Episode 11

52 0 0
                                    


"تم کیا سمجھتی ہو خود کو؟"
احمد اس کی بازو پکڑتا ہوا بولا۔

"میں تو خود کو انسان سمجھتی ہوں تمہارا طرح پاگل نہیں سمجھتی۔۔۔"
حریم محظوظ ہوتی ہوئی بولی۔

"جب تم اس طرح فضول بولتی ہو نہ دل کرتا ہے تمہارا منہ توڑ دوں۔۔۔"
احمد ضبط کی انتہا پر تھا۔

"اوہو منہ مت توڑنا پہلے تو تم بولتے نہیں ہو پھر گونگے ہو جاؤ گے نہ نہ ایسا نہیں کرنا۔۔۔"
حریم جلانے والی مسکراہٹ لئے بولی۔

"یہ فضول بولنے کی ٹریننگ کہاں سے لی ہے تم نے؟"
احمد آگے کی جانب قدم بڑھاتا ہوا بولا۔

"ہااا تم بھول گئے احمد؟"
حریم منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔

"کیا؟"
احمد رک کر اسے دیکھنے لگا۔

"تم سے ہی تو لی تھی میں نے ٹریننگ اپنی شاگرد کو کیسے بھول سکتے ہو تم؟"
حریم منہ بناتی ہوئی بولی۔

احمد کا دل چاہ رہا تھا اپنا سر پیٹ لے۔
"بہت بڑی غلطی ہو گئی مجھ سے جو یہاں آ گیا میں۔۔۔"
احمد منہ میں بڑبڑاتا ہوا چلنے لگا۔

حریم دانت نکالتی اس کے ہمراہ چل رہی تھی۔
"احمد تم دکاندار سے بات کرتے ہو یا پھر گھورنے پر اکتفا کرتے ہو؟"
حریم رازداری سے بولی۔

"حریم اپنا منہ بند کر لو۔۔۔"
احمد دانت پیستا ہوا بولا۔

"اور وہ کیسے کرتے ہیں؟"
حریم اسے تنگ کرنے کے موڈ میں تھی۔

مطلوبہ دکان آ چکی تھی۔
احمد نے شاپر اٹھایا اور حریم کی جانب بڑھا دیا۔

"کیا؟"
حریم منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔

"گھر جا کر دیکھنا۔ چلو بھاگو اب۔۔۔"
احمد اسے گھورتا ہوا بولا۔

"دیکھنے تو دو کیا معلوم بامب دیا ہو تم نے۔۔۔"
حریم کی آواز مدھم ہو گئی۔

"کہیں دے ہی نہ دوں میں بامب۔۔۔"
احمد خونخوار نظروں سے گھورتا ہوا بولا۔

حریم قہقہ لگاتی اسے دیکھنے لگی۔
"تم جا رہی ہو یا میں پھینک کر آؤں واپس؟"
احمد کو اس کی ہنسی جلا رہی تھی۔

حریم منہ بسورتی ہوئی واپس چل دی۔
"تھینک یو نہیں بولوں گی میں۔۔۔"
حریم گردن گھما کر اسے گھورتی ہوئی بولی۔

احمد کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھر گئی۔
"بیوقوف لڑکی تھینک یو تو بول بھی چکی ہے۔۔۔"
احمد مسکراتا ہوا چلنے لگا۔

"کہاں رہ گئی تھی تم؟"
اسد فکرمندی سے گویا ہوا۔

"وہ میں اپنے لیے کچھ لے رہی تھی۔۔۔"
حریم خود کو نارمل رکھتی ہوئی بولی۔

"مجھے بتا دیتی۔۔۔"
اسد خفگی سے بولا۔

"کوئی بات نہیں۔۔۔"
حریم نرم مسکراہٹ لئے بولی۔

"ایمن کے لئے لیا کچھ؟"
اسد اس کے ہمراہ چلتا ہوا بولا۔

"نہیں۔۔۔"
حریم نادم ہو کر بولی۔

"اب لے لیتے ہیں۔۔۔"
اسد دکانوں کو دیکھتا ہوا بولا۔

حریم اسد کا احمد سے موازنہ کرنے لگی۔
"دونوں کتنے مختلف مزاج انسان ہیں۔۔۔"
حریم سانس خارج کرتی ہوئی بڑبڑائی۔

اسد اس کا خیال رکھتا تھا حریم کو اچھا لگتا تھا جبکہ احمد کو تنگ کرنا حریم کو زیادہ اچھا لگتا تھا۔
"ماما بابا آپ کے طے کردہ رشتہ نے آج مجھے الجھا دیا ہے۔۔۔"
حریم تاسف سے بولی۔
************
حریم گاڑی میں بیٹھی تھی۔
گاڑی ایک اکیڈمی کے سامنے کھڑی تھی۔
وہ ایمن کی منتظر تھی۔

نجانے کیوں حریم کو گمان ہوا کہ کوئی اسے دیکھ رہا تھا۔
حریم نے گردن گھما کر باہر دیکھا تو کوئی دکھائی نہ دیا البتہ درخت کے عقب میں کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔

وہ سیکرٹ سروس میں تھی اس کی چھٹی حس کچھ زیادہ ہی تیز تھی۔
حریم نظر انداز کرتی فون کو دیکھنے لگی۔

"شاید میں جلدی آ گئی ہوں۔۔۔"
فون پر ٹائم دیکھتی ہوئی خود سے مخاطب ہوئی۔

حریم نے چہرہ موڑ کر شیشے سے پار دیکھا تو پھر سے درخت کے پاس سرسراہٹ ہوئی۔
"کوئی تو ہے۔۔۔"
حریم بولتی ہوئی گاڑی کا دروازہ کھولنے لگی۔

اس نے ابھی ایک ہی پاؤں باہر رکھا تھا کہ فون رنگ کرنے لگا۔
فون کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ احمد تھا۔
حریم کے لب مسکرانے لگے۔

رات اس کا خفگی بھرا چہرہ نظروں کے سامنے گھوم گیا۔
باہر جانے کا ارادہ ترک کرتی دروازہ بند کر کے فون کان سے لگا لیا۔

"جی میرے کھڑوس آفیسر۔۔۔"
حریم مزے سے بولی۔

"اچھے خاصے موڈ کا بیڑا غرق کر دیتی ہو تم۔۔۔"
احمد جل کر بولا۔

"میں تو کچھ بھی نہیں کرتی۔۔۔"
حریم معصومیت سے بولی۔

"اچھا یہ بتاؤ گفٹ پسند آیا؟"
احمد کے لہجے میں اشتیاق تھا۔

"کون سا گفٹ؟ میں تو کسی گفٹ کو نہیں جانتی۔ نہ ہی اب تک کی صدی میں تم نے مجھے کوئی گفٹ دیا ہے۔۔۔"
حریم قطعیت سے بولی۔

"حریم؟"
احمد بیزاری سے بولا۔

"میں حریم تو نہیں ہوں۔ حریم کی بیٹی بات کر رہی ہوں۔۔۔"
حریم لب دباےُ مسکرا رہی تھی۔

"اوکے فائن اب میں تم سے دوبارہ بات نہیں کروں گا۔۔۔"
احمد کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔

"اچھا وہ ٹیڈی بہت پسند آیا تھا مجھے۔۔۔"
حریم کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی۔

"سیدھی طرح نہیں بول سکتی تم؟"
احمد برہمی سے بولا۔

"ابھی بھی سیدھی بیٹھی ہوں الٹی تو نہیں ہوں۔۔۔"
حریم منہ بسورتی ہوئی بولی۔

حریم کو پھر سے کسی کی نظروں کی تپش محسوس ہوئی اس نے ترچھی نگاہوں سے بائیں سمت میں دیکھا۔
منہ کو سیاہ رنگ کے رومال سے لپیٹ رکھا تھا۔

اس سے قبل حریم گردن گھما کر اسے دیکھتی وہ چھپ گیا۔
حریم کی پیشانی پر شکنیں ابھریں۔

"کہاں گم ہو؟"
احمد کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرا رہی تھی۔

"کہیں نہیں۔ ایک بات بتاؤ احمد اگر کوئی ہم سے محبت کرتا ہو اور ہم کسی اور سے محبت کرتے ہوں تو کس محبت کا انتخاب کرنا چائیے؟"
حریم نے اپنی الجھن کا حل مانگ ہی لیا۔

"جس سے ہمیں محبت ہو اس کا انتخاب کرنا چائیے کیونکہ کھونے کا ملال انسان کو ساری زندگی رہتا ہے۔۔۔"
احمد کی گھمبیر آواز سرسرا رہی تھی۔

حریم خاموش ہو گئی۔
بلاشبہ اسے احمد کا ساتھ پسند تھا۔

قدموں کی آہٹ پر حریم نے شیشے سے پار دیکھا تو ایمن آتی دکھائی دی اور دو آنکھیں اس کے عقب سے ابھی تک حریم کو دیکھ رہی تھیں۔

"احمد بعد میں بات کرتی ہوں ابھی میں باہر ہوں۔۔۔"
حریم نے کہہ کر فون بند کر دیا۔

"سوری آپی وہ ٹیسٹ کر رہی تھی اس لئے تھوڑا لیٹ ہو گئی۔۔۔"
ایمن معذرت خواہانہ نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔

"کوئی بات نہیں۔۔۔"
حریم نے باہر دیکھا تو اب وہاں کوئی نہیں تھا۔

سر جھٹک کر وہ گاڑی سٹارٹ کرنے لگی۔
گھر آتے ہی حریم اپنے کمرے کی جانب چل دی۔
مغرب کی نماز کا وقت تھا۔

حریم دوپٹہ درست کرتی وضو کرنے چلی گئی۔
اپنے ماما بابا کے لئے دعا کرتے ہوۓ حریم کی آنکھیں چھلک پڑیں۔
یہ ایک نا قابل تلافی نقصان تھا۔
جو حریم کو اندر تک توڑ گیا تھا۔
حریم اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی۔

بے مقصد صوفے پر بیٹھی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔
احمد کے ساتھ گزرے لمحے آنکھوں کے سامنے چلنے لگے۔
احمد کا اکتاہٹ بھرا چہرہ۔
حریم کے لب مسکرانے لگے۔

وہ حریم سے تنگ آ جاتا لیکن کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
اور حریم اس کی بےبسی کا مزہ لیتی تھی۔

"ھان نے کھانا کھایا؟"
اسد چئیر کھینچتا ہوا بولا۔

ایمن کا کام کرتا ہاتھ رک گیا۔
خود کو نارمل کرتی وہ اسد کو دیکھنے لگی جو ٹی شرٹ کے ساتھ ٹراؤذر پہنے ہوۓ تھا۔
بال گیلے تھے۔ وہ ابھی فریش ہو کر آیا تھا۔

"نہیں وہ اپنے کمرے سے نہیں نکلیں۔۔۔"
ایمن اداسی سے بولی۔

اسد کے چہرے پر پریشانی کی لکریں ابھریں۔
"اور تائی امی کہاں ہیں؟"
اسد گھر میں معمول سے زیادہ ویرانی دیکھتا ہوا بولا۔

"خالہ کی طرف گئیں ہیں۔۔۔"
ایمن کہتی ہوئی اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔

"میں ھان کو لے آؤں۔۔۔"
اسد کہتا ہوا کھڑا ہو گیا۔

ایمن کو برا لگ رہا تھا۔
ھان کی واپسی سے قبل وہ دونوں اکثر و بیشتر ایک ساتھ کھانا کھاتے تھے اور اب وہ ھان کی خاطر اٹھ کر جا رہا تھا جو گزشتہ بیس منٹ سے ایمن کا سر کھا رہا تھا کہ وہ کھانا گرم کرے۔
ایمن سر جھٹک کر کھانے لگی۔

"ابھی تو بہت کچھ بدلنا ہے۔۔۔"
وہ خود کو تسلی دینے لگی۔

اسد کو تنہا آتے دیکھ کر ایمن کا ستا ہوا چہرہ کھل اٹھا۔
"کیا ہوا؟"
اپنے تاثرات نارمل رکھتی ہوئی بولی۔

"کہہ رہی ابھی بھوک نہیں۔۔۔"
اسد کہتا ہوا بیٹھ گیا۔

ایمن دل ہی دل میں خوش ہو گئی۔
"آپ نے مجھے وہ سوال کروانے ہیں۔۔۔"
ایمن زور سے بولی۔

"پہلے میں تمہارے ناولز اٹھا کر پھینکوں گا۔۔۔"
اسد گھورتا ہوا بولا۔

"کوئی نہیں اگر آپ نے ایسا کرنے کا سوچا بھی تو میں آپ سے بات نہیں کروں گی۔۔۔"
ایمن نروٹھے پن سے بولی۔

"ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ تم مجھ سے بات نہ کرو۔۔۔"
اسد محظوظ ہوتا ہوا بولا۔

"اچھا پھر ایک لڈو ہو جاےُ؟"
ایمن رازداری سے بولی۔

"ابھی تم پڑھنے کا کہہ رہی تھی۔۔۔"
اسد نگاہیں اوپر کرتا گھورنے لگا۔

"پڑھائی تو ہوتی رہے گی ماما گھر نہیں پہلے لڈو پھر جو ونر ہو گا اس کی پسند کی مووی بتائیں منظور ہے؟"
ایمن پرجوش انداز میں بولی۔

اسد سوچتا ہوا ایمن کو دیکھنے لگا۔
"منظور ہے لیکن کوئی چیٹنگ نہیں۔۔۔"
اسد پانی کا گلاس لبوں سے ہٹاتا ہوا بولا۔

"میں تو چیٹنگ نہیں کرتی۔۔۔"
ایمن منمنائی۔

"اب جب کرو گی نہ تمہیں پیلنٹی پڑے گی۔۔۔"
اسد ہاتھ صاف کرتا کھڑا ہو گیا۔

ایمن سیاہ رنگ کی شلوار قمیض پر سرخ سویٹر زیب تن کئے ہوۓ تھی۔
سیاہ اور سرخ رنگ اس کی گندمی رنگت کو نکھار رہا تھا۔

"تم نے بال نہیں کٹواےُ؟"
اسد اس کے ٹیل پونی میں لہراتے لمبے بالوں کو دیکھتا ہوا بولا۔

"نہیں۔ آپ کو پتہ تو ہے مجھے لمبے بال پسند ہیں پتہ ہے جو میرے ناول کی ہیروئن ہے نہ اس کے بال بھی ایسے ہی ہیں لمبے آبشار کی مانند۔۔۔"
ایمن اس کے ساتھ چلتی ہوئی بولی۔

"مجھے پورا یقین ہے ایک دن خبر آئے گی ایمن ناول پڑھنے کے باعث دماغی مریض بن گئی۔۔۔"
اسد قہقہ لگاتا ہوا بولا۔

ایمن نے کشن اٹھا کر اسے دے مارا۔
اسد کا دھیان نہ تھا جس کے باعث کشن اس کے منہ پر آ لگا۔

"ایمن کی بچی؟"
اسد کشن فرش سے اٹھاتا ہوا بولا۔

"میری ابھی شادی نہیں ہوئی۔۔۔"
ایمن اسے زبان چڑاتی ہوئی بولی۔

اسد نے نشانہ باندھنا لیکن ایمن نیچے جھک گئی۔
"اووہ آپ کا نشانہ بلکل بھی ٹھیک نہیں۔۔۔"
ایمن منہ بناتی ہوئی بولی۔

اسد آنکھیں چھوٹے کئے اسے گھورنے لگا۔
سیاہ بال بکھر کر روشن پیشانی پر منتشر ہو گئے تھے۔
ایمن یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی۔
اسد نہ صرف خوبصورت تھا بلکہ بلا کی کشش تھی اس میں جو مقابل کو اپنی جانب کھینچتی۔

"اچھا چلو چھوڑو مووی دیکھتے ہیں۔۔۔"
اسد سیڑھیوں کی جانب بڑھتا ہوا بولا۔

ایک طلسم تھا جو ٹوٹ گیا۔
ایمن جیسے ہوش میں آئی اور اس کے عقب میں چل دی۔

"کون سی مووی دیکھیں گے؟"
ایمن اس کے عقب میں زینے چڑھتی ہوئی بولی۔

"نارنیا۔۔۔"
اسد سامنے دیکھتا ہوا بولا۔

"ڈراؤنی نہ ہو۔۔۔"
ایمن منہ بناتی ہوئی بولی۔

"نہیں بہت اچھی دیکھنا تمہیں پسند آےُ گی۔۔۔"
اسد لاؤنج میں پڑی ایل ای ڈی کی جانب بڑھتا ہوا بولا۔
ایمن آلتی پالتی مار کر صوفے پر بیٹھ گئی۔

"کیا کر ہی ہو؟"
اسپیکر پر احمد کی آواز ابھری۔

"تیار ہو رہی تھی۔۔۔"
حریم جل کر بولی۔

"کہاں جا رہی ہو؟"
احمد کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

"اتنی رات کو بندہ کیا کر سکتا ہے؟ سونے لگی تھی۔۔۔"
حریم جمائی روکتی ہوئی بولی۔

"مجھے ملنا ہے تم سے۔۔۔"
احمد سیدھا مدعے پر آیا۔

"کیوں سانس نہیں آ رہی؟"
حریم شرارتی انداز میں بولی۔

"نہیں۔۔۔"
احمد مسکراتا ہوا بولا۔

"اچھا میں آکسیجن ہوں؟"
حریم لب دباےُ مسکرا رہی تھی۔

"ہاں کچھ ایسا ہی سمجھ لو۔۔۔"
احمد پاؤں ٹیبل پر رکھتا ہوا بولا۔

"کل تو میں نہیں مل سکتی۔۔۔"
حریم یاد آنے پر بولی۔

"کیوں؟"
احمد کی آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا۔

"کل مجھے مارکیٹ جانا ہے۔۔۔"
"تو کیا مسئلہ ہے اس میں؟"
احمد کرخت لہجے میں بولا۔

"کل نہیں پرسوں۔۔۔"
حریم ٹیڈی پکڑتی ہوئی بولی۔

"تنگ کر رہی ہو نہ مجھے؟"
احمد اس کا ارادہ بھانپ گیا۔
حریم مسکرا رہی تھی۔

"میں کیوں تنگ کروں گی تمہیں؟ احمد مجھے بہت زیادہ والی نیند آ رہی ہے تم صبح بحث کر لینا۔۔۔"
حریم منہ بسورتی ہوئی بولی۔
احمد نے غصے سے فون بند کر دیا۔
حریم نے تکیے پر سر رکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔
************
حریم آئینے کے سامنے کھڑی جرسی پہن رہی تھی۔
سیاہ بال ہمیشہ کی مانند جوڑے کی قید میں تھے۔
صوفے سے دوپٹہ اٹھایا اور سر پر لینے لگی۔

ایک نظر خود پر ڈال کر بیگ اور فون اٹھا کر کمرے سے باہر نکل آئی۔
اسد کا نمبر ملا کر فون کان سے لگاےُ حریم زینے اترنے لگی۔

"ہاں بولو؟"
اسد کی آواز سرسرائی۔

"اسد میں مارکیٹ جا رہی ہوں ایمن کی ڈریس چینج کروانی تھی کیا؟"
حریم لاؤنج میں آ چکی تھی۔

"ہاں تم ایمن سے لے لو مجھے کہہ رہی تھی کہ چینج کروا دیں۔۔۔"
اسد چئیر کو گھماتا ہوا بولا۔

"وہ تو اکیڈمی گئی ہے چلو میں تائی امی کو بول دیتی ہوں۔۔۔"
حریم لبنا کو دیکھتی ہوئی بولی۔

"ٹھیک یے دھیان سے جانا۔۔۔"
اسد فکرمندی سے بولا۔

"اوکے خدا حافظ۔۔۔"
حریم نے کہہ کر فون بند کر دیا۔

"تائی امی مجھے ایمن کے روم سے ڈریس لا دیں جو میں اور اسد لاےُ تھے۔۔۔"
حریم ان کے سامنے آتی ہوئی بولی۔

"ہاں تو بیٹا تم لے لو اس کے روم سے کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔"
وہ مسکراتی ہوئی بولیں۔
حریم سر ہلاتی واپس چلی گئی۔

حریم اپنی رو میں گاڑی چلا رہی تھی جب اسے ایک بائیک نظر آئی۔
"یہ بائیک کافی دیر سے میرے پیچھے ہے۔۔۔"
بولتے ہوۓ حریم کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

ہیلمٹ کے باعث چہرہ پوشیدہ تھا۔
حریم نے سپیڈ کم کر دی۔حریم شیشے میں اس بائیک کو دیکھ رہی تھی جو ٹرن لے رہا تھا۔
حریم نے سامنے دیکھا ٹریفک کم تھی۔

حریم نے گاڑی موڑ لی۔
بائیک والا سپیڈ بڑھاتا ہوا واپس جا رہا تھا۔
حریم نے گاڑی اس کے پیچھے لگا دی۔
ٹریفک کم تھی سو حریم نے سپیڈ بھی بڑھا دی۔

گاڑی سنسان راستوں پر چلنے لگی۔
لیکن حریم کو کوئی خوف نہیں تھا۔
آج وہ جان لینا چاہتی تھی کہ یہ نقاب پوش آخر ہے کون؟
حریم فل سپیڈ پر گاڑی چلا رہی تھی۔

آس پاس گھنے جنگلات شروع ہو گئے۔
نجانے وہ کہاں جا رہا تھا۔
سامنے سے یکدم گاڑی نمودار ہوئی۔

اگر حریم بروقت بریک نہ لگاتی تو یقیناً ٹکرا جاتی۔
بائیک نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
حریم نے آنکھیں چھوٹی کر کے گاڑی والے کو دیکھنا چاہا۔

وہاں کوئی اور نہیں احمد بیٹھا تھا۔
احمد گاڑی سے نکلا اور حریم کے سامنے آ گیا۔

"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"
احمد آس پاس چھائی ویرانی کو دیکھتا ہوا بولا۔

"چاٹ بیچنے آئی ہوں۔۔۔"
حریم دانت پیستی ہوئی بولی۔

"سیدھی طرح بتاؤ؟"
احمد دھاڑا۔

"باےُ دا وے تم یہاں کیا کر رہے ہو؟"
حریم دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔

Uljhy Bandhan (Hamna Tanveer)Onde histórias criam vida. Descubra agora