Episode 14

55 0 0
                                    


اسد کو دیکھ کر حریم کو خود پر رشک آتا تھا۔
"نہیں میں ٹھیک ہوں۔۔‍۔"
حریم ہلکا سا مسکرائی۔

اسد بغور اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا لیکن حریم اسے دیکھ نہیں رہی تھی۔
حریم کا ہاتھ دائیں آنکھ پر گیا۔
چہرے پر الجھن در آئی۔

"کیا ہوا؟"
اسد فکرمندی سے کہتا آگے ہوا۔

"شاید آنکھ میں کچھ چلا گیا ہے۔۔۔"
حریم آہستہ آہستہ آنکھ رگڑ رہی تھی۔

"رکو ایسے نہیں کرو۔۔۔"
اسد اس کا ہاتھ ہٹاتا ہوا بولا۔

حریم نے ہاتھ ڈھیلا چھوڑ دیا۔
اسد اس کے قریب ہوا۔
حریم احساسات سے عاری ہو چکی تھی۔
اسد نے ایک ہاتھ سے اس کی آنکھ کھولی۔
اور دوسرا ہاتھ بڑھا کر حریم کی آنکھ سے مچھر باہر نکال دیا۔
حریم کی آنکھ سرخ ہو چکی تھی۔

"میں کہہ رہا تھا نہ اندر چلو۔۔۔"
اسد خفگی سے بولا۔

حریم کو گیٹ کی آواز سنائی دی۔ جیسے کوئی باہر گیا ہو۔
اس نے اسد کے دائیں جانب سے چہرہ آگے کر کے عقب میں دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔

"آؤ تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے چلوں انفیکشن نہ ہو جاےُ۔۔۔"
اسد اس کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔

"نہیں اسد میں ٹھیک ہوں۔۔۔"
حریم اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہ ہلی۔
اسد چہرہ موڑ کر خفگی سے اسے دیکھنے لگا۔

"بہت ضدی ہوتی جا رہی ہو تم۔۔۔"
اسد نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔

حریم خاموش رہی۔
"تم نے بارات کا ڈریس پسند کر لیا؟"
اسد نے موضوع بدلا۔

"ہاں کل گئی تھی تائی امی کے ساتھ۔ وہ ولیمہ کے ڈریس کا پوچھ رہی تھیں میں نے کہہ دیا اسد لے آےُ گا۔۔۔"
حریم چہرہ اٹھاےُ اسے دیکھتی ہوئی بولی۔

"ٹھیک ہے میں اور ایمن، ہم دونوں پسند کر لیں گے۔ یہ بتاؤ آئسکریم کھانے چلیں؟"
اسد گردن اوپر کیے آسمان کو دیکھتا ہوا بولا جہاں سرمئ بادل نیلگوں فلک کو اپنی لپیٹ میں لے رہے تھے۔

"بیمار پڑ جاؤ گے تم۔۔۔"
ہوا سے حریم کا دوپٹہ سرک کر شانے پر آ گرا جو کہ سر پر تھا۔

"تم میری فکر مت کرو۔۔۔"
اسد جیب میں ہاتھ ڈالتا چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے لگا۔

"پھر کون فکر کرے گا تمہاری؟"
حریم سپاٹ انداز میں بول رہی تھی۔

"ضروری ہے کیا؟ تم میرے ساتھ ہو بس یہی بہت ہے۔۔۔"
اسد کے چہرے پر دلفریب مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی۔

ایمن کھڑکی پر ہاتھ رکھے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
اسے آوازیں سنائی نہیں دے رہیں تھیں لیکن اسد کا چہرہ سب بیان کر رہا تھا۔
آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر بہہ نکلے۔

ایمن سوں سوں کرتی انہیں دیکھ رہی تھی۔
محبت بھی عجب شے ہے کسی کو خوشیاں عطا کرتی ہے تو کسی کو نا ختم ہونے والا دکھ۔

"کاش آپ میرے نصیب میں لکھے ہوتے۔ میرے ہاتھوں کی لکیروں میں آپ کا نام لکھا ہوتا۔۔۔"
ایمن ضبط کرتی تھک چکی تھی۔

نفی میں گردن ہلاتی وہ اپنے کمرے میں آ گئی۔
دروازہ لاک کر کے اسد کی تصویریں زمین پر پھیلا لیں۔
بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔

دل بےقابو ہو رہا تھا۔
ایمن بار ہاں خود کو سمجھا چکی تھی لیکن دل تھا کہ سمجھنے پر تیار نہیں تھا۔

"میں کیسے سمجھاؤں خود کو؟ وہ میرے نہیں ہو سکتے۔ وہ ھان کی قسمت میں لکھے ہیں۔۔۔"
ایمن زاروقطار رو رہی تھی۔ آنسو اسد کی تصویروں کو تر کر رہے تھے۔

اسد اسے بچپن سے ہی اچھا لگتا تھا اور کب یہ پسندیدگی محبت کی صورت اختیار کر گئی ایمن کو علم ہی نہ ہو سکا۔

"پلیز ھان اس شادی سے انکار کر دے مجھے وہ مل جائیں۔۔۔"
ایمن بنا سوچے سمجھے بولتی جا رہی تھی۔

"ھان تو اتنی پیاری ہے اسے کوئی بھی مل جاےُ گا لیکن مجھے نہیں۔ میرے دل میں تو بس ایک ہی نام لکھا ہے۔۔۔"
ایمن بےبسی کی انتہا پر تھی۔

اس نے پین اٹھایا اور اسد لکھنا شروع کر دیا۔
کتنی مرتبہ کتنے صفحے اس نے اسد کے نام کے لکھ ڈالے ایمن نے حساب نہیں رکھا۔
سیاہی ختم ہو گئی تو ایمن نے تھک کر پین نیچے رکھ دیا۔

آنسوؤں سے صفحے تر ہو رہے تھے۔
سواےُ آنسوؤں کے اس کے بس میں کچھ تھا بھی نہیں۔
کچھ سوچ کر ایمن نے شیشے کا گلاس اٹھایا اور زمین پر دے مارا۔

گلاس کرچی کرچی ہو گیا۔
ایمن نے شیشے کا ٹکڑا اٹھا کر اپنی انگلی پر کٹ لگا لیا۔
ایمن بہتے ہوۓ خون سے اسد لکھنے لگی۔

شاید خود کو اذیت دے کر اسے سکون مل رہا تھا۔
ایمن کو درد نہیں ہو رہا تھا۔
اپنی تکلیف کا احساس ختم ہو چکا تھا۔
کیونکہ جو تکلیف اسد کو کھونے کی تھی وہ اس سے کئی گنا زیادہ تھی۔
اس تکلیف کے سامنے یہ تکلیف کچھ بھی نہ تھی۔
خون سے لکھے اسد کو دیکھ کر ایمن مسکرانے لگے۔

"میں پاگل ہو گئی ہوں۔۔۔"
ایمن مسکراتی ہوئی بولی۔

ہاں شاید وہ سچ میں پاگل ہو چکی تھی۔
گھنٹہ بھر وہ اسد کی تصویروں پر ہاتھ پھیرتی رہی پھر کسی خیال کے تحت سارا پھیلاوا سمیٹنے لگی۔
************
حریم اسد کے ہمراہ چلتی اندر آ رہی تھی جب اس کا فون رنگ کرنے لگا۔
نمبر سیو نہیں تھا لیکن اس نمبر کو بخوبی پہچانتی تھی وہ۔
حریم نے کال کاٹ دی۔

"تایا ابو میں نے ہال کی بکنگ کروا دی ہے۔۔۔"
اسد بولتا ہوا ان کے سامنے بیٹھ گیا۔

"مہندی کے لئے کروائی ہے یا بارات لے لیے؟"
وہ عینک اوپر کرتے ہوۓ بولے۔

حریم مرے مرے قدم اٹھاتی زینے چڑھنے لگی۔
وہ احمد کو اپنے دل سے نکال دینا چاہتی تھی لیکن ابھی تک وہ صرف خود کو تسلی دے رہی تھی ایک جھوٹی تسلی کہ اسے اب فرق نہیں پڑتا۔
لیکن آج بھی اسے فرق پڑتا تھا احمد کے نام پر آج بھی اس کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو جاتیں۔

دل بغاوت پر اتر آتا۔ لیکن اب کچھ بچا ہی نہیں تھا سو وہ ہر آواز دباتی چلی جاتی۔
حریم سانس خارج کرتی صوفے پر بیٹھ گئی۔
پاؤں اوپر کر لیے۔
حریم کی آنکھوں کے سامنے افشاء کے گھر کا منظر گھوم گیا۔
۔
"پہلی بار ایسی پاٹنر ملی ہے عقل سے پیدل۔۔۔"
احمد بڑبڑاتا ہوا صوفے پر بیٹھ گیا۔
"مجھے بھی پہلی بار ایسا پاٹنر ملا ہے کھڑوس جس کے بولنے پر بل آتا ہے۔۔۔"

حریم تلخی سے مسکرانے لگی۔
آنکھوں میں آنسو امڈ آےُ۔
فون نجانے کب سے بج رہا تھا لیکن حریم اپنے خیالوں میں تھی۔
تنگ آ کر حریم نے کال اٹینڈ کر لی۔

"کیا مسئلہ ہے تمہیں؟"
حریم چلائی۔

احمد نے فون کان سے ہٹا کر اسکرین کو دیکھا۔
ایک لمبا سانس اندر کھینچتا پھر سے فون کان سے لگا لیا۔

"میں کراچی میں ہوں۔۔۔"
احمد سوچ سوچ کر بول رہا تھا۔

"وہیں سمندر میں ڈوب کر مر جاؤ پھر۔۔۔"
حریم جل کر بولی۔

"مطلب اب میرے مرنے کی دعا کرتی ہو؟"
احمد کو برا لگا تھا۔

"فون کیوں کیا ہے یہ بتاؤ؟"
حریم ضبط کرتی ہوئی بولی۔

"میری شادی پر تم آؤ گی۔ انوائٹ کر رہا ہوں تمہیں۔۔۔"
احمد جھنجھلا کر بولا۔

"لعنت ڈالتی ہوں میں تمہارے انویٹیشن پر۔۔۔"
حریم کا بس نہیں چل رہا تھا اس کا حشر نشر کر دے۔

"میری بات کہیں لکھ کر رکھ لو حریم اگر تم نہ آئی تو ایک لڑکی کی بارات واپس چلی جاےُ گی۔۔۔"
احمد کرخت لہجے میں بولا۔

"کیا بکواس ہے یہ؟"
حریم درشتی سے بولی۔

"بلکل میں شادی نہیں کروں گا اگر تم نہ آئی تو اب سوچ لینا ایک لڑکی کی شادی رک جاےُ گی صرف تمہارے باعث۔۔۔"
احمد نے کہہ کر فون رکھ دیا۔

حریم ہکا بکا سی فون کو دیکھنے لگی۔
"کیا یہ انسان پاگل ہے؟"
حریم کی آنکھوں میں الجھن کا عنصر نمایاں تھا۔

حریم نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا۔
"یہ انسان مجھے پاگل کر کے دم لے گا۔۔۔"
حریم لمبا لمبا سانس لیتی خود کو نارمل کرنے لگی۔
***********
احمد گاڑی سے نکلا۔
آنکھوں پر گاگلز لگاےُ مغرور چال چلتا ہوا وہ گیٹ کی جانب آیا۔
احمد کے عقب میں ماحد تھا۔

اندر کا منظر سوچ سے زیادہ دلنشیں تھا۔
آتی جاتی لڑکیاں نازیبا لباس زیب تن کئے انہیں لبھا رہی تھیں۔

"یار ایمان کا خطرہ ہے یہاں تو۔۔۔"
ماحد نے شوخی سے احمد کے کان میں سرگوشی کی۔
احمد نے گھوری سے نوازا۔

"دو لڑکیاں چائیے ہمیں۔۔۔"
احمد کی گردن تنی ہوئی تھی۔

مہرالنسا اس کی رعب دار آواز پر گردن گھما کر اسے دیکھنے لگی۔
"آئیے تشریف رکھیں۔۔۔"
وہ انگلی پر بال لپیٹی ہوئی بولی۔

مہرالنسا کی شرٹ کا گلا ضرورت سے زیادہ گہرا تھا۔
احمد کو شرم محسوس ہو رہی تھی۔

"کس طرح کی لڑکی چائیے آپ کو؟"
مہرالنسا ملازم کو اشارہ کرتی ہوئی بولی۔

"جسے کسی نے چھوا نہ ہو۔۔۔"
احمد جانتا تھا یہاں ایسی لڑکی صرف وہی ملتی ہے جو زبردستی لائی گئی ہو۔

"آپ کچھ لیں تو۔۔۔"
وہ مسکراتی ہوئی گویا ہوئی۔

"آپ ہمارا وقت برباد کر رہی ہیں اگر مال ہے تو دکھائیں۔۔۔"
اب کہ ماحد بیزاری سے بولا۔

"ارے نہیں نہیں آپ ناراض کیوں ہوتے ہیں بس آتی ہوں گیں لڑکیاں۔۔۔"
وہ نزاکت سے بال پیچھے کرتی ہوئی بولی۔

احمد کے چہرے پر اکتاہٹ واضح تھی۔
چند پل یونہی سرک گئے۔
تین لڑکیاں آئیں جن میں سے ایک کا چہرہ جھکا ہوا تھا۔

شاید وہ رو رہی تھی۔
پینٹ شرٹ پہنے، بال کھول رکھے تھے۔ اس کی شرٹ سلیو لیس تھی۔
باریک دوپٹے سے خود کو لپیٹ رکھا تھا۔
مہرالنسا نے ایک زہر آلود نگاہ اس پر ڈالی۔

"یہ دیکھیں چھونا تو دور ابھی کسی نے دیکھا بھی نہیں ہے۔۔۔"
مہرالنسا مشل کی جانب اشارہ کرتی ہوئی بولی۔

"اور کمرہ؟"
احمد سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔

"کمرہ بھی ملے گا مشروب بھی۔جو حکم کریں۔۔۔"
وہ تیزی سے بولی۔

"ٹھیک یے قیمت صبح میں دوں گا کوئی اعتراض؟"
احمد کھڑا ہوتا ہوا بولا۔

"نہیں اعتراض کیوں ہو گا بھلا؟"
مہرالنسا سنبھل کر بولی۔
احمد نے ایک نظر مشل پر ڈالی اور اس کی بازو پکڑ لی۔

"جاؤ صاحب کو اپنے کمرے میں لے جاؤ۔۔۔"
مہرالنسا مشل کو گھورتی ہوئی بولی۔

مشل خون کے آنسو پیتی احمد کے ساتھ چلنے لگی۔
احمد نے سختی سے مشل کی بازو دبوچ رکھی تھی۔

احمد کے پرفیوم کی خوشبو مشل کے نتھنوں سے اندر جا رہی تھی۔
اس نے جھرجھری لی۔
مشل نے آگے بڑھ کر کمرے کا دروازہ کھولا۔

کشادہ کمرہ جس میں قد آور کھڑکیاں نمایاں تھیں۔
کمرہ میں دو رنگ کی روشنیاں جگمگا رہی تھیں۔
سبز اور سرخ رنگ کی روشنی نے کمرے کو خوابناک بنا رکھا تھا۔
احمد کے چہرے کی سختی میں اضافہ ہو گیا۔

"پلیز مجھے ہاتھ مت لگانا۔۔۔"
وہ احمد کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوئی بولی۔

احمد نے ایک اچٹتی نگاہ اس پر ڈالی۔
مشل گھبرا کر دو قدم پیچھے ہو گئی۔
احمد بنا کچھ کہے بیڈ پر بیٹھ گیا۔
فون نکال کر اس پر انگلیاں چلانے لگا۔

"دن میں نہیں رات میں بہتر رہے گا۔۔۔"
احمد ہینڈ فری لگاےُ مدھم آواز میں بول رہا تھا۔

"جی میں دیکھتا ہوں۔۔۔"
احمد نے کہہ کر فون بند کر دیا۔

مشل جتنا حیران ہوتی اتنا کم تھا۔
"آ آپ کون ہیں؟"
ہمت کر کے مشل نے پوچھ ڈالا۔

"یہاں پر کب سے ہو؟"
احمد اس کے سوال کو نظر انداز کرتا ہوا بولا۔

"اممم ایک ہفتہ ہو گیا ہے۔۔۔"
تھوک گلے سے نیچے اتارتی ہوئی بولی۔

"اور اب تک تمہیں کسی نے چھوا نہیں؟"
احمد تیکھے تیور لئے بولا۔

"نہیں۔ وہ مجھے ڈرا دھمکا رہی تھیں لیکن میں نے خود کو بچا لیا۔۔۔"
وہ سہم کر احمد کو دیکھ رہی تھی۔

احمد خاموش ہو گیا۔
وہ الجھن کا شکار تھا۔

"یہ ان کی چال بھی ہو سکتی ہے۔۔۔"
وہ مشل کو دیکھتا ہوا سوچ رہا تھا۔

احمد کچھ سوچ کر اس کے قریب آیا۔
مشل کے چہرے پر گھبراہٹ تھی۔
احمد نے اسے اپنے قریب کر لیا۔

"پلیز مجھے چھوڑ دو۔۔۔"
وہ بول رہی تھی لیکن ساکن تھی۔

عموماً ایسے کیس میں لڑکوں کی قربت سے لڑکیاں کانپنے لگتی ہیں۔
جب کہ وہ نارمل تھی صرف چہرے کے تاثرات گھبراہٹ لئے ہوۓ تھے۔

"شٹ۔۔۔"
احمد تاسف سے بڑبڑایا۔

وہ دونوں پھنس چکے تھے۔
یہ ان کے لئے جال تھا۔
احمد کو اب سچ میں فکر ہونے لگی۔

"نہیں میں اس مشن کو ادھورا نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔"
احمد کھڑکی کو دیکھتا ہوا سوچ رہا تھا۔

"پلیز مجھے چھوڑ دو۔۔۔"
وہ رو رہی تھی لیکن خود کو آزاد کروانے کی سعی نہیں کر رہی تھی۔

احمد نے جھٹکے سے اسے خود سے دور پھینکا۔
پھر آگے بڑھا اور اسے بالوں سے پکڑ کر اٹھایا۔
"سی۔۔۔"
وہ کراہ کر احمد کو دیکھنے لگی۔

احمد نے ایک زوردار تھپڑ اس کے نازک رخسار پر دے مارا۔
مشل کے رخسار پر احمد کی انگلیوں کے نشاں ثبت ہو گئے۔
وہ منہ پر ہاتھ رکھے ہکا بکا سی احمد کو دیکھنے لگی۔

احمد پنجوں کے بل اس کے سامنے بیٹھا۔
اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔
زہر آلود نگاہ، تنبیہ تھی اس کی نگاہوں میں۔
احمد نے گردن کی مخصوص رگ پر ہاتھ رکھا اور مشل کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔

اگلے لمحے وہ زمین بوس ہو چکی تھی۔
احمد کو اب یہاں سے نکلنے کی راہ تلاش کرنی تھی۔

"ماحد کوشش کر کے میرے کمرے میں آ جا۔ اور محتاط رہنا انہیں ہماری آمد کا علم تھا۔۔۔"
احمد نے میسج بھیجا اور فون جیب میں ڈال لیا۔

دروازے کے پاس آیا اور کان لگا کر آوازیں سننے لگا۔
قدموں کی اور باتیں کرنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔

"ہمیں ان کی نظر میں آےُ بنا یہاں سے نکلنا ہو گا۔۔۔"
احمد سوچتا ہوا کھڑکی کے پاس آ گیا۔

محل روشنی میں نہایا ہوا تھا۔
اونچائی بہت زیادہ نہ تھی۔
احمد متلاشی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

اسے کسی بھی طرح گیٹ تک جانا تھا۔
احمد مشل کو دیکھتا ہوا صوفے پر بیٹھ گیا۔
اسے انتظار کرنا تھا سب کے نیند کی بانہوں میں جانے کا انتظار۔

نگاہوں کے سامنے حریم کا سراپا لہرا گیا۔
"کاش تم اس مشن میں نہ ہوتی۔ نہ ہم ملتے نہ ہی تمہارا نقصان ہوتا۔۔۔"
احمد آنکھیں بند کئے ہوۓ تھا۔

تخیل میں بھی حریم کا چہرہ دکھائی دے رہا تھا۔
احمد مسکرانے لگا۔

"تم صحیح کہتی تھی میں تمہیں مس کر رہا ہوں۔۔۔"
احمد سانس خارج کرتا ہوا بولا۔

"آئم سوری حریم۔ لیکن میں بھی مجبور تھا۔۔۔"
احمد بےبسی سے بولا۔

"مجھے یہ کرنا تھا کیونکہ میرا یہ حق تھا اور تم ڈیذرو کرتی تھی یہ سب۔۔۔"
بولتے بولتے احمد تلخ ہو گیا۔
************
حریم دم سادھے کھڑکی میں کھڑی تھی۔
احمد کی آواز نے اسے جھنجھلا دیا تھا۔
وہ نا چاہتے ہوۓ بھی اسے سوچ رہی تھی۔

"احمد تم نے کیوں مجھے دھمکی دی؟ تم کیوں چاہتے ہو کہ میں تمہیں کسی اور کا ہوتے دیکھوں؟ شاید اتنی اذیت سے تمہارا دل نہیں بھرا اس لئے چاہتے ہو کہ مزید تکلیف سے گزروں؟"
حریم تاریک فلک کو دیکھتی ہوئی بول رہی تھی۔

فلک تنہا تھا۔ آج مہتاب اور ستارے اس کی تنہائی دور کرنے کو موجود نہ تھے۔
حریم کو بھی اپنا آپ یونہی تنہا معلوم ہو رہا تھا۔

چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا۔
اس دل دوز تاریکی میں وہ تن و تنہا کھڑی تھی۔
کچھ لوگ زندگی کا سفر تنہا کی گزار دیتے ہیں۔

کچھ لوگ انہیں پسند نہیں آتے اور کچھ کو وہ پسند نہیں آتے۔ اسی کشمکش میں زندگی کی میعاد تمام ہو جاتی ہے۔

"ماما بابا مس یو۔۔۔"
بولتے بولتے حریم کی آواز بھیگ گئی۔

Uljhy Bandhan (Hamna Tanveer)Where stories live. Discover now