Episode 12

43 0 0
                                    


"میں نے تم سے سوال کیا ہے؟"
احمد زور دے کر بولا۔

"اور میں نے بھی سوال ہی کیا ہے چندہ نہیں مانگا۔۔۔"
حریم بھی جواباً اسے گھورنے لگی۔

"بہت بولتی ہو تم۔۔۔"
احمد خفگی سے بولا۔

"اور تم بولتے ہی نہیں ہو۔۔۔"
حریم منہ بناتی ہوئی بولی۔

"تم نے تو مارکیٹ جانا تھا؟"
احمد آبرو اچکا کر بولا۔

"میں کیوں بتاؤں؟"
حریم شانے اچکاتی ہوئی بولی۔

"بتاؤ مجھے؟"
احمد تاؤ کھاتا ہوا بولا۔

"کیوں بتاؤں میں تمہیں؟ تم ڈی سی لگے ہو؟"
حریم آگے کو ہوتی گھورتی ہوئی بولی۔
احمد دو انگلیوں سے پیشانی مسلنے لگا۔

"کیا ہوا؟"
حریم مسکراتی ہوئی بولی۔

"تمہارے ساتھ میرا دل چاہتا یا تو تمہیں شوٹ کر دوں یا خود کو۔۔۔"
احمد دانت پیستا ہوا بولا۔

"اچھا کروں خود کو شوٹ تب تک میں ایک کال کر لوں۔۔۔"
حریم کی آنکھوں میں شرارت تھی۔

"تمہیں اپنے ساتھ شوٹ کروں گا۔۔۔"
احمد اسے گھورتا ہوا بولا۔

"اچھا اب کیا کریں؟"
حریم آس پاس دیکھتی ہوئی بولی۔

"یہیں پر بات کرتے ہیں۔۔۔"
احمد اپنی گاڑی سے ٹیک لگاتا ہوا بولا۔

"تو اتنی دیر سے کیا مجرا کر رہے تھے؟"
حریم آنکھیں سکیڑے اسے دیکھ رہی تھی۔
احمد کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔

"واہ پاٹنر تمہاری سمائل تو اچھی خاصی ہے۔۔۔"
حریم نے دل ہی دل میں اسے سراہا۔

"مجھے لگتا تھا تمہارے آگے کے دانت ٹوٹے ہوئے ہیں اس لئے تم ہنستے نہیں ہو لیکن میں غلط تھی۔۔۔"
حریم اسے دیکھتی ہوئی مسکرانے رہی تھی۔

"اسد کون ہے؟"
احمد نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوۓ استفسار کیا۔

"میرے تایا ابو کا بیٹا ہے۔۔۔"
حریم کے چہرے پر کوئی فکر یا پریشانی کے آثار نہیں تھے۔

"تمہارے تایا ابو کی ایک بیٹی ہے بس جہاں تک میرے علم میں ہے۔۔۔"
احمد اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

"اس کے پیرنٹس کی ڈیتھ ہو چکی ہے۔ہی از اورپھن۔۔۔"
حریم کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی۔

"تم روتی ہوئی بہت اچھی لگتی ہو۔۔۔"
احمد بغور اسے دیکھتا ہوا بولا۔

"اگر تم مجھے رُلانا چاہتے ہو تو میں نہیں رونے والی۔۔۔"
حریم منہ بسورتی ہوئی بولی۔

"اور تمہارے پیرنٹس؟"
احمد پھر سے سنجیدہ ہو گیا۔

"ایک کار ایکسیڈنٹ میں اسد کے اور میرے پیرنٹس کی ڈیتھ ہو گئی تھی میں اس وقت چار یا پانچ سال کی تھی۔۔۔"
حریم بائیں جانب سڑک کو گھورتی ہوئی بولی۔

آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔
وہ رونا نہیں چاہتی تھی۔
لیکن آنسوؤں پر کب کسی کا زور چلا ہے۔

موتی حریم کی آنکھوں سے ٹوٹ کر رخسار پر گرنے لگے۔
حریم ہاتھ کی پشت سے گال رگڑنے لگی۔

"آئم سوری! "
احمد ندامت سے بولا۔

"اٹس اوکے۔۔۔"
حریم انگلی سے آنکھ کا گوشہ صاف کرتی ہوئی بولی۔

"میں بہت چھوٹی تھی جب یہ حادثہ میرا سب کچھ لے گیا۔۔۔"
حریم ہوا سے سرسراتے پتوں کو دیکھ رہی تھی۔

"تم جانتے ہو ماں باپ کسی سایہ دار درخت کی مانند ہوتے ہیں جب تک وہ دنیا میں رہتے ہیں اپنے بچوں کو تپتی دھوپ اور زمانے کے سرد گرم سے محفوظ رکھتے ہیں۔ میں نے بچپن،جوانی سب ان کے بنا گزارا جو پل ان کے ساتھ گزارے وہ دھندلے ہو چکے ہیں۔۔۔"
احمد تاسف سے حریم کو دیکھ رہا تھا۔
وہ اپنی ماں کو روتا تھا اور حریم تو دونوں سے محروم تھی۔

"آئم سوری حریم مجھے علم نہیں تھا۔۔۔"
پہلی بار احمد کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا بولے۔

حریم نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کروا دیا۔
"کوئی مسئلہ نہیں یہ بتاؤ تم اپنے گھر والوں کو کب لے کر آؤ گے؟"
حریم چہرہ صاف کرتی اسے دیکھنے لگی۔

"جب تم کہو لے آؤں گا۔۔۔"
احمد نرم مسکراہٹ لئے بولا۔

"ٹھیک ہے مسٹر کھڑوس۔۔۔"
حریم مسکراتی ہوئی بولی۔

"دیکھو مجھے مارکیٹ جانا تھا اور تم نے روک لیا۔۔۔"
حریم پیشانی پر بل ڈالے اسے گھورتی ہوئی بولی۔

"میرا بات کرنا تمہارا مارکیٹ جانے سے زیادہ اہم تھا۔۔۔"
احمد بھی جواباً گھورتا ہوا بولا۔
حریم مسکراتی ہوئی گاڑی میں بیٹھ گئی۔

"پھر ملتے ہیں۔۔۔"
ہاتھ ہلاتے ہوۓ احمد کو دیکھنے لگی۔

احمد حریم کو دیکھتا ہوا سوچنے لگا۔
وہ الجھ گیا تھا۔

"کیا کروں کیا نہ کروں؟"
حریم جا چکی تھی۔
احمد نفی میں سر ہلاتا دروازہ کھولنے لگا۔

"آج ایک حقیقت آشکار کر دی تم نے مجھ پر۔ سمجھ نہیں آ رہا اپنے پلان پر عمل کروں یا پھر تبدیل کر لوں۔۔۔"
احمد بولتا ہوا گاڑی میں بیٹھ گیا۔

"ماحد رپورٹ آئی نہیں؟"
احمد فون کان سے لگاےُ ڈرائیو کر رہا تھا۔
"نہیں سر کی کال تو نہیں آئی مجھے۔۔۔"
ماحد کا جواب سن کر احمد نے بنا کچھ کہے فون بند کر دیا۔
************
"تائی امی مجھے لگتا ہے ہمیں ھان کو بتا دینا چائیے۔۔۔"
اسد کے چہرے پر پریشانی نمایاں تھی۔

"اسد تم پاگل ہو گئے ہو کیا؟ حریم کو مزید اذیت دینا چاہتے ہو تم؟ جو کہہ رہے کہ ھان کو حسیب کے متعلق بتا دیں۔۔۔"
لبنا کی آنکھیں پھیل گئیں۔

"تائی امی اس کا حق ہے جاننا۔۔۔"
اسد خفگی سے بولا۔

"ماضی کو ماضی میں ہی رہنے دو تو اچھا ہے اب اس سب کا کوئی فائدہ نہیں سواےُ تکلیف کے کچھ نہیں ملے گا ھان کو۔۔۔"
وہ قطعیت سے بولیں۔

کہیں نہ کہیں اسد بھی اس بات سے متفق تھا۔
اسد خاموش ہو گیا۔
حریم کو تکلیف نہیں پہنچانا چاہتا تھا وہ۔

"اور تم دوبارہ اس بات کا ذکر نہیں کرو گے اسد میں بتا رہی ہوں۔۔۔"
وہ برہمی سے کہتی چلی گئیں۔

اسد انہیں جاتا دیکھنے لگا۔
اسد سانس خارج کرتا حریم کو فون کرنے کے ارادے سے فون نکال رہا تھا جب قدموں کی آہٹ سنائی دی۔
وہ حریم کا پرفیوم پہچانتا تھا۔
لب دم بخود مسکرانے لگے۔

"اتنی دیر کر دی تم نے۔۔۔"
اسد پیشانی پر بل ڈالے حریم کی جانب چلنے لگا۔

"مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم میرا انتظار کر رہے ہو۔۔۔"
حریم بے چارگی سے بولی۔

"کھانا کھا کر آئی ہو؟"
اسد جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوا بولا۔
حریم نفی میں گردن ہلانے لگی۔

"پھر مل کر کھاتے ہیں۔۔۔"
اسد مسکراتا ہوا بولا۔

"میں یہ کمرے میں رکھ آؤں پھر کھانا گرم کرتی ہوں آ کر۔۔۔"
حریم ہاتھ میں پکڑے شاپر کی جانب اشارہ کرتی ہوئی بولی۔

"تم ہاتھ منہ دھو لو میں کھانا گرم کر لیتا ہوں۔۔۔"
اسد نے پیشکش کی۔

"تم کھانا گرم کرو گے؟"
حریم کی آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا۔

"ہاں تو اس میں حیرت والی کیا بات ہے؟"
اسد آبرو اچکا کر بولا۔

"نہیں میں خود کر لوں گی تم مت کرو۔۔۔"
حریم نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔

"اچھا تم یہ رکھ تو آؤ۔۔۔"
اسد اس کے ہاتھ کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا۔

"ہاں میں آتی ہوں ابھی۔۔۔"
حریم مسکراتی ہوئی چلی گئی۔

اسنے ایک نظر حریم کی پشت پر ڈالی اور تیزی سے کچن میں چلا گیا۔
کچن خالی تھا اسد آرام سے کھانا نکال کر گرم کرنے لگا۔
حریم آستین فولڈ کئے کچن میں داخل ہوئی تو اسد کو دیکھ کر ششدر رہ گئی۔

"اسد میں نے تمہیں منع کیا تھا نہ؟"
حریم کے چہرے پر خفگی نمایاں تھی۔

"تم نے دیر لگا دی مجھے بھوک لگی تھی اس لئے تمہارا انتظار نہیں کر سکا۔۔۔"
اسکا منہ لٹکا ہوا تھا۔
حریم بغور اس کے چہرے کا جائزہ لے رہی تھی۔

"جھوٹ کم ہی بولا کرو۔۔۔"
حریم کہتی ہوئی چئیر کھینچ کر بیٹھ گئی۔
اسد سر کھجاتا ہوا سربراہی کرسی پر بیٹھ گیا۔

"اپنے ہاتھ سے کھلا بھی دوں؟"
اسد اس کے قریب ہوتا سرگوشی کرنے لگا۔

"جب شادی ہو جاےُ گی نہ تب کھلانا پھر تم سے کپڑے بھی دھلواؤں گی بہت شوق چڑھا ہے نہ تمہیں کام کرنے کا۔۔۔"
حریم تپ کر بولی۔

اسد قہقہ لگاتا پلیٹ میں چاول نکالنے لگا۔
"کپڑے بھی دھو دوں گا۔۔۔"
اسد مسکراتا ہوا بولا۔

حریم نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا۔
روشن چہرہ،بڑھی ہوئی شیو اس پر ستم اس کی قاتلانہ مسکراہٹ۔
حریم نے جھرجھری لی۔
************
دن گزرتےجا رہے تھے اور شادی قریب آتی جا رہی تھی۔
زویا احمد کے سامنے بیٹھی تھی۔
سرخ و سپید رنگت، تیکھے نقوش، سلم سمارٹ سی۔

احمد کو وہ حریم سے زیادہ خوبصورت معلوم نہ ہوتی تھی جبکہ اس کی رنگت حریم سے زیادہ گوری تھی۔
حریم میں کوئی کشش تھی جو احمد کو اپنی جانب کھینچتی۔

"تم تیار ہو شادی کے لیے؟"
احمد کے چہرے پر سختی تھی۔

"جی۔۔۔"
زویا کبھی کھل کر نہیں بول سکی تھی احمد کے سامنے۔

"میں نے تمہیں پہلے بھی بتایا تھا اور اب دوبارہ بتا رہا ہوں تمہیں زیادہ تر اکیلے رہنا پڑے گا بابا کے ساتھ کیونکہ مجھے جاب کے سلسلے میں شہر سے باہر رہنا پڑتا ہے تمہیں ساتھ نہیں لے جا سکتا۔۔۔"
احمد کا لہجہ بے لچک تھا۔

"جی ٹھیک ہے۔۔۔"
زویا اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔

"کیا تم بچی کی جان نکال رہے ہو دیکھو کیسے سہمی ہوئی یے؟"
سفیر صاحب کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ بولے۔

"اگر ڈھیل دی تو کل میرے لئے مسئلہ بنے گا۔۔۔"
احمد چہرہ موڑ کر انہیں دیکھتا ہوا بولا۔

"میری بچی اتنی اچھی ہے پھر بھی تمہاری تسلی نہیں ہوتی اگر ہوتی کوئی تمہاری ٹانگ کھینچنے والی پھر میں دیکھتا۔۔۔"
سفیر صاحب کہتے ہوۓ زویا کے ساتھ بیٹھ گئے۔

احمد کی آنکھوں کے سامنے حریم کا سراپا لہرا گیا۔
"ٹھیک یے آپ دونوں شاپنگ کر لیں شادی کی پیسے مجھ سے لے لینا۔۔۔"
احمد کہتا ہوا کھڑا ہو گیا۔

"تمہاری شاپنگ بھی ہم کریں گے کیا؟"
وہ خفگی سے گویا ہوۓ۔

زویا اس سب میں خاموش بیٹھی تھی۔
"کر لیں مجھے کچھ کام ہے۔۔۔"
احمد سرد مہری سے کہتا باہر نکل گیا۔

سفیر صاحب تاسف سے دروازے کو دیکھنے لگے۔
"بیٹا تم اسکی بات کا برا مت منایا کرو۔۔۔"
وہ زویا کو دیکھتے ہوۓ بولے۔

"نہیں انکل میں جانتی ہوں ان کی عادت کو۔۔۔"
زویا مسکراتی ہوئی بولی۔

"اب اچھی سی چاےُ بناؤ اپنے لیے بھی اور میرے لئے بھی۔۔۔"
وہ زویا کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوےُ بولے۔
زویا اثبات میں گردن ہلاتی باہر نکل گئی۔
*************
"حریم کیا اتنا وقت بہت نہیں؟"
اسد اس کے سامنے بیٹھا تھا۔

"میں جانتی ہوں اسد لیکن۔۔۔"
حریم چہرہ جھکاےُ اپنے ہاتھوں کو گھور رہی تھی۔

"حریم اگر کوئی بات ہے تو مجھے بتاؤ؟"
اسد کا چہرہ کسی بھی تاثر سے پاک تھا۔

"میں کل تمہیں بتا دوں گی۔۔۔"
حریم بمشکل بول پائی۔

"ٹھیک یے پھر ڈیٹ تم ہی ڈیسائیڈ کر کے بتانا۔۔۔"
اسد مسکراتا ہوا بولا۔
لیکن حریم مسکرا نہ سکی۔

"ایمن مجھے بلا رہی تھی میں آتا ہوں۔۔۔"
اسد کہتا ہوا حریم کے کمرے سے باہر نکل گیا۔

"احمد مجھے ابھی ملنا ہے تم سے۔۔۔"
حریم نے میسج کیا اور بیگ اٹھانے لگی۔

"کیوں؟"
احمد کی جانب سے جواب دیکھ کر اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔

"اسی مال میں جہاں دو دن پہلے ہم ملے تھے۔۔۔"
حریم جواب دے کر چابیاں ڈھونڈنے لگی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔

حریم کسی کی نظروں میں آےُ بنا نکلنا چاہتی تھی۔
حریم تیز تیز قدم اٹھاتی دروازے سے باہر نکل گئی۔
گاڑی میں بیٹھی اور باہر نکل گئی۔

حریم کی پیشانی پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں تھیں۔
اسے گھبراہٹ ہو رہی تھی۔
حریم نے سپیڈ کم کر دی۔

احمد کی جانب سے اوکے کا جواب آیا تھا۔
آج پھر سے وہ نقاب پوش حریم کا پیچھا کر رہا تھا۔

"آخر یہ ہے کون؟ اور کیوں میرا تعاقب کرتا ہے؟"
حریم الجھ کر شیشے میں اس بائیک کو دیکھنے لگی۔

حریم گاڑی روک کر اس سے بات کرنا چاہتی تھی لیکن پھر احمد کے خیال سے اپنا ارادہ ترک کرتی سپیڈ بڑھانے لگی۔
اگلے دس منٹ میں وہ احمد کے سامنے بیٹھی تھی۔

"احمد تم کیوں اپنے گھر والوں کو لے کر نہیں آ رہے؟"
حریم کا ضبط جواب دے گیا تھا۔

"احمد سچ سچ بتاؤ میرے ساتھ کھیل تو نہیں رہے؟"
حریم نے اسے خاموش پا کر اپنا خدشہ ظاہر کیا۔

احمد گم سم سا حریم کو دیکھ رہا تھا۔
وہ خود بھی الجھا ہوا تھا۔
لیکن آج اسے بلاآخر فیصلہ لینا ہی تھا۔

کسی کی زندگی سنوارنے اور کسی کی زندگی اجاڑنے کے لیے۔کسی ایک کا نقصان تو طے تھا۔
کیونکہ جو کھیل شروع ہوا تھا اس میں ایک کی مات تو ہونی ہی تھی۔
حریم تھکی تھکی سی احمد کو دیکھ رہی تھی۔
اس کا ایک ایک عضو سامع ہوا بنا ہوا تھا۔
احمد نے بولنے کے لیے لب وا کیے۔
حریم کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔

Uljhy Bandhan (Hamna Tanveer)Kde žijí příběhy. Začni objevovat