Episode 12

1.4K 108 2
                                    


رات کو دیر سے سونے کی وجہ سے صبح اس کی آنکھ بھی دیر سے کھلی۔۔۔ وہ نیچے آیا تو سب ناشتے سے فارغ ہوچکے تھے اور اپنے اپنے کاموں پر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔
وہ اندر ناشتے کا کہہ کر باہر لان میں آکر بیٹھ گیا جب اس کی نظر بریرہ پر پڑی جو کہ آفس جانے کے لیے تیار تھی اور اپنا بیگ اور موبائل ہاتھ میں پکڑے گاڑی کی طرف جارہی تھی۔
مصطفی فوراََ سے پہلے اس کی طرف بڑھا اور اس کا بازو تھام کر اپنی طرف کھینچا۔۔
وہ اپنے خیالوں میں گم تھی جب اچانک اس حملے پر چونکی۔۔
"یہ کیا بد تمیزی ہے مصطفی؟
"کہاں جا رہی ہو تم؟ "
اس کا سوال نظر انداز کر کہ مصطفی نے غصے سے پوچھا۔۔
"نظر نہیں آرہا؟ آفس جارہی ہوں۔ "
وہ بھی اسی کہ انداز میں بولی
"نہیں جاؤ گی تم آفس اب۔۔ "
وہ غصے سے بولا
"کیوں؟"
اس نے حیرانی سے پوچھا
"کیونکہ میں نہیں چاہتا تم اب آفس جاؤ۔۔ "
"اور تم ایسا کیوں نہیں چاہتے؟ "
"کیونکہ اب تم میرے نام سے منسوب ہو اور میں نہیں چاہتا اب تم یوں بلا ضرورت گھر سے باہر نکلو۔
"تمہارے نام سے منسوب ہوگئی ہوں یا قید ہوگئی ہوں؟ "
"تمہیں جو سمجھنا ہے سمجھ لو لیکن تم اب جاب پر نہیں جاؤ گی میں نے کہہ دیا ہے بس۔۔۔ "
وہ ہتمی انداز میں بولا
"میں جاؤں گی جاب پر مصطفی تم مجھے نہیں روک سکتے۔۔ ابھی ایک دن ہوا نہیں منگنی کو اور تم یوں حکم چلانا شروع ہوگئے ہو۔ "
وہ بھی اسی کہ انداز میں بولی
"تم۔۔۔۔ "
مصطفی نے غصے سے اس کا بازو دبوچا لیکن پیچھے سے آنے والی آواز پر اسے دور ہونا پڑا۔
"کیا ہوا ہے؟ "
شاہنواز صاحب ان دونوں کو یوں باہر کھڑا کسی بات پر بحث کرتا دیکھ کر بولے۔۔
کچھ دیر کے لیے وہ دونوں خاموش ہوگئے۔
"میں اسے کہی رہا تھا کہ اب اسے جاب چھوڑ دینی چاہیے۔ "
مصطفی سنجیدگی سے بولا
"اور میں جاب نہیں چھوڑنا چاہتی۔ "
وہ بھی بولی
"اگر وہ جاب نہیں چھوڑنا چاہتی تو تم کیوں اسے مجبور کر رہے ہو؟ ابھی وہ صرف تمہارے نام سے منسوب ہوئی ہے تمہاری تحویل میں نہیں آئی جو تم یوں حکم چلا رہے ہو۔۔ جب شادی ہو جائے گی تب کر لینا اپنی مرضیاں۔۔ فلحال وہی ہوگا جو یہ چاہے گی۔ تم جاؤ بریرہ۔۔ "
وہ اچھے طریقے سے اس کا دماغ سیٹ کرتے چلے گئے جبکہ وہ وہیں کھڑا غصے سے لب بھینچ کر رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بریرہ مغرب کے وقت گھر واپس آئی تو مصطفی گھر پر موجود نہیں تھا۔ وہ آج سارا دن آفس میں صبح ہونے والے واقعے کے بارے میں سوچتی رہی تھی۔ اسے افسوس تھا کہ اسے یوں مصطفی سے بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ وہ اسے آرام سے بھی تو سمجھا سکتی تھی۔۔ کیا پتا وہ اس کے خیال سے ہی اسے جاب چھوڑنے کے لیے کہہ رہا ہو۔۔۔
وہ مصطفی سے اپنے رویے کی معافی مانگنا چاہتی تھی تبھی گھر آتے ہی اس کی نظریں مصطفی کو تلاش کر رہی تھیں لیکن اسے گھر پر موجود نا پاکر وہ مایوس ہوگئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو کھانے کی میز پر سب براجمان تھے۔۔ مصطفی بھی وہاں موجود تھا۔ بریرہ دھڑکتے دل کے ساتھ آکر وہاں بیٹھ گئی۔۔ اسے یہ سب عجیب سا لگ رہا تھا کیونکہ ان کی منگنی کے بعد یہ پہلا کھانا تھا جو وہ ساتھ بیٹھ کر کھا رہے تھے۔
"میرا خیال میں اب شادی کی تاریخ بھی جلد ہی رکھ دینی چاہیے۔۔ جب بریرہ نے اسی گھر میں رہنا ہے تو پھر دیر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ "
کھانے کے اختتام پر دادا جان بولے
"آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں میرا بھی یہی خیال ہے ابا۔"
فاروق صاحب ان کی حمایت میں بولے
باقی سب کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا جب منگنی ہوگئی تھی تو پھر شادی لیٹ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
"لیکن ابا ایک دو مہینے تو ہمیں چاہیے ہوں گے نا تیاری کرنے کے لیے۔۔۔ آخر ہمارے اکلوتے بیٹے کی شادی ہے۔ "
مصطفی کی امی بولیں
"میرا خیال میں ایک مہینہ کافی ہے سب تیاریوں کے لیے۔۔ "
شاہنواز صاحب بولے تو سب نے ہی ان کی بات کی تائید کی اور ایک ماہ بعد کی تاریخ رکھ دی گئی۔
سب ہی اپنی رائے دے رہے تھے جبکہ اس دوران مصطفی اور بریرہ دونوں ہی خاموش بیٹھے تھے۔۔۔
"تم دونوں بھی کچھ بول لو تمہاری ہی شادی کی بات کر رہے ہیں ہم۔"
دادا جان ان دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے بولے
"آپ لوگوں نے سب ڈیسائڈ کر ہی لیا ہے ہمیں اس پر کیا اختلاف ہوسکتا ہے۔  "
مصطفی مسکراتے ہوئے بولا جبکہ بریرہ ابھی بھی نظریں نیچی کیے بیٹھی رہی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کافی دیر سے سوچ رہی تھی کہ مصطفی سے کیسے بات کرے۔۔ پہلے تو وہ بلا جھجک اس کہ کمرے میں چلی جایا کرتی تھی لیکن اب ان کا رشتہ بدل چکا تھا۔۔ اب ان کی شادی کی تاریخ تہ ہوچکی تھی اب وہ یوں منہ اٹھا کر اس کہ کمرے میں نہیں جاسکتی تھی۔۔ لیکن اس سے بات کرنا بھی ضروری تھا۔
وہ کافی دیر سوچتی رہی پھر موبائل اٹھا کر مجبوراً اسے میسج کرنا پڑا۔
"تھوڑی دیر کے لیے باہر لان میں آجاؤ مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔ "
تھوڑی دیر بعد ہی مصطفی کا جواب آیا تھا۔
"لیکن مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔ "
اس کا جواب پڑھ کہ بریرہ کو اس کی ناراض
گی کا اندازہ ہوگیا تھا۔
"پلیز مصطفی صرف دس منٹ کے لیے آ جاؤ۔۔ "
اس نے دوبارہ میسج کیا تو مصطفی نے باہر آنے کی ہامی بھر لی۔
بریرہ اپنے گرد شال لپیٹتی ہوئی باہر لان میں چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ باہر آئی تو مصطفی پہلے سے لان میں موجود تھا اور کرسی پر بیٹھا تھا۔ رات زیادہ ہونے کے باعث اندھیرا تھا اور ہلکی ہلکی دھند بھی پڑ رہی تھی۔ وہ آہستگی سے جاکر اس کہ سامنے بیٹھ گئی۔
کچھ دیر دونوں کہ درمیان خاموشی رہی۔۔
"تم نے کچھ کہنا ہے تو کہو ورنہ میں جا رہا ہوں۔ "
اس خاموشی کو توڑتے ہوئے مصطفی بولا
"میں صبح والی بات کے لیے تم سے سوری کرنا چاہتی ہوں۔۔ مجھے اس طرح تم سے بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ "
وہ آہستگی سے بولی
"تم ہمیشہ ایسے ہی کرتی ہو۔۔ میں چاہے تمہارے بھلے کی بھی بات کروں تمہیں تب بھی بری لگتی ہے۔ "
وہ لاپرواہی سے بولا
"پہلے کی بات اور تھی پہلے ہمارا کوئی رشتہ نہیں تھا لیکن اب ہمارے رشتے کو مد نظر رکھتے ہوئے مجھے اس لہجے میں بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ "
وہ شرمندگی سے بولی
"اصل میں تم مجھ پر پانچ سال بڑا ہونے کا روب جھاڑتی آئی ہو نا اس لیے عادت سے مجبور ہو۔ "
وہ ناراضگی سے بولا تو بریرہ نے اپنی مسکراہٹ روکی۔
"آئیندہ ایسا نہیں ہوگا۔ میں خیال رکھوں گی کہ تم مجھ سے پانچ سال چھوٹے ہو لیکن میرے ہونے والے شوہر ہو اس لیے میں اس لہجے میں تم سے بات نہیں کروں گی۔ "
وہ بمشکل اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے بولی
"تو پھر میری بات بھی مانو اور چھوڑ دو جاب۔ "
وہ سنجیدگی سے بولا
"میں ایسے اچانک جاب نہیں چھوڑ سکتی مصطفی۔۔ مجھے کچھ ٹائم چاہیے۔ "
"ٹھیک ہے تمہارے پاس شادی تک کا ٹائم ہے۔۔ شادی سے ٹھیک ایک ہفتہ پہلے تم مجھے جاب پر جاتی نظر نا آؤ۔۔ اور شادی کہ بعد تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ "
وہ حتمی لہجے میں بولا
"لیکن۔۔۔۔"
بریرہ نے احتجاج کرنا چاہا لیکن وہ بیچ میں ہی اس کی بات کاٹ گیا۔
"بس مزید کوئی بحث نہیں۔۔۔ میں نے جو کہہ دیا ہے وہی ہوگا۔ "
غصے سے کہتا وہ وہاں سے چلا گیا جبکہ بریرہ وہیں بیٹھی اس کہ مزاج کہ بارے میں سوچتی رہی جو ایک پل میں بالکل بدل جاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر میں شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔۔ہر کوئی زور و شور سے شادی کی تیاریوں میں مصروف تھا۔
بریرہ کو روز کوئی نا کوئی آفس سے لینے آجاتا اور اسے لے کر سیدھا بازار چلے جاتے۔۔ روز بازار جا جا کر وہ تنگ آچکی تھی لیکن شادی کی تیاریاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔
ابھی بھی وہ آفس میں بیٹھی تھی جب تائی جان کی کال آئی۔۔
"مصطفی تمہیں لینے آرہا ہے بیا تم اس کہ ساتھ بازار چلی جانا اور اپنا بارات اور ولیمے کا ڈریس پسند کر لینا۔ "
وہ بولیں
"تائی جان اس کی کیا ضرورت ہے آپ اپنی پسند کا لے آتیں تو میں پہن لیتی۔ "
"ارے شادی تم لوگوں کی ہے ہماری تھوڑی نا ہے۔۔ تم اور مصطفی دونوں اپنی مرضی سے پسند کر لینا۔ "
وہ پیار سے بولیں تو بریرہ کو مجبوراً ان کی بات ماننا پڑی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ باہر نکلی تو سامنے ہی مصطفی کی گاڑی کھڑی تھی۔ وہ گاڑی میں بیٹھی ہی تھی جب مصطفی شروع ہوگیا۔
"میں تمہارا ڈرائیور نہیں ہوں جو ہر وقت کبھی یہاں تو کبھی وہاں لے کر پھرتا رہوں تمہیں۔ حد ہوگئی کبھی یہ شاپنگ کروا لاؤ تو کبھی یہ کروا لاؤ۔ "
وہ غصے سے بول رہا تھا۔
"مجھ پر کیوں غصہ کر رہے ہو؟ میں نے تو کبھی تمہیں کہیں لے جانے کو نہیں کہا۔ "
وہ حیرت سے بولی
"تم خود نہیں کہتی لیکن اپنے سارے حمایتی میرے پیچھے لگائے ہوئے ہیں جو مجھے ٹیکے لگاتے رہتے ہیں۔۔ "
وہ اسے گھور کر کہہ رہا تھا۔
"اب سب میرے اچھے اخلاق کی وجہ سے میرے حمایتی ہیں تو میرا کیا قصور؟"
وہ مزے سے بولی
"ہنہ۔۔۔ تم اور تمہارا اخلاق۔۔ اتنی ہی اچھی ہوتی تو رشتے کہ انتظار میں گھر بیٹھی بوڑھی نا ہورہی ہوتی۔۔ "
وہ طنزیہ لہجے میں بولا تو بریرہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔ وہ سمجھی تھی وہ شاید اسے تنگ کرنے کے لیے ایسی باتیں کر رہا ہے لیکن وہ بالکل سیریس تھا۔ بریرہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور کھڑکی کی طرف منہ موڑ کر بیٹھ گئی۔ آنسو اس کی آنکھوں سے نکلنے کو بے تاب تھے لیکن اس نے مشکل سے انہیں اندر دھکیلا۔
باقی کا سارا راستہ خاموشی میں کٹا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"جب فارغ ہو جاؤ تو مجھے کال کر دینا میں لے لوں گا تمہیں۔۔ "
گاڑی مارکیٹ کے باہر روکتے ہوئے بولا
"تم کہاں جارہے ہو؟ "
بریرہ نے حیرت سے پوچھا
"جہاں بھی جا رہا ہوں تم سے کیا مطلب۔۔ اب تمہارے ساتھ بزاروں میں گھومنے سے تو رہا۔ "
"لیکن سب نے ہمیں ہم دونوں کی پسند کی شاپنگ کے لے بھیجا ہے صرف میری نہیں۔ "
وہ غصے سے بولی
"لاکھ میری پسند کے کپڑے پہن لو۔۔ تم تو پھر بھی میری پسند کے معیار پر پورا نہیں اترو گی۔ "
وہ پھر تلخی سے بولا تھا۔
"تمہیں اگر نہیں آنا میرے ساتھ تو مجھے بھی نہیں جانا کچھ لینے۔۔۔ گھر چھوڑ آؤ مجھے۔ "
وہ سنجیدگی سے بولی تو مصطفی نے گھور کر اسے دیکھا۔
"جاؤ اندر اور جو لینا ہے جلدی لے کر آؤ۔۔ میں یہی کھڑا ہوں۔ "
وہ سنجیدگی سے بولا
"مجھے نہیں لینا کچھ بھی تم گھر چھوڑ دو مجھے۔ "
وہ اسی کہ انداز میں بولی تو مصطفی نے غصے سے سٹیرنگ پر ہاتھ مارا۔ پھر اپنا موبائل اور والٹ اٹھا کر گاڑی سے باہر نکلا۔
"نکلو اب باہر ۔۔ "
بریرہ کو ہنوز اندر بیٹھا دیکھ کر وہ اس کی سائڈ کا دروازہ کھول کر غصے سے بولا
"تم نے اگر یونہی مجھ پر طنز کرنے ہیں تو میں نہیں جارہی کہیں۔ "
"تو محترمہ اور کیا کروں؟ ایک تو ساتھ جارہا ہوں اوپر سے نخرے دیکھو ذرا میڈم کے۔ "
وہ اس کہ نخرے دیکھ کر لب بھینچتے ہوئے بولا
"تو کوئی احسان نہیں کر رہے مجھ پر۔۔۔ صرف میری نہیں تمہاری بھی شادی ہے۔ "
وہ بھی اسی کہ انداز میں بولی
"تم نکل رہی ہو باہر یا گھسیٹ کر نکالوں؟ "
وہ غصے سے بولا تو بریرہ اتر گئی گاڑی سے اور اپنا بیگ اٹھا کر آگے بڑھ گئی۔
پیچھے سے مصطفی نے زور سے گاڑی کا دروزہ بند کیا اور غصے سے بولا
"نخرے دیکھو محترمہ کے جیسے میں نہیں یہ مجھ سے پانچ سال چھوٹی ہو۔ "
اور پھر اس کہ پیچھے چل دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بریرہ ولیمے کے لیے لائٹ بلو کلر کی میکسی دیکھ رہی تھی جب مصطفی پیچھے سے بولا
"اپنی عمر کے حساب سے کپڑے سلیکٹ کرو۔۔ اٹھارہ سال کی کلی نا سمجھو اپنے آپ کو۔ "
"تم اگر کچھ ہیلپ نہیں کرسکتے میری تو اپنا منہ بند رکھو۔ "
وہ اسے گھورتے ہوئے بولی تو مصطفی ادھر ادھر دیکھنے لگ گیا۔۔ وہ سب کے سامنے مزید عزت افزائی نہیں کروانا چاہتا تھا۔۔
کچھ دیر ادھر ادھر پھرنے کے بعد مصطفی کے ذہن میں ایک خیال آیا۔
اسے بہت اچھے سے پتا تھا کہ بریرہ کو مہرون کلر بہت برا لگتا ہے۔
یاد آتے ہی اس کہ چہرے پر شیطانی مسکراہٹ آئی اور وہ ڈیزائنر سے سامنے پڑا مہرون رنگ کا لہنگا دکھانے کو بولا
"مجھے یہ کلر نہیں پسند مصطفی میں یہ نہیں پہنوں گی۔ "
وہ اسے منع کرتی ہوئی بولی
"لیکن مجھے یہی اچھا لگ رہا ہے اور تم یہی پہنو گی۔ "
وہ سنجیدگی سے بولا
"اچھا تمہیں لگ رہا ہے تو میں کیوں پہنوں؟ "
"کیوں کہ صرف تمہاری ہی نہیں میری بھی شادی ہورہی ہے۔ "
وہ اس کا جملہ اسی کو واپس کرتے ہوئے بولا
شاپ کیپر انہیں لہنگا دکھا رہا تھا جو کہ پورا کام سے بھرا ہوا تھا۔ بلاشبہ وہ بہت خوبصورت لہنگا تھا۔
"یہ بہت ہیوی ہے مصطفی میں نہیں پہنوں گی۔ "
وہ پھر بولی
"میں نے تم سے پوچھا نہیں ہے۔۔۔ میں نے کہہ دیا ہے تو تم یہی پہنو گی۔ "
وہ زرا اونچی آواز میں بولا تو بریرہ کو خاموش ہونا پڑا۔
ڈریس کا آرڈر دے کر وہ دونوں وہاں سے باہر آگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"گھر چلو اب مجھے اور کچھ نہیں لینا۔ "
مصطفی کو ایک اور بوتیک کے سامنے رکتا دیکھ کر وہ بولی
"کیوں ولیمے کا ڈریس نہیں لینا کیا؟ میرا خیال میں تو پرپل کلر بہت اچھا لگے گا ولیمے پر۔ "
وہ چہرے پر دل جلا دینے والی مسکراہٹ سجاتے ہوئے بولا
"رہنے دو تم۔۔ خود پہن لینا پرپل میں تو اب تمہارے ساتھ کبھی شاپنگ پر نہیں آؤں گی۔ "
وہ غصے سے کہتی آگے بڑھ گئی جبکہ وہ مسکراہٹ دباتا پیچھے آگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سانول یار 😍❤. (COMPLETE)Where stories live. Discover now