Episode 16

1.5K 130 4
                                    

وہ دادا جان کہ کمرے سے باہر آیا تو اسے اپنی امی کی آواز سنائی دی۔
"مل گیا سکون تمہیں یہی سب کرنے کے لیے شادی کی تھی تم نے؟ "
وہ غصے سے کہہ رہی تھیں۔
"میں نے کچھ بھی نہیں کہا بریرہ سے امی۔۔ وہ پتا نہیں کس بات کا اتنا واویلا کرکہ بیٹھ گئی ہے۔ "
وہ اکتاہٹ سے بولا سے بولا تو پیچھے چچی جان بھی کھڑی اسے ملامت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔
"ہاں تم نے اسے کچھ نہیں کہا وہی پاگل ہے جو اتنا رو رہی ہے۔ "
وہ غصے سے بولیں
"آپ سب کو اس کی بات پر یقین ہے تو اسی سے پوچھیں کیوں اتنے ٹسوے بہا رہی تھی میری بات کا تو کسی کو یقین ہی نہیں۔ "
جھنجھلاہٹ سے کہتا وہ وہاں سے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے کمرے میں آتے ہی اپنا موبائل نکالا اور بریرہ کو کال کی۔ پہلی دو بار تو اس نے نہیں اٹھائی لیکن تیسری بار اس نے اٹھا ہی لی۔
"یہ کیا تماشہ تم لگا کہ بیٹھ گئی ہو؟ میں نے کونسا توپ کا گولا مار دیا تھا تمہیں؟ "
وہ غصے سے بولا
"جب سے شادی ہوئی ہے تم روز مجھ پر طنز کرتے ہو۔ "
"تو تم آگے سے کونسا خاموش رہ جاتی ہو؟ پورے پورے بدلے لے تو لیتی ہو۔ کیا ضرورت تھی یوں سب کہ سامنے تماشہ لگانے کی؟ "
"میں نے کسی سے کچھ نہیں کہا۔۔۔ وہ تو کمرے سے باہر نکل رہی تھی تو دادا جان نے مجھے روتے ہوئے دیکھ لیا۔ "
"اور تم اتنی معصوم بنی کہ موقع ملتے ہی دو چار باتیں اپنے سے لگا کر بھی بتا دیں۔ "
"میں نے کچھ بھی اپنے سے نہیں لگایا وہی سب بتایا ہے جو تم مجھے کہتے پھرتے ہو۔ "
"اتنی تم معصوم نا بنا کرو بریرہ۔۔ پانچ سال بڑی ہو مجھ سے چھوٹی نہیں ہو جو تمہارے ایسے نخرے میں برداشت کروں۔ "
وہ غصے سے بولا
"اب تم پھر بدتمیزی کر رہے ہو۔ "
وہ بھی اسی کہ انداز میں بولی
"جاؤ یہ بھی بتا دو ابا کو۔ اس بات کا بھی ڈنڈورا پیٹ دو کہ میں تمہاری شان میں گستاخی کر رہا ہوں۔ "
وہ دانت پیستے ہوئے بولا
"تم سے تو بات ہی کرنا فضول ہے۔ "
مصطفی کی بات کا جواب دیے بغیر اس نے کال بند کردی تو مصطفی غصے سے موبائل کو گھورتا رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کافی دیر تک کمرے میں بیٹھا رہا۔ ناراضگی کے اظہار کے طور پر وہ ڈنر کرنے کے لیے باہر بھی نہیں نکلا۔ اسے پورا یقین تھا کہ دادی ابھی بریرہ کے ہاتھ کھانا بھیج دیں گی لیکن جب رات کے گیارہ بج گئے تو اس کی یہ امید بھی دم توڑ گئی۔
پہلے اس کا دل کیا کہ خود ہی جاکر لے آئے لیکن پھر آنا کہ ہاتھوں مجبور ہوکر بیٹھا رہا۔ پھر اس نے سوچا زینب سے کہے لیکن وہ بھی جلدی سو جایا کرتی تھی اس لیے اسے تنگ کرنا اس نے مناسب نہیں سمجھا۔
پھر اسے بریرہ کا خیال آیا لیکن اس سے بھی ناراضگی چل رہی تھی لیکن بھوک سے برا حال بھی ہورہا تھا اس لیے اس نے دل پر پتھر رکھتے ہوئے بریرہ کو میسج کیا۔
"سیدھا جہنم میں جاؤ گی۔ "
"کیوں؟ "
بریرہ جو سونے کی تیاری کر رہی تھی مصطفی کا عجیب و غریب میسج پڑھ کر حیران ہوئی۔
"شوہر یہاں بھوکا ہے اور خود تم اتنا کھانا ٹھوس کر آرام سے سونے کی کر رہی ہو۔ "
"تو شوہر کو کس نے کہا ہے بھوک ہڑتال کرے؟ کچن میں جائے اور نکال کر کھا لے کھانا۔ "
"پتا نہیں وہ کونسی بیویاں ہوتی ہیں جو شوہر سے پہلے کھانا نہیں کھاتیں۔ "
"ہاں واقعی پتا نہیں کہاں ہوتی ہیں بیویاں ایسی۔۔ میں نے تو کبھی نہیں دیکھیں۔ "
"چلو ٹر ٹر بند کرو۔ کھانا گرم کرکہ لا دو مجھے۔ "
سوری۔۔  ایسا سوچنا بھی مت کہ میں تمہارے لئے کھانا لاؤں گی۔ "
"بیا پلیز لے آؤ نا۔ "
اب وہ منت پر آیا تھا۔
"بالکل نہیں۔۔ "
اس کہ بعد بھی وہ کافی دیر اسے میسج کرتا رہا لیکن بریرہ نے دوبارہ جواب نہیں دیا۔
کچھ دیر بعد اس کہ کمرے کا دروازہ بجا تو وہ حیران ہوا۔۔  ساتھ ہی چہرے پر مسکراہٹ بھی آئی کیونکہ وہ جانتا تھا بریرہ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔
"لڑائی آپ دونوں کی ہوتی ہے ٹینشن مجھے پڑ جاتی ہے۔۔۔ آدھی رات کو آپ کی بیگم نے مجھے ڈیلویری بوائے بنا کر آپ کے لیے کھانا بھیجا ہے۔ "
جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا زینب نان سٹاپ بولتی کھانے کا ٹرے اسے پکڑاتی واپس چلی گئی۔ جبکہ مصطفی بریرہ کی حرکت پر مسکرا کر رہ گیا۔۔ وہ خود نہیں آئی تھی لیکن اس کا خیال ضرور رکھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانے کے بعد جب مصطفی سونے کے لیے لیٹا تو اسے کچھ ادھورا ادھورا سا لگا۔۔۔ ان دو ہفتوں میں اسے کافی حد تک بریرہ کی عادت پڑ چکی تھی۔ کروٹ لیتے ہوئے وہ کافی دیر تک بریرہ کی سائڈ کو گھورتا رہا۔۔ نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ نا چاہتے ہوئے بھی وہ بار بار بریرہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ نا چاہتے ہوئے بھی اسے بریرہ کی غیر موجودگی کا احساس ہوا رہا تھا۔ نا چاہتے ہوئے بھی اسے بریرہ کہ بغیر اپنا کمرہ ادھورا سا لگ رہا تھا۔ کافی دیر اس کہ بارے میں سوچنے کے بعد اس نے پھر بریرہ کو میسج کیا۔
"تھینک یو۔۔۔ میرا خیال کرنے کے لیے۔۔ "
ساتھ میں زبان چڑانے والی ایموجی بھی بھیجی۔
"زیادہ خوش نا ہو۔۔ کھانا باہر پڑا خراب ہوجاتا اس لیے میں نے سوچا خراب کرنے سے بہتر ہے کسی بھوکے کو کھلا دوں۔ "
اس کہ جواب پر مصطفی کا جانداز قہقہ لگا۔۔ پھر وہ موبائل رکھتے ہوئے نیند کی وادی میں کھو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی آنکھوں سے بھی نیند کوسوں دور تھی۔ پہلے اس کا دل چاہا مصطفی سے بدلا لے اور اسے کھانا نا بھیجے لیکن پھر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ بھوک کا کتنا کچا ہے اس لیے زینب کے ہاتھ کھانا بھجوا دیا۔
در حقیقت اسے بھی مصطفی کی کمی محسوس ہورہی تھی۔۔ اس وقت وہ دونوں یقیناً کسی نا کسی بات پر بحث کر رہے ہوتے تھے۔ کبھی بریرہ اس سے ناراض ہوکر سوجاتی تھی کبھی مصطفی اس سے ناراض ہوجایا کرتا تھا۔۔
اس عرصے میں اسے بھی مصطفی کی عادت ہوگئی تھی اور اب وہ تنہائی میں نا چاہتے ہوئے بھی اس کہ بارے میں سوچ رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ صبح اٹھا تو گیارہ بج چکے تھے۔ اسے روز صبح آٹھ بجے بریرہ ہی اٹھاتی تھی اور اب اسے اس کی اتنی عادت ہوچکی تھی کہ وہ الارم بھی نہیں لگاتا تھا ۔
بیڈ سے اٹھتے ہوئے اس کی نظر سامنے ڈریسنگ پر پڑی جہاں بریرہ کی ساری چیزیں پڑی ہوئی تھیں۔ مصطفی کو اٹھانے کے بعد وہ تیار ہوتی تھی اور مصطفی اس پر طنز کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ آج اپنا کمرہ خالی خالی سا دیکھ کر اسے ہر چیز میں بریرہ کی کمی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ اپنی تمام تر سوچوں کو جھٹکتا ہوا نیچے چلا آیا جہاں سب مرد اپنے اپنے کاموں پر جا چکے تھے جبکہ سب خواتین اپنے کاموں میں مصروف تھیں لیکن بریرہ اسے کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
اور تو اور اس کہ دو تین دفع کہنے پر بھی کسی نے اسے ناشتہ نہیں دیا تھا اس لیے غصے سے اٹھ کر یونیورسٹی آگیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونی پہنچتے ہی اس کی ملاقات عمر سے ہوئی جو کہ کافی دیر سے اس کا انتظار کر رہا تھا۔
"اتنی دیر کیوں لگا دی آج؟"
عمر نے اس کہ قریب پہنچتے ہی سوال کیا لیکن مصطفی نے کوئی جواب دینے کے بجائے اسے گھور کر دیکھا۔
"بھابھی سے لڑ کہ آرہا ہے کیا؟"
عمر نے اندازہ لگایا۔
"اس سے تو روز صبح لڑ کر ہی آتا ہوں۔ "
وہ اکتاہٹ سے بولا
"تو پھر آج کیا ہوا ہے؟"
"آج لڑائی نہیں ہوئی "
"تو اس میں پریشانی والی کیا بات ہے؟"
عمر حیران ہوا۔
"یہی تو پریشانی والی بات ہے۔۔۔ روز لڑ کر آتا ہوں آج نہیں ہوئی لڑائی کیونکہ وہ کمرے میں تھی ہی نہیں۔۔ "
وہ جھنجھلاتے ہوئے بولا
"کیا مطلب ہے یار میری سمجھ سے باہر ہے۔۔ "
عمر نا سمجھی سے بولا
"تو نہیں سمجھے گا۔۔ تیری شادی نہیں ہوئی نا۔ جب ہوگی تب آ جائے گا سب سمجھ۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کو تھکا ہارا وہ گھر آیا تو سب خواتین چائے پی رہی تھیں۔ وہ بھی وہیں صوفے پر بیٹھ گیا اور سامنے بیٹھی بریرہ سے بولا
"ایک کپ چائے مجھے بھی بنا دو۔ "
اس کہ کہنے کی دیر تھی کہ بریرہ نے اسے گھور کر دیکھا۔
کیا؟ گھور کیوں رہی ہو چائے مانگی ہے جان تو نہیں مانگ لی۔"
اسے اپنی طرف گھورتا پا کر وہ بولا
"ملازمہ نہیں ہوں تمہاری خود بنا لو۔۔ "
وہ غصے سے بولی
"ملازمہ نہیں ہو لیکن بیوی ضرور ہو۔۔۔ میرے کام تم پر فرض ہیں۔ "
وہ جتاتے ہوئے بولا
"بڑی جلدی تمہیں خیال آیا ہے۔۔۔ "
وہ طنز کرتی ہوئی بولی
"تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے یار بریرہ۔۔۔ کیوں ہر وقت زچ کرتی رہتی ہو مجھے؟ "
وہ جھنجھلاتے ہوئے بولا
"اتنا ہی مسئلہ لگتی ہوں تو نا بات کیا کرو۔۔ چائے بھی جاکر خود ہی بنا لو۔۔۔ "
"واقعی تم سے بات کر کہ تو میں نے سر درد میں مزید اضافہ کرلیا ہے۔۔ "
وہ اکتاہٹ سے کہتا وہاں سے اٹھ کر کمرے میں چلا گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو دن ہوچلے تھے نا بریرہ کمرے میں آرہی تھی اور نہ ہی اس سے سیدھے طریقے سے بات کر رہی تھی۔ وہ کوئی میسج بھی کرتا تو اس کا جواب نا دیتی اور کال کرنے پر بھی جلی کٹی سنا کر بند کردیتی۔۔۔ مصطفی ان سب باتوں سے تنگ آگیا تھا دوسرا روز آفس جانے سے بھی اس کی روٹین بہت چینج ہوگئی تھی اور پھر اوپر سے ایگزامز کی تیاری نے اسے اور بھی پاگل کردیا تھا۔
آج بھی آفس میں اس کا سر شدید درد کر رہا تھا اسی وجہ سے وہ دوپہر میں ہی واپس آ گیا تھا۔ گھر آنے پر اسے بریرہ بھی کہیں نظر نہیں آرہی تھی جس کی وجہ سے وہ مزید جھنجھلاہٹ کا شکار ہورہا تھا۔۔
اسے اپنے خالی کمرے سے وحشت ہورہی تھی۔۔۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی اسے بریرہ کو دیکھنے کی عادت ہوچکی تھی۔۔ رات کو سونے سے پہلے اس سے لڑنے کی عادت ہوچکی تھی۔۔ رات دیر سے اس کہ ہاتھ کی بنی کافی پینے کی عادت ہوگئی تھی۔۔ صبح اسی کہ نکالے ہوئے کپڑے پہن کر اور اسی کہ ہاتھ کا بنا ناشتہ کھا کر جانے کا وہ عادی ہوگیا تھا۔۔ اب اس کی غیرموجودگی سے وہ خود کو بے چین محسوس کر رہا تھا۔
گھر آنے کے بعد وہ کچھ دیر سر درد کے باعث لیٹا رہا پھر جب اس کہ برداشت کی حد ختم ہوگئی تو وہ بریرہ کے کمرے میں چلا گیا۔۔
دوپہر کا وقت تھا اس وقت سب ہی کھانا کھا کر اپنے اپنے کمروں میں آرام کر رہے تھے۔۔
اس نے آہستگی سے بریرہ کے کمرے کا دروازہ کھولا تو وہ بھی آرام سے رضائی منہ تک تانے سوئی ہوئی تھی۔۔ کچھ دیر مصطفی اسے دیکھتا رہا پھر بیڈ کی دوسری سائڈ پر جاکر لیٹ گیا۔ بریرہ جس کی ابھی کچھ دیر پہلے ہی آنکھ لگی تھی اپنے قریب جنبش محسوس کرکہ اس کی آنکھیں پٹ سے کھلیں اور اپنی دوسری طرف لیٹے مصطفی کو دیکھ کر اس نے حیرت سے سوال کیا۔۔
"تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ "
"میرے سر میں درد ہورہا تھا۔۔ "
وہ معصومیت سے بولا
"تو میں کیا کروں؟ میں ڈاکٹر تو نہیں ہوں۔۔ چلو نکلو باہر یہاں سے۔۔ "
وہ غصے سے بولی
"میں تو یہاں سے تب تک نہیں جانے والا جب تک تم مجھے چائے نہیں بنا کر دو گی۔۔ "
وہ ضدی لہجے میں بولا
"فضول باتیں نہ کرو۔۔ میں کوئی کام نہیں کر رہی تمہارا ۔۔ جاؤ یہاں سے۔۔ "
"میں کہیں نہیں جارہا۔۔۔ بلکہ اگر تم نے میرا کام نہ کیا تو آج رات کو میں بھی یہاں سو جاؤں گا۔۔ اب اگر تم چاہتی ہو کہ میں یہیں رہوں تو بالکل مت بناؤ چائے۔۔ "
وہ تفصیل سے کہتے ہوئے آنکھوں پر بازو رکھ کر لیٹ گیا تو بریرہ کو مجبوراً اٹھنا پڑا۔۔ مصطفی سے کوئی بعید نہ تھی کہ جو اس نے کہا تھا اس پر عمل بھی کر گزرتا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کمرے میں واپس آئی تو مصطفی ہنوز اسی پوزیشن میں لیٹا ہوا تھا۔۔
"پکڑو یہ چائے اور پی کر نکلو یہاں سے۔۔ "
"چلا جاتا ہوں۔۔۔ اتنا غصہ کیوں کرتی ہو؟ پہلے ہی عمر میں مجھ سے بڑی ہو غصہ کر کر کہ مزید بوڑھی لگنے لگوگی۔  "
وہ اسے چھیڑتے ہوئے بولا
"ہوگیا تمہارا؟ تو چلو اب کھاؤ یہ میڈیسن اور جاؤ۔
وہ اس کہ ہاتھ میں سر درد کی گولی پکڑاتے ہوئے بولی اور خود دوبارہ دوسری طرف آکر بیٹھ گئی۔
مصطفی نے میڈیسن لینے کے بعد چائے پی اور بریرہ کی گود میں سر رکھ کر آنکھیں موند کر لیٹ گیا۔
"کیا بدتمیزی ہے؟ چائے پی لی ہے تو جاؤ اب۔"
مصطفی کی حرکت پر بریرہ نہایت غصے سے بولی
"چلا جاتا ہوں بس تھوڑی دیر سر دبا دو۔۔ بہت شدید درد ہے۔  "
وہ سنجیدگی سے بولا
"ہرگز نہیں۔۔ نکلو یہاں سے۔۔ "
وہ اس کا سر اپنے گھٹنے سے ہٹاتے ہوئے بولی
"ہر وقت بحث نہ کیا کرو۔۔۔ کبھی خود بھی سکون کیا کرو اور مجھے بھی کرنے دیا کرو۔۔ "
وہ سنجیدگی سے بولا
"مصطفی تم۔۔۔ "
بریرہ نے پھر کچھ کہنا چاہا لیکن وہ اس کی بات کاٹ گیا۔
"سر دباؤ۔۔۔ "
مجبوراً بریرہ کو اس کا سر دبانا پڑا۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کافی دیر اس کا سر دباتی رہی لیکن وہ کچھ ہی دیر میں سوچکا تھا۔ بریرہ کو اس کہ ماتھے کی تپش سے محسوس ہورہا تھا کہ اسے ہلکا ہلکا بخار ہورہا ہے۔۔۔ اسی وجہ سے وہ چاہنے کے باوجود اسے نا اٹھا پائی اور وہ اسی طرح سے سویا رہا۔۔
بریرہ نے غور سے مصطفی کے چہرے کو دیکھا۔۔۔ چہرے سے وہ کتنا معصوم لگ رہا تھا۔۔ بال ماتھے ہر بکھرے ہوئے تھے۔۔ چہرے سے اس کی تھکن کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا تھا۔۔ مصطفی کو دیکھتے ہوئے بریرہ اب بھی بے یقین تھی کہ کیا واقعی یہ شخص اس کا شوہر ہے۔۔۔ جہاں بریرہ کو کوئی رشتہ نہیں ملتا تھا وہاں اسے ایسا شخص مل گیا جس کی پیچھے نجانے کتنی لڑکیاں دیوانی تھیں۔۔۔ یہ کیسا کھیل تھا قسمت کا۔۔۔ بریرہ کی نظریں مصطفی کے خوبصورت نین نقوش پر جمی تھیں۔۔ ساتھ ہی اس نے مصطفی کی خوبصورتی کا موازنہ اپنے ساتھ کیا تو اس کی آنکھوں میں نمی در آئی۔۔۔ ان دونوں میں بہت فرق تھا۔۔۔ بریرہ کبھی بھی مصطفی کے معیار پر پورا نہیں اتر سکتی تھی۔۔۔۔ نجانے ان کی زندگی کیسے گزرنے والی تھی؟ کیا مصطفی بریرہ کو کبھی دل سے قبول کرے گا۔۔۔؟
مصطفی کے رویے سے بریرہ کے لیے فلحال کچھ بھی اندازہ لگانا مشکل تھا۔ وہ کبھی اسے برف کی طرح سرد لگتا تو کبھی پانی کی طرح بہتا ہوا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سانول یار 😍❤. (COMPLETE)Where stories live. Discover now