قسط نمبر 2

256 12 0
                                    

گھر پہنچ کر بھی وہ سوچ میں ڈوبا رہا۔ پھر وہ ائیرپورٹ جانے کی تیاری کرنے لگا۔ فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ دوسری طرف محکمہ سراغرسانی کے ڈی آئی جی تھے۔
"کیپٹن حادی کو شکران سے واپس بلا لو" ڈی آئی جی نے کہا "یہ کیس دوسروں کے سپرد کر دیا گیا ہے"
"مگر یوں اچانک!"
"یہ احکامات اوپر سے آئے ہیں تم جانتے ہو....بس تم اسے واپس بلا لو"
"بہتر میں دس بجے کی  فلائٹ سے شکران جا رہا ہوں "
"کیوں؟"
"حادی خطرے میں ہے"
"میں نہیں سمجھا"
"اس کا پیغام آیا ہے۔اس نے اسمگلروں کو پکڑ لیا ہے،لیکن خود خطرے میں ہے"
"میرے خیال سے تم اس معاملے میں مداخلت نا کرو تو بہتر ہے"
"تو کیا میں حادی کو مر جانے دوں" داریان نے غصیلی آواز میں کہا
"میرا مطلب ہے کہ حادی کو خاموشی سے لے کر واپس آجاؤ"
"اگر مجھے خاموش رہنے دیا گیا تو" داریان نے کہہ کر سلسلہ منقطع کر دیا اور ایک جھٹکے کے ساتھ ریسیور کریڈل پر ڈال دیا اور کچھ سوچنے لگا۔ کچھ دیر بعد اس نے پھر ریسیور اٹھا کر کسی کے نمبر ڈائیل کئیے
"ہیلو۔۔۔۔!" دوسری طرف سے آواز آئی
"کون ہے!"
"دلاور۔۔۔۔تم کون ہو"
داریان نے کوئی جواب ڈئے بغیر ریسیور رکھ دیا۔ اب وہ پھر نمبر ڈائیل کر رہا تھا۔ رابطہ قائم ہوتے ہی اس نے کہا "دلاور نامی آدمی پر نظر رکھو۔۔۔۔وہ آئیوری مینشن کی عمارت میں موجود ہے"
"Very well sir!" دوسرے طرف سے آواز آئی اور داریان نے سلسلہ منقطع کر دیا
اس نے ریسیور رکھا ہی تھا کہ پھر گھنٹی بجی
"ہیلو۔۔۔!" داریان نے ریسیور اٹھا کر کہا
"کرنل داریان" دوسری طرف سے آواز آئی
"داریان اسپیکنگ" داریان نے کہا لیکن دوسری طرف سے سلسلہ منقطع کر دیا گیا۔
داریان نے ریسیور رکھا اور ریوالور لوڈ کر کے جیب میں رکھا۔ اور اپنا سامان اور چیک بُک لیتا ہوا باہر نکلا اور ڈرائیور کو آواز دی۔ تھوڑی دیر بعد اس کی گاڑی پھاٹک سے باہر نکلی۔
"ائیرپورٹ۔۔۔۔!" داریان نے ڈرائیور سے کہا۔
گاڑی تیزی سے ائیرپورٹ کی جانب بڑھتی رہی۔ لیکن داریان اس سے بھی لاعلم نہیں تھا کہ اس کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔ پچھلی گاڑی کی ہیڈ لائیٹس صاف نظر آرہی تھیں۔
داریان نے جیب سے ریوالور نکال لیا۔ اس کی نظر اب پچھلی گاڑی پر تھی۔ اچانک اس کی گاڑی ایک زبردست جھٹکے کے ساتھ رُک گئی۔ اس کی گاڑی سے ایک دوسری گاڑی صرف ایک فٹ کے فاصلے پر کھڑی تھی۔ دفعتاً سامنے والی گاڑی سے دو تین آدمی نیچے کود پڑے۔
"گاڑی بیک کرو" داریان نے اپنے ڈرائیور سے کہا لیکن بیک کرنے کی بھی جگہ نہیں رہ گئی تھی۔ لیکن ڈرائیور نے بڑی مہارت سے گاڑی ریورس کر لی۔ داریان کی گاڑی کا اگلہ حصہ اگلی گاڑی سے ٹکرایا۔
داریان کے لئے اتنا موقع ہی کافی تھا اس نے گاڑی سے چھلانگ لگا دی۔ پچھلی گاڑی سے کئی فائر ہوئے۔ داریان سڑک کی نشیب میں اُتر گیا۔ سڑک سنسان پڑی تھی اور اسی سناٹے کی وجہ سے اسے یہاں گھیرا گیا تھا۔ گاڑی سے اترنے والے نشیب میں دوڑتے چلے گئے۔
ڈرائیور نے گاڑی کو دھکیل کر اتنی جگہ بنا لی کہ وہ آرام سے اپنی گاڑی موڑ کر آگے نکال سکے۔ اسے یقین تھا کہ اسی سڑک پر کہیں نہ کہیں داریان سے لازمی طور پر ملاقات ہوگی۔
                        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدلتے نقشے(Complete)Where stories live. Discover now