Episode 20

1.6K 120 3
                                    

ایک ہفتہ بیت چکا تھا نا اس نے عمر سے کوئی بات کی تھی نا عمر نے اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس دن والی تلخ کلامی کے بعد سے بریرہ سے بھی اس کا بول چال بند تھا۔۔ بریرہ اب اسے خاموشی کی مار مار رہی تھی۔۔ اس کی ہر بات کہ جواب میں اب وہ خاموش ہوجایا کرتی تھی۔۔ اب وہ اس رشتے کو نبھاتے نبھاتے تھک چکی تھی۔۔ اس نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی تھی اس رشتے کو نبھانے کی لیکن مصطفی نا جانے اسے کس بات کی سزا دے رہا تھا کہ اب اس نے مصطفی سے گلہ کرنا بھی چھوڑ دیا تھا۔۔ اس دن کہ بعد سے وہ اتنی دلبرداشتہ ہوئی تھی کہ بالکل خاموش ہی ہوگئی تھی۔ مصطفی نے اس سے بات کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ اس کی کوئی بھی بات سننے کے حق میں نہیں تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"عمر کہاں غائب ہے آج کل؟ بڑے دنوں سے نظر ہی نہیں آ رہا۔۔ "
ناشتے کی میز پر سب موجود تھے جب دادا جان نے مصطفی سے سوال کیا۔۔
"شاید جاب میں مصروف ہے۔۔۔ "
عمر کے ذکر پر اس کہ ماتھے کی رگیں تن گئیں۔۔ غصے کی ایک تیز لہر اس کہ اندر دوڑی جسے بمشکل اس نے دبایا۔۔
"کیا تم دونوں کے درمیان کوئی بات ہوئی ہے؟ پہلے تو کبھی تم دونوں کو اتنے اتنے دن بغیر ملے نہیں دیکھا۔۔ "
انہوں نے پھر سے سوال کیا تو وہ پہلو بدل کر رہ گیا۔۔
"ایسی کوئی بات نہیں ہے ابا مجھے دیر ہورہی ہے میں چلتا ہوں۔۔ "
اکتاہٹ سے کہتے وہ اپنی جان چھڑوا کر کمرے میں آگیا۔۔
       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بریرہ۔۔ "
کمرے میں آتے ہی معمول کی طرح اس نے بریرہ کو آواز دی اور وہ تھوڑی دیر بعد ہی کمرے میں آگئی۔۔
"میرے نوٹس نہیں مل رہے۔۔ "
بریرہ کے سوالیہ نظروں سے دیکھنے پر وہ بولا۔۔۔ یہ ان کا روز کا معمول تھا روزانہ ہی مصطفی کو جانے سے پہلے کوئی نا کوئی چیز مل نہیں رہی ہوتی تھی اور وہ اسی طرح بریرہ کو آوازیں دیتا تھا۔۔ سب کچھ ویسا ہی تھا آج بھی اگر کچھ بدلا تھا تو وہ بریرہ کا رویہ تھا۔ وہ پہلے اس کہ اس طرح بلانے پر اسے کھری کھری سنایا کرتی تھی لیکن اب وہ جو بھی کہتا وہ آگے سے خاموش ہوجایا کرتی تھی لیکن اب مصطفی کو اس کی خاموشی اچھی نہیں لگتی تھی۔۔ وہ روز اس سے لڑنے جھگڑنے کا عادی ہوگیا تھا۔۔ اس سے لڑے بغیر مصطفی کو اپنا دن نامکمل سا لگتا تھا۔۔
وہ اپنی سوچوں میں گم تھا جب بریرہ نے اس کہ آگے نوٹس کیے اور اسے پکڑا کر واپس مڑنے لگی لیکن مصطفی نے اس سے پہلے ہی اس کی کلائی تھام لی۔۔
"مجھے تم سے بات کرنی ہے بریرہ۔۔ "
"بولو۔۔ "
"ہمیں اب اپنی زندگی کے بارے میں کوئی فیصلہ لے لینا چاہیے۔۔ آخر ایسے کس طرح سے زندگی گزرے گی؟ ہمیں دونوں کو بیٹھ کر طے کر لینا چاہیے کہ ہم کیا چاہتے ہیں اور آگے کیا کرنا ہے۔۔ یوں خاموش رہ کر کب تک زندگی گزرے گی؟ "
وہ سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔۔
"میری سب چاہتیں اور خواہشیں اسی دن مر گئیں تھیں جب میری تم سے شادی ہوئی تھی۔۔ اس کہ بعد سے میری زندگی میں صرف گزارا ہی ہورہا ہے جو میں کر رہی ہوں۔۔ جہاں تک ہے میرے فیصلہ لینے کی بات تو میں اپنی زندگی کا کوئی بھی فیصلہ نہیں لینا چاہتی۔۔۔ جیسی زندگی گزر رہی ہے میرے لیے ٹھیک ہے ۔۔۔ ہاں لیکن اگر تم اپنی زندگی کا کوئی فیصلہ لینا چاہتے ہو تو تمہیں پورا اختیار ہے۔۔ میں کبھی تمہارے راستے کی رکاوٹ نہیں بنوں گی۔۔۔ "
آہستگی سے کہتی وہ اپنا ہاتھ چھڑوا کر کمرے سے باہر چلی گئی جبکہ وہ اپنی سوچوں میں گم کھڑا رہ گیا۔۔ 
وہ اپنی زندگی کا کیا فیصلہ لیتا جب وہ خود کو ہی سمجھنے سے قاصر تھا۔ وہ سمجھ ہی نہیں پارہا تھا کہ آخر اس کا دل کیا چاہتا ہے؟ وہ سمجھ ہی نہیں پارہا تھا کہ وہ بریرہ کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہے یا اس کہ بغیر۔۔  وہ فیصلہ ہی نہیں کر پارہا تھا کہ وہ بریرہ کو چھوڑ کر خوش رہے گا یا اس کہ ساتھ رہ کر۔۔۔ وہ کیا کوئی فیصلہ کرتا جب وہ اپنے جذبات سے خود ہی آگاہ نہیں تھا۔۔ اپنی زندگی کا کوئی بھی اہم فیصلہ لینے سے پہلے وہ اپنے آپ کو اچھے سے پرکھ لینا چاہتا تھا۔۔ اب وہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتا تھا کہ جس پر بعد میں پچھتاوا ہو۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بوجھل دل کے ساتھ وہ یونیورسٹی میں داخل ہوا تو اس کی نظر عمر پر پڑی جو اسی درخت کے نیچے بیٹھا تھا جہاں وہ دونوں بیٹھا کرتے تھے۔۔
اسی لمحے عمر کی نظر اس پر پڑی۔۔۔ دونوں کی نظروں میں بہت سے سوالات تھے۔۔ مان ٹوٹنے کا درد تھا لیکن دونوں ہی نے ایک دوسرے سے نظریں پھیر لیں کیونکہ دونوں ہی کہ پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔۔۔ کہنے کو تو شاید بہت کچھ تھا لیکن وہ کچھ بھی کہنا نہیں چاہتے تھے۔۔ دونوں طرف اعتبار ٹوٹنے کا غم تھا۔۔۔۔
کلاس میں بیٹھتے ہوئے بھی ان دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر اپنے مخصوص بینچ کی طرف جہاں پر بیٹھ کر وہ شرارتیں کیا کرتے تھے لیکن دونوں ہی وہاں سے ہٹ کر دوسری جگہ بیٹھ گئے۔۔ ان دونوں کے درمیان کچھاؤ سب ہی محسوس کرسکتے تھے کہ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ اتنے سالوں میں وہ دونوں ایک ساتھ نظر نہیں آرہے تھے۔۔ ہر کوئی انہیں الگ دیکھ کر حیران تھا۔۔
لیکچر ختم ہونے کے بعد عمر باہر جارہا تھا جب اس کہ سیل پر کال آنے لگی۔۔۔
"کیا ہوا ہے امی آپ رو کیوں رہی ہیں۔۔؟
کیا ہوا ابو کو؟ "
وہ پریشانی سے پوچھ رہا تھا۔۔ دور کھڑا مصطفی اس کہ چہرے سے اس کی پریشانی بھانپ سکتا تھا۔۔
"آپ پریشان نہ ہوں۔۔میں بس ابھی آرہا ہوں۔۔  "
جلدی سے کہتے اس نے فون بند کیا اور باہر کی طرف دوڑا۔۔ مصطفی کا دل چاہا کہ وہ بھی اس کہ ساتھ جائے اس سے اس کی پریشانی شئیر کرے مشکل وقت میں اس کہ ساتھ کھڑا ہو لیکن پھر وہی انا نے اس کہ قدم ایک بار پھر روک لیے جو پہلے بھی اسے کئی بار روک چکی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفس سے آنے کے بعد وہ یونہی سڑکوں پر پھرتا رہا۔۔ جب گھر داخل ہوا تو معلوم ہوا عمر کہ والد طبیعت زیادہ خراب ہونے کے باعث ہسپتال میں داخل ہیں۔۔۔ یہ سنتے ہی مصطفی فوراََ سے ہسپتال کی طرف دوڑا۔۔ عمر سے اس کہ لاکھ اختلاف سہی لیکن اس کہ والد سے اس کا دلی رشتہ تھا۔۔ وہ اسے بہت عزیز تھے۔۔۔۔
جب وہ ہسپتال داخل ہوا تو اسے عمر ادھر ادھر بھاگ دوڑ کرتا نظر آیا جو کبھی کوئی ٹیسٹ کروا رہا تھا کبھی کوئی دوا لینے بھاگتا تھا۔۔ اس کہ چہرے سے اس کی پریشانی صاف ظاہر ہورہی تھی۔۔
وہ اندر گیا تو سامنے بینچ پر اسے عمر کی والدہ بیٹھی نظر آئیں جو بے تحاشہ رو رہی تھی۔۔ ان کہ ساتھ ہی مصطفی کی والدہ بیٹھی انہیں تسلیاں دے رہی تھیں۔۔ انہیں روتا دیکھ کر مصطفی کے دل کو کچھ ہوا۔۔
وہ آہستگی سے چلتا ہوا ان کہ سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ۔۔
"آپ پریشان نہ ہوں آنٹی۔۔ انکل بالکل ٹھیک ہوجائیں گے۔۔ آپ بس ان کے لیے دعا کریں۔۔ "
وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں تسلی دینے لگا۔۔
ایسی ہی تسلی وہ عمر کو بھی دینا چاہتا تھا اس کہ گلے لگ کر اس سے کہنا چاہتا تھا کہ وہ اکیلا نہیں ہے۔۔ مصطفی اس کے ساتھ ہے مگر پھر بھی وہ یہ سب نہیں کر پارہا تھا۔۔ بہت ہمت مجمع کرکہ وہ عمر کی طرف بڑھا اور ابھی اسے پکارنے ہی والا تھا جب ڈاکٹر وہاں آیا۔۔
"سوری۔۔ ہی از نو مور۔۔ "
پروفیشنل انداز میں کہتا وہ ایک دل دہلا دینے والی خبر سنا کر وہاں سے جاچکا تھا جبکہ اس کہ جانے کے بعد سب ساکن بیٹھے تھے۔۔ کسی کو بھی اس خبر پر یقین نہیں آرہا تھا۔۔ اس کی والدہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھیں جبکہ عمر بے یقین سا اسی دیوار کے ساتھ نیچے بیٹھتا چلا گیا جس سے وہ پہلے ٹیک لگا کر کھڑا تھا۔۔ کچھ دیر وہ بے یقن بیٹھا رہا۔۔۔ پھر ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکلا ۔۔۔ پھر بہت سے آنسو اس کا چہرہ بھگوتے رہے ۔۔۔ پھر وہ آہستہ آہستہ سے سسکنے لگا۔۔۔ اسے لگا جیسے اس کی ساری دنیا ختم ہوگئی ہو۔۔۔ اسے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اس کہ پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی ہو۔۔۔ اس کہ جینے کی وجوہات میں سے ایک وجہ آج اس کا ساتھ چھوڑ کر چلی گئی تھی۔۔ اس نے نظر اٹھا کر اپنے جینے کی دوسری وجہ کو دیکھا۔۔  اپنی ماں کو جو ہچکیوں کے ساتھ رو رہیں تھیں۔۔ وہ آہستگی سے اٹھا۔۔ اپنی سسکیوں کو اپنے اندر ہی دبا لیا۔۔ ہاتھ کی پشت سے اپنے آنسو صاف کیے اور آہستہ سے اپنی ماں کی طرف بڑھا۔۔
"عمر دیکھو تمہارے ابو ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔۔  تم ان سے کہو وہ واپس آجائیں ہمیں چھوڑ کر نا جائیں۔۔ وہ تمہاری ساری باتیں مانتے ہیں عمر دوا بھی تمہارے ہاتھ سے ہی کھاتے ہیں وہ تمہارے کہنے پر واپس ضرور آجائیں گے۔۔ تمہیں انہیں کہہ کر تو دیکھو ہم سے دور نا جائیں۔۔ "
وہ بالکل اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہی تھیں۔۔ عمر کی شرٹ اپنی مٹھیوں میں دبوچے وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔۔
عمر نے انہیں کچھ کہنے کی بجائے انہیں اپنے گلے سے لگا لیا تو وہ خاموش ہوکر سسکنے لگیں۔۔ عمر کی آنکھیں بھی ایک بار پھر بھیگ گئیں تھیں۔۔ وہاں کھڑے ہر شخص کی آنکھیں ان ماں بیٹے کی حالت دیکھ کر اشک بار ہورہی تھیں۔۔

سانول یار 😍❤. (COMPLETE)Where stories live. Discover now