قسط نمبر 8

87 5 4
                                    

اچانک ایک جگہ مرحا دکھائی دی جو پتلون اور جیکٹ میں ملبوس تھی۔ نعمان کو دیکھ کر وہ اپنے ٹٹو سے اتر پڑی۔
"تمہارا دوست کہاں ہے" اس نے نعمان سے سوال کیا اور نعمان کا موڈ پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو گیا۔
"مرگیا۔۔۔۔!" وہ غرایا
"کیا مطلب۔۔۔۔!"
"مطلب وطلب نہیں پتا" نعمان نے چڑچڑے پن کا مظاہرہ کیا
"میں کیپٹن حادی کے متعلق پوچھ رہی ہوں"
"ہوگا کہیں۔۔۔۔۔میں کیا جانوں"
حادی اس وقت بھی ان کے قریب ہی تھا اسے تشویش ہو گئی کہ آخر وہ اسے کیوں پوچھ رہی ہے۔
"موٹے آدمی۔۔۔۔۔میں تمہیں پولیس کے حوالے کر دوں گی۔ تم دونوں سے کل رات میرے ساتھ فراڈ کرنے کی کوشش کی تھی"
حادی نے غور کیا کہ ان کے گرد اور بھی کئی آدمی نظر آئے جن میں ایک تو یقینی طور پر پہچانا جا سکتا تھا۔ کیونکہ ریسٹورنٹ والے ہنگامے میں وہ بھی شریک تھا۔ حادی نے سوچا ممکن ہے کہ اب اس نے ان لوگوں کو اپنی طرف سے مطمئن کردینے کے لئے یہ جال بچھایا ہو۔ اس کی بے پناہ صلاحیتوں کا اندازہ اسے پہلے ہی ہو گیا تھا۔
نعمان اور مرحا میں تکرار ہوتی رہی۔
"میں تم لوگوں سے سمجھ لوں گی" مرحا آخر کار بولی
"وہ تمہیں کریسینٹ میں ملے گا" نعمان بولا
مرحا پھر ٹٹو پر بیٹھ کر آگے بڑھ گئی۔حادی نے بھی اپنا ٹٹو آگے بڑھایا اور ان لوگوں کی ٹولی سے نکل گیا جو کریسینٹ سے روانہ ہوئی تھی۔ نعمان پیچھے رہ گیا۔
"تم بیوقوف بنانے میں بہت تیز ہو" اس کے ساتھیوں میں سے ایک کہہ رہا تھا
"میں نے کسے بیوقوف بنایا" مرحا بولی
"کیا عہ سائبرگ والی کہانی درست تھی"
"ہممم۔۔۔۔۔"
"تم اس سے ڈری نہیں"
"میں کیوں ڈرنے لگی"
"تم تو شیطان کی خالہ ہو"
"نہیں۔۔۔۔۔میں اس کی شاگرد ہوں جس کا ایک تھپڑ لوگوں کی گردنیں توڑ دیتا ہے" مرحا نے گردن اکڑا کر کہا
"تمہیں اس پر افسوس نہیں ہوا"
"ہوا تھا مگر وہ بھی حد سے بڑھ گیا تھا"
"مگر اتنی سخت سزا"
"بُرے دن تو تم سبھوں کے لئے ہیں"
مرحا پھر خاموش ہوگئی۔ وہ آدمی بھی چپ ہو گیا لیکن دونوں ایک دوسرے کو خونخوار نظروں سے گھور رہے تھے۔ حادی کی سمجھ میں نہ آسکا کہ یہ لڑکی کس قسم کی ہے اور اپنے ساتھیوں میں اس کی کیا پوزیشن ہے۔
حادی نے اپنا ٹٹو روک لیا تھا۔ وہ کافی دیر وہیں کھڑا لوگوں کو گزرتا دیکھتا رہا۔ پھر جب نعمان لڑھکتا ہوا قریب آگیا تو وہ بھی اپنے ٹٹو سے اتر پڑا اور دفعتاً اسے نئی شرارت سوجھی۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر بڑے ادب سے نعمان کو سلام کیا۔
"واعلیکم السلام" نعمان نے گڑبڑا کر جواب دیا اور اپنی بتیسی نکال لی۔
"آپ بڑے خوش نصیب ہیں" حادی اپنی آواز بدل کر بولا
"کیوں" نعمان چلتے چلتے رک گیا
"وہ پتلون والی لڑکی جو آپ سے ابھی جھگڑا کر رہی تھی نا آپ کے متعلق بڑی اچھی رائے رکھتی ہے"
"اچھی رائے۔۔۔۔!" نعمان ہونقوں کی طرح بولا
"وہ اپنے ساتھیوں سے کہہ رہی تھی کہ آپ اسے بہت اچھے لگتے ہیں"
"نہیں۔۔۔۔!" نعمان حیرت سے بولا
" سچ جناب۔۔۔۔مجھے آپ کی قسمت پر رشک آتا ہے میں سوچ رہا ہوں کہ میں بھی آپ ہی کی طرح دیو ہوتا"
"میں۔۔۔کیا۔۔۔ہی ہی ہی"
"وہ کہہ رہی تھی کہ میرا دل چاہتا ہے کہ ہر وقت اس پہاڑ کو دیکھتی رہوں"
"قسم سے۔۔۔۔!" نعمان کی آنکھیں چمکنے لگیں
"یقین نہ ہو تو اسی سے پوچھ لیجیے۔ویسے میرا خیال ہے کہ آپ اس قابل نہیں ہیں"
"کیا مطلب۔۔۔؟" نعمان نتھنے پھلا کر بولا
"مطلب کچھ بھی نہیں۔ ویسے وہ آپ سے جھگڑا کیوں رہی تھی"
"وہ میرا ایک دوست ہے نہ حادی۔ اس نے اس لڑکی سے مذاق کیا تھا۔ اسی پر وہ غصہ ہو گئی"
"آپ اس موقعے سے فائدہ اٹھائیے۔ کیونکہ وہ جھگڑنے کے بعد بھی آپ کی تعریف کر رہی تھی"
"کیسے فائدہ اٹھاؤں"
"اس سے کہتے رہیے کہ آپ کو اس سے عشق ہو گیا ہے"
"اگر ناراض ہو گئی تو؟"
"ارے محبوب کو خفا ہونا ہی تو اچھا لگتا ہے"
وہ دونوں پھر چلنے لگے تھے۔ تقریباً بارہ بجے وہ لوگ درہ کوہ پہنچ گئے۔ پہاڑیاں سبزے سے ڈھکی ہوئی تھی اور ان کے درمیان ایک چھوٹی سی جھیل بھی تھی۔ جھیل کے چاروں طرف ٹینٹ لگے ہوئے تھے۔
فیسٹیول اس وقت بھی شباب پر تھا۔ اس کی تیاریاں تقریباً چھ ماہ پہلے شروع ہوتی تھیں اور ایک ہفتے تک جاری رہتا تھا۔
حادی اپنا ٹٹو اس طرف لیتا چلا گیا جہاں کریسینٹ ہوٹل والوں کی طرف سے اپنے ٹوریسٹ کے لئے ٹینٹ کا انتظام کیا تھا۔ حادی اپنے ٹینٹ میں پہنچا دیا گیا ۔ حادی کوٹ اتار ہی رہا تھا کہ کریسینٹ کے ایک ملازم نے آکر اطلاع دی کہ غلطی سے وہ ٹینٹ اسے دیا گیا ہے حقیقتاً وہ کسی اور کے لئے مخصوص تھا۔ حادی کو غصہ آیا اور اس نے اسے چھوڑنے سے انکار کر دیا لیک جب اس ہستی پر نظر پڑی جس کے لئے یہ ٹینٹ مخصوص تھا تو ایک بے ساختہ مسکراہٹ اس کی گھنی مونچھوں کی اوٹ سے اٹکھیلیاں کرنے لگی۔ کیونکہ یہ ہستی مرحا تھی۔
مرحا ٹینٹ کے باہر کھڑی اس کے نکلنے کی منتظر تھی
"ٹینٹ آپ ہی کے لئے مخصوص کیا گیا تھا" ملازم بولا
" آپ اسے خالی کریں گے یا نہیں" مرحا نے جھنجھلا کر کہا
"نہیں" حادی نے بھی اسی کے لہجے میں جواب دیا
"مرحا اندر گھستی چلی گئی۔ ملازم وہاں سے چلا گیا تھا۔
"میں نے آپ کو کریسنٹ میں کبھی نہیں دیکھا پھر یہ ٹینٹ آپ کو کیسے مل گیا" حادی نے اس سے سوال کیا
"آپ براہِ کرم باہر نکل جائیے" مرحا بولی
"تو کیا آپ یہاں تنہا رہیں گی"
"شٹ اپ۔۔۔۔!" مرحا حادی کو گھور رہی تھی "کیا میں تمہاری موچھیں اکھاڑ لوں" اس نے کچھ دیر بعد کہا
"ہوسکتا ہے یہ موچھیں اکھڑنے کے بعد ہتھکڑیاں بن جائیں"
"فضول باتیں نہ کرو۔۔۔۔اچھا ہوا کہ تم مل گئے"
"تم نے پہچان لیا آخر۔۔۔۔!"
"آواز بدلنے میں تم اپنا جواب نہیں رکھتے"
"شکریہ۔۔۔۔۔لیکن تم مجھ سے کیوں ملنا چاہتی تھیں"
"کیا تمہیں مجھ سے دوبارہ ملنے کی خواہش نہیں تھی"
"نہیں۔۔۔۔۔میں جس لڑکی سے دوبارہ ملنے کی خواہش کرتا ہوں اس کی شادی ہو جاتی ہے" حادی نے کچھ اس لہجے میں کہا کہ مرحا ہنس پڑی
"خیر۔۔۔۔میں صرف یہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ کیا ہم لوگوں کا کیس تم سے لے لیا گیا ہے"
"کیوں۔۔۔۔؟"
"میں تصدیق چاہتی ہوں"
"کس سے سنا ہے"
"تم اتنا بحث کیوں کرتے ہو۔ ظاہر ہے کہ اس کا تعلق ہماری زات سے ہے"
حادی چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر بولا " ٹھیک سنا ہے۔ بیٹھ جاؤ"
مرحا بیٹھ گئی۔ حادی الجھن میں مبتلا تھا کہ آخر یہ لڑکی کیا چاہتی ہے۔
"تم دونوں اب بھی خطرے میں ہو" مرحا نے بات کا آغاز کیا " گروہ کا خیال ہے کہ تم ابھی شکران سے واپس نہیں جا سکتے"
"کیا تمہارے گروہ میں فرشتے بھی شامل ہیں"
"بابا بہت باخبر آدمی ہیں"
"تو پھر۔۔۔۔۔!"
"وہ کبھی بھی تم دونوں کو دھوکے سے مار دیں گے"
"مرحا۔۔۔۔۔تم جانتی ہو کہ ہم ابھی تک نہیں مارے جاسکے۔ حالانکہ جتنے بھی حملے ہوئے دھوکے میں ہی رکھ کر کئے گئے تھے"
"اب اور بھی ہوشیار رہنا"
"تم اس کی فکر نہ کرو۔لیکن تم آخر ہو کیا بلا"
"میں مجبور ہوں کیپٹن۔ اپنی اصلاح کرنا چاہتی ہوں لیکن نہیں کر سکتی"
"اگر تمہارا گروہ گرفتار ہو گیا تو تمہارا حشر بھی اُن لوگوں سے مختلف نہیں ہوگا"
"وہ آگ تو ٹھنڈی ہو جائے گی جو میرے ریشے ریشے میں دھک اٹھی ہے"
"میں اسی آگ کے متعلق جاننا چاہتا ہوں"
مرحا کچھ نہ بولی۔ حادی اس کی طرف جواب طلب نظروں سے دیکھ رہا تھا۔مرحا نے ایک طویل سانس لی اور پھر کچھ سوچتی ہوئی بولی۔ " ہمارے گروہ میں ہر آدمی آزاد ہے۔ یہ لوگ آپس میں جھگڑ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو قتل تک کر دیتے ہیں۔ مجھے آخ بھی یاد ہے کیپٹن میں چار سال کی تھی۔ میری ماں کی وفات میری پیدائش کے بعد ہی ہو گئی تھی۔ اور میرے باپ نے مجھے اکیلے پالا تھا۔ میرا باپ بھی اسمگلر تھا۔ باہمی تعاون کے اصول پر وہ لوگ کام کرتے تھے اور نفع آپس میں تقسیم کر لیتے تھے۔ اتفاقاً ان میں سے ایک کا میرے باپ سے جھگڑا ہو گیا اور اس نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ بابا جنہیں اُس کے بُرے ارادے کی اطلاع ہو گئی تھی برابر اس کا تعاقب کرتے رہے تھے۔ مگر وہ میرے باپ کو موت کے منہ سے نہ بچا سکے۔ یہ مجھے بابا ہی نے بتایا تھا۔ وہ خون مٹی میں آج بھی محفوظ ہے اور اس وقت تک محفوظ رہے گا جب تک اس میں ان ناپاک آدمیوں کا خون نہ جاملے جنہوں نے میرے باپ کو زیرِ زمین پہنچایا تھا۔" اُس کی آواز بھرا گئی لیکن اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کے بجائے وحشیانہ چمک تھی۔ مرحا نے کچھ دیر بعد کہا "بابا مجھے نہیں بتایا کہ وہ کون تھا. زندہ ہے یا مر گیا۔ اب گروہ سے متعلق ہے یا کہیں اور ہے۔ میں اس وقت تک سلگتی رہوں گی جب تک کہ اپنا بدلہ نہ لے لوں"
"اس سلسلے میں اگر کسی خدمت کی ضرورت ہو تو مجھے نہ بھولنا"
"میں اکیلے ہی یہ مسلہ ہل کرنا زیادہ پسند کروں گی"
"موٹے سے میرے متعلق کیا پوچھ رہی تھیں"
"ان لوگوں کو شبہ ہو گیا تھا کہ میں تم لوگوں سے مل گئی ہوں"
"تمہارا طریقہ کار ہی ایسا تھا"
"مجھے پروہ نہیں" مرحا نے لاپرواہی سے شانوں کو جنبش دی
"اور وہ سائبرگ کا کیا قصہ تھا"
"کچھ نہیں۔۔۔۔۔وہ حقیقتاً حیرت انگیز ہے"
پھر مرحا نے حادی کو اپنی سائبرگ سے ملاقات کے متعلق سب بتایا۔ حادی حیرت سے سنتا رہا۔ جب وہ خاموش ہوئی تو حادی بولا " میں ابھی تک اسے نہیں دیکھ سکا"
"پھر تم لوگ ضرغام کو کیا تلاش کر سکو گے"
"میں ذاتی طور پر تم لوگوں کی گھات میں ہوں"
"مشکل ہے"
حادی اس پر کچھ نہ بولا۔ تھوڑی دیر بعد مرحا اٹھتی ہوئی بولی کہ وہ اس سے ٹینٹ نہیں خالی کرائے گی۔ جبکہ حادی ٹینٹ چھوڑ دینے پر تیار تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائبرگ چوراہے پر کھڑا ٹریفک کنٹرول کر رہا تھا۔ اس نے چوراہے پر اعلان کیا تھا کہ وہ ڈیمو کے طور پر اس وقت ٹریفک کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔
لوگ حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ وہ کسی آدمی ہی کی طرح ٹریفک کو روکنے اور گزرنے کیلئے اشارہ کر رہا تھا۔ اس کے سر سے نکلنے والی روشنی دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔
شکران کے محکمہ سراغرسانی کے سپرنٹینڈنٹ ہمزہ نے داریان سے کہا " میں تو کہتا ہوں ضرغام کو اس کے حال پر چھوڑ دیں. وہ جو بھی کر رہا ہے اچھا کر رہا ہے"
"آپ ایک قانون کے محافظ کی حیثیت سے ایسا نہیں کہہ سکتے" داریان نے جواب دیا
"تو بتائیے ہم کب تک بے بسی سے اسے دیکھتے رہیں گے"
"جب تک کہ اس سے کوئی غیر قانونی حرکت نہیں سر زد ہوتی۔ آج میں اس سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں"
"کیا میں اسے یہاں بلاؤں"
"نہیں۔۔۔۔۔میں خود ہی جا رہا ہوں"
وہ سڑک پار کر کے سائبرگ کے قریب پہنچ گیا۔ لوگ شور مچانے لگے کیونکہ آج تک کسی نے بھی اس کے قریب جانے کی ہمت نہیں کی تھی۔
"جناب" سائبرگ نے داریان کے قریب پہنچنے پر کہا
"میں کرنل ہوں" داریان خشک لہجے میں بولا
"میرے لائق کوئی خدمت"
"میں قانون کے نام پر تم سے کہتا ہوں کہ ہمارے ساتھ گاڑی میں بیٹھ جاؤ"
"کیوں"
"ہم تم سے گفتگو کریں گے اگر تم ہمیں مطمئن کر سکے تو تمہیں چھوڑ دیا جائے گا ورنہ وہی ہوگا جو مشتبہ آدمیوں کے ساتھ ہوتا ہے"
"ابھی تک مجھے صرف دو ہی آدمی ملے ہیں جو مجھ سے خوفزدہ نہیں ہوئے۔ ایک تو ایک لڑکی تھی اور دوسرے آپ ہیں کرنل"
تم ساتھ چلنے سے انکار کر رہے ہو"
"میں تیار ہوں۔۔۔۔۔لیکن خطرے سے آپ کو پہلے ہی آگاہ کر دوں اگر مجھے کسی قسم کا نقصان پہچانے کی کوشش کی گئی تو نتائج کی زمیداری سراسر آپ پر ہوگی"
"میں زمیداری لیتا ہوں"
وہ لوگ سراغرسانی کے آفس پہنچے اور پھاٹک بند کر دیا گیا۔ داریان نے وہیں صحن میں کرسیوں کا انتظام کروا دیا۔ اور چند بڑے آفیسروں کے ساتھ بیٹھ گیا۔ سائبرگ سامنے کھڑا تھا۔
"پروفیسر ضرغام میں تم سے مخاطب ہوں" داریان نے پروقار لہجے میں کہا "میں چاہتا ہوں کہ تم خود کو ہمارے حوالے کر دو"
"یہ ناممکن ہے"
" کیا یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے" داریان نے کہا
" قطعی۔۔۔۔۔لیکن تم مجھے ہر حال میں اپنا دوست پاؤ گے"
"میں تمہیں وارننگ دیتا ہوں کہ اگر تم نے دس دن کے اندر اندر خود کو ظاہر نہ کر دیا تو بہت بری طرح لائے جاؤ گے"
"اچھی بات ہے " سائبرگ بولا
ٹھیک اسی وقت ایک سائبرگ سے ایک تیز قسم کی روشنی پھوٹی اور ساتھ ہی کسی کی چیخ بلند ہوئی۔ سائبرگ نے غرا کر کہا " دیکھا تم نے کسی نے مجھ پر پتھر پھینکا تھا لیکن وہ پتھر اتنی ہی قوت سے واپس ہو گیا جتنی قوت سے پھینکا گیا تھا۔ اب میں جا رہا ہوں"
یک بیک سائبرگ فضاء میں بلند ہوا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ کچھ دور پر ایک گارڈ پڑا تڑپ رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ دم توڑ گیا۔ سائبرگ کی طرف سے پھینکا ہوا پتھر اس کے سر پر پڑا تھا۔ لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ پتھر کس نے پھینکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Continue...........
GOOD READS 😊
ENJOY THE EPISODE 💜

بدلتے نقشے(Complete)Opowieści tętniące życiem. Odkryj je teraz