پارسائی سے آگے رسوائی#EPISODE 1

164 5 5
                                    

کبھی کبھی چاند کو دیکھنا بہت سکوں دیتا تھا مجھے پر آج میں جب بھی چاند کو دیکھتی ہوں تو صرف اذیت میں مبتلا ہوتی ہوں ۔۔،۔۔تمہاری کی گئی بے وفائی تم سے ملا رسوائی کا تحفہ مجھے تم سے نفرت کرنے پے مجبور کر دیتا ہے۔۔۔۔۔۔شاہ آج میرے پاس پچھتاوے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے
حیات چاند کو دیکھ کے دل ہے دل میں بنبنا رہی تھی کے اچانک ایک جانی پیچانی آواز پے پیچھے مڑ کے دیکھا ۔۔۔۔۔
عاصم آپ؟؟؟؟
جی بیگم صاحبہ میں آپکا ہندسوم شوہر۔۔۔،۔۔
عاصم کی بات پے حیات مسکرا دی
تو بیگم صاحبہ آپ کو اندازہ بھی ہے رات کے 12 بج رہے ہیں اور آپ یہاں کھڑی تنہا چاند کو تک رہی ہیں۔۔۔۔۔۔ویسے آپ اس چاند کو روزانہ کیوں تکتی ہیں اس سے خوبصورت تو آپکا شوہر ہے پر بیگم صاحبہ کو چاند سے فرصت ملے تب ہی مجھے دیکھیں

باتیں بنانی تو کوئی آپ سے سیکھے حیات نے جواب میں کہا ۔۔
اچھا بتائیں بھی کیا رکھا ہے اس چاند میں

اذیت ۔۔۔۔حیات نے چاند کو دیکھتے ہوے دهیمی آواز میں کہا ۔۔۔۔۔۔کیا ؟؟؟؟ عاصم نے حیات کی بات سن لی تھی

کچھ نہیں حیات بولی ۔۔۔
اچھا اگر آپ کی اور چاند کی باتیں ہو گئی ہوں تو کمرے میں چلیں وہاج اکیلا سو رہا ہے۔۔۔۔۔
جی ۔۔حیات نے کہا
عاصم نے حیات کا ہاتھ تھاما اور کمرے میں چل دیے ۔۔۔۔

وہاج سو رہا تھا تب حیات اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔۔
وہاج کے چہرے پے کتنی معصومیت ہے نا عاصم ۔۔۔حیات عاصم سے مخاطب ہوئی ۔۔۔۔۔

ظاہر ہے باپ پے گیا ہے معصومیت تو ہوگی عاصم نے حیات کو چڑانے کے لئے کہا
کیوں کے حیات ہمیشہ کہتی ہے کے وہاج اس جیسا ہے جب کے عاصم کا ماننا ہے کے وہاج اپنے بابا جیسا ہے

آپ تو بس ھر بات میں خود کو بیچ میں لانا نہ بھولیے گا ۔۔۔عاصم کی بات پے حیات نے کہا ۔۔۔
ہاں اور نہیں تو کیا میرا بیٹا ہے مجھ پے ہی جایگا ۔۔۔
حیات نے عاصم کی بات کو نظر انداز کیا اور پھر سے وہاج کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔حیات کو وہاج کے چہرے پے سکون دیکھ کے ہی سکون مل جاتا تھا ۔۔۔حیات نے وہاج کو گال پے پیار کیا اور سو گئی
وہاج حیات اور عاصم کا دو سال کا بیٹا ہے

صبح کے 4 بج رہے تھے جب حیات نماز ادا کرنے کے لیے جاگی تھی ۔۔۔نماز کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کی گئی
یہ حیات کا روز کا معمول تھا ۔۔۔نماز اور قرآن کی تلاوت حیات سے کبھی قضا نہیں ہوتی تھی ۔۔۔
ایک حادثے نے حیات کی زندگی کو بدل کے رکھ دیا تھا . .
جب حیات تلاوت قرآن سے فارغ ہوئی تو ناشتہ بنانے لگی ۔۔ کیوں کے عاصم نے کام پے جلدی جانا ہوتا تھا ۔۔۔۔۔۔
دبئی کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں عاصم حیات اور وہاج رهتے ہیں ۔۔۔۔۔
عاصم اور حیات کا تعلق پاکستان سے ہے۔۔۔۔مگر چونکہ عاصم دبئی میں نوکری کرتا ہے تو شادی کے بعد حیات کو بھی ساتھ دبئی لے آیا ۔۔۔

ناشتہ تیار ہو گیا تھا عاصم اور وہاج دونو جاگ چکے تھے ۔۔۔وہاج کو بھی اپنے بابا کی طرح جلدی اٹھنے کی عادت تھی ۔۔۔۔
حیات عاصم اور وہاج نے ساتھ میں ناشتہ کیا ۔۔۔۔عاصم سائٹ کی طرف روانہ ہوا جہاں وہ کام کرتا تھا ۔۔۔۔۔حیات اور وہاج نے اسے فی امان اللّه کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شام کے 4 بج رہے تھے جب حیات وہاج کو کے کر پارک چلی گئی ۔۔۔حیات ایک بینچ پے بیٹھی وہاج کو دیکھ رہی تھی اور وہاج بال کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھا ۔۔۔۔
وہاج حیات کی زندگی کی ایک خوبصورت حقیقت تھی ایک خوبصورت تحفہ اللّه کی عطا ۔۔۔۔
جسے دیکھ کے حیات اپنے سارے غم بھول جاتی تھی ۔۔۔۔۔

وہاج کھیلنے میں مصروف تھا کے ایک پیارا سا بچا بھاگتا ہوا آیا اور وہاج سے بال چھین لی ۔۔۔وہاج رونے لگا جب کے حیات اسے چپ کرانے لگی . ۔۔۔
وہ بچا بال لے کے بھاگ رہا تھا اور اسکی ماما اسکے پیچھے تھی ۔ ۔بیٹا جاؤ بھائی کو بال واپس کر کے اؤ یہ بری بات ہے ۔۔۔۔حیات یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی اور مسکرا رہی تھی ۔ وہ بچا بہت ہی شرارتی معلوم ہوتا تھا ۔ . . . . مگر اسکے بچے کی ماں نے اسے پیار سے سمجھا کے وہاج کی بال واپس دلوائی . . .
بچا بال دے کے واپس بھاگنے لگا . . . حیات نے اسکی ماما کا شکریہ ادا کیا ۔۔۔۔۔ٹیب ہی وہ اپنے بچے کے پیچھے بھاگی
ارے سالار  بیٹا رکو کہاں بھاگ رہے ہو ۔۔۔ .

سالار  ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
یہ نام سنتے ہی حیات کے ہاتھ پاؤں سن ہو گیے تھے ۔۔۔۔۔حیات جسی صدمے میں تھی ۔۔۔۔۔۔سوچوں میں گم ۔۔۔دل ہی دل میں بنبنا رہی تھی ۔۔۔۔سالار  سالار نہیں ۔۔۔۔سالار  تم ۔۔۔نہیں ۔۔ ۔حیات نہ جانے کیا کیا بول رہی تھی کانوں پے ہاتھ رکھ لیے تھے ۔۔۔
نہ جانے ایسی کون سی آوازیں تھی جنھے حیات نہیں سننا چاھتی تھی ۔۔۔۔۔
تبھی ہی اچانک وہاج زور زور سے رونے لگا وہ بچا پھر سے وہاج کی بال لے گیا ۔۔۔۔۔۔حیات ابھی بھی صدمے کی حالت میں تھی ۔۔۔۔۔۔کے اسی بچے کی ماں واپس آئ اور حیات کو ہلایا ۔۔۔ارے سسٹر آپ کے بےبی کی بال ۔ ۔۔تب حیات نے وہاج کو دیکھا ۔۔۔۔۔۔حیات کی آنکھوں سے آنسوں جاری تھے اور اس بات کا علم اسے خود بھی نہیں تھا ۔ . .

حیات نے بغیر سوچے سمجھے وہاج کو اٹھایا اور گھر چلی گئی ۔۔
گھر جاتے ہی حیات نے وہاج کو سلا دیا ۔ . ایسا پہلی بار ہوا تھا کے حیات نے شام کے 7 بجے وہاج کو سلا دیا ۔۔۔۔۔

وہاج کو سلا کے حیات نے نماز مغرب ادا کی ۔۔۔۔اور دعا کرنے لگی ۔۔۔۔۔یا اللّه آپ میرے دل کا حال جانتے ہیں ۔۔۔۔میں نے ھر آزمائش پے ہمیشہ صبر کیا ۔ . . یا اللّه آج پھر سے کیوں مجھے اس آزمائش میں ڈالا جا رہا ہے ۔۔۔کیوں آج وہ نام میرے سامنے پھر سے دوہرایا گیا . . . یا اللّه میری آزمائشیں ختم کر دیں ۔،۔۔۔۔۔مجھے ہمت دیں . . . مجھے میری ماضی کی تلخ یادوں سے باہر نکالیں . . . یا اللّه میں بہت بے بس ہوں ۔۔بہت عاجزی سے آپ سے دعا مانگتی ہوں ۔۔۔یا اللّه میرے گناہ معاف کر دیں ۔۔۔۔ مجھ پے رحم کریں ۔۔
حیات زار و قطار روے جا رہی تھی ۔۔۔۔۔ جب اللّه کے سامنے رو کے خوب دل ہلکا ہوا تو وہ مصلے سے اٹھی ۔۔۔اور قرآن مجید کو ترجمہ کے ساتھ پڑھنے لگی
سورة البقراء کی تلاوت ہو رہی تھی بمعہ ترجمہ ۔۔۔۔۔۔
حیات جب بھی قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھتی اسے حوصلہ ملتا تھا ۔۔۔
آج سورت بقرہ کی آیات نمبر 7 کی جب تلاوت کر رہی تھی جو الفاظ کچھ یوں تھے

"خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑھا ہوا ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب تیار ہے "

آیات 8
"اور بعض لوگ اسے ہیں جو کہتے ہیں کے ہم خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں حلانکہ وہ ایمان نہیں رکھتے "

آیت 9
"یہ (اپنے پندار میں )خدا کو اور مومنوں کو چکما دیتے ہیں مگر (حقیقت میں)اپنے سوا کسی کو چکما نہیں دیتے اور اس سے بے خبر ہیں "

یہ آیات پڑھ کے حیات کو بہت سکون ملتا تھا اسے اللّه کے انصاف پے یقین تھا ۔۔۔۔۔وہ جانتی تھی کے ایک دن انصاف ضرور ہوگا ۔۔۔۔

پارسائی سے آگے رسوائی Where stories live. Discover now