Episode 5

61 0 0
                                    



ایمن اسد کے کمرے میں جھانک رہی تھی جب اسد اس کے عقب سے نمودار ہوا۔

"کسے ڈھونڈ رہی ہو؟"
اسد رازدارانہ انداز میں بولا۔

"اسد۔۔۔"
کہتے ہوۓ ایمن نے گردن گھمائی تو اسد کو دیکھ کر اچھل پڑی۔

"آپ یہاں؟"
وہ حیران ہوۓ بنا نہ رہ سکی۔

"تم تو ایسے ڈر رہی ہو جیسے بھوت دیکھ لیا ہو۔۔۔"
اسد کہتا ہوا اندر چلا گیا۔

"میرا مطلب ابھی تو آپ اندر تھے پھر باہر کیسے؟"
ایمن الجھ کر اسے دیکھنے لگی۔

"تم نظر رکھتی ہو مجھ پر؟"
اسد تیکھے تیور لئے بولا۔

"میں کیوں نظر رکھوں گی یہ کام آپ کی بیوی کرے گی۔۔۔"
ایمن بے ساختہ بول گئی۔

اسد کے لبوں پر دلفریب مسکراہٹ نے احاطہ کر لیا۔
ایمن سٹپٹا کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔

"کیوں ڈھونڈ رہی تھی مجھے بتاؤ اب؟"
اسد بغور اسے دیکھتا ہوا بولا۔

"وہ مجھے کام سے جانا تھا بابا کی طبیعت ٹھیک نہیں تو کہہ رہے کہ آپ کے ساتھ چلی جاؤں۔۔۔"
ایمن نے جلدی جلدی ساری بات بتا دی۔

"اچھا اور اگر میں نہ لے جاؤں پھر؟"
اسد صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتا ہوا بولا۔

"آپ کو چاےُ میں بنا کر دیتی ہوں اب حساب برابر کریں۔۔۔"
ایمن منہ بناتی ہوئی بولی۔

اسد قہقہ لگاتا کھڑا ہو گیا۔
"تمہارا کالج کیسا جا رہا ہے؟"
اسد چابیاں اٹھاتا ہوا بولا۔

"کالج تو کہیں نہیں جا رہا جہاں کھڑا تھا وہیں ہے۔۔۔"
ایمن معصومیت سے بولی۔

اسد مسکراتا ہوا نفی میں سر ہلانے لگا۔
ایمن بنا پلک جھپکے اسد کو دیکھ رہی تھی جو بالوں میں برش چلا رہا تھا۔

"کاش ھان کی جگہ وہ ہوتی!!"
ایمن حسرت زدہ سی اسے دیکھ رہی تھی۔

گوری رنگت ،بڑھی ہوئی شیو،آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگاےُ وہ پرکشش لگ رہا تھا۔
جیکٹ کی زپ بند کرتا وہ ایمن کے مقابل آ گیا۔
ایک طلسم تھا جو ٹوٹ گیا۔
ایمن نے اپنی نگاہوں کا زاویہ تغیر کر لیا۔

"اب چلنا نہیں ہے؟"
اسد آبرو اچکا کر بولا۔

"کیوں نہیں چلنا؟میں بیگ اٹھا کے لائی آپ نیچے چلیں۔۔۔"
ایمن باہر نکلتی ہوئی بولی۔

اسد نے ایک نظر فون پر ڈالی جس پر ھان کی تصویر جگمگا رہی تھی۔
مسکراتے ہوۓ وہ زینے اترنے لگا۔

"تایا ابو آپ کی طبیعت کیسی ہے؟"
اسد دروازہ ناک کرتا ہوا اندر آیا۔

"ہاں اب بہتر ہوں بی پی شوٹ کر گیا تھا۔۔۔"
وہ نقاہت سے بولے۔

"آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں؟"
اسد ان کے سامنے بیٹھتا ہوا بولا۔

"بس بیٹا آفس میں کچھ گڑبڑ چل رہی تھی پھر تم میرے غصے سے تو واقف ہی ہو۔۔۔"
وہ ہلکا سا مسکراےُ۔

"تمہاری چاچی کہہ رہی تھیں کہ عید پر شادی کر دیں تمہاری۔۔۔"
وہ خاموش ہو کر اسد کو دیکھنے لگے۔

"مجھے تو کوئی اعتراض نہیں کیونکہ جاب میری سیٹ ہے ھان کا مسئلہ ہے۔۔۔"
اسد انہیں دیکھتا ہوا بولا۔

"میں نے بھی اسی لئے ٹال دیا اپنی بیٹی کی مرضی کے خلاف نہیں جا سکتا میں۔۔۔"
وہ مسکراتے ہوۓ گویا ہوۓ۔

"جی ھان کی رضامندی کے بنا اتنا اہم کام کیسے ہو سکتا؟"
اسد بھی مسکرانے لگا۔

"تم جاؤ ایمن منتظر ہو گی تمہاری۔۔۔"
وہ اسد کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوےُ بولے۔

"کوئی کام ہو تو مجھے یاد کر لیجیے گا۔۔۔"
اسد کہتا ہوا باہر نکل گیا۔

"آپ تو کمیٹی ڈالنے بیٹھ گئے تھے۔۔۔"
ایمن منہ بناتی ہوئی بولی۔

اسد قہقہ لگاتا اس سے آگے نکل گیا۔
ایمن سر پر دوپٹہ درست کرتی پورچ میں آ گئی۔
اسد گاڑی میں بیٹھا تھا۔
ایمن فرنٹ ڈور کھول کر بیٹھ گئی۔

"کام کیا ہے؟"
اسد گاڑی ریورس کرتا ہوا بولا۔

"مجھے اپنی دوست کو گفٹ بھیجنا ہے۔۔۔"
ایمن اشتیاق سے بولی۔

"مجھے تو کبھی نہیں دیا۔۔۔"
اسد خفا خفا سا بولا۔

ایمن متحیر سی اسے دیکھنے لگی۔
"آپ کو کیوں؟"
ایمن بمشکل اپنی بوکھلاہٹ پر قابو پا سکی۔
اسد مسکرانے لگا۔
***********
"میڈم اس لڑکی نے کیا سنا تھا؟"
پاشا اس کے سامنے مودب انداز میں بیٹھتا ہوا بولا۔

"لڑکی کو لے جانے کی بات کر رہا تھا احمد۔۔۔"
وہ نخوت سے سر جھٹکتی ہوئی بولیں۔

"ٹھیک ہے میں معلوم کرتا ہوں۔۔۔"
پاشا کہتا ہوا کچن کے دائیں جانب بنے دروازے سے تہہ خانے میں چلا گیا۔

"بتا کہاں سے تعلق ہے تیرا؟"
ایک آدمی احمد کو بیلٹ سے مارتا ہوا استفسار کر رہا تھا۔

پاشا نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔
حریم ایک کونے میں بیٹھی اشک بہاتی احمد کو دیکھ رہی تھی۔
حریم کے چہرے پر جا بجا خون جما ہوا تھا۔

ہونٹ بھی پھٹ چکا تھا۔
چہرے پر نیل پڑے ہوۓ تھے۔
احمد سے قبل حریم پر تشدد کیا گیا تھا۔
احمد کی بازو اور کمر پر بیلٹ سرخ نشاں ثبت کرتی جا رہی تھی۔

وہ سپاٹ چہرہ لئے پرسکون تھا۔
پاشا حریم کے سامنے بیٹھ گیا۔
حریم پیچھے کھسک گئی۔

"یہ آفیسر ہے یا تیرا عاشق؟ جو بھی ہے مجھے اس سے غرض نہیں اگر اس کی جان عزیز ہے تو صاف صاف بتا دے کون ہو تم لوگ؟"
وہ حریم کا منہ دبوچتا ہوا بولا۔

حریم خونخوار نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
احمد نے ایک نگاہ اٹھا کر انہیں دیکھا۔

آدمی نے احمد کو کرسی سے کھڑا کیا اور سامنے دیوار میں دے مارا۔
احمد کے ناک سے خون بہنے لگا۔

حریم تڑپ اٹھی۔
نگاہیں احمد پر تھیں جو تکلیف میں تھا لیکن ظاہر نہیں کر رہا تھا۔

"پہلے بھی بہت بار کہہ چکی ہوں کہ احمد مجھے یہاں سے نکالنا چاہتا تھا کیونکہ وہ میرا پرانا دوست ہے۔۔۔"
حریم حقارت سے اس کا ہاتھ جھٹکتی ہوئی چلائی۔

پاشا نفی میں سر ہلانے لگا۔
"میرے منہ پر پاگل لکھا ہے؟"
حریم کو بالوں سے پکڑ کر چہرہ اوپر کرتا ہوا بولا۔

حریم کو تکلیف ہو رہی تھی لیکن چہرے پر ایک شکن تک نہ تھی۔
"ہاں پاگل لکھا ہے۔کبھی آئینہ نہیں دیکھا تم نے۔۔۔"
حریم جلانے والی مسکراہٹ لئے بولی۔

پاشا تلملا اٹھا۔
حریم کا سر دیوار میں پٹخ دیا۔
حریم لب بھینچے نیچے دیکھنے لگی۔

احمد زمین پر بیٹھا تھا حریم سے چند قدم کی مسافت پر۔
وہ کچھ بھی کرنے سے قاصر تھا جب تک وہ دونوں ان کی حراست میں تھے۔

"ابھی رہنے دو ایک ڈوز صبح دینا دیکھتا ہوں کیسے زبان نہیں کھولتے۔۔۔"
پاشا آدمی کو اشارہ کرتا باہر نکل گیا۔

دونوں باہر نکل گئے۔
باہر سے دروازہ لاک کرنے کی آواز سنائی دی۔

"تم ٹھیک ہو؟"
حریم اٹھ کر اس کے سامنے آ گئی۔

"تم کیوں پریشان ہو رہی ہو؟"
احمد تعجب سے بولا۔

حریم کی نظر خون پر تھی جو ناک سے بہہ کر نیچے آ رہا تھا۔
"کتنی بے دردی سے مارا ہے تمہیں۔۔۔"
حریم اس کے بائیں رخسار کو شہادت کی انگلی سے چھوتی ہوئی بولی۔
احمد نے آنکھیں بند کر کے کھولیں۔

"اپنی جگہ پر جاؤ۔۔۔"
احمد کرختگی سے بولا۔

حریم کی بڑھتی نزدیکیاں اسے جھنجھلا رہی تھیں۔
حریم نے اس کی بازو پر بندھی پٹی ہاتھ میں لی اور اس کے چہرے کے قریب لے آئی۔

احمد کو مجبوراً بازو اونچی کرنا پڑی تاکہ وہ آسانی سے خون صاف کر سکے۔
حریم ڈبڈباتی نگاہوں سے خون صاف کرنے لگی۔

"حریم جاؤ۔۔۔"
احمد اس کا ہاتھ ہٹاتا ہوا بولا۔

حریم گھورتی ہوئی کچھ فاصلے پر جا بیٹھی۔
"تمہاری امی یقیناً تمہیں کریلے کھلاتی ہوں گیں۔۔۔"
حریم دیوار سے پشت لگاتی ہوئی بولی۔

"تم میری فکر نہ کرو۔۔۔"
احمد کا لہجہ بے لچک تھا۔

حریم خاموش ہو گئی۔
اس بند تہہ خانے کے وسط میں ایک چھوٹا سا بلب روشنی پھیلا رہا تھا جو صرف وسط سے تاریکی کو چیرنے میں کامیاب ہو رہا تھا۔
کنارے تاریکی میں ڈوبے تھے۔

احمد نے آنکھیں موند لیں۔
حریم منہ بناتی اردگرد کا جائزہ لے رہی تھی۔
"پتہ ہے مجھے کہانیاں سننے کا بہت شوق ہے۔میری ماما مجھے روز رات کو کہانی سنایا کرتی تھیں۔۔۔"
حریم مسکراتی ہوئی بولی۔

احمد کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"پھر شروع ہو گئی یہ لڑکی۔۔۔"
وہ منہ میں بڑبڑایا۔

"تمہیں کیسی کہانیاں پسند ہیں؟"
حریم اس کی جانب گردن گھماتی ہوئی بولی۔

"حریم تم خاموش نہیں رہ سکتی کیا؟"
احمد چبا چبا کر بولا۔

"بولنے پر کون سا پیسے لگتے ہیں جو میں خاموش رہوں۔۔۔"
حریم منہ بناتی ہوئی بولی۔

احمد نے جھرجھری لی۔
"احمد اگر پاشا نے کہا کہ مجھے یہاں چھوڑ کر تم چلے جاؤ پھر؟"
کسی سوچ کے تحت حریم نے پوچھا۔

احمد نے آنکھیں کھول دیں۔
کچھ تھا حریم کے لہجے میں جسے وہ بخوبی سمجھ گیا تھا۔
احمد باوجود کوشش کہ خود کو حریم کو دیکھنے سے باز نہ رکھ سکا۔

حریم کا چہرہ اسی کی جانب تھا۔
احمد کی آنکھوں میں تحیر تھا تو دوسرے پل وہاں پریشانی کا عنصر تھا۔
حریم اس کی آنکھیں پڑھ رہی تھی جہاں تشویش اور فکر تھی۔

حریم کے لب دم بخود مسکرانے لگے۔
وہ بھی اسی کشتی کا سوار تھا۔

"تم اپنا دماغ کم چلایا کرو۔۔۔"
احمد کی آواز لڑکھڑا گئی۔

"نہ دماغ چلاؤ نہ زبان تو کیا کروں؟"
حریم خفگی سے بولی۔

"خاموش رہو بس۔۔۔"
احمد سختی سے کہتا سامنے دیکھنے لگا۔

"میں نہ بچپن سے ہی سب لاڈلی ہوں ماما بابا کی ایک ہی بیٹی اس لئے سب کا پیار مجھے ہی ملا۔میری آنکھ سے نکلا ایک آنسو برداشت نہیں ہوتا تھا۔۔۔"
حریم نم آنکھوں سے مسکرانے لگی۔

"یہاں سے نکل کر تم آفس جاؤ گے؟"
حریم نے موضوع بدلا۔

"حریم یہاں ایسی کوئی بات مت کرو۔۔۔"
احمد آہستہ سے کہتا گھورنے لگا۔

"اچھا پھر اپنے بارے میں کچھ بتاؤ؟ گھر میں کون کون ہے؟ کہاں رہتے ہو؟ کیا کھاتے ہو؟ کیا پہنتے ہو؟"
حریم پھر سے نان سٹاپ شروع ہو گئی۔

احمد نے بس ایک نظر اس پر ڈالی۔
"جب چلی جاؤں گی نہ دیکھنا پھر مجھے یاد کرو گے۔۔۔"
حریم منہ بناتی زمین کو دیکھنے لگی۔

احمد کچھ سوچ کر کھڑا ہوا اور دیواریں دیکھنے لگا۔
حریم کی جانب دیوار نہیں بلکہ دروازہ تھا۔اندھیرے کے باعث انہیں معلوم نہیں ہوا لیکن اب چھونے پر احمد کو اندازہ ہو گیا تھا۔

"حریم تم یہی رکو میں چیک کر کے آتا ہوں۔۔۔"
احمد دروازہ اندر دھکیلتا ہوا بولا۔

حریم نے اثبات میں گردن ہلا دی۔
احمد دروازہ کھول کر اندر چلا گیا۔

اندھیرے میں وہاں چلنا کٹھن تھا کیونکہ نہ دیواروں کو اندازہ ہو رہا تھا نہ ہی سمت کا۔
حریم اٹھ کر دروازے کے پاس آ گئی تاکہ آہٹ سننے پر احمد کو آگاہ کر سکے۔

احمد دائیں بائیں ہاتھ لگاتا چلتا جا رہا تھا۔
یہ ایک راہداری تھی۔
کافی دیر چلنے کے بعد ہلکی ہلکی روشنی دکھائی دی۔
احمد کو زینے دکھائی دئیے۔
وہ زینے چڑھتا اس دروازے کے پاس آ گیا جس میں بنے سوراخوں سے روشنی آ رہی تھی۔

"یہ باہر جانے کا راستہ ہو گا لیکن اس پر تو تالا لگا ہے۔۔۔"
احمد تاسف سے بولا۔

"کیسے توڑوں یہ تالا؟"
احمد گردن جھکا کر نیچے دیکھنے لگا۔

لیکن وہاں کچھ بھی نہیں تھا جس سے وہ تالا توڑ سکتا۔
احمد مایوسی سے واپس چل پڑا۔
احمد نے محتاط انداز میں دروازہ بند کر دیا۔

"اپنی جگہ پر واپس آ جاؤ۔۔۔"
وہ زمین پر بیٹھتا ہوا بولا۔

"کہاں جاتا ہے یہ راستہ؟"
حریم دھیمی آواز میں بولی۔

"باہر جاتا ہے لیکن تالا لگا ہوا ہے اور کوئی سامان بھی نہیں ہے ہمارے پاس کہ تالا توڑ سکیں۔۔۔"
احمد سپاٹ انداز میں بول رہا تھا۔

"اووہ۔۔۔"
حریم تاسف سے بولی۔

اب پیاس کا احساس بھی غالب آنے لگا تھا۔
وہ دونوں دو دن سے بھوکے پیاسے تھے لیکن حوصلہ اب بھی اتنا ہی بلند تھا جتنا اول روز تھا۔
حریم نے خشک لبوں پر زبان پھیری اور بولنے کا ارادہ ترک کر دیا۔

"احمد تمہارا فون کہاں گیا؟"
حریم کو یکدم خیال آیا۔

"میں نے پھینک دیا تھا۔۔۔"
احمد آنکھیں بند کئے ہوۓ تھا۔

"کیوں؟"
حریم تعجب سے بولی۔

"مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ ہم تک پہنچ جائیں گے۔۔۔"
دونوں آہستہ آواز میں بول رہے تھے جو وہ بمشکل سن پا رہے تھے۔
***********
"تمہاری دوست کہاں رہتی ہے؟"
اسد گاڑی میں بیٹھتا ہوا بولا۔

"کوئٹہ۔۔۔"
ایمن گود میں پیک کیا ہوا گفٹ رکھتی ہوئی بولی۔

اسد الجھ کر اسے دیکھنے لگا۔
"وہ چھ ماہ قبل کوئٹہ شفٹ ہوۓ ہیں۔۔۔"
ایمن اس کی الجھن سمجھتی ہوئی بولی۔

اسد اثبات میں سر ہلانے لگا۔
"تو تم خود جاؤ گی؟"
اسد باہر دیکھتا ہوا بولا۔

"نہیں ہم ٹی سی ایس کروائیں گے اب جلدی چلیں۔۔۔"
ایمن گھڑی دیکھتی ہوئی بولی۔

اسد اثبات میں سر ہلاتا گاڑی سٹارٹ کرنے لگا۔
کچھ دیر بعد وہ دونوں ریستوران میں بیٹھے تھے۔
اسد کو دیکھ کر ایمن ایک ہی بات سوچتی تھی۔

"ھان کتنی لکی ہے نہ؟"
وہ کھوئی کھوئی نظروں سے اسد کو دیکھ رہی تھی۔

"کیا ہوا؟"
اسد اس کی نظریں خود پر محسوس کرتا ہوا بولا۔

"مجھے آئسکریم بھی کھانی ہے۔۔۔"
ایمن چکن کی ران سے انصاف کرتی ہوئی بولی۔

"ھان کو بھی آئسکریم بہت پسند ہے۔۔۔"
اسد سوچتا ہوا بڑبڑایا۔
ایمن کا ہاتھ ہوا میں معلق رہ گیا۔

"جی۔۔۔"
ایمن بس اتنا ہی بول پائی۔

دونوں آگے پیچھے باہر نکل رہے تھے جب ایمن کا پاؤں پتھر کے باعث سلپ ہو گیا اس سے قبل کہ وہ زمین بوس ہو جاتی اسد نے اس کی بازو پکڑ لی۔

ایمن دم سادھے اسے دیکھنے لگی۔
اسد نے آہستہ سے اسے کھڑا کیا۔

"تم ٹھیک ہو؟"
وہ فکرمندی سے گویا ہوا۔

"جی۔۔۔"
ایمن بال کان کے پیچھے اُڑستی ہوئی بولی۔
***********
"احمد تمہارے کتنے بہن بھائی ہیں؟"
احمد کو حرکت کرتے دیکھ کر حریم گویا ہوئی۔

"کوئی نہیں۔۔۔"
احمد بے رخی سے کہتا بائیں جانب دیکھنے لگا۔

"واہ تم بھی میری طرح اکلوتے ہو۔لیکن کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ ایک بہن اور ایک بھائی ہوتا جس کے ساتھ میں باتیں کرتی۔لیکن جب اپنی کزنز کو لڑائی کرتے ہوۓ دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں بہت مزے میں ہوں۔۔۔"
حریم مسکراتی ہوئی بول رہی تھی۔

"میں نے پوچھا؟"
احمد بیزاری سے بولا۔

"نہیں میں خود بتا رہی ہوں کیونکہ ہر بات کہی تو نہیں جاتی کچھ باتیں خود ہی سمجھ لینی چائیے۔۔۔"
حریم اس کا چہرہ دیکھتی مسکرا رہی تھی۔

"تم کچھ زیادہ ہی نہیں سمجھ لیتی؟"
احمد اسے گھورتا ہوا بولا۔

"انسان کو ہمیشہ ایک قدم آگے ہی رہنا چائیے۔۔۔"
حریم بائیں آنکھ دباتی ہوئی بولی۔

"مجھے حیرت تم جیسی لڑکی کو سیکرٹ سروس میں جگہ کس نے دی؟"
احمد حیران ہوۓ بنا نہ رہ سکا۔

"آہم آہم۔میں بتاتی ہوں۔۔۔"
حریم گلا صاف کرتی ہوئی بولی۔

"وہ آفیسر تھے نام یاد نہیں آ رہا۔۔۔"
حریم سر کھجاتی ہوئی بولی۔

"تم کیا ہو؟"
احمد اکتا کر بولا۔

"لڑکی ہوں تمہیں اتنا بھی نہیں معلوم؟"
حریم کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔

احمد مٹھیاں بھینچ کر دوسری جانب دیکھنے لگا۔
حریم لب دباےُ مسکرانے لگی۔

احمد کو ستانے میں اسے لطف آتا تھا۔
احمد کا خفگی بھرا چہرہ اسے بے حد پسند تھا۔

"تمہیں مجھ جیسی لڑکی کہیں نہیں ملے گی۔۔۔"
حریم تفاخر سے بولی۔

"نہیں ایک جگہ ہے جہاں سے مل سکتی ہے۔۔۔"
احمد سنجیدگی سے اس کی جانب گھومتا ہوا بولا۔

"کس جگہ سے؟"
حریم کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

"مینٹل ہاسپٹل۔۔۔"
احمد کے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی۔
حریم تپ گئی۔
حریم کھا جانے والی نظروں سے اسے گھورنے لگی

Uljhy Bandhan (Hamna Tanveer)Where stories live. Discover now