قسط نمبر 6

101 8 0
                                    

رات بڑی خوشگوار تھی شکران ویلی کی شہری آبادی میں خوشگوار راتیں بڑی رونق لاتی تھیں۔ ابھی صرف آٹھ ہی بجے تھے اسی لئے سب ہی سڑکیں بھری پُری نظر آرہی تھیں۔ اچانک وہاں کی ایک مشہور اور پُر رونق شاہراہ پر بھگدڑ مچ گئی۔لوگ ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ شور سے کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی تھی۔ اچانک ایک آواز اس شور سے ابھری۔ کوئی اس طرح بولا تھا جیسے مائیکروفون میں بولا ہو۔
"آپ لوگ گھبرائیے مت، میں آپ کا دوست ہوں، اس طرح نہ دوڑئیے ورنہ حادثات ہوں گے"
لیکن لوگ بھاگتے ہی رہے۔ تھوڑی دیر بعد پوری شاہراہ سنسان ہو گئی۔ ٹریفک کانسٹیبل کا بھی کہیں پتہ نہ تھا اور نہ ہی ڈیوٹی کانسٹیبلوں کا۔
شاہراہ کی وسط میں ایک عجیب و خلت روبوٹ کھڑا تھا اس میں سے آواز آئی " آپ مجھ سے ڈر کیوں رہے ہیں، میں آپ کی خدمت کے لئے بھیجا گیا ہوں، میرا نام سائبرگ (Cyborg) ہے اور مجھے پروفیسر ضرغام نے بنایا ہے"
روبوٹ بلکل انسانوں کی طرح چلتا ہوا چوراہے تک آیا۔ اس کے سر سے تیز قسم کی روشنی نکل رہی تھی۔ چوراہے پر ٹریفک جیم ہو چکا تھا۔ جیسے ہی لوگوں کی نظر اس روبوٹ پر پڑی انہوں نے گاڑیوں سے کود کود کر بھاگنا شروع کر دیا
روبوٹ سے آواز آئی " ٹھہرئیے۔۔۔۔میں آپ کا دشمن نہیں ہوں۔۔۔۔مجھے لگا آپ مجھ سے تعاون کریں گے۔۔۔۔۔اچھا میں جا رہا ہوں"
پھر وہ آہستہ آہستہ فضاء میں بلند ہونے لگا۔ اور چند سیکنڈ میں وہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
کرنل داریان اور کیپٹن حادی ڈائیننگ ہال میں بیٹھے ہوئے تھے۔ کہ اچانک ریڈیو میں سے آواز آنا شروع ہو گئی۔ "مجھے افسوس ہے کہ میں پھر مخل ہو رہا ہوں میں پروفیسر ضرغام آپ سے استدعا کرتا ہوں کہ سائبرگ سے تعاون کیجیئے۔ وہ شکران کو مثالی شہر بنا دے گا۔ وہ آپ کو قانون کا احترام سکھائے گا اور میں اب آپ کے براڈکاسٹنگ سسٹم پر اثرانداز نہیں ہوں گا۔ جو لوگ مجھ میں دلچسپی لے رہے ہیں وہ روزانہ شام پانچ بجے میری آواز اپنے Frequency Modulation Device پر سن سکتے ہیں۔ میں ملک کی ترقی کا خواہاں ہوں۔ آپ کا خادم پروفیسر ضرغام"
آواز بند ہوگئی اور پھر وہی ہلکی آواز میں موسیقی بجنے لگی۔
داریان کی آنکھوں میں فکر نظر آرہی تھی۔
"کہیں یہ کوئی انقلاب کی تیاری تو نہیں کر رہا" حادی آہستہ سے بولا
"پتہ نہیں" داریان نے ایک طویل سانس لی تھوڑی دیر خاموشی رہی پھر حادی نے کہا "تو آپ اسمگلنگ والے کیس سے دستبردار ہو چکے ہیں"
"فی الحال"
"مجھے تو ان لوگوں سے چڑ ہو گئی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ اس موٹر سائیکل والے غار پر چھاپا ماروں"
"میں قطعی مشورہ نہ دوں گا" داریان نے کہا "میں اب ضرغام کے علاوہ کسی کے متعلق سوچنا نہیں چاہتا۔ اسمگلروں کی پشت پر جو کوئی بھی ہے میں اسے کبھی بھی پکڑ سکتا ہوں"
"کون ہے"
"یہ میں وقت آنے پر ہی بتاؤں گا "
"کیا وہ ایک بڑا آدمی ہے"
"یقیناً۔۔۔۔ایک ذی اثر آدمی کہنا درست ہوگا"
"خدا کے لئے مجھے بتائیے وہ کون ہے" حادی التجائیا بولا
"کوئی لڑکی نہیں ہے" داریان نے خشک لہجے میں کہا
"وہ تو مجھے یقین ہے کہ کوئی لڑکی نہیں ہے" حادی نے ڈھٹائی سے کہا مگر داریان کچھ نہ بولا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرحا غار سے باہر آئی۔ باہر چٹانوں پر آسمان سیاہیاں بکھیر رہا تھا۔ وہ سیاہ پتلون، سیاہ جیکٹ میں ملبوس تھی۔ غار سے نکل کر وہ اس غار کی طرف چلنے لگی جہاں سے اس نے پچھلی رات کیپٹن حادی کے لئے موٹر سائیکل نکالی تھی۔
کچھ دور چلنے کے بعد وہ ایک بہت ہی تیز روشنی میں نہا گئی۔ بیساختہ اس نے اوپر کی طرف دیکھا اور اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ دوسرے ہی لمحے وہ روبوٹ اس کے سامنے کھڑا تھا۔ مرحا کو سکتہ ہوگیا۔
"ڈرو نہیں لڑکی میں پروفیسر ضرغام کا سائبرگ ہوں۔ مگر تم اتنی رات کو اس ویرانے میں کیا کر رہی ہو؟"
مرحا کچھ نہ بولی۔ وہ بار بار اسے نیچے سے اوپر تک دیکھ رہی تھی۔ جس کا ایک طاقتور دھات سے بنا اینڈوسکیلیٹن اور زندہ ٹشووں کی بیرونی پرت والی ایک موثر مشین جس کی وجہ سے وہ انسان ظاہر ہوتا تھا۔ اس کے سر سے تیز قسم کی روشنی نکل رہی تھی۔
"تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا لڑکی" سائبرگ بولا
دفعتاً مرحا ہنس پڑی
"لڑکی میں خوش ہوں کے تم مجھ سے خوفزدہ نہیں ہو" سائبرگ پھر بولا
"تم کرنل داریان ہو نا۔۔۔۔مجھے حیرت ہے کہ تم آسمان سے بھی اُتر سکتے ہو۔۔۔۔میں نے تمہاری حیرت انگیز داستانیں سنی ہیں۔۔۔۔کتنی آسانی سے تم کل بچ گئے تھے۔۔۔۔تم واقعی عظیم ہو" مرحا بولتی جا رہی تھی
"لڑکی شاید تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔۔میں سائبرگ ہوں اور پروفیسر ضرغام نے مجھے تخلیق کیا ہے" سائبرگ بولا
مرحا ہر زاویے سے اس کا جائزہ لیتی رہی پھر بولی
"سائبرگ کسے کہتے ہیں"
"ایک Humanoid کو میں انسانی حدود سے باہر ہوں اور خصوصی میکانکی نظام رکھتا ہوں" سائبرگ نے جواب دیا "آج سے ہم دونوں دوست ہیں" سائبرگ اپنا ہاتھ مرحا کی طرف بڑھاتا ہوا بولا
"تم دوستی بھی کر سکتے ہو" مرحا نے حیران ہو کر سوال کیا
" ہاں۔۔۔میں دوستی کر سکتا ہوں ۔میں ہر طرح کے احساسات رکھتا ہوں ویل فنکشنڈ ہوں "
"پروفیسر ضرغام تم سے کیا کام لینا چاہتا ہے۔ آخر تمہارا مقصد کیا ہے"
"وہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ کتنا عظیم سائنسدان ہے اور لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہے"
"تم کس طرح خدمت کر سکو گے"
"مثلاً۔۔۔۔اگر کوئی لڑکی راستہ بھٹک گئی ہے تو اسے اس کے گھر پہنچا دوں"
"تب تو تم بہت اچھے ہو۔۔۔۔واقعی پروفیسر ضرغام عظیم سائنسدان ہے مگر حکومت اس کی موجودگی پسند نہیں کرتی"
"مجھ سے غیر قانونی حرکت نہیں ہو گی"
"لیکن اگر تم توڑ پھوڑ دئے گئے پھر"
سائبرگ مرحا کی بات پر ہنسنے لگا پھر بولا "میں اپنی حفاظت خود کر سکتا ہوں"
"ہمممم۔۔۔۔۔۔دیکھتے ہیں"
"لگتا ہے تمہیں مجھ پر یقین نہیں آیا"
"جب تک میں دیکھ نہ لوں یقین نہیں کر سکتی"
" اچھا زرا وہ پتھر تو اٹھانا"
مرحا نے ناسمجھی سے اسے دیکھا پھر جھک کر ایک بڑا سا پتھر اٹھایا
"اب اسے پوری قوت سے میری طرف پھینکو"
مرحا پھینکنے ہی لگی تھی کہ وہ بولا "ٹھہرو کم از کم پانچ گز دور ہٹ جاؤ۔۔۔۔اب پھینکو اور پھینکتے ہی نیچے کو جھک جانا کیونکہ پتھر واپس Equal and opposite Reaction کے ساتھ ہی پلٹے گا"
"تمہیں کتنے ٹیکنیکل انداز میں بنایا گیا ہے " مرحا ستائشی انداز میں بولی۔ اور پھر اس نے پوری قوت سے پتھر اس پر کھینچ مارا لیکن دوسرے ہی لمحے سائبرگ کے قول کی تصدیق ہو گئی وہ پتھر اتنی ہی قوت سے پلٹ کر دور جا گرا اگر مرحا بیٹھی ہوئی نہ ہوتی تو وہ پلٹا ہوا پتھر اس کا سر پاش پاش کر دیتا"
"دیکھا تم نے لڑکی " سائبرگ بولا
"میرا نام مرحا ہے"
"تم نے دیکھا مرحا۔۔۔۔!"
"ہاں۔۔۔۔واقعی "
"میرا کام خدمتِ خلق ہے لیکن مجھ میں Destructive Forces بھی موجود ہیں"
"اگر تم غلط راستوں پر نکل گئے تو کیا ہوگا"
"تباہی پھیلے گی۔اگر مجھے نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو میں اپنا دفاع کروں گا۔ مگر میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ کبھی میرے قدم غلط راستوں کی طرف بھی اٹھیں گے۔ اب میں چلتا ہوں لڑکی مجھے اور کام بھی دیکھنے ہیں۔ لیکن میں تمہاری بہادری کی قدر کرتا ہوں"
پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ فضاء میں بلند ہو گیا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Continue............
GOOD READS 😊
ENJOY THE EPISODE 💜

بدلتے نقشے(Complete)Where stories live. Discover now