پارسائی سے آگے رسوائی Episode 22

35 1 3
                                    

دیکھو بہنا تم اب اس انسان کو سوچنا چھوڑ دو جو ہونا تھا ہو گیا اب اس فضول انسان کو سوچ کے کیا کرنا دنیا میں صرف وہی تھا کیا ۔۔۔بے مروت انسان تم نے اس میں نہ جانے دیکھا ہی کیا تھا۔۔۔۔آیت نے حیات کی بیزاری سے تنگ ہو کر کہا ۔۔۔۔۔۔آیت حیات کی پھوپھو زاد تھی وہ حیات کی اچھی سہیلی تھی عمر میں تو حیات سے کم تھی مگر حیات کے دل کے بہت قریب تھی ہمیشہ حیات کے ساتھ کھڑی ہوتی چاہے جیسے بھی حالت ہوتے ۔۔۔۔اب بھی آیت اپنی جان سے پیاری کزن کو یوں اداس نہیں دیکھ پاتی تھی ۔۔۔۔اسی لیے شاہ زر کو بہت سلواتیں سناتی رہتی ۔۔۔۔۔۔اور حیات جو کبھی شاہ کے خلاف ایک لفظ نہ سن سکتی تھی آج خاموشی سے سب سنتی تھی۔۔۔شاہ کا نام سنتے ہی حیات کی حالت غیر ہو جاتی تھی نہ جانے کن سوچوں میں گم ہو جاتی کس اذیت کو محسوس کرتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہی انسان تو زندگی تھا میری آیت میں اسکے بغیر کیسے جیوں گی۔۔۔۔۔زندگی سے تھکی ہوئی آواز آیت کو سنائی دی اور یہ آواز آیت کی تھی ۔۔۔جس نے اپنے شاہ زر کو کھویا تھا جسے شاہ نے رسوائیوں کا تحفہ دیا تھا۔۔۔۔آج وہ خالی ہاتھ تھی اسکے پاس کچھ بھی نہیں تھا نہ دوست نہ محبت نہ کوئی مخلص رشتہ سب ساتھ چھوڑ چکے تھے حیات کا۔۔۔اگر حیات کے پاس کچھ تھا تو ذلّت رسوائی کی اذیت جسے وہ ہر پل ہر لمحہ محسوس کرتی تھی ۔۔۔
حیات ہوش میں آؤ وہ انسان جا چکا ہے اور اب کبھی واپس نہیں آئے گا وہ اپنی اصلیت دکھا  چکا ہے اسکے چہرے پے جو شرافت کا مکھٹا تھا وہ اتر چکا ہے تمہے یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی۔۔۔۔۔آیت ایک بار پھر شروع ہو گئی ۔۔۔۔۔
آیت تم جانتی ہو اس نے مجے کہا تھا کے میں ایک ہوس کی ماری لڑکی ہوں جس نے جگہ جگہ عشق کی دکان کھول رکھی ہے ۔۔۔۔۔حیات کے لہجے میں درد تھا ۔۔۔۔جو اسے اسکی بےشمار محبت کے بدلے میں ملا تھا ۔۔۔
دیکھو بہنا تمہیں یہ سب بھولنا ہوگا زندگی ایسے نہیں گزرتی وہ تمہارے لیے بہتر نہیں تھا۔۔۔۔اور اس نے جو بھی کچھ کیا اسکا حساب اسے اللّه کو دینا ہوگا تم کیوں ایسے شخص کے لیے اپنی زندگی  برباد کرو گی۔۔۔۔۔۔۔۔بھول جاؤ اسے ۔۔زندگی میں آگے بڑھو۔۔۔۔۔آیت نے حیات کو سمجھانا چاہا ۔۔۔۔۔پر حیات بھی کیسے سمجھتی ابھی تو اسے شاہ زر سے بہت بڑا دھوکہ ملا تھا۔۔۔
میں نے اس سے بہت محبت کی تھی آیت ۔۔۔۔ایک بار پھر کمرے میں حیات کی دکھ بھری آواز گ گونجی ۔۔  
اسٹاپ اٹ حیات جسٹ اسٹاپ اٹ فور گاڈ سیک ۔۔۔۔۔آیت غصہ ہوتے ہوۓ کہا ۔۔۔جب کے حیات کے چہرے کو آنسوؤں نے بھگویا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
اچھا سالار سے کوئی رابطہ ہوا ۔۔۔آیت نے سوال کیا ۔۔۔
نہیں میں اس سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی میں نے اسے بلاک کر دیا ہے ۔۔۔۔۔حیات نے اب سالار کو سوچتے ہوۓ کہا ۔۔۔
چلو اچھا ہے وہ بھی برابر کا شریک تھا شاہ زر کے ساتھ ۔۔۔۔اور حورین ۔۔۔۔۔۔؟؟؟
نہیں اس سے بھی کوئی رابطہ نہیں ۔۔۔۔۔آیت جانتی ہو میری بےبسی کیا ہے میں حور کو کچھ بھی نہیں بتا سکتی کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔۔ہمیں ہمیشہ کچھ رشتوں کے لحاظ رکھنے پڑتے ہیں ۔۔۔۔پر حور نے مجھ سے اک بار بھی کچھ نہیں پوچھا اک سوال تک نہی کیا بس غلط سمجھ لیا مجھے۔۔۔۔۔آیت میرا یقین کسی نے نہیں کیا ۔۔۔۔۔جانتی ہو یہاں ہر کسی کو اپنا آپ مظلوم لگتا ہے ہر کوئی اپنا بچاؤ چاہتا ہے ۔۔۔۔۔ہم تو آب زم زم سے دھلی ہوئی خلقت میں رہتے ہیں جہاں کسی سے کوئی گناہ نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔آج ہر کوئی مجھے غلط کہہ رہا ہے ۔۔۔۔۔قرات العین نے مجھے کیا کچھ نہیں کہا ۔۔۔میں جب بھی اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہوں تب میرے ماضی کو لا کر میرے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے ۔۔۔۔
غلطیاں گناہ تو زندگی کا حصہ ہیں ہم آدم زاد ہیں غلطیاں تو ہونگی ان سے بچا تو نہیں جا سکتا ہم بھی تو اسی دنیا میں رهتے ہیں جہاں آدمؑ کو سزا کے لیے بھیجا گیا تھا تو ہم سے کیسے غلطیاں نہیں ہونگی ۔۔۔۔۔جانتی ہو اسلام میں اگر عورتوں کو پردے کا حکم دیا گیا ہے تو وہیں مرد کو بھی نگاہ نیچے کر کے چلنے کا حکم دیا گیا ہے ۔۔۔اسلام میں تو مرد اور عورت کے لیے ایک جیسی پابندی ہے تو پھر غلط صرف عورت کیوں ہے ۔ ۔۔
بدقسمتی سے ہم نے ایک ایسے معاشرے میں جنم پایا ہے جہاں سرے سے عورت کو ہی غلط سمجھا جاتا ہے ۔۔۔۔۔اگر عورت محبت کرے تو وہ غلط عورت طلاق یافتہ ہے اس میں بھی عورت کی ہی غلطی زبان لمبی ہوگی تبھی تو طلاق ہوئی شوہر کی نافرمانی کرتی ہوگی ایسا ہی ہوتا ہے ۔نہ جانے کیسے کیسے تانے سننے پڑتے ہیں اک طلاق یافتہ عورت کو۔۔۔اگر کسی عورت کا شوہر انتقال کر جاتا ہے تو اسکی عدت میں ہی اسکے عاشقوں کی فہرست اسکے سامنے رکھ دی جاتی ہے ۔۔۔غرض ہر طرح سے ہمارے اس کمزور معاشرے میں عورت کو ہی غلط سمجھا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔مگر افسوس کا مقام وہاں ہوتا ہے جب ایک عورت ہی دوسری عورت کو غلط سمجھتی ہے۔۔۔۔۔اور بے بسی وہاں ہوتی ہے جہاں انسان اپنی صفائی میں کچھ بھی نہیں بول سکتا ۔۔۔۔۔۔۔اگر عورت محبت کر کے جرم کرتی ہے تو مرد کونسا ثواب کرتا ہے ۔۔۔لیکن نہیں مرد کو تو سراہا جاتا ہے ۔۔۔
لیکن مجے بہت افسوس ہے کے اک عورت دوسری عورت کا دکھ نہیں سمجھتی ۔۔۔۔یہاں پر سب سب کچھ جانتے ہیں بس آنکھیں بند کر رکھی ہیں اس خوف سے کے کہی آنکھیں کھلنے پر انکے گناہ سامنے نہ آ جائیں ۔۔۔۔
میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے آیت مجے بھی کسی نے نہیں سمجھا۔۔۔اگر سمجھا بھی تو صرف غلط سمجھا میری دوستیں آج مجھے غلط کہتی ہیں جو غلط کاموں میں میرے ساتھ بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔لیکن آج حقیقت سے نظریں چرا رہی ہے ۔۔۔۔۔خود  مظلوم بن کر مجھے ظالم بنا دیا ۔۔۔۔۔۔آیت مجھے تو بددعا دینے کا حق بھی نہیں دیا گیا ہے ۔۔۔۔میں شاہ کو بددعا بھی نہیں دے سکتی آج بھی مجھے کچھ رشتوں کا لحاظ رکھنا ہے ۔۔۔جانتی ہو آیت یہ لحاظ مار دیتا ہے ۔۔۔میں بھی مر جاؤنگی ایک دن ایسے ہی لحاظ رکھتے رکھتے ۔۔۔۔۔۔۔ میں بھی مر جاؤنگی ۔۔۔۔۔۔حیات نے آنکھیں بند کر لی ایک درد تھا ایک آہ تھی اسکے لہجے میں ۔۔۔۔۔جسے وہ آنکھیں بند کر کے محسوس کر رہی تھی کچھ گلے تھے کچھ شکوے تھے جو  اسے اپنے دل میں ہی چھپانے تھے ۔۔۔۔۔۔۔حیات کے دل میں آج ہر انسان کے لیے نفرت تھی صرف نفرت ۔۔۔۔
ٹھیک کہہ رہی ہو تم حیات لیکن تم بھول رہی ہو کے جسکا کوئی نہیں ہوتا اسکا اللّه ہوتا ہے ۔۔۔بس اللّه کی ذات پے یقین رکھو اور سارا معاملہ اللّه پے چھوڑ دو ۔۔۔۔۔
میں نے شرک کیا ہے آیت اللّه مجھے کبھی معاف نہیں کریگا یہ شرک کی ہی سزا ملی ہے مجھے ۔میں نے شاہ زر کی عبادت شروع کر دی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
اللّه بہت رحیم ہے اپنے بندے کی ایک بار ہی معافی مانگنے پر معاف کر دیتا ہے ۔۔۔۔آیت نے حیات کو سمجھاتے ہوۓ کہا ۔۔۔۔
آیت بس اللّه مجھے معاف کر دے ۔۔۔۔۔آمین ۔۔۔
آیت نے بھی آمین کہا ۔۔۔۔۔اچھا چلو اٹھو باہر صحن میں چلو ساتھ میں چائے پیتے ہیں یہ کیا تم ہر وقت کمرے میں بند رہتی ہو ۔۔۔۔مامی نے بتایا مجھے کے تم نہ تو کچھ ٹھیک سے کھاتی ہو نہ پیتی ہو بس اس کمرے میں بند رہتی ہو ۔۔۔۔اب جب تک میں ادھر ہوں ایسا کچھ بھی نہیں چلنے والا ۔۔۔۔۔۔۔آیت حیات کو لے کے چل دی ۔۔۔۔۔۔۔

*******************
ڈائری کھولے وہ ماضی کی تلخ یادوں میں کھوئی تھی تبھی عاصم کی آواز پے وہ ہوش میں آئی۔۔۔۔۔
بےگم صاحبہ کہاں کھوئی ہیں ۔۔۔۔لائیں یہ ڈائری مجھے دکھائیں آج تو میں دیکھ کے رہونگا اس میں ایسا کیا ہے جو آپ ہمیشہ کھوئی ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔۔عاصم نے ڈائری چھینی تھی حیات سے ۔۔۔۔
عاصم ڈائری واپس دیں مجھے ۔۔۔
نہیں دونگا عاصم نے بھی ڈھٹائی سے کہا ۔۔۔۔
عاصم پلز ڈائری واپس دے دیں مجے ۔۔۔حیات کا دل خوف سے کانپ گیا کے اگر عاصم کو حیات کے ماضی کے بارے میں پتا لگ گیا تو کیا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔حیات التجا کر رہی تھی عاصم پلز ڈائری واپس دے دیں ۔۔۔اب کی بار حیات کی آنکھوں میں آنسوں تھے اور عاصم کیسے برداشت کر سکتا تھا ۔۔۔۔
یہ بات بہت غلط ہے حیات آپ ہمیشہ میری کمزوری کا فائدہ اٹھاتی ہیں جانتی ہیں نہ نہیں دیکھ سکتا میں آپکی آنکھوں میں آنسوں ۔۔۔۔۔یہ لیں پکڑیں اپنی ڈائری۔۔۔۔۔عاصم نے ناراض ہوتے ہوۓ کہا ۔۔۔۔
حیات!! سوری عاصم ۔۔۔
یہ ٹھیک ہے پہلے دل دکھاؤ پھر سوری بول دو ۔۔عاصم بولا ۔۔۔
سوری عاصم اب کی بار حیات نے دونو ہاتھوں سے کان پکڑے تھے وہ بلکول کسی معصوم بچے کی طرح لگ رہی تھی عاصم کو حیات کی اس ادا پے بہت پیار آیا ۔۔۔۔
ہائے آپ ایک دن ان اداؤں سے میری جان لے لینگی بےگم صاحبہ۔۔۔۔وہ عاصم ہی کیا جو ہر دو منٹ بعد فلمی نہ بنے ۔۔ 
حیات مسکرا دی ۔۔۔
خیر بےگم میں یہ کہنے آیا تھا چائے بنا دیں باہر ہمارے رقیب آئے ہیں تو مل کر چائے پیتے ہیں ۔۔۔۔
رقیب کون رقیب حیات نے گھبرا کر سوال کیا ۔۔۔۔
عاصم! ارے وہ چاند میاں آئیں ہیں چلو انکے ساتھ چائے پیتے ہیں ۔۔۔۔۔
ہاہاہاہا عاصم کی بات پے حیات ہنس دی ۔۔۔کیوں کے چاند ہی تو عاصم کا رقیب تھا ۔۔۔۔ابھی بنا کر لاتی ہوں چائے ۔۔عاصم اور حیات نے ساتھ بیٹھ کر چائے پی ۔۔۔اب حیات چاند میں کھوئی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔

پارسائی سے آگے رسوائی Where stories live. Discover now