Episode 13

1.4K 117 4
                                    

مصطفی کہ کہنے پر بریرہ نے شادی سے ٹھیک ایک ہفتہ پہلے سے آفس جانا چھوڑ دیا تھا۔
شادی کہ فنکشنز ہفتہ پہلے ہی شروع ہوچکے تھے۔ کبھی ڈھولک ہوتی تو کبھی کچھ۔۔۔
آج ان کا نکاح تھا۔۔ کل مہندی اور پھر اسے سے آگے بارات اور ولیمہ۔
نکاح ہر بریرہ نے آف وائٹ فراک کہ ساتھ ریڈ دوپٹہ لیا ہوا تھا۔۔۔ میک اپ سے پاک چہرہ لیے وہ بہت اچھی لگ رہی تھی۔
جبکہ مصطفی وائٹ شلوار قمیض پہنے ہوئے تھا۔
نکاح کے پیپرز پر دستخط کرتے ہوئے بریرہ کی آنکھیں بار بار بھیگ رہی تھیں۔۔ اس کہ دل میں اس رشتے کو لے کر بہت سے اندیشے تھے۔۔ لیکن ان سب اندیشوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس نے ان پر دستخط کرکہ خود کو ساری زندگی کے لیے مصطفی کے نام کردیا۔۔
دوسری طرف مصطفی کا دل بھی بہت بے چین تھا۔ اسے خدشہ تھا کہ کہیں جذبات میں کیے گئے فیصلے پر وہ اپنی زندگی نا خراب کرلے۔۔
لیکن اب اس وقت کچھ نہیں سوچا جاسکتا تھا اس لیے اس نے بھی پیپرز پر دستخط کرکہ اپنا نام تا عمر بریرہ کے نام کہ ساتھ جوڑ دیا تھا۔۔۔
جس طرح سے ان کہ نام جڑ گئے تھے۔۔ جس طرح سے ان کا رشتہ جڑ گیا تھا۔۔ کیا اسی طرح سے ان کے دل بھی جڑ سکیں۔۔۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکاح کے کچھ دیر بعد بریرہ کو مصطفی کے ساتھ لاکر سٹیج پر بٹھایا گیا۔ مصطفی آج اسے تین دن بعد دیکھ رہا تھا کیونکہ پچھلے تین دن سے ان کا پردہ چل رہا تھا۔۔
بریرہ کا چہرہ رونے کے باعث سرخ ہوچکا تھا۔ جب وہ اس کہ ساتھ آکر بیٹھی تو مصطفی نے اسے نظر موڑ کر دیکھا۔۔ ایک لمحے کو مصطفی کی نظر اس کہ چہرے پر ٹھہر سی گئی۔ وہ اتنا تیار ہوکر بھی کبھی اتنی اچھی نہیں لگتی تھی جتنی اس وقت مصطفی کو لگ رہی تھی۔ اس وقت وہ اسے اچانک سے ہی بہت اپنی اپنی سی لگ رہی تھی۔۔ کچھ لمحے وہ اسے پلک جھپکے بغیر دیکھے گیا۔۔ بریرہ اس کی نظریں خود پر بخوبی محسوس کرسکتی تھی لیکن نظریں اٹھا کر اسے دیکھ نہیں پائی۔
کافی دیر یونہی اسے دیکھتے رہنے کے بعد مصطفی کو جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اس نے فوراً سے اپنی نظروں کا رخ موڑا۔ اس لمحے اس کا دل اس سے دغا کر رہا تھا۔۔ بریرہ کی آنکھوں میں آنسو نجانے اس سے کیوں برداشت نہیں ہو رہے تھے جبکہ اسے انہی آنسوؤں میں دیکھنے کے لیے تو اس نے اتنا بڑا قدم اٹھایا تھا۔۔ اپنے دل کی آواز کو دل میں ہی دباتا وہ کافی دیر خود کو کمپوز کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بریرہ اپنے کمرے میں آکر سر سے ابھی اپنا دوپٹہ اتارنے ہی لگی تھی جب اس کہ کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔۔
اس نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو سامنے مصطفی کو دیکھ کر پریشان ہو گئی۔۔
"تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ "
"تم سے ملنے آیا ہوں۔۔۔ میں نے سوچا مبارکب
اد دے دوں تمہیں۔۔۔ فائنلی تم بھی شادی شدہ ہو ہی گئی ۔۔۔ ویسے یہ بھی میری ہی مہربانی ہے ورنہ جو حالات تھے تم آج بھی رشتے والوں کو بوتلیں ہی پیش کر رہی ہوتی۔ "
اندر آکر کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے بولا
اس کی باتیں بریرہ کے دل پر بری طرح سے لگیں۔ اس کی آنکھیں فوراََ ہی نمکین پانی سے بھرنے لگیں۔
"تم جاؤ یہاں سے مصطفی کوئی دیکھ لے گا۔ "
"تو دیکھ لینے دو۔۔۔ اب تو میں نے رجسٹری بھی کروا لی ہے اب کوئی نہیں روک سکتا مجھے۔۔"
وہ آنکھ مارتے ہوئے بولا
جواب میں کچھ کہنے کی بجائے بریرہ کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوگئے۔
مصطفی نے آگے بڑھ کر اپنی انگلی سے اس کہ آنسو صاف کیے اور آہستگی سے بولا
"اپنے یہ آنسو سنبھال کر رکھو۔۔ آگے بہت سے موقعے آئینگے جہاں تمہیں ان کی ضرورت پڑے گی۔
سنجیدگی سے کہتا وہ کمرے سے باہر چلا گیا جبکہ بریرہ وہیں بیٹھ کر رو دی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصطفی کمرے میں آیا تو حد سے زیادہ بے چین تھا۔۔ وہ اپنے دل کی حالت سمجھ نہیں پارہا تھا جو اچانک سے ہی بریرہ کی طرف کھینچا چلا جارہا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی ایسا کیوں ہورہا ہے وہ کیوں اپنے دل پر سے قابو کھو رہا ہے۔
وہ بریرہ کو ایک بار پھر دیکھنا چاہتا تھا اسی لیے وہ اس کہ کمرے میں چلا گیا۔۔۔ لیکن وہاں جاکر وہ کوئی بھی ایسی بات نہیں کہنا چاہتا تھا جس سے بریرہ خوش ہوتی اس لیے اسے ہرٹ کرنے کے لیے نجانے وہ کیا کچھ کہہ آیا تھا اسے اور آخر میں اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر مصطفی سے برداشت نہیں ہوا تھا اس لیے وہ وہاں سے باہر نکل آیا تھا۔
اسے خود کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ آخر کیا چاہتا ہے۔۔ ایک لمحے وہ بریرہ کو تکلیف دینا چاہتا تھا جبکہ دوسرے پل وہ خود اس کی تکلیف نہیں برداشت کر پارہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن بھی پورے گھر میں ہلچل تھی۔ آج ان کی مہندی تھی۔
چونکہ مہندی بھی کمبائن ہی تھی اس لیے مصطفی اور بریرہ ایک ساتھ سٹیج پر بیٹھے ہوئے تھے۔
بریرہ پیلے جوڑے میں ملبوس تھی جبکہ مصطفی نے آج بھی شلوار قمیض پہن رکھا تھا۔
اب دونوں کا فوٹوشوٹ ہورہا تھا۔ بریرہ کا ایک ہاتھ مصطفی کے کندھے پر تھا جبکہ ایک ہاتھ اس کہ ہاتھ میں تھا۔
بریرہ کی نظر مصطفی کہ ہاتھ میں قید اپنے ہاتھ پر پڑی تو وہ یوں بلاوجہ ہی دلبرداشتہ سی ہونے لگی۔ اس کہ ہاتھ کا رنگ مصطفی کے رنگ کے مطابق کافی سانولا لگ رہا تھا۔ مصطفی کا رنگ نہایت گورا تھا جبکہ وہ زرا سانولی رنگت کی تھی۔
مصطفی نے بریرہ کی نظروں کے تعاقب میں اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا تو چہرے پر مسکراہٹ آئی۔
"پریشان نا ہو۔۔ تم فائزہ بیوٹی کریم لگا لینا تم بھی گوری ہوجاؤ گی۔ "
وہ یقیناً اس کی سوچ پڑھ چکا تھا اس لیے بظاہر مسکراتے ہوئے بولا لیکن بریرہ اچھے سے جانتی تھی کہ وہ اس کا مزاق اڑا رہا ہے۔
فنکشن رات دیر تک چلتا رہا۔ کھانے کے بعد سب ڈانس فلور پر موجود تھے اور اپنی اپنی پرفارمنس کر رہے تھے۔
مصطفی کو بھی اس کہ دوستوں نے سٹیج سے اٹھا لیا اور اب وہ بھی سب کہ ساتھ ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈال رہا تھا۔۔
بریرہ سٹیج پر بیٹھی مصطفی کو ہی دیکھ رہی تھی جو بھر پور انداز میں مسکرا رہا تھا اور بے حد خوبصورت بھی لگ رہا تھا۔
بریرہ اس کی مسکراہٹ کے سحر میں ہی کھو گئی تھی جب نمرہ بھابھی نے اس کہ آگے چٹکی بجائی۔
"اتنے پیار سے دیکھ رہی ہو نظر لگاؤ گی کیا؟ "
ان کہ شرارت سے کہنے پر وہ جھینپ گئی اور اپنی نظروں کا زاویہ موڑ لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے روز ان کی بارات تھی۔۔ بریرہ پارلر میں تیار ہو رہی تھی۔ اس نے مصطفی کا پسند کردہ لہنگا ہی پہن رکھا تھا۔ آج اس کا دل بری طرح سے دھڑک رہا تھا۔۔ آج وہ ساری زندگی کے لیے مصطفی کی ہونے والی تھی۔ وہ یہ بات تو جانتی تھی کہ مصطفی کا سلوک اس کہ ساتھ اچھا نہیں ہوگا کیونکہ اس کہ اب تک کہ رویے سے وہ اتنا اندازہ تو کر ہی چکی تھی۔
تیار ہونے کے بعد اس نے ایک نظر اپنے سراپے پر ڈالی تو ایک پل کو اسے خود کو دیکھ کر یقین ہی نا آیا۔ بلاشبہ وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔ مہرون لہنگے کہ ساتھ ڈل گولڈ دوپٹہ اس پر بہت جچ رہا تھا۔ اپنے آپ کو دیکھ کر ایک لمحے اس کا دل زور سے دھڑکہ۔۔ لیکن اگلے ہی لمحے اپنے ساتھ مصطفی کو تصور کر کہ اس کی ساری خوشی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ وہ جانتی تھی وہ چاہے جتنا مرضی تیار ہوجائے لیکن مصطفی کے آگے وہ پھر بھی اچھی نہیں لگے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصطفی بارات لے کر آچکا تھا۔ آج مصطفی نے شیروانی پہن رکھی تھی اور وہ کسی ریاست کے شہزادے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ سجائے وہ سب کزنز کے جھرمٹ میں سٹیج تک آیا ۔۔
سٹیج پر آتے سب سے پہلے دادا جان اس سے ملے تھے۔
"میرا پوتا تو شہزادہ لگ رہا ہے۔ "
وہ پیار سے بولے
"آخر پوتا کس کا ہوں۔ دیکھیں زرا آپ آج تک اپنے ڈیشنگ لگتے ہیں کہ دادی جان ابھی بھی آپ کو دیکھ رہی ہیں۔ "
وہ شرارت سے بولا
"بہت شرارتی ہو تم مصطفی۔۔ "
وہ اس کا کان پکڑ کر بولے
پھر آہستہ آہستہ سب اس سے آکر ملے کہ اچانک سب لائٹس مدھم ہو گئیں۔ سب کی نظریں ہال کہ داخلی دروازے کی طرف اٹھیں جہاں سے بریرہ اندر داخل ہو رہی تھی۔ اس کی ایک طرف فاروق صاحب تھے جبکہ دوسری طرف سے اس کی اماں نے اسے پکڑا ہوا تھا۔
وہ اپنی نظریں جھکائے آہستہ سے چلتی آرہی تھی جبکہ مصطفی کی نظریں اس کہ چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔
وہ کافی خوبصورت لگ رہی تھی۔ مصطفی کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ کبھی اتنی خوبصورت بھی لگ سکتی ہے۔
اسے احساس ہی نہیں ہوا کہ اس کہ دیکھتے دیکھتے وہ کب سٹیج پر پہنچی۔ احساس ہونے پر نیچے آیا اور اس کا ہاتھ تھام کر اسے سٹیج پر آنے میں مدد دی۔ آج دونوں کے دل ہی زور سے دھڑک رہے تھے۔ مصطفی پلک جھپکے بغیر بریرہ کو دیکھ رہا تھا جبکہ بریرہ کی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ وہ نظر اٹھا کر اسے دیکھتی۔
آج بھی ان کا فوٹوشوٹ ہونا تھا لیکن ایک دو تصاویر کہ بعد بریرہ نے مزید سے انکار کردیا۔۔ اس کی حالت کے پیش نظر مصطفی اس کی بات مان گیا۔
کھانا لگ چکا تھا اور سب کھانے میں مصروف تھے جبکہ مصطفی اور بریرہ اکیلے سٹیج پر بیٹھے تھے۔ ان کہ آگے بھی کھانے میز لگی ہوئی تھی۔ مصطفی کو محسوس ہوا جیسے بریرہ اس کہ ساتھ بیٹھی ہلکا ہلکا کانپ رہی ہے۔
اس نے پریشان نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو وہ نظریں جھکا کر بیٹھی ہوئی تھی۔
"کیا ہوا ہے بریرہ طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟ "
مصطفی نے پریشانی سے پوچھا
"مجھے اتنے سارے لوگوں میں گھبراہٹ ہورہی ہے۔ "
وہ آہستہ سے بولی۔ مصطفی کو محسوس ہوا جیسے اس کی آواز بھی کانپ رہی ہے۔
"گھبرانے والی کیا بات ہے میں تمہارے ساتھ ہوں۔ "
مصطفی جلدبازی میں کہہ گیا۔ اسے اپنی بات کا احساس تب ہوا جب بریرہ نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ بھی اس کہ جملے پر اتنی ہی حیران تھی جتنا وہ تھا۔
"میرا مطلب ہے اس میں گھبرانے والی کیا بات ہے اتنے دن سے انہی لوگوں کے سامنے ہم روز ہی بیٹھے ہوتے ہیں۔۔ آج تمہیں کچھ زیادہ ہی فیل ہورہا ہے۔ "
اپنی بات کا اثر زائل کرنے کے لیے وہ کچھ لاپرواہی سے بولا۔۔۔ لیکن در حقیقت اس کا دل بریرہ کے چہرے سے نظریں ہٹانے کو کر ہی نہیں رہا تھا۔ اس کا دل بار بار اس کی گہری آنکھوں میں ڈوبنے کی ضد کر رہا تھا۔
بمشکل اپنے دل پر قابو پاتے ہوئے اس نے اپنا دھیان کھانے کی طرف کیا اور ایک پلیٹ میں تھوڑا سا کھانا ڈال کر بریرہ کی طرف بڑھایا جسے اس نے لینے سے انکار کردیا تو وہ سر جھٹک کر خود ہی کھانے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد رخصتی کا وقت ہوچکا تھا۔ بریرہ مصطفی کا ہاتھ تھامے آہستہ سے چل رہی تھی۔ اس کا دل بہت عجیب سا ہو رہا تھا۔ حالانکہ اس نے رخصت ہو کر کسی دوسرے گھر نہیں جانا تھا لیکن پھر بھی وہ بہت اداس ہورہی تھی۔ ناچاہتے ہوئے بھی سب سے ملتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔ مصطفی کے ہاتھ پر اس کی گرفت سخت ہوگئی تھی۔ باری باری سب سے ملتے اس کا دل زور سے دھڑک رہا تھا۔
جب وہ لوگ فاروق صاحب سے ملنے کو رکے تو وہ مصطفی کا ہاتھ تھام کر بولے ۔
"میں نے بڑے مان سے اپنی بچی کا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں تھمایا ہے مصطفی۔ مجھے یقین ہے تم میرا مان نہیں ٹوٹنے دو گے۔ "
ان کی بات پر وہ شرمندہ ہوگیا۔۔
"مجھے اگر کوئی بھی شکایت آئی مصطفی تو تم جانتے ہو میں تمہارا نہیں اپنی بیٹی کا ساتھ دوں گا ۔۔ اس لیے خیال سے رہنا۔ "
شاہنواز صاحب بولے تو مصطفی بس کڑھ کر رہ گیا۔
اسی طرح سب سے ملتے ملاتے وہ سب کی دعاؤں کے سائے تلے مصطفی کے ساتھ رخصت ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر پہنچنے کے بعد کافی ساری رسموں کے بعد اسے مصطفی کے کمرے میں لاکر بٹھا دیا گیا۔
وہ کافی دیر سے بیڈ پر بیٹھ کر اس کا انتظار کرتی رہی لیکن مصطفی کمرے میں نا آیا۔
اس کی سوچوں کے دھاگے مصطفی اور اپنے رشتے کے ساتھ جڑے تھے۔ اسے بہت عجیب سا لگ رہا تھا۔ مصطفی اس سے پانچ سال چھوٹا تھا وہ کبھی ساری زندگی بھی مصطفی کے ساتھ اس طرح کے رشتے کا نہیں سوچ سکتی تھی لیکن اب ان کا رشتہ بن چکا تھا۔ اب بریرہ کو اسے قبول کرنا تھا لیکن وہ جانتی تھی اسے اس رشتے کو قبول کرنے کے لیے کچھ وقت چاہیے ہوگا۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ مصطفی کے لیے بھی بریرہ کو قبول کرنا آسان نہیں ہوگا۔ بریرہ کو اس وقت مصطفی کے لیے بہت برا لگ رہا تھا۔ کیونکہ اس کہ ذہن میں بس یہی تھا کہ مصطفی اس جیسی لڑکی کو ڈیزرو نہیں کرتا جسے تقریبا ہر کوئی ٹھکرا چکا ہو۔ مصطفی کو اپنے جیسی کوئی لڑکی ملنی چاہیے تھی بریرہ اس کہ قابل نہیں تھی۔ وہ نہیں جانتی کہ کس دباؤ میں آکر یا کس مجبوری کہ تحت مصطفی اس سے شادی پر راضی ہوا تھا لیکن اسے اتنا معلوم تھا کہ وہ مصطفی کے سر پر زبردستی مسلط کردی گئی ہے۔ اسے اپنا ایک بوجھ لگ رہا تھا۔
وہ اپنی سوچوں میں گم تھی جب دروازہ کھلنے کی آواز پر سیدھی ہو کر بیٹھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے یہ رشتہ اپنی مرضی سے جوڑا تھا۔ اپنے مفاد کے لیے جوڑا تھا۔ اپنی خودغرضی سے جوڑا تھا۔ بچپن سے لے کر آج تک اس کہ اور شاہنواز صاحب کے درمیان ایک خلش سی چلی آرہی تھی۔ ہر روز کوئی نا کوئی ایسی بات ہوجایا کرتی تھی جسکی وجہ سے ان دونوں کا اختلاف ہوجایا کرتا تھا۔ چاہے بات پڑھائی کی ہو یا کام کی۔۔ کوئی نہ کوئی بات ایسی ضرور نکل آتی جس کی وجہ سے ان دونوں میں تلخ کلامی ہوجایا کرتی تھی۔
کالج میں ایڈمیشن لینے وقت شاہنواز صاحب چاہتے تھے کہ وہ میڈیکل رکھے لیکن اس نے اپنی مرضی کرتے ہوئے اکاؤنٹس رکھا تھا۔
یونیورسٹی کے وقت بھی شاہنواز صاحب جس یونیورسٹی میں اس کا ایڈمنڈسن چاہتے تھے اسے چھوڑ کر اس نے اپنی مرضی کی تھی۔
اس کہ بعد بھی وہ ہر معاملے میں اپنی مرضی کرتا کیونکہ شاہنواز صاحب کہ علاوہ ہر ایک نے اکلوتا ہونے کے باعث اسے کھلی چھوٹ دے رکھی تھی لیکن شاہنواز صاحب اسے ہر بات پر روکتے تو وہ انہیں اپنے مخالف سمجھنے لگ گیا تھا۔ آہستہ آہستہ سے ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی ہوگئی تھی جس کی وجہ سے وہ خود سر ہوتا جارہا تھا۔ اسے اپنے آگے اور کسی کی خوشی نظر نا آتی تھی۔
جب شاہنواز صاحب نے اس سے بریرہ کی شادی کی بات کی تو وہ بہت بھڑکا تھا۔ وہ جانتا تھا شاہنواز صاحب بریرہ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ اسے ہمیشہ لگتا تھا کہ وہ بریرہ کو اس سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اس لیے اس نے فوراََ انکار کیا تھا اور ساتھ ہی ایک ایسی حرکت بھی کردی جس سے وہ سب کی نظروں سے گر گیا تھا۔
اس کی اس حرکت کی وجہ سے ہر کوئی اس سے ناراض تھا جبکہ سب سے زیادہ شاہنواز صاحب غصہ تھے اس سے۔
پھر جب کافی معافی مانگننے کے بعد بھی کوئی راضی نا ہوا تو سب کو راضی کرنا کا اسے یہی طریقہ نظر آیا کہ وہ بریرہ سے رشتہ جوڑ لے۔ وہ جانتا تھا اس کہ اس قدم سے سب اس سے بہت خوش ہوں گے اور ہوسکتا ہے شائد شاہنواز صاحب اور اس کہ درمیان بنی دیوار بھی گر جائے۔
اسے یقین تھا کہ اس کہ اس قدم سے شاہنواز صاحب اس سے بہت خوش ہوں گے اور اس پر فخر بھی کریں گے۔ ساری زندگی جو وہ اپنے بیٹے کو نالائق سمجھتے آئے ہیں ان کا یہ اندازہ بھی غلط ہوجائے گا۔ وہ جو ہمیشہ اسے خود غرض سمجھتے ہیں اب وہ یہ سمجھیں گے کہ اس نے ان کی خوشی کی خاطر اپنی خوشی قربان کی۔۔
وہ صرف شاہنواز صاحب کا دل اپنی طرف سے صاف کرنا چاہتا تھا اس لیے اتنا بڑا قدم اٹھانے پر تیار ہوگیا تھا۔
دوسری طرف جہاں تک بریرہ کی بات تھی تو وہ کبھی اسے اچھی نہیں لگی تھی۔ ایک تو وہ اس سے عمر میں بھی بڑی تھی دوسرا ویسی خوبصورت بھی نہیں تھی جس طرح کی خوبصورتی وہ چاہتا تھا۔ بریرہ کی وجہ سے مصطفی ہر وقت شاہنواز صاحب کی نظروں میں برا بنا رہتا تھا تو اس نے سوچا تھا چلو لگے ہاتھوں بریرہ سے پرانے بدلے بھی لے لیگا کیونکہ وہ اتنا تو جانتا تھا کہ مصطفی چاہے اس کہ ساتھ کچھ بھی کرلے وہ کسی کے آگے اپنی زبان نہیں کھولے گی کیونکہ وہ مصطفی کے احسان تلے دب گئی ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سانول یار 😍❤. (COMPLETE)Where stories live. Discover now