Episode 3

69 0 0
                                    


احمد کو یہ لڑکی آفیسر کم اور سائیکو پیشنٹ زیادہ معلوم ہو رہی تھی۔

"تم میری جان کیوں نہیں چھوڑ رہی؟"
احمد چہرہ موڑ کر اسے گھورنے لگا۔

"دیکھو میرے ہاتھ خالی ہیں میں نے تو کچھ بھی نہیں پکڑا۔۔۔"
حریم معصومیت کی انتہا کو چھوتی ہوئی بولی۔

احمد مٹھیاں بھینچے ضبط کرنے لگا۔
حریم لب دباےُ مسکرا رہی تھی۔

"مجھے کلائمبنگ بہت پسند ہے۔میں جب بارہ سال کی تھی تبھی ماما سے کہتی تھی کہ مجھے پہاڑوں پر چھوڑ آئیں لیکن وہ یہی کہتیں کہ ابھی تم چھوٹی ہو ابھی تم چھوٹی ہو۔۔۔"
حریم منہ بناتی ہوئی بولی۔

احمد متحیر سا اسے دیکھ رہا تھا جو بلا جواز بولتی جا رہی تھی۔
"تم ہو کیا؟"
احمد اسے گھورتا آگے کو ہوا۔

"انسان ہوں اور کیا؟"
حریم اس کے غصے کا اثر لئے بنا بولی۔

"اگر تمہارے منہ سے ایک لفظ نکلا تو میں ٹیپ لگا دوں گا تمہارے منہ پر۔۔۔"
احمد خونخوار نظروں سے گھورتا ہوا بولا۔

"ایک لفظ۔۔۔"
حریم دانت نکالتی ہوئی بولی۔

"اب لگاؤ ٹیپ۔۔۔"
احمد پہلے ناسمجھی کے عالم میں پھر اس کی بات سنتے ہی قہر برساتی نظروں سے گھورنے لگا۔

"کس مٹی سے بنی ہو تم؟"
احمد اس کی جانب قدم بڑھاتا ہوا بولا۔

"ملتانی مٹی سے۔۔۔"
حریم جلانے والی مسکراہٹ لئے بولی۔

"گو کہ میں نے کبھی ملتان دیکھا نہیں۔۔۔"
حریم لاپرواہی سے بول رہی تھی۔

احمد کا دل کر رہا تھا حریم کو اسی کھڑکی سے دھکا دے دے۔
کچھ سوچ کر وہ صوفے پر آ بیٹھا۔

جیب سے ہینڈ فری نکالی اور کانوں میں لگا کر اسکرین پر نظریں جما لیں۔
حریم مسکراتی ہوئی بیڈ پر آ بیٹھی۔

احمد کا اکتاہٹ بھرا چہرہ اسے بھاتا تھا تبھی وہ اپنی عادت کے خلاف اسے تنگ کرتی۔

احمد کے جاتے ہی حریم بھی کمرے سے نکل آئی۔
صبح صادق کا وقت تھا۔

نیلگوں آسمان پر سورج جگمگا رہا تھا اور زمین پر اپنی کرنیں بکھیر رہا تھا۔
سورج کی گرم کرنیں سردی کے اثر کو کافی حد تک کم کر رہی تھیں۔

موقع کو غنیمت جان کر حریم نے ڈرائینگ روم میں پڑے واس پر مائیکرو فون لگا دیا۔
اس طرح کہ کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا تھا۔

چہرے پر طمانیت لئے وہ واپس آ گئی۔
لاشعوری طور پر وہ احمد کے بارے میں سوچنے لگی۔

گرے شرٹ پر بلیک جیکٹ پہنے وہ صوفے پر بیٹھا تھا۔
حریم کی نگاہوں کے سامنے رات والا منظر گردش کرنے لگا۔
احمد کے چہرے کی بیزاری،اس کا ضبط کرنا۔
حریم مسکرانے لگی۔

"میں کیوں تمہیں تنگ کرتی ہوں؟"
حریم خود سے سوال کرنے لگی۔

"تم اچھے لگتے ہو ایسے روٹھے روٹھے سے۔۔۔"
وہ خود ہی جواب دینے لگی۔

"مسٹر احمد شیر۔۔۔"
حریم آئینے کے سامنے آتی ہوئی بولی۔

"شیر یا ڈھیر؟"
وہ زیر لب بڑبڑاتی ہوئی مسکرائی۔

حریم احمد کی منتظر تھی لیکن وہ افشاء کے پاس بیٹھا تھا۔

"افشاء اب مجھ سے تم غیروں والا سلوک تو مت کرو۔۔۔"
احمد خفا خفا سا بولا۔

"لو میں نے کب تم سے غیروں والا سلوک کیا؟"
افشاء کی آنکھوں میں حیرت ابھری۔

"اس لڑکی کو آج باہر لے جانا ہے مجھے۔۔۔"
احمد ٹانگ پے ٹانگ چڑھاےُ آرام دہ انداز میں بیٹھا تھا۔

"ہاں تو لے جاؤ میں نے کب منع کیا۔لیکن پیسے چالیس ہزار ہوں گے۔۔۔"
افشاء بال پیچھے کرتی ہوئی بولی۔

"ابھی تم کہہ رہی تھی کہ میں غیروں والا سلوک نہیں کرتی۔۔۔"
احمد بھنویں سکیڑ کر بولا۔

"اچھا باہر لے جانا ہے نہ جاؤ لے جاؤ مزے کرو۔۔۔"
وہ مسرت سے بولی۔

احمد مسکراتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
افشاء معذرت کرتی فون کان سے لگاےُ کھڑکی کے پاس چلی گئی اور احمد باہر نکل آیا۔

"اب آ رہے ہو؟"
حریم کمر پر ہاتھ رکھے پیشانی پر بل ڈالے اسے گھورتی ہوئی بولی۔

حریم کا انداز کسی بیوی سے کم نہ تھا۔
احمد بنا جواب دئیے دروازہ بند کرنے لگا۔
حریم کو اس کی خاموشی مزید طیش دلا رہی تھی۔

"میں کچھ پوچھ رہی ہوں؟"
حریم تلملا کر بولی۔

"کام کر رہا تھا فارغ نہیں ہوں تمہاری طرح۔۔۔"
احمد تنک کر بولا۔

حریم کا اس پر رعب جمانا اسے ایک آنکھ نہ بھاتا۔
"اچھا میں فارغ ہوں تو پھر جو کام میرے ذمے ہے تم کر لو۔۔۔"
حریم تیوری چڑھا کر بولی۔

"پہلی بار ایسی پاٹنر ملی ہے عقل سے پیدل۔۔۔"
احمد بڑبڑاتا ہوا صوفے پر بیٹھ گیا۔

"مجھے بھی پہلی بار ایسا پاٹنر ملا ہے کھڑوس جس کے بولنے پر بل آتا ہے۔۔۔"
حریم اس کے سامنے آتی ہوئی بولی۔

"کام کیا یا نہیں؟"
احمد موضوع پر آیا۔

"اگر میں کہوں نہیں تو؟"
حریم آبرو اچکا کر بولی۔

"تو تم اپنے ناخن تراشنے کی بجاےُ اپنے کام پر دھیان دو۔زیادہ وقت نہیں لے سکتے ہم۔۔۔"
احمد فکرمندی سے گویا ہوا۔

"اچھا مجھے لگا تھا پوری زندگی پڑی ہے ہمارے پاس اس کام کے لیے۔۔۔"
حریم تپ کر بولی۔

احمد نے ایک سلگتی نگاہ اس پر ڈالی۔
سیاہ رنگ کی ٹی شرٹ میں حریم سیدھی دل میں اتر رہی تھی لمحہ بھر کو احمد نگاہ ہٹانا بھول گیا۔

"پتہ نہیں کیسے کیسے لوگوں کو ہائر کرنے لگ گئے ہیں سیکرٹ سروسز والے۔۔۔"
احمد دائیں جانب دیکھتا ہوا بولا۔

"تمہیں دیکھ کر میرے دماغ میں بھی یہی سوال ابھر رہا ہے سر سے ضرور پوچھوں گی میں۔۔۔"
حریم محظوظ ہوتی ہوئی بولی۔

حریم کی بات پر احمد تلملا اٹھا۔
"میں نے ڈرائینگ روم میں لگا دیا ہے اب موقع ملتے ہی افشاء کے کمرے میں بھی لگا دوں گی آج دیکھا تھا اس کا کمرہ میں نے۔کھڑکی کے اوپر جو راڈ ہے سوچ رہی ہوں اس پر لگا دوں۔۔۔"
حریم سنجیدگی سے بولی رہی تھی۔

"گڈ۔کوشش کرنا یہ کام کل ہو جاےُ۔میں ماحد کو کال کر کے پوچھتا ہوں آج کوئی خاص بات کی افشاء نے یا پھر کوئی ڈیل۔۔۔"
احمد کہتا ہوا نمبر ملانے لگا۔
حریم خاموش اس کی جانب متوجہ تھی۔

"ہاں ماحد کیا باتیں ہوئیں آج؟ تو فل ٹائم سن رہا ہے نہ؟"
احمد بےچینی سے بولا۔

"اچھا چل ٹھیک ہے جیسے کچھ معلوم ہو مجھے کال کر دینا۔ہاں میں صبح آؤں گا۔۔۔"
فون جیب میں ڈال کر احمد کھڑا ہو گیا۔

"کہاں؟"
حریم اسے دروازے کی سمت بڑھا دیکھ کر بولی۔

"باہر جانا ہے تو آ جاؤ ورنہ میں اکیلا چلا جاؤں گا۔۔۔"
احمد دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔

"کیا ہو جاتا اگر پہلے بتا دیتا۔۔۔"
حریم بڑبڑاتی ہوئی اس کے پیچھے لپکی۔

حریم احمد سے بات کرتی زینے اتر رہی تھی۔
"میڈم مجھے یہ لڑکی ٹھیک نہیں لگتی۔۔۔"
حریم کو دیکھ کر افشاء کے ہمراہ بیٹھی لڑکی بولنے لگی۔

"کیوں؟"
افشاء حریم کو بغور دیکھتی ہوئی بولی۔

"پتہ نہیں بس کچھ تو عجیب ہے اس میں۔۔۔"
وہ الجھ کر بولی۔

"نظر رکھنا اس پر۔سارا دن کیا کرتی ہے مجھے پل پل کی خبر دینا۔اور تم گئی نہیں جٹ کے پاس؟"
وہ چہرہ موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔

"گاڑی ہی نہیں بھجوائی اس نے ابھی تک۔۔۔"
وہ مایوسی سے بولی۔

"اچھا فون کر کے میں پوچھتی ہوں۔۔۔"
افشاء بولتی ہوئی کلچ سے فون نکالنے لگی۔

"پہاڑ پر لے جا رہے ہو؟"
حریم فرنٹ سیٹ پر بیٹھتی ہوئی بولی۔

"ہاں سوچ رہا ہوں تمہیں دھکا دے دوں وہاں سے کیونکہ کام تو تم نے کر دیا ہے۔۔۔"
احمد دانت پیستا ہوا بولا۔

"اچھا ہوا تم نے مجھے اپنے خطرناک عزائم سے آگاہ کر دیا۔تم سے پہلے میں اپنے پلان پر عملدرآمد کر لوں گی۔۔۔"
حریم سیٹ بیلٹ باندھتی ہوئی بولی۔

رات گہری ہو رہی تھی اور ہوا میں خنکی بڑھ رہی تھی۔
سرد ہوا کے تھپیڑے آ کر ان سے ٹکرا رہے تھے۔

رات کے ساتھ ساتھ سردی بھی بڑھ رہی تھی۔
حریم نے سردی سے بچاؤ کے لئے کچھ بھی نہیں پہنا تھا۔
احمد مطمئن سا گاڑی چلا رہا تھا۔

"ہم کہاں جا رہے ہیں؟"
حریم نگاہیں سڑک پر مرکوز کرتی ہوئی بولی۔

"کہیں بھی نہیں۔۔۔"
احمد آہستہ سے بولا۔

"ابھی تو تم کہہ رہے تھے پہاڑ پر لے جا رہے؟"
حریم آرزدگی سے بولی۔

احمد اثر لئے بنا سپیڈ بڑھانے لگا۔
گاڑی سنسان سڑک پر تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔

چاروں سمت اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دے رہا تھا۔
گاڑی کی آواز اس دبیز خاموش میں ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔
مناظر تیزی سے پیچھے چھوٹتے جا رہے تھے۔

حریم نے اس پرسکون فضا میں لمبا سانس اندر کھینچا۔
چاند بادلوں کی اوٹ میں آنکھ مچولی کھیل رہا تھا۔
اکا دکا ستارے مدھم مدھم روشنی بکھیرتے دکھائی دے رہے تھے۔

اس گھنی تاریکی میں خاموشی سر بکھیر رہی تھی۔
حریم بچوں کی مانند اشتیاق سے باہر دیکھ رہی تھی۔
احمد نے ایک نظر خاموش بیٹھی حریم پر ڈالی۔
اسے یہ لڑکی عجیب و غریب مخلوق معلوم ہوتی تھی۔جس کے نجانے کتنے روپ تھے۔
**********
"کیا کر رہے ہیں آپ؟"
ایمن چلتی ہوئی اسد کے سامنے آ گئی۔

"کچھ نہیں شرٹ پریس کر رہا تھا۔۔۔"
اسد استری شرٹ پر رکھتا ہوا بولا۔

"آپ خود کیوں کر رہے ہیں لائیں مجھے دیں میں کر دوں۔۔۔"
ایمن نے اس کا ہاتھ استری سے ہٹانا چاہا۔

"کوئی مسئلہ نہیں میں کر لوں گا۔۔۔"
اسد ہلکا سا مسکرایا۔

"نہیں میں کر دیتی ہوں آپ سارا دن کام کر کے آتے ہیں میں تو فارغ ہوتی ہوں چھوڑ دیں۔۔۔"
ایمن کا ہاتھ اسد کے ہاتھ سے مس ہوا تو اسد نے اپنا ہاتھ ہٹا لیا۔

"یہ لڑکیوں کے کام ہیں۔۔۔"
ایمن استری شرٹ پر رکھتی ہوئی بولی۔

"کہاں لکھا ہے کہ لڑکیوں کے کام ہیں؟"
اسد جیب میں ہاتھ ڈالے اسے دیکھ رہا تھا۔

بلیو ڈریس پینٹ پر وائٹ شرٹ جو کہ باہر نکلی ہوئی تھی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کر رکھی تھی۔آستین اوپر چڑھا رکھے تھے۔
وہ ابھی ابھی آفس سے لوٹا تھا۔
اس رف سے حلیے میں بھی اسد دلنشیں لگ رہا تھا۔
بڑھی ہوئی شیو اس کے رنگ پر چار چاند لگا رہی تھی۔

"آپ کو نہیں معلوم لڑکیاں کرتی ہیں یہ کام۔۔۔"
ایمن نے اپنی جانب سے سمجھداری سے جواب دیا۔

"جن کی امی نہ ہوں انہیں پھر خود کرنے پڑتے۔۔۔"
اسد غمگین لہجے میں بولا۔

ایمن تڑپ کر اسے دیکھنے لگی۔
"تو کیا ہوا میں تو ہوں نہ؟ چاےُ بھی تو مجھ سے بنواتے ہیں نہ؟"
ایمن خفا خفا سی استفسار کرنے لگی۔

"چاےُ سیکھی نہیں بنانی ورنہ خود بنا لیتا۔۔۔"
اسد سر کھجاتا ہوا بولا۔

لبنا زینے چڑھتی اوپر آئی تو نظر ان دونوں پر پڑی۔
چہرے پر مسکراہٹ سجاےُ وہ ان کے پاس آ گئیں۔

"اسی لئے کہتی ہوں شادی کر لو۔۔۔"
وہ اسد کے شانے پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولیں۔

"تائی امی آپ جانتی ہیں ھان کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں۔۔۔"
اسد بےچارگی سے بولا۔

"آنے دو اس بار ھان کو۔شادی کروا کے واپس بھیجوں گی۔۔۔"
وہ ہلکے پھلکے انداز میں بولیں۔

"ماما! شادی کر کے بھیج دیں گیں تو کیا فائدہ شادی کا؟ کام تو پھر انہیں خود کرنے پڑیں گے نہ؟"
وہ اسد کی جانب شرٹ بڑھاتی ہوئی بولی۔

"ہاں یہ تو ہم نے سوچا نہیں۔بس پھر اسے کہیں گے جاب چھوڑ دے اور اب آرام کرے۔۔۔"
وہ اسد کو دیکھتی ہوئی بولیں۔

"تائی امی آپ کی بات ہوئی ھان سے؟"
اسد فکرمندی سے بولا۔

"نہیں بات تو نہیں ہوئی اس نے بھی فون نہیں کیا۔۔۔"
وہ کھوئی کھوئی سی بولیں۔

"میں نے فون کیا لیکن اس نے اٹینڈ نہیں کیا۔۔۔"
اسد مایوسی سے بولا۔

"جب دیکھے گی تو کال بیک کر لے گی تم پریشان مت ہو۔۔۔"

ھان کے ذکر پر ایمن ہمیشہ خاموش ہو جاتی۔
اسے ھان سے حسد نہیں تھا بلکہ رشک آتا تھا لیکن ھان کو قدر نہیں تھی جو اس کے پاس تھا۔
جو حاصل ہو اس کی قدر نہیں ہوتی۔
جو چیز دسترس میں نہ ہو یا چھن جاےُ ہمیشہ اسی کی قدر ہوتی۔یہی انسانی فطرت ہے۔
**********
حریم پانی کا گلاس لبوں سے لگاےُ کچن سے باہر نکل رہی تھی جب اس کی نظر سامنے سے آتے انسان سے ٹکرائی۔

حریم کے چہرے پر شناسائی کی رمق ابھری۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتی زینے چڑھنے لگی۔

"کل فہد مجھے لے کر گیا تھا نہ یہ دیکھو رنگ لے کر دی ہے۔۔۔"
راہداری میں دو لڑکیاں کھڑیں محو گفتگو تھیں۔

"یہ تو معمولی سی رنگ ہے مجھے تو چودھری نے چین دی تھی اصلی سونے کی۔۔۔"
وہ اتراتی ہوئی بولی۔

حریم کو ان لڑکیوں سے کراہیت محسوس ہو رہی تھی۔
جو اس عیش و آرام کے لئے اپنی عزت بیچ آتی تھیں۔
جتنے قصوروار مرد ہیں اتنی ہی قصوروار یہ لڑکیاں بھی ہیں۔

کوئی بھی کاروبار تب چلتا ہے جب گاہک مطالبہ کرے پہل ان حوس پرست مردوں کی جانب سے ہوتی ہے جو دولت کے نشے میں چور ہوتے ہیں اور اس کے بعد ایسی لڑکیاں جو دولت کی لالچ میں اپنا آپ روند دیتی ہیں چند کھوٹے سکوں کے عوض اپنی عصمت نیلام کر دیتی ہیں اور لعنت اس بات پر ہے کہ فخر محسوس کرتی ہیں اس بات پر۔
حریم جھرجھری لیتی اپنے کمرے میں آ گئی۔

"وہ آدمی کون تھا؟ کیا سچ میں اسے میں جانتی ہوں یا میرا وہم تھا؟"
حریم ٹہلتی ہوئی خود کلامی کر رہی تھی۔

"شکر ہے افشاء کے کمرے میں بھی مائیکرو فون لگا دیا اب بس جلدی سے ان پر ہاتھ ڈال لیں۔۔۔"
وہ ہاتھ مسلتی سوچ رہی تھی۔

"احمد پتہ نہیں کب آےُ گا؟"
حریم گھڑی کو دیکھتی ہوئی بولی۔

حریم نے نیلی جنیز پر نیلی جنیز کی ہی شرٹ زیب تن کر رکھی تھی۔
سیاہ بالوں کی لٹیں جوڑے کی قید سے باہر نکل کر حریم کے روئی جیسے گالوں کے ساتھ اٹکھیلیاں کر رہی تھیں۔
پنک لپ اسٹک سے پوشیدہ ہونٹوں کو وہ مسلسل کاٹ رہی تھی۔

کچھ سوچ کر حریم نے سنیکرز نکالے اور بیٹھ کر پہننے لگی۔
ایک نظر خود کو آئینے میں دیکھا اور پھر سے احمد کا انتظار کرنے لگی۔

"اف آ بھی جاؤ اب۔۔۔"
حریم دروازے کو گھورتی ہوئی بولی۔

دروازہ کھلا اور احمد کا ہشاش بشاش سا چہرہ نمودار ہوا۔

"میں کب سے انتظار کر رہی ہوں تمہارا۔۔۔"
حریم اس کی جانب بڑھتی خفگی سے بولی۔

"کیوں؟"
احمد آبرو اچکا کر بولا۔
بلیک پینٹ شرٹ پر بلیک جیکٹ پہنے وہ خوبرو لگ رہا تھا۔
حریم ٹکٹکی باندھے اسے دیکھنے لگی۔

"ہیلو؟"
احمد نے اس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی۔

حریم نفی میں سر ہلاتی مسکرانے لگی۔
"میں نے افشاء کے کمرے میں مائیکرو فون لگا دیا ہے۔۔۔"
حریم مسرور سی بولی۔

"ویری گڈ۔میں سر سے بات کروں گا وہ انہیں گرفتار کرنے کی تیاری کریں۔۔۔"
احمد دروازے سے پشت لگاےُ بول رہا تھا۔

اس بات سے انجان کہ دوسری جانب کوئی ان کی گفتگو سننے کی سعی کر رہا ہے۔

"مجھے کب نکالو گے یہاں سے؟"
حریم سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔

"میں سوچ رہا تھا ایک دو دن تک تمہیں نکال کر لے جاؤں یہاں سے۔۔۔"
احمد جیب میں ہاتھ ڈالے بول رہا تھا۔

حریم نے بولنے کے لیے لب وا کئے ہی تھے کہ احمد نے ہاتھ کے اشارے سے خاموش کروا دیا اسے۔
حریم بھنویں اچکا کر اسے دیکھنے لگی۔
احمد کے کان باہر ہونے والی آہٹ پر تھی۔

"آہٹ سنائی دی ہے۔۔۔"
وہ خود سے مخاطب تھا۔

اب وہ اس شخص کی حرکت کرنے کا منتظر تھا۔
چند پل خاموشی سے سرک گئے اور اس کے بعد قدموں کی ہلکی ہلکی چاپ سنائی دی جو دروازے سے دور ہوتی سنائی دے رہی تھی۔

احمد کے چہرے پر پریشانی کی لکریں ابھرنے لگی۔
حریم دم سادھے اسے دیکھ رہی تھی۔

"واٹ ہیپنڈ؟"
حریم دھیرے سے بولی۔

"شٹ کوئی ہماری بات سن رہا تھا۔۔۔"
احمد کی دبی دبی آواز سرسرائی۔

"اب؟"
حریم فکرمندی سے اسے دیکھنے لگی۔

"ہمارے پاس صرف چار منٹ ہیں یہاں سے نکلنے کے لیے ورنہ اس کے بعد ہماری لاشیں ملیں گیں۔۔۔"
احمد بولتا ہوا کھڑکی کی جانب بڑھنے لگا۔
حریم بھی اس کے پیچھے چل دی۔

Uljhy Bandhan (Hamna Tanveer)Where stories live. Discover now