محبت نہیں عشق

80 7 2
                                    

میرب رایزادہ نام سے ہی تعارف کروا دینے میں ماہر تھی وہ اپنے نام کی ایک ہی تھی پورے اٹلی میں چلتے پھرتے لوگوں کی ہوائییاں اڑا دینا اسکا فورٹ ترین کام تھا اپنے ماں باپ کی دوسری اولاد اور اکلوتی بیٹی تھی بڑا بھائی شادی شدہ اور ایک بیٹی کا باپ تھا اور اپنی فیملی کے ساتھ انگلینڈ میں مقیم تھا جبکے میرب اپنی اماں جان اور ابا جان کے ساتھ پانچ سال پہلے ہی اٹلی شفٹ ہوئی تھی ایبو سے میرب کی دوستی ہمساے ہونے کے ناتے ہوئی تھی اگر میرب آنی سے ملنے سے پہلے ایبو سے ملتی تو وہ یقین سے کہ سکتی تھی کے ایبو اٹالین بگڑی ہوئی لڑکی ہے ایبو کی ڈریسنگ بلکل نارمل اٹالین جیسی تھی اسکا لہجہ بولنا سب اٹالین جیسا ہی تھا اگر ایبو آنی سے اردو میں بات نہ کرتی تو میرب تو اسے اٹالین ڈکلیر کر چکی تھی ایبو سے سلام دعا کے بعد بھی میرب اس سے جلدی فرینک نہیں ہو پائی تھی وجہ ایبو کا انداز تھا میرب اگر کوئی مذاق کر دیتی تھی تو بھی ایبو بہت سوچ سمجھ کر جواب دیتی تھی میرب سمجھ نہیں پا رہی تھی کے ایبو کیوں ریزرو ہو رہی تھی ھلانکہ ایبو اور میرب کی دوستی کو دو ہفتے ہو گے تھے اور میرب کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جو ایک دو دن میں ہی دوستی گہری کر لیتے ہوں لیکن اس دفع عجیب بات یہ تھی کے ایبو کے ساتھ ساتھ میرب بھی تھوڑی نروس تھی اسے ایبو کی سمجھ نہیں آ رہی تھی اور ایبو تو ویسے بھی کسی سے جلدی گھلتی ملتی نہیں تھی
ابیحہ فاروق  عرف ایبو اپنی آنی کے ساتھ رہتی تھی سات سال کی تھی جب اسکے ماں باپ پاکستان جاتے وقت جہاز کے کریش ہونے کی وجہ سے گزر گے تھے وہ ایبو کو اپنے ساتھ واپس نہیں لے کے جانا چاھتے تھے فاروق اور فریحہ دونوں اٹلی میں study کے لئے آے تھے تین سال تک ایک ساتھ پرھتے پرھتے دونوں کو پتا ہی نہیں چلا کب وہ دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گے دونوں کے گھر والے انکی شادی کے خلاف تھے اور دونوں ہی اپنا فیصلہ بدلنا نہیں چاھتے تھے نتیجہ یہ ہوا کے گھر والوں کے خلاف جا کے دونوں نے اٹلی میں ہی شادی کر لی تھی دونوں میں سے کسی نے بھی واپس جانے کی بات نہیں کی تھی کبھی وہ لوگ اپنی زندگی میں خوش تھے پھر ایک دن ایبو کی ماں کو یعنی فریحہ کو پاکستان سے ایک کال آئ تھی اور وہ واپس جانے کا بول رہی تھی ایبو کے پاس نا تو پاکستانی پاسپورٹ تھا اور نا ہی انہوں نے کبھی پاکستان جانے کا سوچا تھا اب مسلہ یہ تھا کے وہ لوگ ایبو کو ساتھ نہیں لے کے جا سکتے تھے اور یہاں کوئی ایسا تھا ہی نہیں جس کے پاس وہ ایبو کو چھوڑ کے جاتے پھر فریحہ کو ایکدم سے مسرت یاد آئ مسرت فریحہ اور فاروق کے ساتھ ہی پڑھتی تھی اور فریحہ اور فاروق دونوں کی اچھی سلام دعا تھی مسرت سے فریحہ نے مسرت کو کچھ دن ایبو کو اپنے پاس رکھنے کا کہا تھا مسرت جو کے اکیلی ہی رہتی تھیں انہوں نے فورن سے فریحہ کو ہاں بول دیا تھا ایبو  مسرت کو آنی کہتی تھی فاروق اور فریحہ ایبو کو مسرت آنی کے پاس چھوڑ گے تھے لیکن شائد انکی قسمت میں وطن کی مٹی دوبارہ دیکھنا لکھا ہی نہیں تھا جہاز کے کریش ہونے کی خبر سن کے ایبو کے ساتھ ساتھ آنی بھی سن رہ گئی تھیں انھیں کچھ سمجھ نہیں آیا تھا کے قسمت نے یہ کیسا عجیب کھیل کھیلا تھا ان دونوں کے ساتھ آنی نے ایبو کے ننہال اور ددھال دونوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن دونوں طرف رابطہ نہیں ہوا آنی کی دن تک کوشش کرتی رہی تھیں لیکن بےسود اب ان کے پاس دو ہی راستے تھے یاں تو وہ ایبو کو اڈوپٹ کر لیں یا پھر وہ ایبو کو Orphanage میں داخل کروا دیتی آنی نے اسے اڈوپٹ کر لیا تھا ایبو آنی کے پاس رہتی تھی اب لیکن وہ بلکل بھی پہلے والی ایبو نہیں رہی تھی وہ بہت عجیب behave کرنے لگی تھی سارا دن کمرے میں بیٹھی رہتی یا پھر آتے جاتے جہازوں کو دیکھتی رہتی تھی آنی اسے بہلاتی رہتی تھی اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایبو بھی سمبھل گئی لیکن اسے پاکستان جانے والے لوگوں کو دیکھ کے خوف آتا تھا بچپن کا ڈر وہ کبھی دل سے نہیں نکال سکی تھی اسے پاکستان منحوس لگتا تھا اسے لگتا تھا کے جو بھی پاکستان جاتا ہے وہ واپس نہیں اتا آنی کے لاکھ سمجھانے پر بھی وہ یہ ڈر کبھی نہیں نکال پائی اور ایبو کی حالت کو دیکھ کے آنی نے بھی پاکستان آنا جانا چھوڑ دیا تھا وہ ایبو کو اتنا چاہنے لگی تھیں کے ایبو کے علاوہ انہوں نے کچھ بھی سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا ماں باپ کے زور دینے پے انہوں نے صاف کہ دیا تھا کے وہ ایبو کو اپنی بیٹی کے طور پر ساتھ رکھیں گی بہنوں نے بھی زور دیا لیکن مسرت آنی مسلسل انکار کرتی رہی تھیں پھر تنگ آ کے انہوں نے ایک رشتے کو ہاں بول دیا تھا ساجد اچھے انسان تھے انھیں ایبو کے آنی کے ساتھ آنے پے کوئی مسلہ نہیں تھا نکاح کے کچھ دن بعد ہی ساجد انکل کی ڈیتھ ہو گئی تھی اور آنی جو ابھی پوری سہاگن بھی نہیں بنی تھیں بیوہ ہو گئی ساجد انکل کے بعد انہوں نے دوبارہ شادی نہیں کی تھی وہ ایبو کے ساتھ خوش تھیں اور ایبو جس کی کل کائنات ہی اب آنی تھی وہ آنی کے علاوہ اور کسی پے بھروسہ نہیں کرتی تھی ایبو کے لئے دوست بنانا کبھی مشکل نہیں رہا تھا لوگ خود ہی اسکے سحر میں گھل جاتے تھے اسکا لہجہ بہت ہلکا تھا اور اوپر سے ایبو کی dark hazel آنکھیں جو لوگوں کو ہمیشہ اٹریکٹ کرتی تھی لیکن ایبو دوستی بہت کم کرتی تھی وہ سب سے مسکرا کے بات کرتی تھی لیکن گھلتی ملتی کم ہی تھی اور پھر اسے میرب ملی میرب سے مل کے ایبو کو اچھا لگا تھا میرب بہت ہنس مکھ سی شرارتی سی تھی لیکن ایبو دوستی میں پہل نہیں کر پا رہی تھی اور دوسری طرف میرب جو کے ایبو کو پہلی نظر میں ہی بگڑی ہوئی اور سڑیل مان چکی تھی دوستی کے لئے ہاتھ بڑھانے سے کترا رہی تھی لیکن کہتے ہیں نہ جب قسمت آپکو کسی سے ملواتی ہے تو اسکے لئے دل میں جگہ خود ہی بنا دیتی ہے میرب جو ہمسائی ہونے کے باوجود ایبو سے دوستی کرنے سے کترا رہی تھی اب ایک ہی کالج میں اور ایک ہی  کلاس میں دونوں پڑھ رہی تھیں میرب کو اٹالین زبان کا مسلہ ہو رہا تھا اور ایبو جو کے اردو جانتی تھی اسکی مدد کر رہی تھی کلاس میں اور پھر آہستہ آہستہ دونوں کی دوستی گہری ہوتی چلی گئی لیکن اس کے باوجود ایبو نے کبھی میرب کو اپنے ماں باپ کے مرنے کی وجہ نہیں بتائی تھی وہ ہمیشہ میرب کو بولتی تھی کے وہ آنی کے ساتھ خوش ہے جو ہونا تھا اسے وہ بھول چکی ہے لیکن اب میرب کی بات سن کے اسے لگا جیسے اتنے سال پیچھے چلی گئی ہو میرب کب کی اپنے گھر جا چکی تھی اور وہ اب بھی اس جگہ کو گھور رہی تھی جہاں پہلے میرب بیٹھی تھی کیا ہوا ایبو گیلے بال لئے بیٹھی ہو بیٹا ٹاول لپیٹو بالوں میں آنی جو کسی کام سے کمرے سے نکلی تھیں ایبو کو ایسے بیٹھا دیکھ کے چونکی ایبو بیٹا کیا ہوا انہوں نے فرش سے ٹاول اٹھا کے ایبو کے بال حشک کرتے ہوے پوچھا جہ جہ جی ایبو نے چونک کر آنی کی طرف دیکھا میرب میرب کہاں چلی گئی ایبو جو آنی کے بولنے پر خوش میں آئ تھی آنی کی طرف دیکھتی بولی وہ آفت کی پڑھیا تو کب کی جا چکی آئ کیوں تھی ویسے آنی نے ایبو کے بالوں میں کیچڑ فٹ کرتے ہوے پوچھا آنی میرب واپس جا رہی ہے پاکستان مجھے بلکل اچھا نہیں لگ رہا اسکا جانا پلیز آپ انکل انٹی سے بات کریں نا وہ میرب کو ہمارے پاس چھوڑ جائیں ایبو اب آنی کی طرف منہ کئے کھڑی تھی آنی نے غور سے ایبو کو دیکھا اور پھر زور سے گلے لگا لیا کتنے ہی آنسو تھے جو آنی نے اپنے اندر اتارے تھے اور کتنے ہی آنسو تھے جو ایبو کے بہ نکلے تھے کتنے عرصے بعد وہ ایسے آنی کے گلے لگ کے رو رہی تھی ورنہ اس نے تو رونا ہی چھوڑ دیا تھا۔ میں کچھ نہیں کر سکتی ایبو یہ اسکے ماں باپ کا فیصلہ ہے اور پھر میرب خود بھی تو جانا چاہتی ہے ہم اسے کیسے روک سکتے ہیں بیٹا اور میں نے کتنی دفع کہا ہے تم سے تم بھی فضول مت سوچا کرو اگر زندگی میں ایک ہی حادثہ یاد کر کے روتی رہو گی تو آگے نہیں بڑھ پاؤ گی  move on کرو ایبو میری جان آنی ایبو کو صوفے پے بٹھاتی واپس کمرے میں چلی گئی تھیں اور ہاں آج ہشام بھائی آ رہے ہیں خلیہ درست کر لینا اپنا ورنہ پھر سے مجھے لیکچر سننا پرے گا کمرے سے ہی آنی نے آواز لگائی تھی ہشام انکل آنی کے کزن تھے اور انھیں ہمیشہ ایبو کے کپڑوں سے مسلہ ہوتا تھا اسی لئے جب بھی وہ آتے ایبو کے لئے ایک سوٹ ضرور لے کے آتے تھے جی بہتر جا رہی ہوں ایبو اٹھتے ہوے بولی اور پھر ایک نظر گھڑی پے ڈال کے کمرے میں چلی گئی ابھی گیارہ ہوے تھے اور ہشام انکل ہمیشہ لنچ ٹائم پے آتے تھے ابھی وہ آرام سے سو سکتی تھی ویسے بھی میرب کی وجہ سے وہ ویسے ہی اداس ہو گئی تھی
ابھی اسے سوے ہوے ایک دو گھنٹے ہی ہوے تھے کے آنی نے پھر سے جگا دیا تھا ایبو اٹھو بھی بتایا بھی تھا ہشام بھائی آ رہے ہیں لیکن پھر بھی سو گئی تم اٹھو اب اور حلیہ درست کر کے نیچے آؤ فورن سے پہلے آنی ڈانٹتی ہوئی باہر جا چکی تھیں اور ایبو مندی مندی آنکھوں سے انکی باتیں سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی 
ارے آؤ آؤ ابیحہ بیٹا کیسی ہو سمینہ انٹی جو کے ہشام انکل کی بیوی تھی انہوں نے ایبو کو گلے لگاتے ہوے پوچھا اسلام و اعلیکم  انٹی کیسی ہیں آپ ایبو تمیز سے دونوں انکل انٹی کو سلام کر کے اب حال پوچھتے ہوے وہیں صوفے پے بیٹھ گئی آپ لوگ ہانی کو بھی ساتھ لے آتے بس بیٹا اسکے پپرز ہی نہیں حتم ہو رہے ورنہ ضرور لے کے اتے تم لگاؤ نہ چکر اس طرف کتنے مہینے ہو گے نہیں آئ تم بس انٹی پڑھائی ہی ٹائم لے لیتی ہے سارا (اب وہ انٹی کو کیا بولتی کے ہشام انکل جو بات بات پے پابندیاں لگا دیتے ہیں یہ اسے پسند نہیں )ویسے انٹی انشاء اللّه اگلی چھٹیوں میں ضرور چکر لگاؤں گی ایبو مسکرا کے بولی  اتنی دیر میں فون کی بیل بجی تو ایبو معذرت کرتی اٹھ کے باہر نکل آئ ہیلو فون کان سے لگاتے ہوے وہ بولی لیکن اسکے بولنے سے پہلے ہی فون پے مجود ہستی بولنا شروع کر چکی تھی ۔ ٹھیک ہے میں کوشش کرتی ہوں تم کیوں نہیں آ جاتی ہشام انکل اور سمینہ انٹی بھی آے ہوے ہیں اچھا ٹھیک چلو جاتے ہوے مجھے پک کر لینا اوکے اللّه خافظ۔ کیا ہوا کون تھا آنی ہاتھ میں بریانی کی ٹرے پکرے پوچھ رہیں تھیں میرب تھی آنی اسے اپنی کزنز کے لئے کچھ گفٹس لینے ہیں اسی سلسلے میں ہیلپ کا بول رہی تھی میں نے کہا کے آ جاؤ ساتھ چلیں گے ۔ اچھا ٹھیک ہے ابھی تم آ جاؤ کھانا لگ گیا ہے اور مہمان انتظار کرتے ہوے اچھے نہیں لگتے ۔ جی آنی آپ چلیں میں بس پانچ منٹ میں آئ ایبو بولتی ہوئی کمرے کی طرف بھاگی جلدی آنا 

محبت نہیں عشق Where stories live. Discover now