آخری قسط

187 9 2
                                    

بھاری بھرکم دلاور دم توڑ رہا تھا اور مرحا ہنس رہی تھی "میں نے آج تک کسی پرندے کا بھی خون نہیں بہایا لیکن میں اس وقت اتنی مسرور ہوں جیسے میں نے کوئی بڑا نیک کام کیا ہو.....بابا کیا میں خوش نظر آرہی ہوں"
"بہت زیادہ۔ میں بھی خوش ہوں کہ آج تمیں تمہارے باپ کے قاتل سے ملا سکا"
"شکریہ بابا" مرحا نے کہا۔ حادی نے اس کے لہجے میں تھوڑی سی تلخی بھی محسوس کر لی۔ ابھی تک اس کی نظروں سے صدا عجیب لڑکیاں گزری تھیں لیکن یہ لڑکی عجیب ترین تھی۔
دفعتاً سامنے کی دیوار سے ایک دروازہ نمودار ہوا اور حادی کو نعمان نظر آیا جسے دو آدمی دھکیل دھکیل کر آگے بڑھا رہے تھے۔ اس کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے تھے۔
حادی کو دیکھ کر اس کے حلق سے عجیب سی آواز نکلی۔ شاید خوشی کا اظہار تھا۔ بوڑھے نے ان آدمیوں کو مخاطب کیا جو نعمان کا لائے تھے۔
"وہ کہاں ہے"
"تلاش جاری ہے" ایک نے جواب دیا
حادی نے اطمینان کا سانس لیا۔ وہ سمجھا تھا داریان بھی ان کے ہتھے چڑ گیا۔
اس نے نعمان کی طرف دیکھا۔ جو آہستہ آہستہ کھسکتا ہوا حادی کے قریب پہنچ گیا تھا۔ لیکن ابھی شاید اس نے نہ تو مرحا کی موجودگی محسوس کی تھی اور نہ اس چرواہے کو دیکھا تھا جو مر چکا تھا۔
"ارے۔۔۔۔۔!" مرحا پر نظر پڑتے ہی وہ اچھل پڑا اور بوڑھا اسے گھورنے لگا
"مرحا۔۔۔۔!" وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا " تم گھبراؤ نہیں میں ان سبھی سے سمجھ لوں گا"
مرحا ہلکا سا مسکرائی اور بوڑھے کی طرف دیکھ کر بولی " یہ بیچارے یہی سمجھتے رہے ہیں کہ میں ایک بے سہارا لڑکی ہوں"
"اور کیا۔۔۔۔!" نعمان سر ہلا کر بولا " تم اس بیچاری کو چھوڑ دو"
"نعمان ہوش میں آؤ۔۔۔!" حادی بولا "ہم ابھی تک دھوکا کھاتے رہے ہیں۔۔۔۔۔یہ لڑکی اسی گروہ سے تعلق رکھتی ہے۔۔۔۔۔اور وہ اُدھر دیکھو۔۔۔۔۔لاش، اسے مرحا نے ابھی ابھی میری آنکھوں کے سامنے قتل کیا ہے"
"کیا۔۔۔!" نعمان۔ بوکھلا کر بولا
"تم اپنی جگہ سے جنبش بھی نہیں کرو گے" بوڑھا ریوالور کا رخ اس کی طرف کر کے دہاڑا۔
"نہیں کروں گا" نعمان بھرائی ہوئی آواز میں بولا
"لیکن تم ان لوگوں کے ساتھ کیوں دھکے کھاتے پھر رہے ہو۔ تم شاید سیٹھ دلاور شاہ کے لڑکے ہو"
"تم کون ہو"
"میں پوری دنیا کا شہنشاہ ہوں"
"ان کا آداب بجا لاؤ" حادی نے مضحکہ اڑانے والے انداز میں کہا۔
"مجھے آداب بجانا نہیں آتا۔۔۔۔بھائی شہنشاہ صاحب" نعمان بوکھلا کر بولا
پھر وہ حادی پر الٹ پڑا۔
"ابے تم خود بجا لاؤ" بوڑھا ہنس پڑا مرحا بھی ہنسنے لگی۔
دفعتاً ہتھکڑی لگا ہوا آدمی برا سا منہ بنا کر بولا۔ جو اب تک خاموش کھڑا رہا تھا۔
"تم لوگ درندے ہو بلکل درندے" وہ آنکھیں پھاڑ کر دلاور کی لاش کو دیکھ رہا تھا۔
"تم بہت نرم دل ہو ضرغام۔" بوڑھے نے کہا " اسی لئے تو میں تم پر نازل کیا گیا ہوں۔ رحم دل آدمی دنیا نہں کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ لفظ دراصل چالاک بزدلوں کا تراشہ ہوا ہے۔ یہ اکیسویں صدی ہے ضرغام، جب امن کے نام پر خون بہایا جاتا ہے۔ آدمیوں کی طرح سوچنا سیکھو ضرغام۔ تم میں ساری دنیا پر حکومت کرنے کی طاقت ہے۔ لیکن تم اس طاقت کے استعمال سے ناواقف ہو۔ اس لڑکی کے کارنامے کو درندگی قرار دیتے ہو۔ تم غلطی پر ہو۔ اگر یہ قاتل اسے نا ملتا اور یہ اس سے انتقام نہ لیتی تو ہو سکتا تھا کہ یہ سب کے لئے خطرہ بن جاتی۔ یہ کل کی تباہی سے بچنے کے لئے بہت ضروری تھا۔ خیر..... اب تم اسے خاک کر دو"
ضرغام کچھ نہ بولا۔ مرحا ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ اس کے جسم لرزا طاری ہو رہا تھا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا تھا۔
بوڑھا پھر ضرغام سے بولا " کیا تم نے سنا نہیں اس لاش کو راکھ کا دھیر بنا دو"
"یہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔حادی بھائی" نعمان نے کہا۔ حادی کچھ نہ بولا
ضرغام آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا دیوار کی طرف جارہا تھا۔ اس نے ہتھکڑی لگے ہوئے ہاتھ اٹھا کر دیوار پر ایک جگہ انگلی رکھی اور دوسرے ہی لمحے عجیب قسم کی گڑگڑاہٹ سنائی دی۔ سامنے لگے ایش انسینیریٹر (Ash Incinerator) کا خانہ کھل گیا۔ ضرغام نے دلاور کی لاش اٹھا کر اس میں رکھ دی۔ اور لڈ بند کر دی۔
حادی ضرغام کی طرف دیکھ رہا تھا۔ سب ہی خاموش تھے۔ دفعتاً حادی نے ضرغام کے چہرے پر حیرت کے آثار دیکھے۔ اس کی نظر اس حصے پر تھی جہاں ایک کنٹرول بورڈ پر کچھ لائیٹس کبھی جلتی اور کبھی بجھتی تھیں۔
"کیا بات ہے" بوڑھے نے پوچھا۔
"کچھ نہیں" ضرغام نے کہا اور فرش پر پھیلے ہوئے خون پر نظر جما دی۔
شاید کچھ دیر بعد انسینیریٹر کا خانہ دوبارہ کھلا۔ خانے میں کرنل داریان کھڑا انہیں گھور رہا تھا اور اس کے ہاتھوں میں ٹامی گن تھی۔ وہ خانے سے باہر آکر بولا "شاید آپ لوگوں کو میری آمد گراں گزرے اس لئے براہِ کرم اپنے ہاتھ اوپر اٹھا دیجئے۔"
حادی اور نعمان کے علاوہ سب نے ہاتھ اوپر اٹھا دئیے۔حادی بوڑھے کو مخاطب کر کے بولا "میں نے کہا تھا نہ کہ اس منحوس جملے کو نہ دہراؤ"
"ضرغام اگر تم نے زرا برابر بھی کمزوری دکھائی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا" بوڑھے نے کہا
داریان بوڑھے کو گھورنے لگا۔ مرحا بھی اب کھڑی ہوگئی تھی۔
"تو یہ جناب ہیں" داریان نے بوڑھے کے چہرے پر نظر جمائے ہوئے کہا
"کیا آپ اسے جانتے ہیں" حادی نے پوچھا
"اچھی طرح بیٹے خاں"
"تو پھر بنا دوں چٹنی سالے کی" نعمان بول پڑا
"نہیں۔۔۔۔میں انہیں بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ یہاں سے لے جاؤں گا"
"تم ہی ہو جو سائبرگ کو اپنے ساتھ لے گئے تھے" ضرغام آنکھیں پھاڑ کر بولا
"ہاں" داریان نے مسکرا کر کہا " سائبرگ ایک شاندار ایجاد تھی۔ اور اس کی بربادی پر مجھے افسوس ہے۔ میں پہلے ہی جانتا تھا کہ سائبرگ کس طرح مار کھا سکتا ہے۔ اس کی روشنی میں آئی ہوئی ہر چیز یہاں ٹیلی ویژن کی اسکرین پر نمایاں ہو جاتی تھی اور تم اس کے بچاؤ کی تدبیر کر لیتے تھے۔ میں نے اس کی روشنی سے بچ کر روشن حصے پر گولی چلائی اور اسے بیکار کر دیا۔"
"تم بہت چالاک ہو میں پہلے ہی دن سمجھ گیا تھا" ضرغام بولا
"اور آپ۔۔۔۔بندرگاہ کی تعمیر نہیں پسند کرتے تھے۔ اسی لئے ضرغام پر قابو پاتے ہی آپ نے سب سے پہلے اس کا فیصلہ کرنا پہتر سمجھا۔اگر بندرگاہ پر بحری فوج کا اڈہ بن جاتا تو پھر آپ کی ناجائز درآمد و برآمد کا کیا ہوتا۔ کچھ تو بولئے جناب"
"تم اپنی بکواس بند کرو تو میں بھی بولوں"
"میں خاموش ہو گیا"
"تم کسی غلط فہمی میں مبتلا ہو"
"یہ مرض مجھے بہت کم ہوتا ہے"
"کیا ہم ایک دوسرے کے لئے اجنبی نہیں ہیں" بوڑھے نے کہا
"اتنی پرانی جان پہچان والے ایک دوسرے کے لئے اجنبی کیسے بن سکتے ہیں"
"اچھا تو تم میرا کیا کر لو گے"
"سبھی بتاتا ہوں پہلے کیپٹن سے آپ کا تعارف تو کرا دوں۔ حادی آپ وہی بڑے آدمی ہیں جن کا تذکرہ میں اکثر کرتا رہا ہوں۔ شمروز آفندی صاحب! ممبر آف پارلیمنٹ۔ آپ کا گروپ بہت تگڑا ہے۔ ملک کے حاکم اعلیٰ آپ کی ذات پر نہ صرف اعتماد کرتے ہیں بلکہ فخر بھی کیا کرتے ہیں۔ شاید وہ آپ کے کرتوتوں سے واقف ہی نہیں ہیں۔ اس لئے دوسرے بڑے حکام نہ صرف آپ سے خوف کھاتے ہیں بلکہ اس طرح آپ کے کام آتے ہیں کہ ان کی پولیس بھی منہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔ لیکن آپ کو یاد ہوگا کہ داریان آپ کو کئی بار وارننگ دے چکا ہے اور آج وہ آپ کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال کر یہاں سے لے جائے گا آفندی صاحب! آپ ضرغام پر قابو پا کر حکومت کا تختہ الٹنے کا پروگرام بنا رہے تھے۔ آپ کو شارع عام پر پھانسی دلواؤں گا."
"آج رات کی کہانی تم لوگوں کے ساتھ یہیں دفن ہو جائے گی" بوڑھے نے قہقہہ لگایا
"اسے ہٹاؤ وہاں سے....!" دفعتاً ضرغام چیخا
لیکن قبل اس کے کہ داریان سنمبھلتا بوڑھے کو زمیں نگل گئی۔ مگر شاید وہ فائر داریان ہی پر کیا گیا تھا جس نے ضرغام کی کھوپڑی میں سوراخ کر دیا۔
"اس نے جگہ جگہ ڈائنامائٹ لگائے ہوئے ہیں اور ان کا سوئچ باہر ہے۔ بھاگو۔۔۔۔میرے ساتھ آؤ" مرحا چیخی
اس نے جھپٹ کر ایک سوئچ بورڈ کا بٹن دبایا اور دیوار ایک جگہ سرکتی چلی گئی۔ وہ سب اس کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔ مرحا ان کی رہنمائی کر رہی تھی۔ اور وہ سب گرتے پڑتے بھاگے جا رہے تھے۔ آخر وہ ان کمروں کر جال سے نکل کر سرنگوں میں دوڑنے لگے۔ شاید مرحا کی حاضر دماغی مے کہیں سے ٹارچ اٹھا لینے میں کوتاہی نہیں کی تھی۔ وہ سب سے آگے دوڑ رہی تھی۔
وہ بہت جلد کھلے آسمان کے نیچے آگئے لیکن مرحا کی رفتار اب زیادہ تیز ہوگئی تھی۔ حادی نے پلٹ کر دیکھا اس کے پیچھے صرف نعمان تھا اور بوڑھے کے ساتھیوں میں سے جس کے جدھر سینگ سمائے تھے بھاگ نکلا تھا۔
کافی دور دوڑنے کے بعد مرحا رک گئی۔ اس کی ٹارچ کی روشنی اندھیرے میں رینگ گئی تھی۔
"وہ رہا۔۔۔۔۔وہ دیکھئیے" مرحا کپکپاتی ہوئی آواز میں بولی "شاید جلدی میں سوئچ کا مقام بھول گیا"
ٹارچ کی روشنی پڑتے ہی بوڑھا اچھل پڑا۔ داریان کی ٹامی گن گولیاں اگلنے لگی۔ داریان نے ٹامی گن ڈال کر ریوالور نکال لیا۔ بوڑھا بھی ایک چٹان کی اوٹ سے فائر کرنے لگا تھا۔ دونوں طرف سے فائر ہوتے رہے۔ حادی کے پاس ریوالور نہیں تھا۔ اس لئے وہ خاموش کھڑا رہا۔ دفعتاً مرحا بولی۔
"میں اسے قابو میں لاؤں گی"
وہ گھٹنوں کے بل چلتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔
"ٹھہرو۔۔۔۔۔یہ کیا کر رہی ہو" داریان نے کہا
"ارے۔۔۔۔!" نعمان ہکلایا
دوسرے ہی لمحے میں وہ ایک ہلکی سی کراہ کے ساتھ حادی پر آگری۔ حادی نے بڑی پھرتی سے اسے ہاتھوں پر سنمبھال لیا۔
"مرحا۔۔۔۔کیا ہوا"
"گولی کیپٹن۔۔۔۔۔میرے شانے میں گولی لگی ہے۔۔۔۔!"
"حادی تم اسے دیکھو۔۔۔۔۔یہ ایسے قابو میں نہ آئے گا" داریان نے کہا اور تاریکی میں رینگ گیا
"کیپٹن۔۔۔۔!" مرحا کراہی "ہم میں سے کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ خود ہی آقا بھی ہے اور غلام بھی۔ تم نے دلاور کی گفتگو سنی تھی۔۔۔۔۔وہ بھی۔۔۔۔۔نہیں جانتا تھا"
"تم خاموش رہو مرحا۔۔۔۔۔نعمان ٹارچ روشن کرو"
"ٹارچ۔۔۔۔وہ برابر گولی چلا رہا ہے"
"پرواہ مت کرو۔ میں زخم دیکھوں گا۔ مرحا گھبراؤ نہیں"
"تم ٹارچ مت روشن کرنا۔ ٹھہرو۔۔۔۔۔کیپٹن۔۔۔۔۔یہ تو بڑی اچھی بات ہے کہ میں مرنے جارہی ہوں۔ میں نے ابھی ایک آدمی کے خون سے ہاتھ رنگے تھے۔ بابا بدنیت آدمی ہیں۔ پتہ نہیں۔۔۔۔۔۔انہوں نے جھوٹ کہا تھا یا سچ۔۔۔۔۔میں نے بہت برا کیا کیپٹن۔۔۔۔۔خدا مجھے معاف کرے"
"وہ برا آدمی تھا مرحا تم اس کی فکر نہ کرو۔ تم پر آنچ نہیں آئے گی۔"
"میں نے بہت بُرا کیا کیپٹن۔۔۔۔۔۔وہ بُرا تھا تو میں ہی کہاں کی اچھی تھی۔۔۔۔۔میری ساری زندگی کشمکش میں گزر گئی۔ کبھی اچھی بننے کی کوشش کرتی تھی۔۔۔۔۔اور کبھی۔۔۔۔۔کیپٹن۔۔۔۔۔۔میں نے سوچا تھا کہ ہم دونوں اچھے دوست بن جائیں گے۔اوہ۔۔۔۔۔موٹے بھّیا۔۔۔۔۔مجھے معاف کرو۔۔۔۔۔میں نے تمہیں بہت پریشان کیا ہے۔"
نعمان دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔
"نہیں۔۔۔۔۔ارے۔۔۔۔!" مرحا کے ہاتھ حادی کے گالوں پر رینگ گئے۔" تم بھی رو رہے ہو کیپٹن۔۔۔۔۔۔ اللّٰہ۔۔۔۔میں اکیلی نہیں ہوں۔۔۔۔۔میرے لئے بھی رونے والے ہیں۔۔۔۔کیپٹن۔۔۔۔۔تم میرے لئے رو رہے ہو۔۔۔۔کیپٹن۔"
یک بیک وہ خاموش ہوگئی
"مرحا۔۔۔۔مرحا۔۔۔۔!" حادی نے اسے آہستہ سے ہلایا۔ لیکن مرحا کی آواز نہ سنی جاسکی۔
"حادی۔۔۔۔بھائی۔۔۔۔" نعمان ہچکیاں لیتا ہوا بولا۔
"ختم ہوگئی" حادی نے آہستہ سے کہا
نعمان کی ہچکیاں پھر دہاڑوں میں تبدیل ہوگئیں۔
اس دوران میں فائر برابر ہوتے رہے۔ حادی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
"میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا" دفعتاً انہوں نے داریان کی آواز سنی۔
"میں تمہیں کیچوے کی طرح مسل دوں گا" جواب ملا
انہون نے دوڑتے ہوئے قدموں کی آوازیں سنیں ایک فائر ہوا۔ پھر ایک چیخ فضاء میں ابھری اور دور تک پھیلتی چلی گئی۔
"کرنل۔۔۔۔۔کرنل۔۔۔۔!" حادی چیخا
"میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔تم ٹارچ لے کر نیچے آؤ" نیچے سے آواز آئی
حادی نے نعمان کو وہیں ٹھہرنے کی ہدایت کی اور خود ٹارچ لے کر نشیب میں اترتا چلا گیا۔ داریان نے اسے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا اور پھر حادی نے دیکھا جس سے اس کی کافی تسکین ہوئی اور وہ چند لمحے کے لئے یہ بھول گیا کہ ابھی ابھی مرحا کی لاش کے پاس سے اٹھ کر آرہا ہے۔
بوڑھا ایک چٹان پر چت پڑا تھا۔ اس کا جسم سرد ہو چکا تھا۔ گولی سر میں لگی تھی۔داریان اسے چند لمحے دیکھتا رہا پھر سیدھا کھڑا ہو کر بولا۔
"یہ نعمان کیوں چنگھاڑ رہا ہے"
"مرحا۔۔۔۔!"
"کیا ہوا۔۔۔۔اُسے" داریان کے لہجے میں اضطراب تھا
"ختم ہوگئی"
"اوہ۔۔۔۔!" داریان اتنا ہی بول سکا اور پھر خاموش ہوگیا۔
"اچانک انہوں نے نعمان کی چنگھاڑ سنی" حادی بھائی۔۔۔۔ارے دوڑو۔۔۔۔۔زندہ ہے۔۔۔۔ اللّٰہ قسم۔۔۔۔!"
حادی بےتحاشہ دوڑا۔ داریان بھی دوڑ رہا تھا لیکن حادی کی طرح بے سدھ ہو کر نہیں دوڑا تھا۔
مرحا آنکھیں بند کئے کراہ رہی تھی۔
"میں زخم تو دیکھوں" داریان اس کے سراہنے بیٹھتا ہوا بولا " شانے سے خون بہہ کر جم گیا ہے گولی شانے کی کھال چیرتی ہوئی دوسری طرف نکل گئی ہے۔ یہ دراصل بے ہوش ہوگئی ہوگی"
                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد انہوں نے اپنی پشت پر آگ کی لپیٹیں اٹھتی دیکھیں۔ آگ اتنی بلند تھی کہ دور تک کے علاقے نظر آرہے تھے۔ لیکن انہوں نے کوئی دھماکا نہیں سنا تھا۔ آگ انہیں غاروں سے نکل رہی تھی جن میں کچھ دیر پہلے انہوں نے ایک خطرناک مجرم کے چہرے سے نقاب ہٹائی تھی۔
حادی نے نیلم کو بازؤوں میں اٹھایا اور وہ لوگ وہاں سے چل پڑے۔ وہیں کچھ دور ایک چشمہ موجود تھا۔ وہ چشمے تک پہنچ گئے۔ داریان نے مرحا کا زخم صاف کر کے ڈریسنگ کر دی۔
مرحا کو ہوش آگیا تھا۔ جب اسے ساری سچویشن معلوم ہوئی تو اس نے مسکرا کر کہا " میں آپ کی مدد کر سکتی ہوں۔ مجھے وہ جگہ معلوم ہے جہاں اس کے ہیلی کاپٹر چھپائے گئے تھے"
"تم واقعی بہت ذہین لڑکی ہو" داریان نے کہا۔
وہ ہیلی کاپٹر کے ذریعہ شکران ویلی پہنچے۔ اپنے ساتھ وہ شمروز آفندی کی لاش بھی لائے تھے۔ یہ خبر آگ کی طرح شکران میں پھیل چکی تھی۔ فوجیوں نے اس علاقے پر چھاپہ مارا جہاں یہ حادثہ ہوا تھا۔لیکن پتھروں کے ڈھیر کے علاوہ اور کچھ نہ مل سکا۔ ضرغام تو شمروز ہی کی گولی کا شکار ہو گیا تھا اور شمروز کے ساتھی داریان کے ساتھ ہی نکل بھاگے تھے۔ جنہیں گرفتار کر لینا اب بھی مشکل نہیں تھا۔لیکن ضرغام کے ساتھی ؟ ان کا کیا بنا؟ کیا وہ نکل گئے یا انہیں غاروں میں دب کر ہلاک ہوگئے۔
داریان کا یہ کارنامہ ہر فرد کی زبان پر تھا لیکن حقائق کا علم کسی کو بھی نہ ہوسکا تھا۔ شمروز آفندی کی داستان اسی کے قول کے مطابق انہیں غاروں میں دفن ہو گئی تھی۔ لوگ یہی سمجھتے رہے کہ ان کی تباہ کاریوں کا زمہ دار ضرغام تھا جسے فوج نے شکست دے دی اور وہ اپنے ہی ہاتھوں بربادی کے غار میں جاسویا۔ شمروز آفندی کی داستان حکومت نے نہ پھیلنے دی کہ کہیں لوگوں میں رہنماؤں کی طرف سے بددلی نہ پیدا ہو جائے۔
مرحا ہسپتال میں داخل کر دی گئی تھی۔ داریان کو فرصت ملنے پر حادی نے سوالات شروع کر دئیے۔ کئی باتیں اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھیں۔
"آپ نے ٹرانسمیٹر کے ذریعہ حملہ کا حکم کسے دیا تھا"
داریان مسکرایا "میں جانتا تھا کہ حملہ آوروں کے پاس ٹرانسمیٹر ضرور ہوں گے۔ لہٰذا میں نے انہیں ڈاج دیا۔ میرے اس ڈاج نے انہیں غلط فہمی میں مبتلا کر دیا۔ اور وہ اندھیرے میں آپس میں ہی لڑ گئے۔ انہیں لڑتا چھوڑ کر میں ان غاروں تک پہنچنے میں کامیاب ہوا تھا۔ لیکن اتفاقاً میں ادھر جا نکلا جہاں ضرغام کے ساتھی قید تھے۔ ان سے اصل واقعات کا علم ہوا۔ ادھر ہی انسینیریٹر مشین کا پچھلا حصہ موجود تھا۔ اس میں دلاور کی لاش موجود تھی۔ پھر میں نے دلاور کی لاش نکال کر ایک طرف ڈال دی اور خود اس خانے میں گھس گیا"
"مگر میں سوچ رہا ہوں کہ اس کیس کا ہیرو میں ہوں یا آپ کیونکہ اگر مرحا نہ ہوتی تو ہم اس وقت کہاں ہوتے"
"ہیرو۔۔۔۔۔!" داریان مسکرا کر بولا "ہیرو تو دراصل نعمان ہے۔"
"نعمان۔۔۔!" حادی ہنس پڑا " اس نے تو کمال ہی کر دیا۔ بلکل اسی طرح رو رہا تھا جیسے کوئی بیوہ اپنے شوہر کی لاش پر بین کر رہی ہو"
"میں سن رہا ہوں" نعمان کی آواز آئی "ابے تم خود بیوہ۔۔۔۔۔سالے نہیں تو۔۔۔۔۔"
داریان اور حادی کے قہقہوں سے کمرہ گونج اٹھا۔
         
                                                     ختم شد!
Hope you have enjoyed the story 😊

بدلتے نقشے(Complete)Nơi câu chuyện tồn tại. Hãy khám phá bây giờ