Episode 18

1.5K 122 7
                                    

"چلو شکر ہے تمہاری زندگی کا مزید ایک سال کم ہوا۔۔ "
وہ لوگ ریسٹورنٹ میں آکر بیٹھے تو مصطفی بولا۔۔۔ بریرہ اس کا مطلب سمجھتی ہوئی اس کہ برتھ ڈے وش کرنے کے سٹائل پر عش عش کر اٹھی۔
"تم سیدھی طرح سے بھی مجھے برتھ ڈے وش کر سکتے تھے۔۔ "
وہ منہ بناتے ہوئے بولی
"اتنا کردیا ہے کافی نہیں ہے تمہارے لیے۔۔ "
وہ اکتا کر بولا تو وہ خاموش ہوگئی۔۔ اتنی دیر میں ویٹر کیک لے آیا جس پر ہیپی برتھ ڈے موٹو لکھا تھا۔۔
کیک پر لکھا موٹو پڑھ کر بریرہ نے مصطفی کو گھورا جس پر وہ فقط مسکرا کر رہ گیا۔۔
پھر اس نے کیک کاٹا تو مصطفی نے مسکراتے ہوئے اسے وش کیا۔۔
"تھینک یو مصطفی۔۔ میرا دن میموریبل بنانے کے لیے۔  "
کیک کاٹنے کے بعد وہ تشکر سے بولی
"زیادہ خوش نہ ہو۔۔۔۔ میں صرف امی کہ کہنے پر یہ سب کر رہا ہوں۔۔ اپنی مرضی سے نہیں۔ "
مصطفی نے اس پر حقیقت واضح کرنا ضروری سمجھا۔۔ بریرہ کو اس کہ الفاظ پر بہت دکھ ہوا وہ جو یہ سمجھی تھی کہ وہ دل سے یہ سب اس کہ لیے کر رہا ہے اب اس کی بات سن کر اپنے جذبات پر پچھتا رہی تھی۔ وہ اسے کوئی بھی جواب دینے کی بجائے آس پاس دیکھنے میں مصروف ہوگئی جہاں لوگ ہنستے مسکراتے ایک دوسرے میں مصروف تھے جبکہ مصطفی موبائل نکال کر اس میں مصطفی ہوگیا۔ 
ابھی انہیں بیٹھے کچھ ہی دیر ہوئی تھی جب ایک لڑکی ان کی طرف آئی۔۔ 
"ہائے مصطفی۔۔۔ کیسے ہو؟ کتنے عرصے بعد ملاقات ہوئی ہے۔۔میرے کسی میسج کا جواب ہی نہیں دیتے ہو۔۔"
وہ لڑکی مصطفی کی کلاس فیلو تھی اور بڑے پر جوش انداز میں مصطفی سے مل رہی تھی۔ مصطفی بھی اسے دیکھ کر کافی خوش دکھائی دے رہا تھا۔۔ بریرہ نے ایک نظر گھور کر اس لڑکی کو دیکھا جو بلاشبہ حہت سٹائلش اور خوبصورت بھی تھی۔۔
وہ دونوں کافی دیر سے باتیں کر رہے تھے جب اس لڑکی نے بریرہ کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو مصطفی کو ناچاہتے ہوئے بھی اس کا تعرف کروانا پڑا۔
"سارا یہ میری کزن ہیں بریرہ۔۔ اور بریرہ یہ میری کالج فیلو سارا ہے۔ "
اس نے مختصر سا تعارف کروایا تو بریرہ اس آدھے ادھورے تعارف پر جل کر رہ گئی۔
"ہے۔۔ ایم بریرہ۔۔ بریرہ مصطفی۔۔ مصطفی کی کزن اور وائف۔ "
بریرہ نے اپنا مکمل تعارف کرواتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تو وہ لڑکی آنکھوں پھاڑے اسے دیکھ کر وہ گئی۔
"مصطفی۔۔۔ تم نے شادی کر لی؟ "
اس کہ لہجے میں حد درجہ حیرت تھی۔
"ہاں ابھی کچھ ہی مہینے ہوئے ہیں۔  "
وہ بریرہ کو گھورتے ہوئے بولا
"بڑے بے مروت نکلے ہو مصطفی تم تو۔۔ اتنی لڑکیوں کی لائن تھی تمہارے پیچھے اور تم نے بھی دل دیا تو کسے۔۔۔ "
وہ حیران ہونے کے بعد اب طنز کرنا نہیں بھولی تھی۔۔
بریرہ نے اس لڑکی کو غصے سے دیکھا اور مصطفی کے کچھ بولنے سے پہلے ہی اس کہ پہلو میں آ کھڑی ہوئی اور اس کہ بازو پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی
ُُ"ہمیں اب چلنا چاہیے مصطفی۔۔ پہلے ہی دیر ہورہی ہے اور تم نے مجھے ابھی تک گفٹ بھی نہیں دیا۔ "
وہ اس کے ساتھ کھڑی بڑی بے تکلفی سے بول رہی تھی جبکہ مصطفی کا حیرت کے مارے برا حال تھا۔۔ وہ اتنا حیرت زدہ تھا کہ اسے احساس ہی نہیں ہوا کب سارا اسے خدا حافظ کہہ کر واک آؤٹ کر گئی تھی اور بریرہ دوبارہ سے اپنی جگہ پر بیٹھ کر موبائل یوز کرنے لگی تھی۔
جب وہ اپنی حیرت سے باہر نکلا تب اسے بریرہ کی حرکت سمجھ میں آئی۔۔ یقیناً اس نے اس لڑکی کو بھگانے کے لیے ہی یہ حرکت کی تھی۔  اس کہ چہرے پر بے اختیار ہی مسکراہٹ آئی۔
"یہ کیا حرکت تھی بریرہ۔۔؟ "
وہ بھی بیٹھ گیا تھا۔
"کچھ بھی نہیں میں نے کیا کیا ہے۔۔ "
وہ ہموز موبائل پر جھکی بولی
"ابھی جو تم نے سارا کہ ساتھ کیا ہے۔۔ کیا سوچ رہی ہوگی وہ ہمارے بارے میں۔۔ "
وہ اسے شرمندہ کرتے ہوئے بولا
"تمہیں اس کہ سوچنے نا سوچنے سے بڑا فرق پڑ رہا ہے۔۔۔ اور میں نے وہی کیا جو مجھے ٹھیک لگا۔۔ تمہیں دیکھ کر وہ کچھ زیادہ ہی فلیٹ ہورہی تھی۔
وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولی
"ڈونٹ ٹیل می بیا کہ تم جیلس ہورہی ہو۔۔۔ "
وہ بے اختیار ہنستے ہوئے بولا
"جب تم مجھ پر اپنا حق جتا سکتے ہو تو میں کیوں نہیں۔؟ "
وہ جتاتے ہوئے بولی
"کیوں نہیں کیوں نہیں۔۔۔ آپ کا بھی اتنا ہی حق ہے ۔۔ "
وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا تو اتنی دیر میں ویٹر کھانا لے آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانے کے بعد وہ اسے شاپنگ پر لے آیا تھا۔۔
"اب کوئی انسانوں والے رنگ کے کپڑے لینا ۔۔ مائیوں والے پسند کرکہ نا بیٹھ جانا۔۔ "
وہ کپڑے دیکھ رہی تھی جب مصطفی کی آواز آئی۔
"تم خود ہی کرلو پسند اتنا مسئلہ ہے تو۔۔ "
وہ غصے سے بولی تو مصطفی نے مڑ کر اسے دیکھا
"بھول نا جایا کرو کہ میں تمہارا شوہر ہوں۔۔ "
وہ جتاتے ہوئے بولا
"انسان اپنا برا وقت کیسے بھول سکتا ہے۔؟ "
بریرہ جواب میں بولی تو مصطفی مسکرا کر رہ گیا۔
"خوش قسمت ہو تم بریرہ فاروق کہ تمہیں میں مل گیا۔۔۔ "
وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا
"ہنہ۔۔ ٹام کروز ہونا تم۔۔ "
وہ ناک سکوڑتے ہوئے بولی
"وہ تو اب بڈھا ہوچکا ہے میں تو اس کا بھی نیا ورژن ہوں۔۔ "
وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولا تو بریرہ بغیر کچھ بولے آگے بڑھ گئی۔۔ کیونکہ وہ اب کچھ بھی بولتی تو مصطفی اپنی تعریفوں کے پل باندھ دیتا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک خوبصورت دن کے بعد وہ لوگ گھر پہنچے تو گیارہ بج چکے تھے۔ مصطفی بیڈ پر لیٹ کر موبائل چلانے میں مصروف ہوگیا جبکہ بریرہ ساری شاپنگ الماری میں رکھنے لگی۔
وہ آرام سے بیٹھا فیس بک یوز کررہا تھا جب عمر کی طرف سے ملنے والے میسج پر اچھل کر رہ گیا۔۔
"ہائے اللہ جی۔۔۔ میں یہ کیسے بھول گیا۔۔ "
وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھا تھا جبکہ بریرہ نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
"یار کل آسائمنٹ جمع کروانے کی لاسٹ ڈیٹ ہے اور مجھے یاد ہی نہیں رہا۔۔ "
وہ اپنی عقل پر ماتم کر رہا تھا۔
"تو کیا ہوا۔۔۔ ابھی صرف گیارہ بجے ہیں۔۔ پوری رات باقی ہے دو تین گھنٹے بھی مسلسل لگاؤ تو بن جائے گی۔ "
وہ اسے مشورہ دیتے ہوئے بولی تو مصطفی کی آنکھیں چمکیں۔۔
"ہاں ابھی تو پوری رات باقی ہے۔۔ دو تین گھنٹوں میں تو ہوجائے گا کام۔۔ "
اس نے مسکراتے ہوئے مدد طلب نظروں سے بریرہ کی طرف دیکھا تو بریرہ نے اس کی نظروں کا مفہوم سمجھتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔۔
"میں بالکل بھی تمہاری مدد نہیں کرنے والی۔ جو کرنا ہے خود کرو۔۔ "
وہ فوراََ سے بولی
"پلیز بیا کردو نا ہیلپ۔۔ "
وہ عاجزی سے بولا
"بالکل نہیں۔ "
وہ قطیعت سے بولی
"تمہاری وجہ سے میرا سارا دن لگا ہے آج کا ورنہ میں نے بنا لینی تھی۔۔ تمہاری وجہ سے میں بھول گیا اور اب تم میرا اتنا سا کام نہیں کرسکتی۔۔ "
اس نے اسے ایموشنل کرنا چاہا۔۔
"لے کر آؤ۔۔۔ ایسے تو تم جان چھوڑو گے نہیں۔۔ "
وہ اکتاتے ہوئے بولی تو وہ خوشی سے اس کہ گلے لگ گیا۔۔۔
"ہائے بیا آئی لو یو۔۔۔ "
بریرہ اس کی حرکت پر سٹپٹا گئی جبکہ مصطفی کو خود بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ فوراََ دور ہوا۔۔
"سوری ۔۔  پرانی عادت تھی۔۔ نیا رشتہ بھول گیا تھا۔  "
وہ پہلے بھی اکثر بریرہ کے ساتھ ایسے ہی کرتا تھا لیکن اب وہ اس کی بیوی بھی تھی۔۔ رشتہ بدل چکا تھا تو احساسات بھی بدلنے لگے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو بجنے والے تھے اور وہ بیڈ پر بیٹھی بمشکل آنکھیں کھولے اس کا کام کر رہی تھی جبکہ مصطفی اس کہ سامنے سر اپنی بازو پر رکھے لیٹا ہوا تھا۔
"خبردار جو تم کام پورا ہونے سے پہلے سوئے۔۔ "
ابھی وہ نیند میں جانے ہی والا تھا جب بریرہ نے زور سے بال پوائنٹ اس کہ سر پر ماری تو وہ ہڑبڑا کر اٹھا۔
"نہیں سو رہا ۔۔۔ بس آنکھیں بند کی تھیں۔۔ "
وہ آنکھیں ملتا ہوا بولا
"آنکھیں بھی بند نہیں کرنی۔۔ "
وہ غصے سے کہنے کے بعد دوبارہ کام میں مصروف ہوگئی تو وہ کہنی کے بل لیٹا اسے دیکھنے لگا جس کہ بال جوڑے میں مقید تھے اور کچھ لٹیں بار بار اس کہ چہرے پر آرہی تھیں۔۔
وہ کافی دیر اسے یونہی دیکھتا رہا۔۔۔ بریرہ اس کی نظروں سے واقف تھی مگر پھر بھی خاموشی سے اپنا کام کرتی رہی۔۔
"باہر جاتے ہوئے تو بال کھولنے کی ضد کر رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔ میرے سامنے ہوتی ہو تو باندھ کر رکھتی ہو۔۔ "
وہ ہاتھ بڑھا کر اس کہ بالوں سے کیچر اتارتے ہوئے بولا
"تمہیں اس وقت چھچھوری حرکتیں سوجھ رہی ہیں؟ "
وہ اسے گھورتے ہوئے بولی
"میں تو کچھ نہیں کر رہا۔۔۔ صرف کہنا چاہ رہا ہوں کہ اچھی لگتی ہو ایسے۔۔ بال کھول کر رکھا کرو۔۔ "
وہ آہستگی سے بولا تو بریرہ نے بے ساختہ اسے دیکھا۔۔ ایک لمحے کو دونوں کی نظریں ملیں ، دل ایک ساتھ دھڑکے پھر دونوں ہی نظریں چرا گئے۔۔
بریرہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تو وہ بھی خاموشی سے دوبارہ آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر لیٹ گیا۔۔ کمرے میں معنی خیز خاموشی تھی۔۔ دونوں کہ دل ایک ساتھ دھڑک رہے تھے لیکن وہ دونوں ہی اپنی دھڑکنوں کا شور دبا گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقریبا پونے تین بجے بریرہ نے اس کا کام مکمل کیا تھا۔۔ بریرہ نے کام مکمل کرنے بعد مصطفی کو گھورا جو آرام سے سو رہا تھا۔ اس نے ایک بار پھر اس کہ سر پر چپت لگائی تو وہ ہڑبڑا کر اٹھا۔
"کیا ہے۔۔۔؟"
وہ غصے سے بولا
"پکڑو اسے اور اب مجھے چائے بنا کر دو۔۔ "
وہ اسائنمنٹ اس کہ ہاتھ میں تھماتی ہوئی بولی
"پاگل ہو؟ رات کہ تین بجے اب میں تمہیں چائے بنا کہ دوں ۔"
وہ اسے گھورتے ہوئے بولا
"تو میں پاگل ہوں جو چار گھنٹے سے تمہاری اسائنمنٹ بنا رہی ہوں؟ "
وہ بھی اسی کہ انداز میں بولی
"یار تم مجھ سے صبح کچھ کھا پی لینا لیکن اس وقت کچھ مت کہو۔۔ "
"کتنے احسان فراموش ہو تم مصطفی۔۔۔ میں نے تمہارا کام ساری رات جاگ کر کیا ہے اور تم میرے لیے ایک کپ چائے نہیں بنا سکتے؟ "
اس نے اسے ایموشنل کرنا چاہا۔۔
"اگر تم مجھے شرمندہ کرنا چاہ رہی ہو تو میں بالکل نہیں ہونے والا۔۔ "
وہ ڈھیٹائی سے بولا
"تم مجھے ابھی اور اسی وقت چائے بنا کر دو گے۔۔ ورنہ تمہاری یہ اسائنمنٹ پھاڑنے میں مجھے دو منٹ نہیں لگیں گے۔ "
وہ دھمکی دیتی ہوئی بولی
"تم چاہتی ہی نہیں ہو تمہارا شوہر ترقی کرے۔۔ اچھے نمبروں سے پاس ہو۔۔ "
"چائے بنا کر دیتے ہو یا۔۔؟ "
"یار مجھے بنانی ہی نہیں آتی۔۔ "
اس نے آخری حربہ استعمال کرنا چاہا۔
"تم چلو کچن میں میں بتاتی ہوں کیسے بناتے ہیں۔۔
وہ حل پیش کرتی ہوئی بولی تو ناچار مصطفی کو اس کہ ساتھ جانا پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اب اس میں دو چمچ چینی ڈالو۔۔۔ "
وہ شیلف پر بیٹھ کر اسے آرڈر دے رہی تھی جبکہ وہ غصے سے چیزیں ادھر ادھر پٹختا اس کہ حکم کی تکمیل کر رہا تھا۔
"ایک چٹکی زہر کا بھی نا ڈال دوں؟ "
وہ دانت پیستے ہوئے بولا
"اس کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔ تمہارا ہاتھ لگنے سے ہی زہریلی ہو جائے گی۔۔ "
وہ مزے سے بولی تو مصطفی کا دل کیا اس کا سر پھاڑ دے۔۔۔
چائے کپ میں ڈال کر زور سے اس کہ آگے پٹخی تو گرم چائے مصطفی کے ہاتھ پر گر گئی۔۔
"کبھی بھی زندگی میں کوئی کام ڈھنگ سے مت کرنا۔۔ "
وہ اس کا ہاتھ دیکھتی ہوئی بولی جو اب سرخ ہورہا تھا۔۔
'تم سے شادی کرکہ ایسا کارنامہ انجام دیا ہے کہ اب کوئی بھی کام ڈھنگ سے ہوتا ہی نہیں ہے۔۔ "
وہ مسکراتے ہوئے بولا تو بریرہ نے کریم ڈھونڈ کر اس کہ ہاتھ پر لگائی
"سزا ملی ہے تمہیں مجھ سے کام کروانے کی۔۔ "
وہ چائے پیتے ہوئے بولی
"واقعی بڑوں کی مافرمانی کی سزا ضرور ملتی ہے۔۔
وہ شرارت سے بولا تو بریرہ کو حلق سے چائے گزارنا مشکل لگنے لگا۔۔۔ وہ پھر اسے بڑی عمر کا طنع دے رہا تھا۔ 
"تم آخر کب تک مجھے یوں بڑی عمر کا طنع مارتے رہو گے؟ "
اس نے تنگ آتے ہوئے بالآخر پوچھ ہی لیا۔
"سو جاؤ۔۔۔ چار بجنے والے ہیں صبح پھر آنکھ نہیں کھلے گی۔۔ "
وہ سنجیدگی سے کہتا آنکھیں بند کر کہ لیٹ گیا جبکہ وہ اس کہ بات بدلنے پر کڑھ کر رہ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میں سوچ رہی ہوں کیوں نا اب ہم ان لوگوں سے زینب کا ہاتھ مانگ لیں؟ آخر اب تمہاری جاب بھی اتنی اچھی ہوگئی ہے۔۔ "
عمر گھر آیا تو امی نے موضوع چھیڑا۔
"بالکل۔۔۔ میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔۔ "
وہ خاموش بیٹھا رہا جب اعجاز صاحب بولے۔۔۔ وہ بھی اس کی محبت سے واقف تھے۔۔۔
"ایسا ممکن نہیں ہے امی۔۔ آپ لوگ یہ خیال اپنے دل سے نکال دیں۔۔ "
وہ آہستگی سے بولا
"کیوں نکال دیں خیال دل سے؟ کیا برائی ہے اس بات میں۔۔ "
"زمین پر بیٹھ کر چاند پر جانے کی خواہش نہیں کرتے امی۔۔۔ میں اس کہ قابل نہیں ہوں تو کیا فائدہ پھر بات کرنے کا۔۔ "
وہ سنجیدگی سے بولا
"تم اتنے نا امید کیوں ہو اس معاملے میں عمر؟ محبت کرنے والے تو کامل یقین رکھتے ہیں اپنی محبت پر کہ وہ ایک دن اسے حاصل کر لیں گے لیکن تم کیوں اتنے بے یقین ہو؟ "
"بے یقین نہیں ہوں۔۔۔ نا امید بھی نہیں ہوں۔۔۔ بس اپنے جذبات سے ڈرتا ہوں۔۔ خود سے ڈرتا ہوں کہ اگر ایک بار بھی دل ہار بیٹھا امید لگا بیٹھا پھر صبر کرنا مشکل ہو جائے گا۔۔۔ اپنے آپ کو مزید مشکلات سے بچاتا ہوں اس لیے امید چھوڑی ہوئی ہے۔۔۔ "
وہ سنجیدگی سے کہتا وہاں سے اٹھ کر چلا گیا جبکہ وہ دونوں اسے دیکھ کر رہ گئے۔۔
ان کا وہ بیٹا جس نے آج تک کسی کھلونے کے لیے ضد نا کی تھی کبھی کچھ کھانے کی ضد نا کی تھی اب دل بھی آیا تھا تو ایسی چیز پر جو وہ اسے لاکر نا دے سکتے تھے۔۔۔ وہ واحد چیز تھی جہاں وہ بے بس ہوگیا تھا۔۔ جہاں وہ اپنا دل ہار بیٹھا تھا۔۔۔
کدی آ مل سانول یار وے
میرے لوں لوں چیخ پُکار وے
میری جندڑی ہوئی اُداس وے
میرا سانول آس نہ پاس وے
مجھے ملے نہ چار کہان وے
کدی آمل سانول یار وے
تجھ ہرجائی کی بانہوں میں
اور پیار پریت کی راہوں میں
میں تو بیٹھی سب کچھ ہار وے
کدی آ مل سانول یار وے۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سانول یار 😍❤. (COMPLETE)Where stories live. Discover now