Episode 8

1.5K 118 4
                                    

"تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ اور ڈرائیور کدھر ہے ؟ "
بینک کے باہر ڈرائیور کے بجائے مصطفی کو دیکھ کر وہ غصے سے بولی
م

جھے تم سے کچھ بات کرنا تھی اس لیے ڈرائیور کو منع کردیا میں نے اور خود آگیا تمہیں لینے کے لیے۔"
وہ وضاحت دیتے ہوئے بولا
"مجھے تمہاری کوئی بات نہیں سننی۔"
وہ تلخی سے بولی
"دیکھو میں تمہارا زیادہ وقت نہیں لوں گا بس راستے میں ہی تم سے بات کرلوں گا۔"
وہ عاجزی سے بولا
"میں تمہیں زیادہ وقت دینے بھی نہیں والی۔ تمہارا کیا بھروسہ پھر مجھ پر کوئی نیا الزام لگا دو گی۔ "
وہ تلخی سے بولی
"یار بیا بس کرو نا اب۔ کتنی بار تو معافی مانگ چکا ہوں اور کتنا شرمندہ کرو گی مجھے؟"
وہ تنگ آتے ہوئے بولا
"تم نے معافی مانگی تھی لیکن میں نے تمہیں معاف نہیں کیا تھا ذہن میں بٹھا لو یہ بات۔"
وہ غصے سے بولتی گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئی۔
"اچھا تو پھر کردو نا یار معاف اب۔"
وہ بھی اندر بیٹھتے ہوئے بولا
"مصطفی مجھے کہیں سے نہیں لگتا کہ تم شرمندہ ہو۔ معافی ایسے مانگتے ہو جیسے کوئی مزاق ہو۔"
وہ اسے گھورتے ہوئے بولی
"اب تم کیا چاہتی ہو؟ رو رو کر گڑگڑا کر معافی مانگوں؟"
وہ بھی اسی کہ انداز میں بولا۔ اس سے زیادہ اچھائی سے بات نہیں کرسکتا تھا وہ۔
"جو تمہاری حرکت تھی نہ اس کے لیے تم یہ بھی کرو تو کم ہے۔"
وہ سنجیدگی سے بولی
"اچھا نا یار بیا۔ مان تو رہا ہوں میری غلطی تھی اوربہت بڑی غلطی تھی اور میں اس پر شرمندہ بھی ہوں تم پلیز مجھے معاف کردو میں آئیندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کروں گا"
وہ آہستگی سے بولا
"بات کیا کرنی تھی تم نے وہ بولو "
وہ سر جھٹکتے ہوئے بولی
"پہلے تم وعدہ کرو کہ میرا سر نہیں پھاڑ دو گی۔"
وہ شرارت سے بولا
"کچھ فضول بولو گے تو ایسا کرنے سے بھی گریز نہیں کروں گی۔"
وہ غصے سے بولی
"اچھا چلو چھوڑو یہ بتاؤ آیسکریم کھاؤ گی؟"
وہ اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے بولا
"تمہیں جو بات کرنی ہے مصطفی وہ کرو بلاوجہ میرا وقت ضائع مت کرو۔"
"رہنے دو میں کچھ نہیں کہہ رہا تم سے گھر بھی جانا ہے مجھے۔"
وہ ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا اور گاڑی سڑک پر دوڑا دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اب یہ کہاں جا رہے ہو؟ "
گاڑی گھر کے راستے پر نہ دیکھ کر وہ حیرانی سے بولی
"عمر کے گھر۔ زینب کو لینا ہے وہاں سے۔ "
وہ تفصیل سے بولا تو بریرہ خاموش ہو کر بیٹھ گئی۔ کچھ ہی دیر میں وہ لوگ عمر کے گھر پہنچ چکے تھے۔
"او تو اس وقت گھر پہ؟"
عمر کو گھر دیکھ کر مصطفی حیرانی سے بولا
"ہاں آج جلدی آگیا تھا۔"
عمر پھیکی مسکراہٹ سے بولا
تھوڑی دیر وہاں بیٹھنے کے بعد وہ لوگ گھر واپس آگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ گھر پہنچے تو سب بڑے لیونگ روم میں بیٹھ کر چائے پی رہے تھے۔ بریرہ چینج کرنے اپنے روم میں چلی گئی جبکہ زینب اور مصطفی وہیں سب کے ساتھ بیٹھ گئے۔
"زینب بیٹا جاؤ تھک گئی ہوگی جا کر لیٹ جاؤ۔"
آمنہ بیگم زینب سے بولیں جو مزے سے صوفے پر بیٹھی بسکٹ کھانے میں مصروف تھی۔
"نہیں امی میں بالکل نہیں تھکی۔"
وہ لاپرواہی سے بولی تو آمنہ بیگم نے اسے گھوری ڈالی۔ یعنی آنکھوں سے اشارہ کردیا کہ وہ وہاں سے اٹھ کر چلی جائے۔
وہ منہ بناتی ہوئی بسکٹ کی پوری ڈش اٹھا کر بریرہ کہ کمرے میں آگئی اور صوفے پر بیٹھ گئی۔
"تمہارا منہ کیوں لٹکا ہوا ہے؟"
بریرہ نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا
"بندہ کچھ بھی ہو لیکن گھر کا سب سے چھوٹا بچہ نہ ہو۔ یعنی کے حد ہی ہوگئی کوئی عزت کوئی مقام ہی نہیں ہوتا۔ جہاں ضروری بات کرنی ہوتی ہے فٹ بال کی طرح مجھے کک مار کہ باہر کر دیتے ہیں اور جب پانی پینا ہو یا دروازہ بند کرنا ہو تو سب کو میری یاد آ جاتی ہے۔"
وہ ناراضگی سے بولی۔ اس کے اپنے ہی مسئلے تھے۔
"یعنی آج پھر سے کوئی ضروری بات کرتے وقت تمہیں باہر نکال دیا گیا ہے؟"
بریرہ ہنستے ہوئے بولی
"اڑا لیں مزاق میرا۔ مل جو گئی ہوں جھونگے میں آپ سب کو اب ایسی ہی ناقدری کریں گے۔"
"ہاں جی اور تم وہاں سے آتے آتے بسکٹ کی ڈش بھی اٹھاتی لائی ہو۔"
بریرہ اس کے ہاتھ میں ڈش دیکھتے ہوئے بولی
"ہاں تو عزت بے عزتی تو آنے جانے والی چیز ہے اب بندہ کھائے پیے بھی نا۔"
وہ منہ بناتے ہوئے بولی تو بریرہ ہنس دی۔
"ویسے باہر بات کیا ہورہی ہے جو سب اکھٹے بیٹھے ہیں ابھی تک؟"
تھوڑی دیر بعد زینب تجسس سے بولی
"ہوگا پھر کوئی نیا رشتہ میرے لیے جو زیر غور ہوگا لیکن پھر انکار کردیا جائے گا۔"
بریرہ تلخی سے بولی
"کیا ہوتا جا رہا ہے آپ کو آپی؟ آپ اتنی نا امید کیوں ہو رہی ہیں؟"
زینب تکان سے بولی
"پتا نہیں کیا ہوتا جا رہا ہے مجھے۔ اب میں اس سب سے اتنی عاجز آچکی ہوں کہ دل چاہتا ہے یہاں سے کہیں دور بھاگ جاؤں۔"
وہ تلخی سے بولی
"ایسا مت کہیں آپی اللہ بہتر کرے گا۔ اللہ نے یقیناً آپ کے لیے کوئی بہترین ہمسفر چنا ہوگا۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولی جبکہ بریرہ سر جھٹک کر سونے کے لیے لیٹ گئی۔ اس وقت وہ صرف تنہائی چاہتی تھی اس وقت کوئی امید کوئی امنگ اس کے دل میں پیدا نہیں ہو پارہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصطفی سر جھکا کر بیٹھا تھا جبکہ باقی سب اسے ہی دیکھ رہے تھے۔
"تمہیں کیا لگتا ہے مصطفی میری بچی اتنی بھاری ہے مجھ پر کہ میں اسے ایسے شخص کے حوالے کردوں جو کہ پہلے اپنے مفاد کے لیے اس کی کردار کشی کرچکا ہو؟"
فاروق صاحب مصطفی کو دیکھتے ہوئے غصے سے بولے۔ دادا جان سب بڑوں کو مصطفی کی بات بتا چکے تھے۔
"میں بہت شرمندہ ہوں چاچو اپنی غلطی پر اور اپنی غلطی کا مداوا کرنا چاہتا ہوں۔"
وہ شرمندگی سے بولا
"تم چاہتے کیا ہو آخر مصطفی؟ جب میں نے تم سے بریرہ کے رشتے کے بابت بات کی تو تم نے اتنی گھٹیا حرکت کردی اور اب جب سب کچھ ہوچکا ہے تو تم اس سے شادی کرنا چاہ رہے ہو؟ دماغ تو ٹھیک ہے تمہارا؟ تم نے شادی بیاہ کو گڈے گڈی کا کھیل سمجھ رکھا ہے کیا؟"
شاہنواز صاحب نہایت غصے سے بولے تو مصطفی ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا وہ اس وقت کچھ بھی کہہ کر سارا کیا دھرا خراب نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے خاموش رہا۔
"آرام سے شاہنواز آرام سے بیٹھ کر بھی بات کی جاسکتی ہے۔"
دادا جان اپنے بیٹے کو ٹوکٹتے ہوئے بولے
"نہیں ابا جان اس سے آرام سے بات کی ہی نہیں جاسکتی۔ یہ اس قابل ہی نہیں ہے کہ اس سے آرام سے بات کی جاسکے۔"
وہ غصے سے بولے
"دیکھو فاروق بریرہ ہم سب کو بہت عزیز ہے لیکن تم اس کے والد ہو۔ اس کی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق سب سے زیادہ تمہیں ہے اس لیے میں چاہتا ہوں جلد بازی کی بجائے تم ٹھنڈے زہن سے سوچو۔ اور بریرہ سے بھی اس کی مرضی پوچھ لو کہ بحر حال میں نہیں چاہتا اس پر کوئی بھی زبردستی کی جائے۔"
دادا جان یہ کہتے ہوئے وہاں سے اٹھ کر چلے گئے جبکہ ان کے پیچھے باقی سب بھی اپنے کمروں میں چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصطفی اپنے کمرے میں آکر مسلسل بے چینی سے ادھر ادھر چکر کاٹ رہا تھا۔
وہ ناجانے کیوں اتنا بے چین ہورہا تھا۔ حالات اس کی سمجھ سے باہر تھے حالانکہ سب کچھ اس کی مرضی سے ہورہا تھا لیکن پھر بھی وہ خود کو پرسکون محسوس نہیں کر پارہا تھا۔
وہ نہیں جانتا تھا اس نے بریرہ سے شادی کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ یہ فیصلہ کرتے وقت نہ اس کے دل میں کوئی محبت کا جذبہ تھا نا ہی نفرت کا۔ وہ بریرہ کو یہ جتانا چاہتا تھا کہ مصطفی کے سامنے اس کی کیا اوقات ہے۔ وہ اسے صرف یہ جتانا چاہتا تھا کہ وہ کچھ بھی کرلے مصطفی کے سامنے کچھ نہیں ہے۔ وہ اسے بے سکون کرنا چاہتا تھا کیونکہ اس کے نزدیک اس کے اور شاہنواز صاحب کے درمیان دوری کی سب سے بڑی وجہ بریرہ ہی تھی اس لیے وہ اسے سبق سکھانا چاہتا تھا اسی لیے اس نے بریرہ سے شادی کرنے کی بات کی کہ بحر حال یہ وہ واحد طریقہ تھا جس سے وہ بریرہ سے سارے بدلے لے سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیا سوچ رہے ہیں؟"
فاروق صاحب بیڈ پر بیٹھے سوچوں میں گم تھے جب سلمیٰ بیگم کی آواز پر چونکے۔
"کچھ نہیں بس بریرہ کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔"
وہ آہستگی سے بولے
"فاروق مجھے لگتا ہے ہمیں مصطفی کے رشتے کے لیے ہاں کر دینی چاہیے۔"
"اتنا سب کچھ ہونے کہ بعد بھی تم یہ کہہ رہی ہو؟"
"اتنا سب کچھ ہوگیا ہے اسی لیے یہ کہہ رہی ہو تاکہ مزید آگے کچھ نہ ہو۔
دیکھیں فاروق دور دور تک بریرہ کے رشتے کے لیے کوئی بات آگے نہیں بڑھا رہا کتنے لوگ اسے دیکھ کر جاچکے ہے اور سبھی نے انکار کردیا ہے۔ عمر بھی اس کی اب بڑی ہوتی جارہی ہے تو آپ کو کیا لگتا ہے کیا اب بھی اس کے لیے کوئی مناسب رشتہ ملے گا؟
اسی لیے بہتر نہیں کہ مصطفی سے ہی اس کا رشتہ کردیا جائے۔ گھر کا بچہ ہے ہمارا دیکھا بھالا ہے اور دوسرا ہماری بیٹی بھی ہماری نظروں کے سامنے رہے گی۔"
"لیکن مصطفی نے جو حرکت کی ہے اس کے بعد میرا دل راضی نہیں ہورہا۔"
وہ پریشانی سے بولے
"بچہ ہے فاروق نا سمجھی میں یہ سب کر بیٹھا ہے۔ آپ کے سامنے ہی وہ کتنی دفعہ سب سے معافی مانگ چکا ہے اور شرمندہ بھی ہے اپنی غلطی پر۔"
وہ انہیں سمجھاتے ہوئے بولی تو وہ خاموش ہوگئے۔
"میں بہت پریشان رہتی ہوں بریرہ کے لیے فاروق اس کے ساتھ کی سب بچیاں اپنے گھروں کی ہوگئی ہیں جبکہ ہماری بریرہ کی بات ہی آگے نہیں بڑھتی سبھی انکار کرکہ چلے جاتے ہیں اور اگر کوئی ہاں کر بھی دے تو وہ رشتہ مناسب ہی نہیں ہوتا ۔ اب اگر ہمیں اچھا رشتہ مل رہا ہے تو انکار کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ آخر کب تک اسے اپنی دہلیز پر بٹھائے رکھیں گے۔"
وہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولیں
"لیکن بریرہ؟ کیا وہ راضی ہوجائے گی؟ "
"ہماری بچی بہت صابر ہے فاروق ۔ وہ ہماری بات کبھی نہیں ڈالے گی "
وہ محبت سے بولیں تو فاروق صاحب سوچ میں پڑ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سانول یار 😍❤. (COMPLETE)जहाँ कहानियाँ रहती हैं। अभी खोजें