Episode 10

1.4K 130 4
                                    


اگلے دن باقی سب مہمان بھی پہنچ چکے تھے۔ دونوں پھپھو ان کے بچے تقریباً سب ہی پہنچ گئے تھے۔ فنکشن میں بس دو دن رہ گئے تھے اس لیے زور و شور سے تیاریاں جاری تھیں۔
مصطفی گھر میں داخل ہوا تو ساری خواتین لیونگ میں سامان پھیلائے بیٹھی تھیں جبکہ بریرہ سب کہ درمیان کوفت سے بیٹھی ہوئی تھی۔ کبھی کوئی اسے کام والا دوپٹہ اوڑھاتا کبھی کوئی جیولری پہنا کر چیک کرنے لگتا۔ وہ کتنی دیر سے بے زار بیٹھی تھی۔
مصطفی نے بریرہ کے تاثرات دیکھے تو مسکراہٹ دباتا وہیں سب کہ درمیان بیٹھ گیا۔
"

آؤ آؤ مصطفی تم بھی اپنی منگیتر کے لیے کی گئی شاپنگ دیکھ لو۔ "
ان کی چھوٹی پھپھو خوشگواری سے بولیں
"آپ جتنی بھی چیزیں لے آئیں اس کے لیے پھپھو خوبصورت تو پھر بھی زیادہ میں نے ہی لگنا ہے "
وہ کن اکھیوں سے بریرہ کو دیکھتا ہوا بولا
"اب ظاہر سی بات ہے عمروں کا بھی تو فرق پڑتا ہے نا۔"
یہ ان کی بڑی پھپھو نے کہا تھا جو کہ شاید اس رشتے سے زرا خوش نہیں تھیں۔ ان کی بات سن کر مصطفی دلکش انداز میں مسکرایا وہ یہی چاہتا تھا۔
"ایسی بات نہیں ہے شائستہ بریرہ بھی کہاں بڑی لگتی ہے اتنی نفیس سی تو ہے۔"
مصطفی کی امی ان کی بات کا برا مناتے ہوئے بولی
"میں تو بس ویسے ہی کہہ رہی تھی بھابھی۔۔ اب ظاہر سی بات ہے جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے شکل پر وہ رونق تو نہیں رہتی نا۔ اب میری مناہل کو ہی دیکھ لیں ماشااللہ کتنا روشن اور خوبصورت چہرہ ہے۔ کم عمر جو ہے ابھی۔ "
وہ اپنے انداز میں وضاحت دیتے ہوئے بولیں۔ اپنی اکلوتی بیٹی کی خوبصورتی کا حوالہ دینا انہوں نے فرض سمجھا تھا۔
اب کی بار ان کی بات کا جواب کسی نے نہیں دیا تھا۔
"جاؤ بریرہ تم روم میں جاؤ۔ رات میں ڈھولک بھی ہے اس لیے ابھی آرام کرو۔"
نائلہ بیگم بریرہ سے بولیں تو وہ غنیمت جان وہاں سے اٹھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بریرہ کے اٹھنے کے بعد مصطفی بھی اٹھ گیا اور اس کے پیچھے اس کے کمرے میں آگیا۔
"پھپھو کی باتوں کا برا مت منانا تمہیں تو پتا ہے ان کی عادت ہے اس طرح کی باتیں کرنے کی۔"
وہ بڑے دوستانہ انداز میں کہتا اس کے بیڈ پر بیٹھ گیا۔
"مجھے پتا ہے میں تم سے زیادہ ان کو جانتی ہوں۔"
وہ کپڑے ہینگ کرتے ہوئے بولی
"ویسے وہ کچھ غلط بھی نہیں کہہ رہی تھیں۔ اب شکل سے عمروں کا تو پتا لگ ہی جاتا ہے نا۔"
وہ پھر طنز کرنے سے باز نہیں آیا تھا۔ بریرہ جواب میں کچھ بھی نا بولی
"یار منگیتر تم اتنا سڑی ہوئی کیوں رہتی ہو؟ "
دونوں بازوں اپنے سر کے نیچے رکھے وہ اس کے بیڈ پر نیم دراز ہوتا ہوا بولا
"اور تم آج کل اتنا فری کیوں ہورہے ہو؟ نکلو باہر یہاں سے؟ "
وہ بھی اسی کہ انداز میں بولی
اس کی بات پر مصطفی بیڈ سے اٹھا اور آہستگی سے اس تک پہنچا۔
"اب تو مجھے تم سے فری ہونے کا پرمٹ مل گیا ہے۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولا
"ابھی صرف بات پکی ہوئی ہے سمجھے۔ زیادہ اوور ہونے کی کوشش مت کرو۔ "
وہ غصے سے بولی
"بکنگ تو ہو ہی گئی ہے۔ جلد رجسٹری بھی ہو جائے گی اور پھر قبضہ بھی مل جائے گا۔"
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا
"میں انسان ہوں مسٹر کوئی پلاٹ نہیں ہوں۔"
وہ سر جھٹکتے ہوئے بولی
"ایک ہی بات ہے۔"
وہ اس کے بال کان کے پیچھے کرتے ہوئے بولا تو بریرہ نے اسے دور دھکیلا۔
"تمیز سے دور رہ کر کھڑے ہوا کرو۔ "
وہ غصے سے بولی۔۔ اس سے پہلے مصطفی اسے کوئی جواب دیتا۔ بریرہ کے کمرے کا دروازہ کھلا اور ثانیہ اندر داخل ہوئی۔
"اوہ سوری شاید میں غلط ٹائم پر آ گئی یہاں تو سیکرٹ ملاقاتیں چل رہی ہیں۔"
وہ طنز کرتے ہوئے بولی
"ایسی بات نہیں ہے ثانیہ تم آؤ بیٹھو۔"
بریرہ شرمندہ ہوتے ہوئے بولی
"تم شاید نہیں بالکل غلط ٹائم پر آگئی ہو۔۔ بحر حال آئیندہ سے خیال کرنا۔ "
مصطفی سنجیدگی سے بولا تو بریرہ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ ثانیہ ان کی بڑی پھپھو کی بیٹی تھی اور مصطفی میں بے حد انٹرسٹڈ بھی تھی۔ بریرہ اور باقی سب یہ بات کافی حد تک جانتے تھے کہ ان دونوں کی منگنی کا سب سے زیادہ صدمہ ہی ثانیہ کو ہوا ہے۔
"اب گھور کیا رہی ہو؟ جاؤ بھی۔۔"
مصطفی اسے وہی کھڑا دیکھ کر بولا تو وہ پیر پٹختی ہوئی وہاں سے واک آؤٹ کر گئی۔
"کیا بد تمیزی ہے مصطفی؟ تم میں زرا بھی مینرز نہیں ہیں؟"
اس کے جاتے ہی بریرہ غصے سے بولی
"مینرز تو اس میں نہیں ہیں۔ اسے پتا ہونا چاہیے کہ نئے نویلے منگنی شدگان آپس میں انڈرسٹینڈنگ پیدا کر رہے ہیں اب انہیں ڈسٹرب کرنا اچھی بات تو نہیں ہے نا۔ "
وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا
"نہایت گھٹیا ہو تم پتا نہیں اب وہ باہر جاکر کیا کیا باتیں بناتی رہے گی "
بریرہ پریشانی سے بولی
"جیسا بھی ہوں اب تو تمہارا ہی ہوں۔۔"
وہ اسے آنکھ مارتے ہوئے بولا تو وہ بغیر کچھ کہے کمرے سے باہر چلی گئی۔ وہ باتوں میں اس کا مقابلہ کبھی نہیں کرسکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تم مانو ہمارا احسان کہ لڑکی نے ہاں کردی۔۔"
رات میں ڈھولک کا انتظام گھر کہ لان میں ہی کیا گیا تھا۔ مصطفی بلیک کلر کے شلوار قمیض میں ملبوس تھا جبکہ بریرہ نے سبز رنگ کا فراک پہن رکھا تھا۔ وہ دونوں لان میں بنے سٹیج پر بیٹھے تھے جبکہ باقی سب کزنز ان کے سامنے نیچے بیٹھے ہوئے تھے اور ڈھولک درمیان میں پڑی تھی۔
"دیکھو زرا کتنی غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں یہ سب۔۔۔ احسان مند تو سب کو میرا ہونا چاہیے کہ جس کو کسی نے منہ نہیں لگایا اس سے میں رشتہ جوڑ رہا ہوں۔۔ "
سب گانوں میں مصروف تھے ان کی طرف کوئی بھی متوجہ نہیں تھا۔ مصطفی جھک کر بریرہ کے کان میں بولا تو بریرہ نے اسے گھور کر دیکھا۔
"جیسی تمہاری حرکتیں ہیں تمہیں کوئی ٹافی نہ دے شکر کرو میرے ابا نے تمہیں رشتہ دے دیا۔ "
وہ بھی اسی کہ انداز میں بولی تو مصطفی کے چہرے پر جاندار مسکراہٹ در آئی۔
"خیر اب تو تم بھی غلط بیانی سے کام لے رہی ہو۔۔ یہ تو تم بھی اچھے سے جانتی ہو کہ مجھے رشتہ دینے کے لیے بڑے بڑے لوگ تیار تھے۔۔ "
وہ مسکراتے ہوئے بولا تو بریرہ بس اسے گھور کر رہ گئی۔
"ایسی قاتل نگاہوں سے گھور گھور کر بچے کی جان لو گی کیا؟ "
اسے اپنی طرف گھورتا پا کر وہ بولا
"تھوڑی دیر خاموش ہو کر بیٹھ جاؤ اب۔"
وہ غصے سے بولی
"جو حکم آپ کا۔ بڑوں کی بات ماننی چاہیے۔۔۔ اب نہیں بولوں گا میں۔ "
وہ پھر اسے اس کی بڑی عمر کا طنز کرکہ خاموش ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کافی دیر تک وہ خاموشی سے بیٹھا رہا لیکن پھر اس سے مزید برداشت نہ ہوا تو ثانیہ کو آواز دینے لگا جو مسلسل سٹیج کے آس پاس ہی بھٹک رہی تھی۔
"کیا بات ہے؟ "
وہ سنجیدگی سے بولی۔ مصطفی جانتا تھا وہ صبح والی بات کو دل سے لگائے بیٹھی ہے۔
"اتنا غصہ کیوں کر رہی ہو؟ میں تو بس یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ تم کتنی پیاری لگ رہی ہو۔ "
وہ آرام سے بولا تو بریرہ نے حیرت سے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
"شکر ہے تمہیں بھی اپنی منگیتر کے علاوہ اور کوئی نظر آیا۔"
وہ بھی بریرہ کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے بولی
"وہ کیا ہے نا یار یہ مجھے باتوں میں ہی ایسا الجھاتی ہے کہ میں کسی کام کا ہی نہیں رہتا۔ اب دیکھو نا صبح تمہارے آتے ہی مجھے کمرے میں لے گئی اور تمہارے خلاف میرے کان بھرنے شروع کردیا اور میں بلاوجہ ہی تم پر بگڑ بیٹھا۔ "
وہ بڑے سکون سے کہہ رہا تھا جبکہ بریرہ کا صدمے کے مارے برا حال تھا۔
"مصطفی تم کیا کہہ رہے ہو۔۔۔ ؟"
وہ غصے سے بولی لیکن وہ اس کی بات سنی ان سنی کرتا سٹیج سے اٹھ گیا اور ثانیہ کے ساتھ چلا گیا جبکہ وہ آنکھوں میں نمی لیے اسے دیکھتی رہ گئی۔
"تمہیں کس نے کہا تھا مصطفی بریرہ سے رشتہ کرو۔ اتنی حسین لڑکیاں تمہارے اردگرد تھیں ان میں سے کوئی چن لیتے۔۔ "
سٹیج سے نیچے اترتے ہی ثانیہ بولی
"تمہیں کیوں اتنی فکر ہے؟ میں جس سے چاہے رشتہ جوڑوں۔۔"
اس کی بات پر مصطفی نے اسے سنجیدگی سے کہا تو وہ اسے حیرت سے دیکھ کر رہ گئی۔
مصطفی صرف بریرہ کو دکھ دینا چاہتا تھا ورنہ ثانیہ میں اسے کوئی انٹرسٹ نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ پھر سٹیج پر آگیا تھا۔ کھانا لگ چکا تھا اور سب کھانے میں مصروف تھے۔ وہ سٹیج پر آکر بیٹھا تو کچھ دیر بعد چھوٹی پھپھو بھی ان کے ساتھ آکر بیٹھ گئیں اور بریرہ کو کھانا کھلانے لگیں۔
"میں سوتیلا ہوں کیا پھپھو؟ "
مصطفی سے جب بریرہ کے ساتھ ان کی محبت برداشت نا ہوئی تو بولا
"تم دلہے ہو مصطفی خود بھی کھا سکتے ہو۔۔ دلہنوں کو خود کھلانا پڑتا ہے۔ "
وہ اسے جھڑکتے ہوئے بولیں تو وہ منہ بناتے ہوئے خاموش ہوگیا اور خود کھانا کھانے لگ گیا۔
"بس پھپھو اور کھانے کا دل نہیں کر رہا۔ "
کچھ دیر بریرہ بولی
"چپ کر کہ کھاتی رہو۔ "
انہوں نے بریرہ کو بھی بھڑکا تو مصطفی کو سکون کا احساس ہوا۔
"دیکھو بیا تم نے یہاں کسی کی بھی بات کو دل سے نہیں لگانا۔ میں جانتی ہوں یہاں تقریبا ہر کوئی تمہاری عمر پر طنز کر رہا ہے لیکن بیٹا یہ ان سب لوگوں کا کام ہے تم ان کی باتوں کو اگنور کرو۔۔ یوں سوچ کر کر پریشان مت ہو۔"
وہ اس کی پریشان صورت دیکھ کر بولیں
"اور تم مصطفی۔۔ تم نے اب لوگوں کا منہ بند کروانا ہے اور اگر کبھی مجھے شکایت ملی کہ تم نے بریرہ کو اس کی عمر کا طعنہ دیا ہے تو میں تمہاری ایسی پھینٹی لگاؤں گی کہ یاد کروگے۔ "
اب وہ اپنا رخ مصطفی کی طرف کرتی ہوئی بولی جسے ان کی بات سن کر زور کا پھندہ لگا۔ وہ بہت شدت سے کہنا چاہتا تھا اسی لیے تو شادی کی ہے اس سے پھپھو لیکن ان کی پھینٹی والی دھمکی سے وہ حقیقتاً ڈرتا تھا۔
"کیسی باتیں کر رہی ہیں پھپھو۔ اس لیے تھوڑی نا شادی کر رہا ہوں اس سے کہ طنز کروں اس پر۔"
وہ خفگی سے بولا
"اگر تمہیں یہ زرا بھی تنگ کرے بریرہ تو تم مجھے بتانا اس کی شامت تو میں لے کر آوں گی پھر۔ "
وہ اسے آنکھیں دکھاتی بولیں
"پھپھو انکل آپ کی امریکہ کی ٹکٹ کب بھیج رہے ہیں؟"
مصطفی نے معصومیت سے پوچھا
"فکر نہیں کرو تمہاری شادی کروا کر ہی جاؤں گی اس بار۔ "
وہ فوراََ بولیں
"تم کیوں اتنی خاموش بیٹھی ہو؟ کوئی بات کرلو۔"
وہ بریرہ کو خاموش بیٹھا دیکھ کر بولیں
"صدمہ لگ گیا بچی کو۔"
مصطفی بریرہ کہ کچھ بولنے سے پہلے ہی بولا
"کیسا صدمہ؟ "
انہوں نے نا سمجھی سے پوچھا
"اب اتنا حسین خوبرو نوجوان آپ کا منگیتر بن جائے تو صدمہ لگنا تو بنتا ہے نا۔"
وہ فخر سے بولا تو انہوں نے اس کے سر پر چپت رسید کی۔
"انسان بنو تم۔"
وہ اسے گھور کر بولیں
"چھوڑیں اسے پھپھو ائے میں آپ کو راز کی بات بتاؤں۔۔ "
وہ انکا ہاتھ پکڑ کر انہیں سٹیج سے نیچے لایا اور ان کہ کندھے پر بازو رکھتا ہوا بولا
"مجھے لگتا ہے انکل کا افئیر چل رہا ہے کسی کے ساتھ۔۔ آپ ان پر نظر رکھا کریں۔۔ "
اب مصطفی شروع ہوچکا تھا۔ اب وہ تھا اور اس کی عجیب و غریب باتیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کافی دیر تک فنکشن ختم ہوا تو بریرہ کی جان چھوٹی۔ وہ فوراََ سے پہلے اپنے کمرے میں آئی اور بیڈ پر بیٹھتے ہی اس کہ کب سے رکے آنسو بحال ہوگئے۔
آج مصطفی نے حد ہی کردی تھی وہ جتنی دیر بھی وہاں بیٹھی تھی وہ اتنی ہی دیر مسلسل اس پر طنز کرتا رہا تھا۔ وہ جانتی تھی اس کا قصور ہے وہ جانتی تھی اس نے خودغرضی میں یہ فیصلہ لیا ہے لیکن اس کی اتنی بڑی سزا تو اسے نہیں ملنے چاہیے تھی کہ ہر پل ہر لمحہ اسے طنز کیا جائے۔
صرف مصطفی نے ہی نہیں وہاں موجود تقریباً تمام مہمانوں کی زبان پر بھی اس کی بڑی عمر کے لیے طنز ہی تھے لیکن اسے ان سب کی باتیں ویسا دکھ نہیں لگا تھا جیسا کہ مصطفی کی باتوں سے لگا تھا۔
وہ سب کے طعنے برداشت کرسکتی تھی لیکن مصطفی کہ نہیں کر پارہی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ اس سب کی عادی نہیں تھی بلکہ وہ تو بچپن سے مصطفی سے طعنے سننے کی عادی تھی لیکن اب نجانے کیوں اس سے یہ برداشت نہیں ہورہا تھا ۔ شاید وقت، رشتے اور حالات کہ ساتھ ساتھ اس کے جذبات بھی بدل رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سانول یار 😍❤. (COMPLETE)Where stories live. Discover now