Episode 15

51 0 0
                                    


تجھے پیار کرنا نہیں آتا
مجھے پیار کے سوا کچھ نہیں آتا

دنیا میں جینے کے دو ہی طریقے ہیں
اک تجھے نہیں آتا،اک مجھے نہیں آتا

رات کا ایک بج رہا تھا۔
احمد دروازے کو کان لگا کر آوازیں سننے لگا لیکن کوئی آواز سنائی نہیں دی۔
احمد نے محتاط انداز میں دروازہ کھول کر باہر جھانکا۔

راہداری سنسان پڑی تھی۔
کسی ذی روح کا گمان نہ ہوتا تھا۔

"ماحد تو اس کمرے میں آ جا یہاں کھڑکی سے نکلیں گے۔۔۔"
احمد فون کان سے لگاےُ سرگوشیوں میں بول رہا تھا۔
پانچ منٹ بعد ماحد اس کے ساتھ اس کمرے میں تھا۔

"کیا خیال ہے سب سو چکے ہوں گے؟"
ماحد احمد کو دیکھتا ہوا بول کر کھڑکی کے پاس کھڑا تھا۔

"شاید۔ چل آ جا اب۔۔۔"
احمد نے کہتے ہوۓ باہر چھلانگ لگا دی۔

ماحد بھی اس کے پیچھے آ گیا۔
خاموشی میں ارتعاش پیدا ہوا۔
احمد اور ماحد اندھیرے میں چل رہے تھے۔

آنکھیں اندھیرے سے مانوس تھیں اس لئے زیادہ دقت پیش نہیں آ رہی تھی۔
اور احمد اس راستے کو حفظ کر چکا تھا۔
ایک منٹ بعد کتے کے بھونکنے کی آواز سنائی دینے لگی۔

ماحد کے عقب میں کتا آ رہا تھا۔
"شٹ۔۔۔"
احمد نے کہتے ہوۓ راہداری کی جانب اشارہ کیا۔
ماحد بھی اس کے ساتھ آ گیا۔
گیٹ چند قدم کی دوری پر تھا۔

"گیٹ پر چڑھ کر نکلنا ہو گا۔۔۔"
ماحد سر باہر نکال کر آس پاس دیکھتا ہوا بولا۔

"ٹھیک ہے تیس سیکنڈ بعد دونوں نکلیں گے اور فل سپیڈ سے بھاگیں گے اگر رکے تو بچیں گے نہیں۔۔۔"
احمد گھڑی دیکھتا ہوا بولا۔

ماحد بھی تیار تھا۔
تیس سیکنڈ بعد احمد نے گو کہا اور دونوں بھاگ نکلے۔
کتا پھر سے بھونکتا ہوا ان کے پیچھے آنے لگا۔
اتنے میں گولیوں کی آواز سنائی دینے لگی۔

ماحد اور احمد گیٹ پر چڑھ چکے تھے۔
اگلے پانچ سیکنڈ میں وہ دونوں باہر ہوتے لیکن عین اسی لمحے ایک گولی آئی اور احمد کی ٹانگ میں پیوست ہو گئی۔
احمد زخم کی پرواہ کئے بنا باہر کود گیا۔چند قدم کی مسافت پر گاڑی ان کی منتظر تھے۔

دونوں ایک لمحے ضائع کئے بنا گاڑی میں بیٹھ گئے۔
گاڑی چلانے والا زن سے گاڑی بھگا لے گیا۔
احمد نے اپنی ٹانگ کو دبا رکھا تھا تاکہ خون کو بہنے سے روک سکے۔
اس کی سفید رنگ کی جینز خون سے رنگ چکی تھی۔

"ہاسپٹل لے کر چلو پہلے۔۔۔"
ماحد احمد کو دیکھتا ہوا بولا۔

احمد کو حریم یاد آ گئی۔
جب اس نے احمد کی مرہم پٹی کی تھی۔
تکلیف میں بھی لب مسکرانے لگے۔
"یہ لڑکی سچ میں مجھے پاگل کر دے گی۔۔۔"
احمد مسکراتا ہوا بڑبڑایا۔
************
"مجھے شوز دیکھنے ہیں تم وہاں سے جیولری دیکھ لو۔۔۔"
حریم ہاتھ سے اشارہ کرتی ہوئی بولی۔

ایمن جس طرح سے خود پر ضبط کر رہی تھی یہ اس کا دل ہی جانتا تھا۔
وہ چہرہ جھکا کر آنکھیں صاف کرتی چلنے لگی۔

حریم کی نظر سامنے آئینے پر پڑی۔
حریم ٹھٹھک گئی۔
یہ وہی نقاب پوش تھا۔
ناک سے لے کر تھوڑی تک چہرہ سیاہ رومال سے چھپا رکھا تھا جبکہ آنکھیں اور بال دکھائی دے رہے تھے۔

"سمجھ سے باہر ہے یہ کون میرا تعاقب کر رہا ہے؟"
حریم الجھ کر سوچنے لگی۔

"ھان میں ایمن کے ساتھ ہوں تم پسند کر کے مجھے کال کر لینا میں آ جاؤں گا۔۔۔"
اسد کو حریم کے لئے گفٹ لینا تھا اس لئے فوراً چلا گیا۔

حریم نے آئینے میں دیکھا تو وہاں کسی کا عکس نہیں تھا۔
حریم نے گردن گھما کر عقب میں دیکھا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔
منہ بسورتی حریم دکان کے اندر چلی گئی۔

"میم یہ شوز دیکھیں؟"
سیلز مین جوتا اس کے سامنے کرتا ہوا بولا۔

حریم نے ہاتھ آگے کر دیا۔
وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ خود پہنانا چاہتا ہے۔

"میرے ہاتھ ٹوٹے ہیں نہ۔۔۔"
حریم بڑبڑاتی ہوئی پہننے لگی۔
سلیز مین جخل ہو کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔

"آپ اُدھر کہاں دیکھ رہے ہیں؟"
ایمن خفگی سے اسد کو گھورتی ہوئی بولی۔

"ہا ہاں بولو؟ وہ میں ھان کو دیکھ رہا تھا اگر آ گئی تو وہ دیکھ لے گی اپنا گفٹ۔۔۔"
اسد تشویش سے بولا۔

"پھر آپ چوکیداری کرتے رہیں گے یا پھر کچھ دیکھیں گے بھی؟"
ایمن خفا خفا سی بولی۔

"اچھا آؤ بریسلٹ دیکھتے ہیں۔۔۔"
اسد آگے بڑھتا ہوا بولا۔

اسفند ان دونوں کو دیکھتا جیولری کی دکان میں آ گیا۔
"السلام علیکم! اسد بھائی!"
اسفند تپاک سے ملتا ہوا بولا۔

نگاہیں ایمن کر مرکوز تھیں۔
"وعلیکم السلام! کیسے ہو؟"
اسد مسکراتا ہوا بولا۔

"میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟"
اسفند ترچھی نگاہوں سے ایمن کو دیکھ رہا تھا۔

"شکر اللہ کا۔ تم دونوں باتیں کرو میں یہ دیکھ لوں ذرا۔۔۔"
اسد کہتا ہوا سیلز مین کی جانب متوجہ ہو گیا۔

اسفند ایمن کو اپنی نگاہوں کے حصار میں لئے ہوۓ تھا۔
ایمن اس کی نظروں سے کنفیوز ہو رہی تھی۔

"کیسی ہو ایمن؟"
وہ اپنے مخصوص انداز میں بولا۔

"ٹھیک اور تم؟"
ایمن جبراً مسکراتی ہوئی بولی۔

"اب ٹھیک ہوں۔۔۔"
وہ مسکراتا ہوا بولا۔

ایمن اس کی نظروں سے بچنے کی غرض سے جیولری دیکھنے لگی۔
"ایمن تم ٹرپ پر جاؤ گی؟"
اسفند اس سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑا تھا۔

ایمن کو اس کا ساتھ ناگوار گزر رہا تھا کیونکہ کچھ دیر قبل یہاں اسد کھڑا تھا۔
"نہیں۔ھان آپی کی شادی ہے۔۔۔"
ایمن بیزاری سے بولی۔

اسفند اثبات میں گردن ہلانے لگا۔
"تمہارے لئے مہندی کا ڈریس تیار ہو چکا ہے اس لئے خود سے مت بنوا لینا۔۔۔"
اسفند خفگی سے دیکھتا ہوا بولا۔

"اچھا ٹھیک ہے۔ میں نے ماما کو بتا دیا تھا۔۔۔"
ایمن کو کوئی خوشی نہیں ہوئی تھی۔
ایمن کی نظر سامنے بیٹھے اسد پر پڑی جو کچھ دیکھنے میں محو تھا۔

حریم دکان سے باہر نکل کر چل رہی تھی جب اسے اپنے عقب سے سرگوشی سنائی دی۔
"حریم؟"
کوئی اسے پکار رہا تھا۔

لیکن آواز اتنی مدھم تھی کہ وہ سرگوشی گمان ہو رہی تھی۔
حریم نے چونک کر گردن گھمائی۔

وہاں کوئی اور نہیں بلکہ وہی نقاب پوش تھا۔
لمحہ بھر کو حریم ٹھٹھک گئی۔

"تم میرا نام کیسے جانتے ہو؟ کون ہو تم؟ کیوں میرا تعاقب کرتے ہو؟ کیا مقصد ہے تمہارا؟"
حریم نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے۔

مقابل کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھر گئی۔
"میں تمہارا؟"
وہ رک کر حریم کو دیکھنے لگا۔

حریم انہماک سے اسے سن رہی تھی۔ اس کی پوری توجہ کا حامل وہ شخص تھا۔
"کیا؟"
وہ خاموش رہا تو حریم بےچینی سے پہلو بدلتی ہوئی بولی۔

"تم خود تلاش کرو مجھے۔۔۔"
وہ آہستہ سے بولا۔

"میں کیوں تلاش کروں تمہیں؟"
حریم تنک کر بولی۔

"کیونکہ یہ ناگزیر ہے۔۔۔"
حریم کو سچ میں اب الجھن ہونے لگی تھی۔

"مطلب کیا ہے تمہارا کون ہو تم؟ اور کیوں تلاش کروں میں تمہیں؟"
حریم جھنجھلا کر بولی۔

"بہت گہرا رشتہ ہے میرا تم سے۔ جسے کوئی جدائی نہیں توڑ سکتی۔۔۔"
وہ حریم کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔
حریم کی آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا۔

"مجھ سے؟"
حریم بس اتنا ہی بول پائی۔

"ضروری نہیں کہ ہم ماضی کے تمام پنوں سے واقف ہوں۔ ہو سکتا ہے کچھ ایسا ہو جس سے ہم انجان ہوں۔۔۔"
اس کی آواز بمشکل حریم سن پا رہی تھی۔

"یہ کیا پاگل پن ہے؟"
حریم برہمی سے گویا ہوئی۔

"تمہیں لینے آ گئے۔۔۔"
نقاب پوش اسکے عقب میں اشارہ کرتا ہوا بولا۔
حریم نے گردن گھما کر عقب میں دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا۔

"جھوٹ بول۔۔۔"
حریم سامنے دیکھتی بول رہی تھی لیکن نقاب پوش غائب تھا۔

"کیا تھا یہ؟"
وہ خود کلامی کرتی ہوئی چلنے لگی۔

"میرا اس سے گہرا رشتہ؟ ماضی؟ ایسا کیا ہے جو میں نہیں جانتی؟"
حریم سوچ بچار کرتی چل رہی تھی۔

فون پھر سے رنگ کر رہا تھا۔
نمبر دیکھ کر حریم کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
حریم نے تین بار کال کاٹی لیکن مقابل ڈھٹائی کا ثبوت دے رہا تھا۔

"تم کیا ثابت کرنا چاہتے ہو مجھے اپنی شادی پر بلا کر؟"
حریم درشتی سے بولی۔

"میں ہاسپٹل میں ہوں۔۔۔"
احمد کی علیل سی آواز ابھری۔

"مر کیوں نہیں جاتے تم؟"
حریم حقارت سے بولی۔

احمد نے زور سے آنکھیں میچ لیں۔
"ایسے تو مت بولو۔۔۔"
احمد کراہ کر بولا۔

"اس سے زیادہ بدتر بول سکتی ہوں۔ دوبارہ مجھے کال کی تو بہت برا پیش آؤں گی میں۔۔۔"
حریم چبا چبا کر بولی۔

"گولی لگی ہے مجھے مشن بھی پورا نہیں کر سکتا میں اب۔۔۔"
احمد شکست خور سا بولا۔

"تم اسی لائق ہو۔۔۔"
حریم کے ایک ایک لفظ سے نفرت چھلک رہی تھی۔

"شادی میں تو آؤ گی نہ؟"
یکدم احمد کا لہجہ تغیر ہو گیا۔

حریم نے بنا کچھ کہے کال بند کی۔
احمد کا نمبر بلاک کر کے فون آف کر دیا۔
احمد بار بار حریم کا نمبر ملا رہا تھا لیکن بزی جا رہا تھا۔

"ابھی تو بات کر رہی تھی مجھ سے پھر؟"
احمد نے کہتے ہوۓ پھر سے نمبر ملایا۔

"آف کر دیا؟"
وہ پیشانی پر بل ڈالے اسکرین کو گھور رہا تھا۔

"اووہ تو میرا نمبر بلاک کر دیا تم نے؟ حریم تم کتنی ہی کوشش کر لو مجھ سے پیچھا نہیں چھڑا سکتی۔ کیونکہ میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں سو تمہیں کرنی پڑے گی۔۔۔"
احمد مسکراتا ہوا بولا۔

"میری پاگل پاٹنر۔۔۔"
وہ محظوظ ہوتا ہوا بولا۔

لمبا سانس کھینچ کر فون سائیڈ پر رکھ دیا۔
"سر اعجاز سے بات ہوئی؟"
ماحد کے اندر قدم رکھتے ہی احمد گویا ہوا۔

"ہاں افسوس ہو رہا تھا انہیں۔ فلحال اس مشن کو ملتوی کر دیا ہے کیونکہ خبر کے مطابق وہ لوگ الرٹ تھے ابھی ان پر ہاتھ ڈالنا ممکن نہیں اور یہاں تو سیاسی شخصیت ملوث ہیں اس لئے یہ کام اتنا آسان نہیں۔۔۔"
ماحد اس کے سامنے سٹول پر بیٹھتا ہوا بولا۔

احمد اثبات میں سر ہلانے لگا۔
"حریم سے بات ہو گئی؟"
وہ جانچتی نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔

"ہاں ہو ہی گئی۔۔۔"
احمد مسکراتا ہوا بولا۔

ماحد ڈرپ کو دیکھنے لگا جبکہ احمد نے آنکھیں موند لیں۔
حریم کا سراپا اس کی آنکھوں کے سامنے لہرا گیا۔ لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔

ایک سحر تھا جس میں وہ خود کو جکڑے ہوۓ محسوس کر رہا تھا۔
وہ اس سحر سے نکلنا بھی نہیں چاہتا تھا پہلی بار اسے قید پسند آئی تھی۔
***********
ایمن بےخبر سو رہی تھی جب فون رنگ کرنے لگا۔
گزشتہ دس منٹ سے فون رنگ کر رہا تھا۔
ایمن کے چہرے پر الجھن کے آثار نمایاں ہونے لگے۔

ہاتھ مار کر اس نے فون اٹھایا اور کان سے لگا لیا۔
آنکھیں اس کی بند تھیں۔
"ہیلو؟"
ایمن نیند کے خمار میں تھی۔

"ایمن میری پیاری بہن پلیز باہر آ جاؤ۔۔۔"
اسد کی آواز وہ پہچان نہ سکے ایسا ممکن نہیں تھا۔

"کیوں؟"
ایمن اٹھ بیٹھی۔
آنکھیں باہر نکل آئیں۔

"یار مجھے بھوک لگی ہے کچھ بنا دو۔۔۔"
اسد بےچارگی سے بولا۔

"اچھا ایک منٹ میں آتی ہوں۔۔۔"
ایمن اس کی ایک صدا پر کمبل پرے پھینکتی باہر نکل گئی۔

الٹے ہاتھ سے جمائی روکتی وہ زینے اترنے لگی۔
آنکھوں میں نیند تیرتی دکھائی دے رہی تھی۔
ہاتھوں سے بکھرے بال سمیٹتی وہ چل رہی تھی۔

اسد کچن میں ٹہل رہا تھا جب ایمن دروازہ کھول کر اندر آئی۔
"آپ نے ٹائم دیکھا ہے؟ دو بج رہے ہیں۔ یہ کون سا ٹائم ہے گھر آنے کا؟۔۔۔"
ایمن پیشانی پر بل ڈالے اسے گھورتی ہوئی بولی۔

اسد خجالت سے سر کھجانے لگا۔
"تمہیں فون کیا تاکہ مجھے کچھ بنا دو سچ میں یار اتنا کام کر کے آیا ہوں اور کھانا بھی نہیں کھایا۔۔۔"
اسد معصومیت سے بولا۔

"کس نے کہا تھا کھانا کھاےُ بغیر جائیں؟"
ایمن تیکھے تیور لئے بولی۔

"کلاس بعد میں لینا پہلے کچھ بناؤ میرے لیے۔۔۔"
اسد منہ بسورتا ہوا بولا۔

"دل تو کر رہا ہے ٹینڈے بناؤں آپ کے لیے۔۔۔"
ایمن گھورتی ہوئی بولی۔

"تم بنا دو ٹینڈے بھی کھا لوں گا۔۔۔"
اسد مزے سے کہتا چئیر پر بیٹھ گیا۔
ایمن منہ بسورتی سلیب کے سامنے کھڑی ہو گئی۔

"اب کیا بناؤں میں؟"
ایمن اسد کو دیکھتی ہوئی بولی۔

"نوڈلز ہی بنا دو اگر نہیں تمہارا دل کر رہا تو۔۔۔"
اسد ناراض ہو گیا۔

"یہ ایموشنل بلیک میلنگ مت کیا کریں آپ۔ نمک کی بجاےُ چینی ڈال دوں گی۔۔۔"
ایمن آرزدگی سے کہتی فریج کی جانب چلنے لگی۔
اسد لب دباےُ مسکرا رہا تھا۔

"انڈے تو نہیں۔۔۔"
ایمن دیکھتی ہوئی بڑبڑائی۔

"ویسے نوڈلز بہت مزے کے ہوتے ہیں۔۔۔"
ایمن کہتی ہوئی پانی چڑھانے لگی۔

"تم بس دو میں کھا لوں گا لیکن پلیز اچھے بنانا۔ اب کوئی بدلہ نکالنے مت بیٹھ جانا۔۔۔"
اسد معصومیت سے بولا۔

"ماما کہہ رہی تھیں پھر کھانا کیوں نہیں کھا کر گئے؟"
ایمن کمر پر ہاتھ رکھے پیشانی پر بل ڈالے اسے گھورتی ہوئی بولی۔
انداز کسی بیوی سے کم نہ تھا۔

"یار مجھے لگا آفس میں کھا لوں گا لیکن اتنا ٹائم ہو گیا کام میں پتہ ہی نہیں چلا اور تمہیں پتہ ہے نہ مجھے باہر کا کھانا کم ہی پسند ہے۔۔۔"
اسد شرٹ کے آستین اوپر کرتا ہوا بولا۔

"کھانا کھانا ہے بکرہ ذبح نہیں کرنا۔۔۔"
ایمن اس کی حرکت پر مسکرائی۔

اسد آبرو اچکا کر اسے دیکھنے لگا۔
"ابھی تو مجھے ایسی ہی فیلنگز آ رہی ہیں۔۔۔"
اسد آہ بھرتا ہوا بولا۔

ایمن نوڈلز باؤل میں ڈال کر اس کے سامنے لے آئی۔
اسد آرام سے نوش فرمانے لگا تو ایمن دوسرا باؤل پکڑے اس کے سامنے بیٹھ گئی۔

"موٹی تمہیں پھر سے بھوک لگی ہے؟"
اسد اسے گھورتا ہوا بولا۔

"ہاں تو اب آدھی رات جگا کر کام کروائیں گے تو بھوک تو خود بخود لگنی ہے۔۔۔"
ایمن منہ بسورتی کھانے لگی۔
اسد اسے دیکھ کر مسکرانے لگا۔

احمد کی کالز نے حریم کو ڈسٹرب کر دیا تھا، اور اب یہ نقاب پوش کی پہیلی۔
حریم الجھ گئی تھی۔
احمد مسلسل حریم کو تنگ کر رہا تھا کم از کم حریم کو ایسا معلوم ہو رہا تھا۔

اب بھی احمد نمبر بدل کر کال کر رہا تھا۔
حریم گزشتہ ایک گھنٹے سے اس کے تین نمبر بلاک کر چکی تھی۔

"آخر اس کی جان کو سکون کیوں نہیں ملتا؟"
حریم اکتا کر بولی۔

واٹس ایپ پر احمد کی تصویروں کا ڈھیر لگا تھا۔
حریم کو اس کی دماغی حالت پر شبہ ہو رہا تھا۔

"تم کتنی ہی کوشش کر لو احمد مجھے اب فرق نہیں پڑتا۔۔۔"
حریم اس کا نمبر بلاک کرتی ہوئی بولی۔

میسج کی آواز بھی ختم ہو گئی۔
حریم نے گیلری کھولی اور تصویریں ڈیلیٹ کرنے لگی۔
حریم بنا دیکھے تصویریں ڈیلیٹ کرتی جا رہی تھی جب ایک تصویر پر وہ ٹھٹھک گئی۔

"یہ تو میری تصویر ہے۔۔۔"
حریم غور سے دیکھنے لگی۔

احمد نے تصویر کو ایڈیٹ کیا ہوا تھا۔
ایک طرف احمد اور دوسری طرف حریم۔
تصویر پر پاگل لکھا تھا۔

"سچ میں تم پاگل ہو۔۔۔"
حریم نے کہتے ہوۓ اس تصویر کو بھی ڈیلیٹ کر دیا۔
اس کام سے فارغ ہو کر حریم نے موبائل تکیے پر اچھال دیا۔

"پتہ نہیں میری جان کیوں نہیں چھوڑ رہا یہ۔۔۔"
حریم کوفت سے بولی۔

"اس نقاب پوش نے ماضی کی بات کی تھی۔ ہو سکتا ہے سٹور روم سے مجھے کچھ مل جاےُ۔۔۔"
حریم اپنی توجہ دوسری جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہو چکی تھی۔

"ہاں۔ صبح مجھے سٹور روم چیک کرنا ہو گا شاید کچھ مل جاےُ۔۔۔"
حریم لحاف منہ پر اوڑھتی ہوئی بولی۔

Uljhy Bandhan (Hamna Tanveer)Where stories live. Discover now