لمحے مصطفی کی طرف دیکھا۔
"کچھ بھی نہیں ابو۔۔ "
وہ سنجیدگی سے بولا۔۔
بریرہ نے بھی نظر اٹھا کر مصطفی کو دیکھا تو وہ واقعی اس کی حالت قابل غور تھی۔۔ بکھرے بال۔۔ بڑھی ہوئی شیو۔۔ ویران سی آنکھیں۔۔
"کوئی پریشانی ہے تو شئیر کرو ہمارے ساتھ ایسے سارا دن خاموش خاموش کیوں رہتے ہو؟ آفس میں بھی ایسے ہی ہوتے ہو اور گھر میں بھی۔۔ "
اب کی بار چچا جان نے بھی پریشانی سے سوال کیا۔
"کوئی پریشانی والی بات نہیں ہے چچا جان بس کچھ کام کا پریشر ہے۔ کچھ ادھورے کام پھنسے ہوئے ہیں مکمل نہیں ہو پا رہے۔۔ "
وہ ایک نظر بریرہ کو دیکھتا ہوا بولا
"کچھ دن چھٹی لے لو کام سے۔۔۔ دیکھو زرا کیسے میرے بچے کو کام میں لگا دیا ہے کہ چہرے کی رونق ہی ختم ہوگئی ہے۔۔ "
اب کہ دادی جان بولیں۔۔۔
اس سب دورانیے میں صرف دادا جان خاموش بیٹھے تھے۔۔ وہ جانتے تھے مصطفی کسی بات پر پریشان ہے۔۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ وہ اپنی پریشانی کا حل ڈھونڈنے ان کہ پاس ہی آئے گا اور ایسا ہی ہوا تھا۔
وہ ڈنر کہ بعد سٹڈی میں بیٹھ کر کوئی کتاب پڑھ رہے تھے جب وہ آہستگی سے دروازہ کھول کر کر اندر داخل ہوا اور ان کہ گٹھنے پر سر رکھ کر آنکھیں موند گیا۔۔
"جب دل و دماغ کی جنگ چھڑی ہو تو دل کی سننی چاہیے۔۔ "
وہ اس کہ سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا
"دل کہتا ہے سب باتیں بھلا کر معافی مانگ لوں جبکہ دماغ دل کی بغاوت کرتا ہے۔۔ "
وہ آہستگی سے بولا
"جو دل کہتا ہے وہ کرو مصطفی۔۔ یہ زندگی بڑی چھوٹی سی ہے۔۔۔ کب کہاں دغا دے جائے کچھ پتا نہیں۔۔ ابھی موقع ہے تمہارے پاس سدھار لو سب کچھ کیونکہ پھر بعد میں تصویروں میں صرف یادیں ہی ملتی ہیں۔۔ لوگ واپس نہیں آتے۔۔ "
وہ جانتے تھے اس کہ اور عمر کہ درمیان کچھ ٹھیک نہیں ہے اس لیے بغیر کہے جان گئے تھے۔۔
"سمجھ نہیں آ رہی کیسے جاؤں ابا۔۔۔ "
"رشتوں میں کبھی بھی انا کو خود پر حاوی مت ہونے دینا مصطفی۔۔۔ خاص طور پر محبت کے رشتوں میں۔۔ جہاں محسوس کرو کہ غلطی آپ کی ہے وہیں اپنی انا پس پشت ڈال کر چلے جاؤ۔۔ منا لو انہیں جو ناراض ہوں۔۔ خاموشی سے جاکر دل سے ایک بار بس انہیں گلے لگا لو۔۔ اگر رشتے میں واقعی محبت ہے تو اسی وقت سارے گلے شکوے دور ہوجائیں۔۔۔"
دادا جان کہ کہنے پر وہ اٹھا اور باہر کی طرف قدم بڑھا دیے۔
"کہاں جا رہے ہو۔۔؟ "
اسے اٹھتا دیکھ کر وہ بولے
"اپنی زندگی کی رونق کو منانے ۔۔۔ "
مسکرا کر کہتا وہ چلا گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.۔۔۔۔۔
"تو میرا بھائی ہے۔۔"
"تو نہ ہوتا تو میں کیا کرتا یار۔۔۔ "
"اگر تو بنک کرے گا تو میں کروں گا۔۔ "
"میں نے اسائمنٹ نہیں بنائی تو بھی مت بنا مل کر بے عزتی کروائے گے۔۔ "
"نکال بائیک آج تیرے پیسوں کی چائے پیتے ہیں۔۔ "
"میں جب بھی ناراض ہوا کروں مجھے منا لیا کر۔۔ تجھے پتا ہے ایسے معاملوں میں میں کتنا اناڑی ہوں۔۔ "
"کبھی مجھ سے کوئی غلطی ہو تو کھینچ کر دو لگا دیا کر۔۔ "
عمر سونے کے لیے لیٹا تو مصطفی کی باتیں اس کہ زہن میں گردش کرنے لگیں۔۔ ان دونوں کا کتنے سالوں کا ساتھ تھا۔۔ ایسا نہیں تھا کہ پہلے کبھی کوئی لڑائی نہ ہوئی ہو بلکہ کچھ دن بعد ہی ان کی لڑائی ہو جایا کرتی تھی اور ہمیشہ عمر ہی اسے منانے میں پہل کرتا تھا۔۔ وہ مصطفی کو اچھے سے جانتا تھا کہ اگر وہ اپنی غلطی پر شرمندہ ہوگا بھی تو کبھی اظہار نہیں کرے گا۔۔ وہ جانتا تھا وہ ان معاملات میں بالکل اناڑی ہے۔۔۔
اس بار بھی عمر نے اپنی انا کو پس پشت ڈالنے کا سوچا۔۔۔ وہ اپنی اور مصطفی کی دوستی خراب نہیں ہونے دینا چاہتا تھا ۔۔ وہ اس کہ پاس جا کر اسے دو تھپڑ لگا کر اس کی غلطی کا احساس دلانا چاہتا تھا۔۔
بائیک کی چابی اٹھا کر وہ فورا گھر سے باہر نکلا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت غصے میں وہ نا جانے عمر کو کیا کچھ کہہ چکا تھا اور تھپڑ مارنا اس کی سب سے بڑی غلطی تھی۔۔بچپن سے لے کر آج تک عمر نے ہر بار پہل کی تھی اس بار وہ پہل کرنا چاہتا تھا۔۔ اپنی انا اپنے غصے کی وجہ سے وہ پہلے ہی سب کچھ خراب کر چکا تھا لیکن اب وہ مزید کوئی تعلق خراب نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ اپنی انا کو پس پشت ڈال کر اس بار وہ خود پہل کرنا چاہتا تھا۔۔
وہ عمر کہ گھر کے راستے میں ہی تھا جب اس کہ سیل پر ان نون نمبر سے کال آنے لگی۔۔ کال ریسیو کرنے پر جو اسے سننے کو ملا اس کا پاؤں اچانک سے بریک پر پڑا اور گاڑی ایک جھٹکے سے رکی۔۔۔ اسی جھٹکے سے اس کی سانس بھی رکتی ہوئی محسوس ہوئی اور اس کا دل بھی بند ہونے لگا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سانول یار 😍❤. (COMPLETE)حيث تعيش القصص. اكتشف الآن